Al-Qurtubi - An-Noor : 18
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ۚ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
ذٰلِكَ : یہ اس لیے بِاَنَّهُمْ : کہ وہ شَآقُّوا : مخالف ہوئے اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَ : اور مَنْ : جو يُّشَاقِقِ : مخالف ہوگا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب (مار)
یہ (سزا) اس لئے دی گئی کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو شخص خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتا ہے۔ تو خدا بھی سخت عذاب دینے والا ہے۔
آیت نمبر : 13۔ 14 قولہ تعالیٰ : آیت : ذلک بانھم شاقوا اللہ، ذلک یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے اور تقدیر کلام ہے : ذالک الامر، یا الامر ذالک ( یہ حکم اس لیے ہے) شاقوا اللہ یعنی انہوں نے اللہ کے اولیاء ( اور دوستوں) کی مخالفت کی ہے۔ اور الشقاق کا معنی ہر ایک کا مشقت میں پڑنا ہے ( یا ہر ایک کا ایک طرف اور کنارہ میں ہوجانا ہے) یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ آیت : ذلکم فذوقوہ وان للکفرین عذاب النار زجاج نے کہا ہے : ذالکم، الآمر یا القصہ مضمر ماننے کے سب مرفوع ہے۔ یعنی الامر ذالکم فذوقوہ ( معاملہ اور قصہ یہ ہے پس چکھو اسے) اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ ذوقوا ( فعل کا مفعول ہونے) کے سبب محل نصب میں ہو، جیسے تمہارا یہ قول : زیدا فاضربہ۔ اور کلام کا معنی کافروں کو جھڑکنا اور زجر وتوبیخ کرنا ہے۔ اور وان، ذلکم پر معطوف ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے۔ فراء نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل نصب میں ہو بمعنی وبان للکافرین۔ انہوں نے کہا : یہ بھی جائز ہے کہ یہاں واعلموا ان مضمر مان لیا جائے۔ زجاج نے کہا ہے : اگر واعلموا کو مضمر ماننا جائز ہے تو پھر زید منطلق وعمرا جالسا بھی جائز ہے، بلکہ ابتداء میں زیدا منطلقا کہنا جائز ہو، کیونکہ خبر دینے والا معلم ہے اور نحویوں میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔
Top