Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 53
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗ١ؕ یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ١ۚ فَهَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآءَ فَیَشْفَعُوْا لَنَاۤ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ كُنَّا نَعْمَلُ١ؕ قَدْ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
هَلْ : کیا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کر رہے ہیں اِلَّا : مگر (یہی کہ) تَاْوِيْلَهٗ : اسکا کہنا پورا ہوجائے يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْ : آئے گا تَاْوِيْلُهٗ : اس کا کہا ہوا يَقُوْلُ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو نَسُوْهُ : انہوں نے بھلا دیا مِنْ قَبْلُ : پہلے سے قَدْ جَآءَتْ : بیشک لائے رُسُلُ : رسول (جمع) رَبِّنَا : ہمارا رب بِالْحَقِّ : حق فَهَلْ : تو کیا ہیں لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : کوئی شُفَعَآءَ : سفارش کرنیوالے فَيَشْفَعُوْا : کہ سفارش کریں لَنَآ : ہماری اَوْ نُرَدُّ : یا ہم لوٹائے جائیں فَنَعْمَلَ : سو ہم کریں غَيْرَ الَّذِيْ : اس کے خلاف جو كُنَّا نَعْمَلُ : ہم کرتے تھے قَدْ خَسِرُوْٓا : بیشک نقصان کیا انہوں نے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں وَضَلَّ : اور گم ہوگیا عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ افترا کرتے (جھوٹ گھڑتے تھے)
کیا یہ لوگ اس کے وعدہ عذاب کے منتظر ہیں ؟ جس دن وہ وعدہ آئے گا تو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے ہونگے وہ بول اٹھے گے کہ بیشک ہمارے پروردگار کے رسول حق لے کر آئے تھے۔ بھلا آج ہمارے کوئی سفارشی ہیں کہ ہماری سفارش کریں۔ یا ہم دنیا میں پھر دوبارہ لوٹادیئے جائیں کہ جو عمل بد ہم پہلے کیا کرتے تھے وہ نہ کریں بلکہ ان کے سوا کوئی نیک عمل کریں۔ بیشک ان لوگوں نے اپنا نقصان کیا اور جو کچھ یہ افتراء کیا کرتے تھے ان سے سب جاتا رہا۔
آیت نمبر : 53 قولہ تعالیٰ : آیت : ھل ینظرون الا تاویلہ یہ ہمزہ کے ساتھ ہے اور آل سے ماخوز ہے اور اہل مدینہ ہمزے کی تخفیف کرتے ہیں۔ اور النظر کا معنی ہے انتظار کرنا، یعنی کیا وہ انتظار نہیں کر رہے مگر عقاب و حساب میں سے اس کے بارے جس کا قرآن کریم میں ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ینظرون، النظر الی یوم القیامہ ( یوم قیامت کی طرف دیکھنے) سے ماخوذ ہے۔ اور تاویلہ کی ضمیر کتاب کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور عاقبۃ الکتاب ( کتاب کا انجام) وہ بعث و حساب ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس میں وعدہ فرمایا ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : تاویلہ کا معنی جزاوہ ہے یعنی ان کا کتاب کا جھٹلانے کا انجام اور جزا۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : تاویلہ کا معنی ہے عاقبت یعنی اس کا انجام، یہ دونوں معنی اہم متقارب ہیں۔ آیت : یوم یاتی تاویلہ، یعنی قیامت کے دن اس کا انجام ظاہر ہوگا۔ اور یوم یقول کے سبب منصوب ہے، یعنی یقول الذین سوہ من قبل یوم یاتی تاویلہ۔ آیت : قد جائت رسل ربنا بالحق فھل لنا من شفعاء اس میں استفہام، تمنی اور آرزو کے معنی میں ہے۔ فیشفعوا یہ جواب استفہام ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ لنا اونرد فراء نے کہا ہے : اس کا معنی ہے اوھل نرد (تفسیر طبری، جلد 8، صفحۃ 240) (یا کیا ہم لوٹا دیئے جائیں گے) آیت : فنعمل غیرا لذین کنا نعمل زجاج نے کہا ہے : نرد کا عطف معنی پر کہا گیا ہے، یعنی ھل یشفع لنا احد او نرد ( کیا کوئی ہماری سفارش کرے گا یا ہم واپس لوٹائے جائیں گے) اور ابن اسحاق نے اونرد فنعمل دونوں میں نصب پڑھی ہے اور معنی ہے الا ان نرد ( ورنہ ہمیں واپس لوٹا دیا جائے) جیسے کسی نے کہا ہے : فقلت لہ لا تبک عینک انما نحاول ملکا او نموت فتعذرا ( اس میں او نموت، الا ان نموت کے معنی میں ہے) اور حسن نے اور نرد فنعمل دونوں کو مرفوع پڑھا ہے۔ آیت : قد خسروا انفسھم یعنی انہوں نے اس سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا، اور ہر وہ جو اپنے آپ کو نفع نہ پہنچائے تحقیق انہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : انہوں نے اس سے نعمتوں کو اور اپنے لطف و راحت کو نقصان پہنچایا۔
Top