Al-Qurtubi - Al-Fath : 6
وَّ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ١ؕ عَلَیْهِمْ دَآئِرَةُ السَّوْءِ١ۚ وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ لَعَنَهُمْ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا
وَّيُعَذِّبَ : اور وہ عذاب دیگا الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق مردوں وَالْمُنٰفِقٰتِ : اور منافق عورتوں وَالْمُشْرِكِيْنَ : اور مشرک مردوں وَالْمُشْرِكٰتِ : اور مشرک عورتوں الظَّآنِّيْنَ : گمان کرنیوالے بِاللّٰهِ : اللہ پر ظَنَّ السَّوْءِ ۭ : گمان بُرے عَلَيْهِمْ : ان پر دَآئِرَةُ : دائرہ (گردش) السَّوْءِ ۚ : بُری وَغَضِبَ : اور غضب کیا اللّٰهُ : اللہ نے عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَعَنَهُمْ : اور ان پر لعنت کی وَاَعَدَّ : اور تیار کیا لَهُمْ : ان کے لئے جَهَنَّمَ ۭ : جہنم وَسَآءَتْ : اور بُرا ہے مَصِيْرًا : ٹھکانا
اور (اس لئے کہ) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو خدا کے حق میں برے برے خیال رکھتے ہیں عذاب دے انہی پر برے حادثے واقع ہوں اور خدا ان پر غصے ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی اور وہ بری جگہ ہے
یعنی انہوں نے گمان کیا کہ نبی کریم ﷺ مدینہ طیبہ کی طرف نہیں لوٹیں گے اور نہ ہی آپ کے صحابہ میں سے کوئی واپس لوٹے گا یہ اس وقت ان کا گمان تھا جب آپ حدیبیہ کے لئے نکلے تھے اور ان کا یہ گمان تھا کہ مشرک تباہ و برباد کردیں گے جس طرح کہا : خلیل اور سیبویہ نے کہا : اس سے یہاں مراد فساد ہے۔ دنیا میں ان پر بری گردش ہوگی اور انہیں قتل کیا جائے گا اور انہیں قیدی بنا لیا جائے گا اور آخرت میں جہنم ہے ابن کثیر اور ابو عمرو نے پڑھا یعنی ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے جبکہ باقی قراء نے فتحہ دیا۔ جوہری نے کہا : ساء یسوء …… سرد کی ضد ہے اس کا اسم السو ہے اسے علیھم دائرۃ السو بھی پڑھا گیا ہے یعنی شکست اور تکلیف جس نے اسے فتحہ دیا اس نے اسے مسائۃ سے مشتق مانا ہے۔ اس کے بارے میں گفتگو کئی دفعہ گزر چکی ہے الحمد اللہ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب صلح حدیبیہ ہوئی تو ابن ابی نے کہا : کیا حضرت محمد ﷺ یہ گمان کرتے ہیں کہ جب اہل مکہ سے صلح کریں گے یا مکہ کو فتح کرلیں گے تو اس کا کوئی دشمن نہیں رہے گا ایرانی اور رومی کہاں ہیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس امر کو بیان کیا کہ آسمانوں اور زمین کے لشکر ایرانیوں اور رومیوں سے زیادہ ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس میں تمام مخلوقات داخل ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : سے مراد فرشتے ہیں اور زمین کے لشکر مومن ہیں۔ اس کو دوبارہ ذکر کیا گیا کیونکہ جس کا ذکر پہلے ہوا تھا وہ قریش میں سے مشرکوں کے ذکر کے بعد تھا اور یہ منافقوں اور باقی ماندہ مشرکوں کے ذکر کے بعد ہے دونوں مقامات پر مراد خوفزدہ کرنا اور ڈرانا ہے اگر اللہ تعالیٰ منافقوں اور مشرکوں کو ہلا کرنے کا ارادہ کرتے تو یہ چیز اسے عاجز نہ کرسکتی لیکن اللہ تعالیٰ ایک معین عرصہ تک انہیں مہلت دیتا ہے۔
Top