Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَرْفَعُوْٓا : نہ اونچی کرو اَصْوَاتَكُمْ : اپنی آوازیں فَوْقَ : اوپر، پر صَوْتِ النَّبِيِّ : نبی کی آواز وَلَا تَجْهَرُوْا : اور نہ زور سے بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِالْقَوْلِ : گفتگو میں كَجَهْرِ : جیسے بلند آواز بَعْضِكُمْ : تمہارے بعض (ایک) لِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) سے اَنْ : کہیں تَحْبَطَ : اکارت ہوجائیں اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو
اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1:۔ امام بخاری اور امام ترمذی نے حضرت ابن ابی ملیکہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا : اقرع بن حابس نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ اسے اس کی قوم پر عامل بنا دیئجے۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ (1) اسے عامل نہ بنائیں، دونوں صحابہ نے نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں گفتگو کی یہاں تک کہ ان دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت عمر ؓ سے کہا : تو نے محض میری مخالفت کا ارادہ کیا ہے حضرت عمر نے کہا : میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد جب حضرت عمر نبی کریم ﷺ کے پاس بات کرتے تو ان کی گفتگو سنی نہ جاسکتی یہاں تک کہ ان سے سوال کیا جاتا ؎ حضرت ابن زبیر نے اپنے نانا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ذکر نہیں کیا۔ یہ حدیث غریب حسن ہے۔ بعض علماء نے اسے حضرت ابن ابی ملیکہ سے مرسل نقل کیا ہے۔ اس میں حضرت عبداللہ بن زبیر کا ذکر نہیں کیا۔ میں کہتا ہوں : وہ امام بخاری ہیں : کہا : یہ روایت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے (2) وہ بہترین آدمی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق قریب تھا کہ وہ ہلاک ہوجاتے ان دونوں کی آوازیں اس وقت نبی کریم ﷺ کے پاس بلند ہوگئیں جب بنو تمیم کا وفد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ان میں سے ایک نے اقرع بن حابس، جو بنی مجاشع سے تعلق رکھتا تھا کا مشورہ دیا دوسرے نے ایک اور کا مشورہ دیا۔ نافع نے کہا : مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت عمر سے کہا : تو نے محض میرے ساتھ مخالفت کا ارادہ کیا ہے۔ حضرت عمر نے کہا : میں نے آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا اس بارے میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ حضرت ابن زبیر نے کہا : اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر اپنی آواز رسول اللہ ﷺ کو نہیں سناتے تھے یہاں تک کہ ان سے پوچھا جاتا، انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کا ذکر نہیں کیا۔ مہدوی نے حضرت علی شیر خدا ؓ کا ذکر کیا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی جب میری حضرت جعفر اور حضرت زید بن حارثہ کی آواز بلند ہوگئی ہم حضرت حمزہ کی بیٹی کے بارے میں جھگڑے تھے جب زید اسے مکہ مکرمہ سے لائے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے جعفر کے حق میں اس کا فیصلہ کردیا کیونکہ اس بچی کی خالہ ان کے عقد میں تھی۔ یہ حدیث آل عمران میں گزر چکی ہے۔ صحیحین میں ہے حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے پوچھا ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں اس کے بارے میں میں خبر لاتا ہوں وہ حضرت ثابت کے پاس آئے انہیں اپنے گھر میں سرجکھائے ہوئے پایا پوچھا : تجھے کیا ہوا ہے ؟ جواب دیا : بہت برا حال ہے اس کی آواز نبی کریم ﷺ پر بلند ہوجاتی تھی اس کے عمل رائیگاں گئے جبکہ وہ جنہمی ہوچکا ہے وہ آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سب کچھ بتایا تو موسیٰ جو اس سند کے راوی ہیں نے کہا : وہ آدمی ان کی طرف ایک عظیم بشارت لے کر گیا فرمایا :” اس کے پاس جائو اس کو کہو تو جنہمی نہیں تو تو جنتی ہے “ (1) یہ بخاری کے الفاظ ہیں یہ ثابت، ثابت بن قیس بن شماس خزرجی ہے جن کی کنیت ابو محمد تھی یہ کنیت ان کے بیٹے محمد کی وجہ سے تھی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ ابو عبدالرحمن ہے یوم حرہ کو انہیں شہید کیا گیا اس کے تین بیٹے تھے محمد، یحییٰ ، عبداللہ، وہ بہت اچھے خطیب اور بلیغ تھے وہ اسی وجہ سے معروف تھے انہیں رسول اللہ ﷺ کا خطیب کہا جاتا جس طرح حضرت حسان کو رسول اللہ ﷺ کا شاعر کہا جاتا جب بنو تمیم کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مفاخرہ کو طلب کیا ان کا خطیب کھڑا ہوا اور اظہار فخر کیا پھر ثابت بن قیس کھڑے ہوئے ایک عظیم وبلیغ خطبہ دیا اور ان پر غالب آگئے ان کا شاعر کھڑا ہوا وہ اقرع بن حابس تھا اس نے یہ شعر پڑھے۔ ہم آپ کے پاس آئے جس طرح لوگ جانتے ہیں جب لوگ مکارم کے ذکر کے وقت ہماری مخالفت کریں۔ ہم ہر قبیلہ کے لوگوں کے سردار ہیں جبکہ حجاز کی زمین میں دارم جیسا کوئی نہیں۔ ہمارے لئے ہر جنگ کے مال میں چوتھا حصہ ہوتا ہے وہ جنگ نجد میں ہو یا تہامہ کے علاقہ میں۔ حضرت حسان نے کہا : ” اے بنی دارم : تم فخر نہ کرو بیشک تمہارا فخر مکارم کے ذکر کے وقت وبال بن جائے گا۔ تم ہلاک ہو تم پر فخر کرتے ہوں جبکہ تم ہمارے خادم ہوں یا دایا اور خادم کے درمیان “ انہوں نے کہا : ان کا خطیب ہمارے خطیب سے اچھا ہے۔ ان کا شاعر ہمارے شاعر سے اچھا ہے ان کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ عطا خراسانی نے کہا : مجھے ثابت بن قیس کی بیٹی نے بتایا جب یہ آیت نازل ہوئی تو ان کا والد اپنے کمرے میں داخل ہوا اور اپنا دروازہ بند کرلیا نبی کریم ﷺ نے اسے نہ پایا تو اسے بلا بھیجا تاکہ پوچھیں کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے عرض کی : میری آواز سخت ہے مجھے ڈر ہے کہ میرا عمل ضائع ہی نہ ہوجائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تو ان لوگوں میں سے نہیں تو بھلائی کے ساتھ جئے گا اور بھلائی کے ساتھ مرے گا (1) “ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت : (النسائ) کو نازل فرمایا، انہوں نے اپنے دروازے کو بند کرلیا اور رونے لگے، نبی کریم ﷺ نے نہ پایا تو بلا بھیجا اور خبر دی عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں جمال کو پسند کرتا ہوں اور میں اپنی قوم کا سردار بننا پسند کرتا ہوں فرمایا :” تو ان میں سے نہیں بلکہ تو تعریف کی گئی زندگی گزارے گا شہید کی حیثیت سے قتل ہوگا اور جنت میں داخل ہوگا (2) اس بچی نے کہا : جب یمامہ کی جنگ کا مرحلہ آیا تو مسلمہ کذاب سے مقابلہ کے لئے حضرت خالد بن ولید کے ساتھ نکلے جب صحابہ کی ان سے مڈ بھیڑ ہوئی تو صحابہ بکھر گئے۔ حضرت ثابت اور حضرت سالم جو حضرت ابو حذیفہ کے غلام تھے نے کہا : رسول اللہ ﷺ کی معیت میں اس طرح تو جنگ نہیں کرتے تھے پھر دونوں نے اپنے ایک گڑھا کھودا اور جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوئے اس روز حضرت ثابت کے جسم پر عمدہ زرہ تھی مسلمانوں میں سے ایک آدمی ان کے پاس سے گزرا اور اسے اتار لیا اسی اثناء میں ایک مسلمان سویا ہوا تھا تو حضرت ثابت اسے خواب میں آئے تو فرمایا : میں تجھے ایک وصیت کرتا ہوں یہ کہنے سے بچنا کہ یہ میری خواب ہے کہ تو اسے ضائع کردے میں جب کل شہید ہوا تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی میرے پاس سے گزرا اس نے میری زرہ لے لی جبکہ اس کا پڑائو لوگوں کے ایک جانب ہے اس کے خیمہ کے پاس گھوڑا ہے جو لمبی رسی سے باندھا ہوا ہے اس نے زرہ پر توبرہ الٹا کیا ہوا اس توبرہ پر کچاوا ہے حضرت خالد کے پاس جائو اسے کہو کہ میری زرہ لینے کے لئے آدمی بھیجے جو زرہ لے آئے جب تو مدینہ طیبہ میں خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق کے پاس پہنچے تو ان سے عرض کرو مجھ پر فلاں فلاں قرض ہے میرے غلاموں میں سے فلاں فلاں آزاد ہے وہ آدمی حضرت خالد کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو بتایا حضرت خالد بن ولید نے زرہ لینے کے لئے آدمی کو بھیجا جو زرہ لے آیا حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے ان کی وصیت کے بارے میں بات کی تو آپ نے وصیت کو نافذ کردیا ہم کسی کے بارے میں نہیں جانتے کہ حضرت ثابت کے بعد کسی کی وصیت نافذ کی گئی ہو۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ اسے ابو عمرو نے استعیاب میں ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: یعنی ان سے خطاب نہ کرو۔ اے محمد : بلکہ یوں خطاب کرو، یا بنی اللہ یا رسول اللہ : مقصود آپ کی عزت ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے منافق اپنی آوازیں نبی کریم ﷺ کے پاس بلند کیا کرتے تھے تاکہ کمزور مسلمان بھی ان کی اقتدا کریں تو مسلمانوں کو اس سے منع کردیا گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کے معنی ہیں جس طح یہ جملہ کہا جاتا ہے یہ بھی علی کے معنی میں ہے کاف، کاف، تشبیہ ہے جو محل نصب میں ہے یعنی تم اس طرح آپ سے خطاب نہ کرو جس طرح ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہو اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ انہیں مطلق چہر سے منع نہیں کیا گیا یہاں تک کہ ان کے لئے جائز ہی نہ ہو مگر یہ کہ وہ اشارہ اور مخفی طریقہ سے آپ سے ہم کلام ہوں انہیں مخصوص چہر سے منع کیا گیا ہے جو صفت سے مقید ہو وہ جہر ہے جو اس مماثلت کے ساتھ مصوصوف ہے جس کے وہ باہم عادی تھی وہ ایسا جہر تھا جس میں نبوت کی قدرومنزل کا خیال نہ ہو اور باقی ماندہ مراتب کا انحطاط ہو اگرچہ نبوت و رسالت تمام سے بڑھ کر مرتبہ ہے۔ اس وجہ سے کہ تمہارے اعمال باطل ہوجائیں، یہ بصریوں کا قول ہے۔ کو فیوں نے کہا : تاکہ تمہارے اعمال رائیگاں نہ چلے جائیں۔ (1) مسئلہ نمبر 3:۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم اور توقیر اور حضور ﷺ کی موجودگی اور آپ سے گفتگو کے وقت آواز کو پست رکھنے کا حکم جب آپ بولیں اور تم بولو تو تم پر لازم ہے کہ تم اپنی آوازوں کو اس حد تک بلند نہ کرو جہاں تک آپ ﷺ کی آواز پہنچتی ہے اور اپنی آوازوں کو پست رکھو اس طرح کہ آپ کی کلام تمہاری کلاموں پر غالب رہے اور آپ کی بلند آواز کی گفتگو بلند ٓواز کی گفتگو پر غالب ہو یہاں تک کہ آپ کی فضلیت تم پر نمایاں ہو۔ آپ کی سبقت ظاہر ہو اور آپ کا امتیاز تمہاری بلند آواز سے عی اس ہو ایسا نہ ہو کہ تم اپنے شوروغل سے آپ کی آواز کو دبا دو اور اپنے شوروغل سے آپ کی گفتگوپر غالب آ جائو۔ حضرت ابن مسعود کی قرأت میں ہے بعض علماء نے آپ (علیہ الصلوۃ والسلام) کی قبر مبارک کے نزدیک بھی آواز بلند کرنے کو ناپسند کیا، بعض علماء کی مجلس میں بھی آواز بلند کرنے کو ناپسند کیا۔ مقصد ان کی تعظیم ہے کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ہیں۔ مسئلہ نمبر 4:۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : نبی کریم ﷺ کے اس جہاں سے پردہ فرمانے کے بعد حرمت ایسے ہی ہے جس طرح ظاہری حیات میں آپ کی حرمت تھی (2) آپ کے وصال کے بعد آپ کا کلام اسی طرح ذی شاں ہے جس طرح اس کی عظمت اس وقت تھی جب آپ کی زبان سے آپ کا کلام سنا جائے جب آپ کا ارشاد پڑھا جا رہا ہو تو کسی کو زیب نہیں کہ وہ اپنی بلند آواز کرے اور نہ ہی اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس کلام سے اعراض کرے جس طرح یہ اس وقت لازم تھا جب آپ کی مجلس میں آپ کی زبان سے اسے سنا جائے اللہ تعالیٰ نے مرور زمانہ کے باوجود اس مذکورہ دائمی حرمت پر یوں متبنہ کیا ہے (الاعرف 204) رسول اللہ ﷺ کا کلام بھی وحی ہے اس میں قرآن کی حکمت کی مثل حکمت ہے مگر چند معانی مستثنی ہیں جن کی وضاحت کتب فقہ میں ہے۔ مسئلہ نمبر 5:۔ آواز بلند کرنے اور عامیہ انداز میں گفتگو سے مراد استنخفاف اور تحقیر نہیں (3) کیونکہ ایسا امر تو کفر ہے جبکہ مخاطب مومن ہیں بلکہ مقصود محض آواز ہے اور جو اس کے مناسب نہ ہو جس کے ساتھ عظماء اور بڑے لوگوں کی عزت و توقیر کو پیش نظر رکھا جاتا ہے وہ اس کے پست کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی سطح کی طرف لوٹانے کی سعی کرتا ہے جس سے عزت و توقیر عیاں ہو یہ نہیں اس کی آواز کو بلند کرنے کو شامل نہ ہوگی جو صحابہ سے حالت جنگ، معاند سے مجادلہ، دشمن کو خوفزدہ کرنے کے لئے ہوتی اگرچہ رسول اللہ ﷺ کو راحت نہ دیتی ہو حدیث طیبہ میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا : جب لوگ غزوہ حینن کے موقع پر تتر بتر ہوگئے تھے ” لوگوں کو آواز دو “ حضرت عباس ؓ کی آواز بڑی بلند تھی۔ یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ ایک روز شب خون مارا گیا تو حضرت عباس ؓ نے یوں آواز لگائی یا صباحاۃ آپ کی آواز کی سختی کی وجہ سے حاملہ عورتوں نے حمل گرا دیئے اسی بارے میں نابغہ نے کہا : ابو عروہ کا درندوں کو جھڑکنا ہے جب اسے ڈر ہو تاکہ وہ ریوڑ سے خلط ملط ہوجائیں گے۔ راویوں نے یہ گمان کیا ہے کہ وہ ریوڑ سے درندوں کو جھڑکتا تھا تو درندہ کا پتہ پانی ہوجاتا تھا۔ مسئلہ نمبر 6: زجاج نے کہا : تقدیر کلام یوں ہے۔ یعنی تمہارے اعمال ضائع چلے جائیں گے لام مقدرہ لام صیرورت ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان : اس امر کو ثابت نہیں کرتا کہ انسان کفر کر بیٹھے جبکہ وہ علم نہ رکھتا ہو جس طرح کافر مومن نہیں ہو سکتا مگر اس وقت جب وہ ایمان کو کفر پر ترجیح دے اسی طرح مومن کافر نہیں ہو سکتا جب تک وہ کفر کا قصد نہ کرے اور بالا جماع اسے پسند نہ کرے اسی طرح کافر کافر نہیں ہو سکتا کہ وہ جانتا ہی نہ ہو۔
Top