Al-Qurtubi - Al-Qalam : 28
قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْ لَا تُسَبِّحُوْنَ
قَالَ : بولا اَوْسَطُهُمْ : ان کا درمیانہ۔ ان کا بہتر شخص اَلَمْ : کیا نہیں اَقُلْ لَّكُمْ : میں نے کہا تھا تم سے لَوْلَا : کیوں نہیں تُسَبِّحُوْنَ : تم تسبیح کرتے
ایک جو ان میں فرزانہ تھا بولا کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟
قال اوسطھم سب سے اچھے، سب سے عادل (4) اور سب سے دانشمند نے کہا، الم اقل لکم لولا تسبحون۔ تم انشاء اللہ کیوں نہیں کہتے ؟ ان کی استثناء تسبیح ہوا کتری، یہ مجاہد اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ یہ اس پر دال ہے کہ اوسط نے انہیں استثناء کا حکم دیا تھا۔ دوسرے بھائیوں نے اس کی اطاعت نہ کی۔ ابوصالح نے کہا، ان کی استثناء سبحان اللہ تھی (5) اس نے ان سے کہا تھا تم سبحان اللہ کیوں نہیں کہتے اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اس پر شکر کیوں نہیں بجا لائے ؟ نحاس نے کہا، تسبیح کا اصل معنی اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا ہے۔ مجاہد نے تسبیح کو انشاء اللہ کی جگہ رکھا ہے کیونکہ تنزیہ کا معنی یہ ہے کہ کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر واقع نہیں ہوتی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تم اپنے فعل سے استغفار کیوں نہیں کرتے اور پانی نیت کی خیانت سے توبہ کیوں نہیں کرتے۔ ان میں سے درمیانے نے انہیں یہ بات اس وقت کہی جب انہوں نے پختہ ارادہ کیا تھا، اس نے انہیں مجرموں سے انتقام لئے جانے کا ذکر کیا تھا۔ قالواسبحن ربنا انہوں نے معصیت کا اعتراف کیا اور اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی کہ وہ اپنے کسی علم میں ظالم ہو (1) حضرت ابن عباس نے یہ تعبیر کی ہے کہ انہوں نے کہا : ہم اپنے گناہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش کے طالب ہیں۔ انا کنا ظلمین۔ ہم نے مساکین کو جو مال عطا نہیں کیا اس میں ہم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں (2) فاقبل بعضھم علی بعض یتلاومون۔ یعنی ایک دوسرے کو قسم اٹھانے پر اور مساکین کو روکنے پر ملامت کرنے لگے۔ ایک کہتا : بلکہ تو نے ہمیں اس کا مشورہ دیا۔ قالوا یویلنٓ انا کنا طغین۔ فقراء کے حق کو روک کر اور استثناء ترک کر کے ہم نے نافرمانی کی۔ ابن کیسان نے کہا، ہم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر سرکشی کی، ہم نے ان کا شکریہ ادا نہ کیا جس طرح ہمارے آباء نے اس سے پہلے نعمتوں پر شکر ادا کیا تھا (3) عسی ربنا ان یبدلنا خیراً منھا انہوں نے معاہدہ کیا اور کہا، اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بہتر عطا فرمایا تو ہم وہ کچھ کریں گے جس طرح ہمارے آباء نے کیا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی اور آہ وزاری کی تو اللہ تعالیٰ نے اسی رات اس باغ سے بہتر عطا فرما دیا اور جبرائیل امین کو حکم دیا کہ اس جلے ہوئے باغ کو اکھاڑے اور شام کے علاقہ میں زعز کے مقام پر لگا دے اور شام کے علاقہ سے ایک باغ لے اور اس جلے ہوئے باغ کی جگہ لگا دے۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : قوم نے اخلاص کا مظاہرہ کیا (4) اللہ تعالیٰ نے ان کی سچائی کو پہچان لیا اور بدلے میں ایک باغ عطا فرما دیا جسے حیوان کہتے۔ اس میں انگور تھے، خچر اس کے ایک گچھے کو اٹھاتا تھا۔ یمانی ابو خالد نے کہا، میں اس باغ میں داخل ہوا تو میں نے اس میں ہر گچھا ایسے دیکھا جس طرح ایک حبشی مرد کھڑا ہو۔ حضرت حسن بصری نے کہا : باغ والوں کا یہ قول اناالی ربنا رغبون۔ میں نہیں جانتا کہ یہ ان کی جابن سے ایمان تھا یا مشرکین کا وہ قول تھا جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی تو وہ یہ قول کرتے (5) ان کے ایمان دار ہونے میں توقف کیا جائے گا۔ قتادہ سے باغ والوں کے بارے میں پوچھا گیا : کیا وہ جنتی ہیں یا دوزخی ؟ تو نے مجھے تھکا دیا ہے، اکثر لوگ یہ کہتے ہیں : انہوں نے توبہ کی اور اخلاص کا مظاہرہ کیا : قشیری نے اسے بیان کیا ہے عام قرات یبدلنا ہے اہل مدینہ اور ابو عمرو نے تشدید کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ دونوں لغتیں ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تبدیل سے مراد شی کو تبدیل کرنا یا اس کی حالت کو بدل دینا جبکہ شئی کی ذتا اپنی جگہ پر قائم رہے اور بادلا سے مراد ہے کسی شی کو اٹھانا اور کسی دوسری چیز کو اس کی جگہ کھنا۔ سورة نساء میں یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top