Al-Qurtubi - An-Najm : 36
اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ
اَمْ لَمْ يُنَبَّاْ : یا نہیں خبر دیا گیا۔ آگاہ کیا گیا بِمَا : ساتھ اس کے جو فِيْ صُحُفِ : صحیفوں میں ہے مُوْسٰى : موسیٰ کے
کیا جو باتیں موسیٰ کے صحیفوں میں ہیں ان کی اس کو خبر نہیں پہنچی ؟
ام لم ینتبا بما فی صحف موسیٰ ۔ وابراھیم الذی وفی۔ لفظ ابراہیم سے پہلے صحف کا لفظ محذوف ہے جس طرح سورة اعلیٰ میں ہے صحف ابراہیم و موسیٰ ۔ یعنی کسی نفس کو دوسرے نفس کے بدلہ میں نہیں پکڑا جائے گا جس طرح فرمایا : الا تزر وازرۃ وزراخری۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں کا خصوصاً ذکر کیا کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان آدمی کو انے بھائی، اپنے بیٹے اور اپنے باپ کے بدلے میں پکڑ لیا جاتا تھا، یہ ہذیل بن شرحبیل نے کہا ہے۔ ان یہ مثقلہ سے مخففہ ہے اس کا محل جر ہے کیونکہ یہ ماکا بدل ہے یا یہ محل رفع میں ہے کیونکہ ھو ضمیر مضمر ہے۔ سعید بن جبیر اور قتادہ نے وفی پڑھا یعنی شد کے بغیر پڑھا۔ اس کا معنی ہے وہ اپنے قول اور عمل میں سچا ہے۔ یہ جماعت کی قرأت کی طرف راجع ہے جو وفی ہے یعنی اس پر جو فرض کیا گیا اس نے ان سب کو ادا کیا اس نے ان میں سے کسی چیز کو نہ چھوڑا۔ یہ سورة بقرہ آیت 124 میں اللہ تعالیٰ کے فرمان و اذا بتلیٓ ابرھم ربہ بکلمت فاتمھن میں گزر چکی ہے۔ توفیہ کا معنی مکمل کرنا ہے۔ ابوبکر وراق نے کہا : جس امر کا دعویٰ کیا اس کی شرط کو ادا کیا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا : اسلم قال اسلمت لرب العلمین۔ (بقرہ) اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کے دعویٰ کی صحت کا مطالبہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے مال، اولاد، ذات میں آزمایا تو انہیں پورا کرنے والا پایا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان : وابرھیم الذی وفی۔ کا یہی مفوہم ہے یعنی اسلام کا دعویٰ کیا پھر اپنے دعویٰ کو سچ کر دکھایا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انہوں نے ہر روز دن کے شرع میں چار رکعات ادا کر کے اپنے عمل کو پورا کیا۔ (1) ہثیم نے اسے حضرت ابوامامہ سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے۔ سہل بن سعد ساعدی نے اپنے باپ سے روایت نقل کی ہے : کیا تمہیں نہ بتائوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم کو اس صفت کے ساتھ کیوں ذکر کیا الذی وفی کیونکہ وہ صبح اور شام کو کہا کرتے تھے : فسبحن اللہ حین تمسون و حین تصبحون۔ (الروم) سہیل بن معاذ نے یہ حضرت انس سے وہ اپنے باپ سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وفی سے مراد ہے جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے اس کو پورا کیا۔ وہ یہ فرمان ہے، الاتزر وازرۃ وزراخری۔ حضرت ابن عباس نے کہا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ایک آدمی کو غیر کے گناہ کے بدلے میں پکڑ لیا کرتے تھے قتل اور زخم لگانے کی صورت میں و ولی کو ولی کے بدلے میں پکڑ لیتے تھے (2) ایک آدمی کو اس کے باپ، اس کے بیٹے، اس کے بھائی، اس کے چچا، اس کے ماموں، اس کے چچا زاد بھائی، اس کے قریبی رشتہ دار، اس کی بیوی، اس کے خاوند اور اس کے غلام کے بدلے میں پکڑ لیا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچایا : الا تزر وازرۃ وزراخری۔ حضرت حسن بصری، قتادہ اور سعید بن جبیر نے اللہ تعالیٰ کے فرمان وفی کے بارے میں کہا، جو آپ کے حکم دیا گیا اس پر عمل کیا اور اپنے رب کے پیغامات کو پہنچایا (3) یہ تعبیر بہت اچھی ہے کیونکہ یہ عام ہے، مجاہد نے بھی اسی طرح کہا ہے : جو آپ پر فرض کیا گیا اس کو پورا پورا ادا کیا (1) ابومالک غفاری نے کہا : الاتزروازرۃ وزراخری۔ سے لے کر فبای الآء ربک تتماری۔ تک حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں ہے۔ سورة انعام آیت 164 کے آخر میں و لاتزروا زرۃ وزراخری میں یہ بحث مفصل گزر چکی ہے۔
Top