Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 6
وَّ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ١ؕ عَلَیْهِمْ دَآئِرَةُ السَّوْءِ١ۚ وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ لَعَنَهُمْ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ١ؕ وَ سَآءَتْ مَصِیْرًا
وَّيُعَذِّبَ : اور وہ عذاب دیگا الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق مردوں وَالْمُنٰفِقٰتِ : اور منافق عورتوں وَالْمُشْرِكِيْنَ : اور مشرک مردوں وَالْمُشْرِكٰتِ : اور مشرک عورتوں الظَّآنِّيْنَ : گمان کرنیوالے بِاللّٰهِ : اللہ پر ظَنَّ السَّوْءِ ۭ : گمان بُرے عَلَيْهِمْ : ان پر دَآئِرَةُ : دائرہ (گردش) السَّوْءِ ۚ : بُری وَغَضِبَ : اور غضب کیا اللّٰهُ : اللہ نے عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَعَنَهُمْ : اور ان پر لعنت کی وَاَعَدَّ : اور تیار کیا لَهُمْ : ان کے لئے جَهَنَّمَ ۭ : جہنم وَسَآءَتْ : اور بُرا ہے مَصِيْرًا : ٹھکانا
اور تاکہ اللہ عذاب دے ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو کہ گمان کرتے ہیں اللہ کے بارے میں برے گمان (حالانکہ) خود انہی پر ہے برائی کا پھیر اللہ کا غضب ہوا ان پر اور اس کی لعنت (و پھٹکار) اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے دوزخ (کا عذاب) اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ دوزخ
[ 11] منافقوں اور مشرکوں کے لئے عذاب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تاکہ اللہ عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو "۔ تاکہ یہ لوگ دنیا میں بھی کہ اسلام کی عظمت و سربلندی اور مسلمانوں کے غلبہ و عروج سے جلتے بھنتے رہیں اور مزید یہ کہ اس طرح یہ لوگ قتل و قید اور غلامی وغیرہ کی ذلتیں بھی اٹھائیں۔ اور آخرت میں بھی وہاں کا ہولناک عذاب بھگتیں کہ وہاں کی دائمی آگ کا ایندھن بنیں جو سب سے بڑا خسارہ اور ہمیشہ کا عذاب ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اس سے اس امتحان کے دوسرے پہلو کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ جس امتحان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کیلئے جنت سے سرفرازی اور فوز عظیم کی راہ کھولتا ہے اسی کے ذریعے وہ منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کے لئے سب سے برے عذاب یعنی دوزخ کی راہ کھولتا ہے۔ اس لئے کہ ایسے امتحان سے اس طرح لوگوں کے کھوٹ ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ ان کی ملمع سازی کے دبیز پردے چاک ہوجاتے ہیں۔ اور ان پر اللہ کی حجت تمام ہوجاتی ہے۔ اور اس کے بعد ان کے لئے کسی عذر اور معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے مامون رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ [ 12] مشرکوں اور منافقوں کی ذہنیت یکساں۔ والعیاذ باللّٰہ : سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مشرکوں اور منافقوں کی ذہنیت اور ان کی طبعی افتاد باہم ایک ہے اور اس سے ان دونوں یعنی منافقوں اور مشرکوں کے درمیان ذہنی اور قلبی لگاؤ کا ایک نمونہ اور مظہر سامنے آتا ہے۔ اس لئے ان دونوں گروہوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ " جو گمان کرتے ہیں اللہ کے بارے میں برے گمان کہ " اللہ اپنے رسول کی اور اہل ایمان کی مدد نہیں فرمائے گا۔ اور یہ کہ یہ لوگ مغلوب و مقہور ہو کر رہیں گے "۔ یہاں پر منافقین کا ذکر پہلے فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ یہ لوگ کھلے کفار و مشرکین سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اس لئے ان کی سزا بھی دوسروں کے مقابلے میں بہت سخت ہوگی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار ج ولن تجد لہم نصیرا } [ النسائ : 145 پ 5] والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اور ان لوگوں کی اس بدگمانی کا ذکر آگے اسی سورة الفتح کی آیت نمبر 12 میں اس طرح فرمایا گیا { بل ظننتم ان لن ینقلب الرسول والمؤمنون الی اہلیہم ابداً وزین ذلک فی قلوبکم وظننتم ظن السوء ج وکنتم قوما بوراً ۔ یعنی " تم لوگوں نے یہ گمان کیا کہ رسول اور مسلمانوں کو اس سفر سے اپنے گھروں کی طرف بھی واپس لوٹنا نصیب نہیں ہوگا۔ اور اس گمان کو تمہارے دلوں کے اندر خوشنما بنادیا گیا تھا۔ اور تم نے طرح طرح کے برے گمان گئے تھے اور اس طرح تم ہلاک ہونے والے بن کر رہ گئے " سو اس طرح انہوں نے اپنی ہلاکت و تباہی کا سامان خود کیا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، من کل سوئٍ وشر۔ [ 13] بدگمانوں کی بدگمانی کا وبال خود انہی پر، والعیاذ باللّٰہ : چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " خود انہی پر پڑے گا برائی کا پھیر "۔ سو اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں بدگمانی کا پھیر خود ایسے بدگمان لوگوں ہی پر پڑے گا۔ اور ایسے ہی ہو کر رہا، کہ یہ لوگ ایمان و یقین کی انمول و بےمثال دولت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئے۔ اور اس کی وجہ سے ہر خیر سے محروم رہ گئے۔ رسول اللہ ﷺ کی معیت ورفاقت اور بیعت رضوان میں شرکت کے شرف سے محروم رہے۔ اور ان کے دلوں کا روگ اور نفاق سب کے سامنے کھل گیا۔ جس سے یہ لوگ سب کے نزدیک ذلیل و خوار ہوگئے۔ واضح رہے کہ " دائرۃ السوئ " کی اضافت بیانیہ ہے جو " دائرۃ من السوئ " کے معنی میں ہے۔ اور مصیبت و برائی کو دائرہ سے تعبیر کرنے میں یہ نکتہ بھی ہے کہ وہ ان کو اس طرح گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ جس طرح دائرہ [ Circle ] کسی چیز کو گھیرے میں لئے ہوتا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ یہاں پر اوپر اہل ایمان کے ذکر میں بھی اور پھر منافقین اور مشرکین کے ذکر میں بھی مردوں کے ساتھ عورتوں کا بھی بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ کسی شخص یا گروہ کے اچھے یا برے کردار کے سلسلے میں اس کے بیوی بچوں کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ جیسا کہ آگے اسی سورة الفتح کی آیت نمبر 11 میں ارشاد فرمایا گیا ہے { سیقول لک المخلفون من الاعراب شغلتنا اموالنا واھلونا فاستغفرلنا ج } " ہمیں ہمارے مالوں اور اہل اولاد نے مشغول رکھا "۔ اور حدیث شریف میں فرمایا گیا " الولد مبحلۃ مجنۃ " یعنی اولاد انسان کو بخیل اور بزدل بنا دینے والی چیز ہوتی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اسی طرح اگر کسی گروہ میں ایمان مستحکم ہوتا ہے اور وہ نیکی اور خیر کے راستے میں آگے بڑھتے ہیں تو اس میں بھی ان کے بیوی بچوں کے عزم و صبر اور انکے اعتماد علی اللہ کا بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں پر اہل ایمان اور اہل نفاق دونوں کے ذکر میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا ذکر بھی فرمایا گیا ہے۔ تاکہ مومنات اور منافقات دونوں اپنے اپنے مرتبہ و مقام سے آگاہ ہوسکیں۔ اور ان کو پتہ چل سکے کہ اللہ تعالیٰ نہ اپنی ایماندار بندیوں کی جاں نثاریوں سے بیخبر ہے۔ اور نہ منافقات کی دنیا پرستی اور ان کی شر انگیزیوں سے۔ پس اس کے بعد یہ سب اپنے حال اور مآل کے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لیں۔ اور اچھی طرح دیکھ لیں کہ انہوں نے کس راستے کو اپنایا ہے اور کس کو اپنانا چاہیے ان کا بھلا کس میں ہے اور برا کس میں۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، [ 14] منافقوں اور مشرکوں کے ہولناک انجام کا ذکر وبیان ۔ والعیاذ باللّٰہ : سو اس سے منافق اور مشرک لوگوں کے انتہائی ہولناک انجام کو واضح فرما دیا گیا چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ " ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی لعنت و پھٹکار۔ اور اس نے ان کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ جو بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے "۔ سو اس نے ان کفر و نفاق کے سبب ان کو اپنی رحمت سے دور اور محروم کردیا۔ جس کی بنا پر یہ لوگ ہر خیر سے محروم ہوگئے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ اور اپنے خبث وعناد کی وجہ سے یہ بدبخت ایمان و یقین کی دولت سے محرومی ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوں گے جس کے نتیجے میں دوزخ کے دائمی عذاب کا لقمہ بنیں گے اور دوزخ کا وہ ٹھکانہ بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو یہ اسی دائرہ ئَِ سوء [ برائی کے چکر ] کا حصہ اور نتیجہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کی بجائے اپنے خبث باطن اور سوئِ اختیار کی بنا پر اس کے غضب اور اس کی لعنت و پھٹکار کے مورد و مستحق بنے، جو کہ محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو اللہ کے دشمنوں سے دوستی رکھنا اور اہل حق کیلئے برے گمان کرنا ہلاکتوں کی ہلاکت ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے، اور ہمیشہ ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین
Top