Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
لوگو ! اپنے رب سے عاجزی اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں بناتا۔
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 قولہ تعالیٰ : آیت : ادعوا ربکم یہ دعا اور اس میں عجز و انکساری کرنے کے بارے امر ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ساتھ ایسی صفات کو ملا دیا ہے جو اس کے ساتھ حسین لگتی ہیں اور وہ خشوع اور عجزوانکساری کا اظہار کرنا ہے۔ اور خفیۃ کا معنی ہے وہ راز اور چھپی ہوئی بات جو دل میں ہوتا کہ وہ ریا کاری سے دور اور محفوظ رہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی تعریف کی ہے جب ان کے بارے خبر دیتے ہوئے فرمایا : آیت : اذ نادٰی ربہ ندآء خفیا (مریم) ( جب اس نے پکارا اپنے رب کو چپکے چپکے) اور اسی طرح حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : خیر الذکر الخفی وخیر الرزق ما یکفی (مسند امام احمد، جلد 1، صفحہ 180) (بہترین ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو (حاجات کے لیے) کافی ہو) ۔ اور یہ پختہ شرعی حکم ہے کہ نیکی کے اعمال میں وہ سر اور راز جس میں کوئی عیب اور نقص نہ ہو اجر کے اعتبار سے جہر سے اعظم اور افضل ہے۔ اور یہ معنی پہلے سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ حسن بن ابی الحسن نے کہا ہے : تحقیق ہم نے کئی اقوام کو پایا ہے کہ وہ زمین پر عمل کرنے پر قدرت رکھتے تھے لیکن ان کا وہ عمل ہمیشہ جہرا ہوتا تھا۔ اور مسلمان دعا میں انتہائی کوشش اور عجز و انکساری کرتے ہیں اور ان کی آواز تک نہیں سنی جاتی، بلاشبہ دعا ان کے درمیان اور ان کے رب کے درمیان ایک سرگوشی ہوتی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : آیت : ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ۔ اور عبد صالح کا ذکر کیا ہے، اس کے عمل کو پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا : آیت : اذ نادی ربہ ندآء خفیا (مریم) اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے اصحاب نے اس سے استدلال کیا ہے کہ آ میں کو آہستہ ( اور مخفی) کہنا اسے جہرا کہنے سے اولیٰ اور بہتر ہے، کیونکہ یہ بھی ایک دعا ہے۔ اور سورة الفاتحہ میں اس کے بارے بحث گزرچکی ہے۔ اور مسلم نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت بیان کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : ہم سفر میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ اور یک روایت ہے ایک غزوہ میں تھے۔ پس لوگ بلند آواز تکبیر کہنے لگے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی جب بھی کسی گھاٹی پر بلند ہوتا تو کہتا : لا الہ الا اللہ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے لوگو ! اپنے نفسوں پر نرمی کرو بیشک تم کسی بہرے کو نہیں پکار رہے اور نہ اسے جو غائب ہے، بلاشبہ تم اس سے دعا مانگ رہے ہو جو سننے والا ہے، قریب ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے “ (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، جلد 2، صفحہ 364 ) ۔ الحدیث مسئلہ نمبر 2۔ دعا میں ہاتھ اٹھانے کے بارے علماء نے اختلاف کیا ہے۔ پس ایک گروہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ان میں سے حضرت جبیر بن معطم، سعید بن مسیب اور حضرت سعید بن جبیر ہیں۔ اور حضرت شریح نے ایک آدمی کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : کون انہیں پکڑے گا ؟ تیری ماں تو ہے نہیں ! اور حضرت مسروق نے ایک قوم کو کہا جنہوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے : اللہ انہیں توڑ دے۔ اور انہوں نے یہ پسند کیا کہ جب آدمی اللہ تعالیٰ سے کسی حاجت کے بارے دعا مانگے تو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے۔ اور وہ کہتے : یہی اخلاص ہے۔ اور حضرت قتادہ اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے تھے اور اپنے ہاتھ بلند نہ کرتے تھے۔ اور حضرت عطای طاؤس اور حضرت مجاہد (رح) وغیرہ نے ہاتھ اٹھانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور صحابہ کرام اوت تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے بھی مروی ہے۔ اسے بخاری نے ذکر کیا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے دعا مانگی اور آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے اور میں نے آپ ﷺ کی بخلوں کی سفیدی دیکھ لی (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، جلد 2، صفحہ 938) ۔ اور اسی کی مثل حضرت انس ؓ سے بھی مروی ہے۔ اور حضرت ابن عمر ؓ نے بیان فرمایا : حضور نبی مکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ بلند فرمائے اور کہا : ” اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں اس سے برات کا اظہار کرتا ہوں جو خالد نے کیا ہے “ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد 2، صفحہ 622 ) ۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کی حدیث ہے انہوں نے بیان کیا : جب غزوہ بدر کا دن تھا رسول اللہ ﷺ نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ کرام تین سو سترہ افراد تھے، تو اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے منہ قبلہ شریف کی طرف کیا اور اپنے رب سے گڑگڑ کر دعا مانگنے لگے (صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر، جلد 2، صفحہ 93) ۔ آگے پوری حدیث ذکر کی۔ اور امام ترمذی نے آپ سے روایت کیا ہے : کان رسول اللہ ﷺ اذا رفع یدیہ لم یحطھما حتی یمسح بھما وجھہ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات، جلد 2، صفحہ 174) اما ترمذی نے کہا : یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ اور ابن ماجہ نے حضرت سلیمان ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ان ربکم حی کریم یستحی من عبدہ ان یرفع یدیہ الیہ فیردھما صفرا (سنن ابن ماجہ، کتاب الدعائ، جلد 1، صفحہ 284) (اوقال) خائبتین ( بیشک تمہارا رب بڑا حیادار اور سخی ہے وہ اپنے بندے سے حیا محسوس کرتا ہے جو اس کی بارگاہ میں اپنے ہاتھ بلند کرے اور وہ انہیں خالی واپس لوٹا دے ( یا فرمایا) وہ انہیں ناکام واپس کردے) پہلے گروہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے مسلم نے عمارہ بن رویبہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ب شر بن مروان کو منبر پر اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کا برا کرے۔ تحقیق میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ اپنے ہاتھ کے ساتھ اسی طرح زائد کہتے تھے۔ اور پھر انہوں نے اپنی مسبھ انگلی کے ساتھ اشارہ کیا (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، جلد 1، صفحہ 287) ۔ اور جو روایت سعید بن ابی عروبہ نے حضرت قتادہ سے روایت کی ہے کہ حضرت انس بن مالک ؓ نے انہیں حدیث بیان کی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ سوائے بارش کی دعا کے کسی شے کے بارے دعا کرتے وقت اپنے ہاتھ بلند نہ کرتے تھے اور آپ بارش کی دعا کے وقت انہیں اتنا بلند کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دینے لگتی (صحیح مسلم، صلوٰۃ الاستقاء، جلد 1، صفحہ 293) ۔ پہلی حدیث سعید بن ابی عروبہ کی حدیث سے سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور زیادہ ثابت ہے، کیونکہ آخر عمر میں حضرت سعید کی عقل مختل ہوگئی تھی۔ تحقیق حضرت شعبہ نے جو روایت قتادہ عن انس بن مالک سے بیان کی ہے اس میں انہوں نے سعید کی مخالفت کی ہے او اس میں کہا ہے : رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھ بلند کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی (سنن نسائی الاستقائ، جلد 1، صفحہ 244 ) ۔ اور تحقیق یہ بھی کہا گیا ہے : جب مسلمانوں پر کوئی آفت اور مصیبت نازل ہو تو اس وقت ہاتھ اٹھانا انتہائی جمیل اور حسین ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے طلب بارش کے وقت اور غزوہ بدر کے دن کیا۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : دعا مانگنا اچھا ہے جس حالت میں آسان اور میسر ہو، محل فقر کے اظہار کے لیے، رب کریم کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے کے لیے اور اس کی بارگاہ میں عجز و انکساری اور خشوع و خضوع کے اظہار کے لیے انسان سے یہی مطلوب ہے، پس اگر چاہے تو وہ منہ قبلہ شریف کی طرف کرے اور اپنے ہاتھ بلند کرے تو یہ بہت اچھا ہے اور اگر چاہے تو ایسانہ کرے۔ تحقیق حضور نبی کریم ﷺ نے اس طرح کیا ہے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ اور اس سے ہاتھ اٹھانے وغیرہ کی صفت اور حالت کا ارادہ نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا : آیت : الذین یذکرون اللہ قیٰما وقعودا ( آل عمران : 191) ( وہ عقلمند جو یاد کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کو کھڑے ہوئے اور بیٹھے ہوئے) پس اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح اور تعریف بیان فرمائی ہے اور مذکورہ حالت کے سوا کسی حالت کی شرط نہیں لگائی۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں دعا فرمائی درآنحالیکہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک قبلہ سمت نہ تھا۔ مسئلہ نمبر 3 قولہ تعالیٰ : آیت : انہ لا یحب المعتدین مراد یہ ہے کہ دعا میں حد سے بڑھنے والوں کو اللہ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا اگرچہ لفظ عام ہیں۔ ( اسی طرف یہ اشارہ ہے) اور معتدی وہ ہوتا ہے جو حد سے تجاوز کرنے والا ہو اور ممنوع کا ارتکاب کرنے والا ہو۔ اور کبھی وہ اس شی کے اعتبار سے فضیلت کا دعوی کرنے لگتا ہے جس میں وہ حد سے تجاوز کرتا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صٖفحہ 410) ۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : سیکون قوم یعتدون فی الدعائ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدعائ، جلد 1، صفحہ 283) ( عنقریب ایک قوم ہوگی جو دعا میں حد سے بڑھ جائیں گے) اسے ابن ماجہ نے ابوبکر بن ابی شیبہ سے روایت کیا ہے۔ عفان، حماد بن سلمہ اور سعید الجریری نے ابو نعامہ سے ہمیں خبر دی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ نے اپنے بیٹے کو یہ کہتے ہوئے سنا : اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کی دائیں جانب سے قصرا بیض کی التجا کرتا ہوں جب میں اس میں داخل ہوں۔ تو انہوں نے فرمایا : اے بیٹے ! اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کر اور جہنم سے پناہ مانگ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’ عنقریب ایک قوم ہوگی جو دعا میں حد سے بڑھ جائیں گے “ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدعائ، جلد 1، صفحہ 283، ) ۔ اور دعا میں حد سے بڑھنا کئی اعتبار سے ہے : ان میں سے ایک ہے بہت زیادہ بلند آواز سے اور چیخ کر دعا مانگنا (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 410) ، جیسے پہلے گزر چکا ہے۔ اور ایک یہ ہے کہ انسان اس بارے میں دعا مانگے کہ اس کے لیے نبی کا مقام و مرتبہ ہو یا کسی محال سے کے بارے دعا مانگے اور اسی طرح کی مبالغہ آمیز دعائیں اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ معصیت وغیر کی خواہش رکھتے کے بارے دعا مانگے اور اسی طرح کی مبالغہ آمیز دعائیں اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ معصیت وغیرہ کہ خواہش رکھتے ہوئے دعا مانگے اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایسی شے کے بارے دعا مانگے جو کتاب و سنت میں نہیں ہے۔ پس وہ انتہائی فقر آمیز الفاظ چنتا ہے اور مسجع کلمات اختیار کرتا ہے درآنحالیکہ وہ انہیں رسالوں میں پاتا ہے ان کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور نہ ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے، پس وہ انہیں اپنا شعار اور عادت بنا لیتا ہے او وہ ان الفاظ کو چھوڑ دیتا ہے جن کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے دعا مانگی۔ یہ سب چیزیں دعا کی قبولیت کے مانع ہوتی ہیں، جیسے سورة البقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔
Top