Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا : اور تم جان لو اَنَّمَا : جو کچھ غَنِمْتُمْ : تم غنیمت لو مِّنْ : سے شَيْءٍ : کسی چیز فَاَنَّ : سو لِلّٰهِ : اللہ کے واسطے خُمُسَهٗ : اس کا پانچوا حصہ وَلِلرَّسُوْلِ : اور رسول کے لیے وَ : اور لِذِي الْقُرْبٰي : قرابت داروں کے لیے وَالْيَتٰمٰي : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافروں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اٰمَنْتُمْ : ایمان رکھتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ : اور جو اَنْزَلْنَا : ہم نے نازل کیا عَلٰي : پر عَبْدِنَا : اپنا بندہ يَوْمَ الْفُرْقَانِ : فیصلہ کے دن يَوْمَ : جس دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : دونوں فوجیں بھڑ گئیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز قَدِيْرٌ : قدرت والا ہے
اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) لوٹ کر لاؤ اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا اور اس کے رسول ﷺ کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔ اگر تم خدا پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق وباطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مٹھ بھیڑ ہوگئی اپنے بندے (محمد ﷺ پر نازل فرمائی اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
آیت نمبر : 41 قولہ تعالیٰ : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل ان کنتم امنتم باللہ اس میں چھبیس مسائل ہیں مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء لغت میں غنیمت سے مراد وہ ( مال) ہے جسے آدمی یا جماعت محنت اور کوشش کے ساتھ حاصل کرے۔ اسی معنی میں شاعر کا قول ہے : وقد طوفت فی الآفاق حتی رضیت من الغنیمۃ بالایاب (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 528 ) اور دوسرے شاعر نے کہا : ومطعم الغنم یوم الغنم مطعمہ انی توجہ والمحروم محروم (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 528 ) مغنم اور غنیمت دونوں ہم معنی ہیں : کہا جاتا ہے : غنم القوم غنما ( قوم کو مال غنیمت عطا کیا گیا) جاننا چاہیے کہ اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ قول باری تعالیٰ : آیت : غنمتم من شیء سے مراد کفار کا وہ مال ہے جسے مسلمانوں نے غلبہ اور جنگ کے ساتھ حاصل کیا ہو۔ لغت اس تخصیص کا تقاضا نہیں کرتی جیسا کہ ہم نے اسے بیان کردیا ہے۔ البتہ عرف شرع نے لفظ کو اس نوع کے ساتھ مقید کیا ہے۔ کفار کی جانب سے ہمیں جو اموال حاصل ہوتے ہیں شریعت نے انہیں دو نام دیئے ہیں : ایک غنیمت اور دوسرا فئی۔ پس وہ مال جسے مسلمانو اپنے دشمن سے جدوجہد اور گھوڑوں، اونٹوں کو جنگ میں استعمال کر کے حاصل کرتے ہیں اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ اور یہ اسم اس معنی کے ساتھ لازم ہوچکا ہے حتی کہ یہ عرف بن گیا ہے۔ اور فئی، فاء یفیء سے ماخوذ ہے جب کوئی لوٹ آئے، رجعو کرلے اور اس سے مراد ہر وہ مال ہے جو مسلمانوں کو بغیر جنگ کے اور گھوڑوں، اونٹوں کو کام میں لائے بغیر حاصل ہوجائے، جیسا کہ زمینوں کا خراج، لوگوں پر عائز ہونے والا جزیہ اور غنائم کا خمس (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 528 ) ۔ اسی طرح سفیان ثوری اور عطاء بن سائب (رح) نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی قسم کا مال ہیں اور ان دونوں میں خمس (پانچواں حصہ) ہے، یہ حضرت قتادہ نے کہا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 528 ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فئی ہر اس مال سے عبارت ہے جو مسلمانوں کو بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہو۔ دونوں معنی ایک دوسرے کے بالکل قریب ہیں۔ مسئلہ نمبر : 2 جمہور کے نزدیک یہ آیت سورت کی پہلی آیت کے لیے ناسخ ہے۔ اور ابن عبدالبر نے اس پر اجماع ہونے کا دعوی کیا ہے کہ یہ آیت قول باری تعالیٰ : آیت : یسئلونک عن الانفال کے بعد نازل ہوئی ہے اور یہ کہ مال غنیمت کے چار خمس لشکریوں کے درمیان تقسیم کیے جائیں گے، جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور ارشاد باری تعالیٰ : آیت : یسئلونک عن الانفال اس وقت نازل ہوئی جب غنائم بدر کے بارے میں اہل بدر کے درمیان اختلاف رونما ہوا، جیسا کہ سورت کی ابتداء میں گزر چکا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جو کچھ اسماعیل بن اسحاق نے ذکر کیا ہے وہ اس کی صحت پر دلالت کرتا ہے انہوں نے کہا : محمد بن کثیر نے ہمیں بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے محمد بن سائب نے ابو صالح کے واسطہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا : جب غزوہ بدر کا دن تھا تو حضور نبی مکرم ﷺ نے اعلان فرمایا : ” جس نے کسی آدمی کو قتل کیا تو اس کے لیے اتنا ہوگا اور جس نے کسی کو قیدی بنایا تو اس کے لیے اتنا ہوگا “ (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 20 ) ۔ پس انہوں نے ستر آدمیوں کو قتل کیا اور ستر کو قیدی بنایا۔ ابو الیسر بن عمر و دو قیدیوں کو لے کر آیا اور عرض کی : یا رسول ! ﷺ بیشک آپ نے ہم سے وعدہ فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا تو اس کے لیے اتنا ہوگا، تحقیق میں دو قیدیوں کو لایا ہوں۔ تو حضرت سعد ؓ اٹھے اور عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ ، بیشک ہمیں نہ تو اجر میں زیادتی کی خواہش نے روکا اور نہ دشمن کے سامنے بزدلی کے اظہار نے ہمیں روکا بلکہ ہم تو اس مقام پر اس خوف سے کھڑے رہے کہ کہیں مشرکین ادھر نہ مڑ آئیں، بلاشبہ آپ اگر انہیں عطا فرمائیں گے تو پھر آپ کے اصحاب کے لیے کوئی شے باقی نہ رہے گی۔ راوی فرماتے ہیں : وہ کچھ کہتے رہے اور وہ کچھ کہتے رہے پس یہ آیت ناز ہوئی : آیت : یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ والرسول فاتقوا اللہ واصلحوا ذات بینکم پس انہوں نے مال غنیمت رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا، بعدا زاں یہ آیت نازل ہوئی آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ، الآیہ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد، حدیث نمبر۔ 2360، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت محکم ہے، غیر منسوخ ہے اور یہ کہ مال غنیمت رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے اور یہ لشکریوں کے درمیان تقسیم شدہ نہیں ہے اور اسی طرح آپ کے بعد آنے والے ائمہ کے لیے حکم ہے۔ اسی طرح مازری نے ہمارے بہت سے اصحاب رحمۃ اللہ علیہم سے بیان کیا ہے : اور یہ کہ امام وقت کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے ان سے نکالے۔ اور انہوں نے فتح مکہ اور قصہ حنین سے استدلال کیا ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ بزور شمشیر فتح کیا اور وہاں کے باسیوں پر احسان فرمایا اور اسے انہیں پر واپس لوٹا دیا اور اسے تقسیم نہ کیا اور نہ اسے ان کے لیے فئی قرار دیا۔ اور بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ آپ کے بعد ائمہ کے لیے بھی یہ جائز ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس بنا پر قول باری تعالیٰ : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ کا معنی یہ ہوگا چار خمس امام کے لیے ہوں گے، اگر چاہے تو انہیں روک لے اور اگر چاہے تو انہیں لشکریوں کے درمیان تقسیم کر دے۔ اور یہ کوئی شے نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اسے ذکر کردیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مال غنیمت کی اضافت لشکریوں کی طرف کی ہے اور فرمایا ہے : آیت : واعلموا انما غنمتم من شئی پھر خمس کو اس کے لیے معین کردیا جس کا ذکر اپنی کتاب میں کیا اور چار خمس سے سکوت اختیار فرمایا، اس میں تو بالاتفاق باپ کے لیے دو ثلث ہیں۔ اسی طرح چار خمس بالاجماع لشکریوں کے لیے ہوں گے، جیسا کہ ابن منذر، ابن عبدالبر، داؤدمی، مازری، قاضی عیاض اور علامہ ابن عربی (رح) نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور اس معنی کے ساتھ خبر دینا بالکل ظاہر ہے اور اس کا کچھ بیان عنقریب آئے گا۔ اور قول باری تعالیٰ : یسئلونک عن الانفال الآیہ کا معنی ہوگا۔ وہ مال جس کی امام وقت جس کے لیے چاہے مصلحت کے پیش نظر تقسیم سے پہلے تنفیل کرسکتا ہے۔ حضرت عطا اور حسن ؓ نے کہا ہے : یہ اس مال کے ساتھ مخصوص ہے جو مشرکوں سے مسلمانوں کی طرف بھاگ کر آئے چاہے وہ غلام ہو یا لونڈی یا کوئی جانور۔ امام وقت اس کے بارے جو پسند کرے فیصلہ کرسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد انفال السرایا یعنی اس کے غنائم ہیں، اگر چاہے تو امام اس سے خمس نکالے اور اگر چاہے تو سارے کا سارا بطور تنفیل ادا کر دے۔ ابراہیم نخعی (رح) نے الامام عبعث السریۃ فیصیبون المغنم میں بیان کیا ہے : اگر چاہے تو امام سارے مال کو نفل بنا دے اور اگر چاہے تو اس کا خمس نکالے۔ اور اسے ابو عمر نے مکحول اور عطا سے بیان کیا ہے۔ حضرت علی بن ثابت نے کہا ہے : میں نے مکحول اور عطا سے امام کے بارے پوچھا جو قوم کو اس مال کی تنفیل کرتا ہے جو انہوں نے حاصل کیا، تو فرمایا : وہ ان کے لیے ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : جو اس طرف گئے ہیں انہوں نے قول باری تعالیٰ آیت : یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ والرسول کی تاویل کی ہے کہ وہ مال حضور نبی کریم ﷺ کے لیے ہے آپ جہاں چاہیں اسے خرچ کرسکتے ہیں۔ اور یہ نظریہ نہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے اس ارشاد کے ساتھ : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ اس کے سوا ہے جو ہم نے اس کے بارے کتاب القبس فی شرح موطا مالک بن انس میں بیان کیا ہے۔ اور علماء میں سے کسی ایک نے اس بارے میں کوئی قول نہیں کیا جو میں جانتا ہوں کہ قول باری تعالیٰ : یسئلونک عن الانفال، الآیہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ کے لیے ناسخ ہے، بلکہ جمہور نے کہا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کردیا ہے : بیشک قول باری تعالیٰ : ما غنمتم ناسخ ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں کتاب اللہ میں تحریف وتبدیلی کا الزام جائز نہیں ہے۔ رہا فتح مکہ کا واقعہ تو اس میں کوئی دلیل نہیں، کیونکہ اس کی فتح میں علماء کا اختلاف ہے۔ ابو عبید نے کہا ہے : ہم مکہ مکرمہ کے بارے نہیں جانتے کہ شہروں میں سے کسی کو اس کے ساتھ دو اعتبار سے مشابہت حاصل ہو : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انفال وغنائم رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص فرمائے ہیں جب تک اس نے کسی دوسرے کے لیے انہیں مقرر نہیں کیا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے ہے : آیت : یسئلونک عن الانفال الایہ، پس ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آپ کے لیے خاص ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ کے لیے ایسا طریقہ مقرر کیا جو دوسرے شہروں میں سے کسی کے لیے نہیں۔ اور جہاں تک حنین کے واقوہ کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے انصار کو عوض عطا فرمایا جب انہوں نے کہا : آپ غنائم قریش کو عطا فرما رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان کے خون ٹپک رہے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا : اماترضون ان یرجع الاناس بالدنیا وترجعون برسول اللہ ﷺ الی بیوتکم (صحیح بخاری، کتاب المناقب، جلد 1، صفحہ 533) ( کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا ساتھ لے کر لوٹیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے کر اپنے گھروں کو واپس جاؤ) اسے مسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ کسی غیر کے لیے ایسا قول کرنا جائز نہیں، یہ فقط آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ ہمارے بعض علماء نے کہا ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر : 3 علماء کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ قول باری تعالیٰ : واعلموا انما غنمتم من شیء اپنے عموم پر نہیں ہے، بلکہ خصوص اس میں داخل ہو سکتا ہے۔ پس انہوں نے اسے اجماع کے ساتھ کا ص کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ قاتل کے لیے مقتول کا سامان چھیننا اور سلب کرنا جائز ہے جب امام وقت اس کے بارے اعلان کرے اور اسی طرح قیدیوں کا بھی حکم ہے، اس بارے میں اختیار بلا اختلاف امام کے پاس ہے، جیا کہ اس کا بیان آگے آرہا ہے۔ اور اس سے زمین کو بھی خاص کیا گیا ہے۔ اور معنی یہ ہے : جو مال غنیمت سونے، چاندی، تمام سازوسامان اور قیدیوں میں سے تمہیں حاصل ہو۔ اور رہی زمین تو وہ اس آیت کے عموم میں داخل نہیں ہے، کیونکہ ابو داود نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : اگر دوسرے لوگ نہ ہوتے تو میں جس شہر کو بھی فتح کرتا اسے تقسیم کردیتا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خبیر کو تقسیم فرمایا۔ اور جو دلیل اس مذہب کو صحیح قرار دیتی ہے وہ وہ روایت ہے جسے صحیح نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے آپ ﷺ نے فرمایا : ” عراق نے اپنا قفیز اور اپنا درہم روک لیا ہے اور شام نے اپنا مد اور اپنا دینار روک لیا ہے “ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج، جلد 2، صفحہ 74) الحدیث۔ امام طحاوی (رح) نے فرمایا : حدیث طیبہ میں منعت بمعنی ستمنع ہے ( یعنی عنقریب روک لیں گے) تو یہ اس پر دلیل ہے کہ یہ لشکریوں کے لیے نہیں ہوں گے، کیونکہ لشکری جس سامان کے مالک ہیں اس میں قفیز اور درہم نہیں ہوتے۔ اور اگر زمین بھی تقسیم کردی جاتی تو غانمین کے بعد آنے والوں کے لیے کوئی شے نے بچتی۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت : والذین جاء ومن بعدھم (العشر : 10) اس کا عطف اس قول پر ہے۔ آیت : للفقراء المھجرین (الحشر : 8) فرمایا : بیشک وہ سامان تقسیم کیا جائے گا جو ایک جگہ سے دوسرے جگہ منقل کیا جاسکتا ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : دارالحرب والوں سے مال غنیمت میں سے جو بھی حاصل ہوگا چاہے وہ قلیل ہو یا کثیر گھر ہو یا زمین، سازو سامان ہو یا اس کے علاوہ کچھ، سب تقسیم کردیا جائے گا، سوائے بالغ مردوں کے کیونکہ ان کے بارے میں امام کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو وہ انہیں بطور احسان آزاد کر دے یا قتل کر دے یا قیدی بنا لے۔ اور جو بھی ان سے لیا گیا اور قیدی بنایا گیا اس ( کی تقسیم کا) طریقہ وہی ہے جو مال غنیمت کا طریقہ ہے۔ اور انہوں نے آیت کے عموم سے استدلال کیا ہے۔ فرمایا : زمین بھی بالیقین مال غنیمت میں شامل ہے، لہٰذا واجب ہے کہ اسے بھی دیگر تمام غنائم کی مثل تقسیم کیا جائے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا جو حصہ طاقت کے ساتھ فتح کیا تھا اسے تقسیم فرما دیا۔ انہوں نے کہا ہے : اگر زمین میں خصوص کا دعوی کرنا جائز ہے تو پھر زمین کے علاوہ میں بھی یہ دعوی جائز ہوگا نتیجۃ آیت کا حکم باطل ہوجائے گا۔ اور جہاں تک سورة الحشر کی آیت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی حجت نہیں کیونکہ وہ تو مال فئی کے بارے میں ہے نہ کہ مال غنیمت کے بارے میں۔ اور قول باری تعالیٰ : آیت : والذین جاء و من بعدھم (الحشر : 10) یہ نیا کلام ہے جو ان لوگوں کے لیے دعا کے متعلق ہے جو ایمان میں سبقت لے گئے یہ کسی اور معنی کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا ہے : حضرت عمر ؓ کا فعل زمین سے متعلق آپ کے توقف کے بارے دو وجہوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہے : یا تو وہ غنیمت ہے آپ نے اس کے رہنے والوں کو اچھا پایا اور وہ زمین اس بارے میں موزوں تھی تو آپ نے اسے وقف کردیا اور اس طرح جریر نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس کے باسیوں میں سے اچھوں کو چن لیا اور رسول اللہ ﷺ نے بنی ہوازن کے قیدیوں میں اسی طرح کیا، جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ نے اپنے اصحاب میں سے اعلیٰ افراد کو ان چیزوں کے بارے چن لیا جو ان کے ہاتھوں میں تھیں یا پھر حضرت عمر ؓ نے جو زمین وقف کی وہ مال فئی تھی پس اس صورت میں آپ کو کسی اور کی رضامندی کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کو فیوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ زمین کی تقسیم یا اسے قائم رکھنے اور اس پر خراج مقرر کرنے کا اختیار امام وقت کو ہے۔ اور یہ زمین اسی طرح ان کی ملکیت ہوجاتی ہے جیسے صلح سے حاصل کی ہوئی زمین۔ ہمارے شیخ ابو العباس ؓ نے کہا ہے : گویا یہ دو دلیلوں کو جمع کرنا اور دو مذہبوں کے درمیان ایک درمیانی رائے ہے اور یہی ہو ہے جسے حضرت عمر ؓ بالیقین سمجھے، اسی لیے آپ نے فرمایا : اگر دوسرے لوگ نہ ہوتے، پس آپ نے حضور نبی مکرم ﷺ کے فعل کے منسوخ ہونے کی کوئی خبر نہ دی اور نہ ہی ان کے ساتھ ان کی تخصیص کی خبر دی ہے، مگر کو فیوں نے حضرت عمر ؓ کے فعل پر کچھ اضافہ کیا ہے کیونکہ حضرت عمر ؓ نے مسلمانوں کی مصالح پر اسے وقف کیا اور اہل صلح کو اس کا مالک بنا دیا اور انہوں ( کو فیوں) نہ یہ کہا ہے کہ وہ اہل صلح کو اس کا مالک بنا دے۔ مسئلہ نمبر 4۔ امام مالک، امام ابوحنیفہ اور ثوری رحمۃ اللہ علیہم نے موقف اختیار کیا ہے کہ مقتول سے چھینا ہوا مال قاتل کے لیے نہیں ہے اور اس کا حکم مال غنیمت کے حکم کی مثل ہے، مگر یہ کہ امیر کہے : جس نے کسی کو قتل کیا تو اس سے چھینا ہوا سامان اس کے لیے ہوگا، تو اس صورت میں وہ سامان اسی کے لیے ہوگا۔ لیث، امام اوزاعی، امام شافعی، اسحاق، ابو ثور، ابوعبید، طبری اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے : ہر حال میں چھینا ہوا مال قاتل کے لیے ہوگا، چاہے امام نے وہ اعلان کیا ہو یا نہ کیا ہو، مگر امام شافعی (رح) نے یہ کہا ہے : بلاشبہ چھینا ہوا مال قاتل کے لیے ہوگا بشرطیکہ اس نے اسے سامنے سے آتے ہوئے قتل کیا ہو۔ اور جب اس نے اسے پیٹھ پھیر کر جاتے ہوئے پیچھے سے جا کر قتل کیا تو سلب کیا ہوا مال اس کے لیے نہیں ہوگا۔ اصحاب شافعی میں سے ابو العباس بن سریج نے کہا ہے : یہ حدیث من قتل قتیلا فلہ سلبہ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 87) اپنے عموم پر نہیں ہے، کیونکہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ جس نے کسی قیدی یا عورت یا بوڑھے کو قتل کیا تو ان میں سے کسی سے چھینا ہوا مال اس کا نہ ہوگا۔ اور اسی طرح جس نے کسی زخمی کو مار دیا اور اسے قتل کردیا جس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹے ہوئے تھے ( تو ان کا سامان قاتل کے لیے نہ ہوگا) فرمایا : اس شکست خوردہ کا حکم بھی اسی طرح ہے، جس کے شکست کھانے میں اور پسپا ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، تو وہ بندھے ہوئے آدمی کی مثل ہے۔ فرمایا : پس اس سے معلوم ہوگیا کہ سلب شدہ مال کو جو قاتل کے لیے بنایا گیا ہے تو وہ کسی زائد معنی کی وجہ سے ہے یا پھر اس کے لیے ہے جس کے قتل میں فضیلت ہو اور وہ قاتل کے سامنے ہونا ہے، کیونکہ اس صورت میں ( مقابلے کی) مشقت ہوتی ہے۔ اور رہا وہ جس کے لیے زخموں کے سبب مقابلہ کرنا یا بھاگنا دوڑنا مشکل ہوجائے تو اسے قتل کرنے میں سامان قاتل کے لیے نہ ہوگا۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : چھینا ہوا مال قاتل کے لیے ہوگا، چاہے وہ اسے سامنے سے آتے ہوئے قتل کرے یا پیٹھ کے پیچھے سے، بھاگتے ہوئے یا مقابلی کرتے ہوئے بشرطیکہ وہ میدان جنگ میں ہو۔ اس کا رد اس روایت میں ہوتا ہے جس کا ذکر عبدالرزاق اور محمد بن بکر نے ابن جریج سے کیا ہے انہوں نے کہا میں نے نافع مولی ابن عمر ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : ہم مسلسل یہ سنتے رہے ہیں کہ جب مسلمان اور کفار میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل ہوں اور مسلمانوں میں سے کوئی آدمی کفار میں سے کسی آدمی کو قتل کر دے تو بلاشبہ اس کا چھینا ہوا مال اس کے لیے ہوگا، مگر یہ کہ وہ انتہائی زوردار جنگ کے دوران قتل ہو، کیونکہ اس وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس نے اسے قتل کیا ہے۔ پس اس قول کا ظاہر طبری کے اس قول کا رد کرتا ہے کہ انہوں نے چھینے ہوئے مال میں یہ شرط لگائی ہے کہ قتل میدان جنگ میں ہو۔ اور ابو ثور اور ابن منذر نے بیان کیا ہے کہ چھینا ہوا مال قاتل کے لیے ہوگا چاہے وہ میدان جنگ میں ہو یا باہر، سامنے کی جانب ہو یا پیچھے کی جانب، بھاگتے ہوئے یا مقابلے کے لیے شوخی کا اظہار کرتے ہوئے ہو، تمام حالتوں میں (چھینا ہوا مال قاتل کے لیے ہوگا) کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ کا یہ ارشاد عام ہے : من قتل قتیلا فلہ سلبہ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 87) (جس کسی نے کسی مقتول کو قتل کیا تو اس سے چھینا ہوا مال اس کے لیے ہوگا) میں (مفسر) کہتا ہوں : امام مسلم (رح) نے حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں بنی ہوازن کی جنگ میں شریک تھے پس اس اثناء میں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک سرخ اونٹ پر ایک آدمی آیا، اس نے اپنا اونٹ بٹھایا، پھر اونٹ کے تنگ سے رسی کھولی اور اس کے ساتھ اونٹ کو باندھ دیا، پھر آگے بڑھا اور قوم کے ساتھ مل کر کھانا کھانے لگا اور غور سے دیکھنے لگا۔ اور ہم میں کمزور لوگ بھی تھے ان کی سواریاں بھی نحیف اور لاغر تھیں اور بعض ہم میں پیدل تھے، جب کہ وہ تیزی کے ساتھ نکلا، اپنی سواری کے پاس آیا، اس کی رسی (ڈھنگا) کو کھولا پھر اسے بٹھیا اور اس پر بیٹھ گیا اور اسے تیز چلادیا اور اونٹ اسے لے کر خوب تیزی سے چلنے لگا، تو ایک آدمی نے خاکستری رنگ کی اونٹنی پر اس کا پیچھا کیا۔ حضرت سلمہ ؓ نے بیان کیا : میں انتہائی تیزی کے ساتھ نکلا اور میں اونٹنی کی سرین کے قریب ہوگیا، پھر میں مزید آگے بڑھا یہاں تک کہ میں اونٹ کی سرین کے قریب ہوگیا، پھر میزید آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کہ مہار کو پکڑ لیا اور اسے بٹھایا، پس جب اس نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا میں نے اپنی تلوار سونتی اور اس آدمی کے سر پر ماری تو وہ گر پڑا ( یعنی مر گیا) پھر میں اس اونٹ کو پکڑ کرلے آیا، اس پر اس کا کجاوہ ( بمع سازوسامان) اور اس کے ہتھیار بھی تھے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے میرا استقبال کیا اور آپ ﷺ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کس نے اس آدمی کو قتل کیا “ ؟ لوگوں نے عرض کی : ابن اکوع نے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : لہ سلبہ اجمع (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 89۔ 88) اس سے چھینا ہوا مال اس کے لیے ہے۔ پس یہ حضرت سلمہ ؓ ہیں جنہوں نے اسے بھاگتے ہوئے قتل کیا نہ کہ سامنے سے آتے ہوئے اور آپ ﷺ نے اس سے چھینا ہوا مال اسے عطا فرما دیا۔ اس میں امام مالک (رح) کے لیے حجت ہے کہ امام کی اجازت کے بغیر قاتل سلب شدہ مال کا مستحق نہیں ہوتا، کیونکہ اگر نفس قتل کے ساتھ ہی وہ اس کے لیے ثابت ہوجاتا تو آپ کو یہ قول مکرر لانے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اور آپ کی حجت وہ روایت بھی ہے جسے ابوبکر بن ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے انہوں نے بیان کیا : ابو الاحوص نے اسود بن قیس سے انہوں نے بشر بن علقمہ سے ہمیں روایت بیان کی ہے کہ جنگ قادسیہ کے دن میں نے ایک آدمی کو دعوت مبارزت دی اور میں نے اسے قتل کردیا اور اس کا مال لے لیا، پھر میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے پاس آیا تو حضرت سعد ؓ نے اپنے ساتھیوں کو خطاب کیا پھر فرمایا : یہ بشر بن علقمہ کا چھینا ہوا مال ہے اور یہ بارہ ہزار درہم سے بہتر (اور زیادہ) ہے۔ اور ہم نے یہ اسے بطور تنفیل (انعام) دے دیا۔ پس اگر چھینا ہوا مال قاتل کے لیے ہوتا اور محض حضور نبی مکرم ﷺ کی قضا سے ہوتا تو پھر اس چیز کی ضرورت نہ ہوتی کہ وہ اپنے اجتہاد کے ساتھ امر کی نسبت اپنی ذاتوں کی طرف کریں اور یقینا قاتل ان کے امر کے بغیر اس سامان کو لے سکتا۔ واللہ اعلم اور صحیح میں ہے کہ حضرت معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفرا ؓ نے اپنی تلواروں کے ساتھ ابو جہل پر حملہ کیا، یہاں تک کہ اسے قتل کردیا، پھر وہ دونوں حضور نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے پوچھا :” تم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے “ ؟ تو ان دونوں میں سے ہر ایک نے عرض کی : میں نے اسے قتل کیا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دونوں تلواروں کو غور سے دیکھا اور فرمایا :” تم دونوں نے ہی اسے قتل کیا ہے “ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 88) ۔ اور پھر اس سے چھینے ہوئے مال کا فیصلہ حضرت معاذ بن عمرو بن جموع کے حق میں فرمایا۔ تو یہ اس پر نص ہے کہ سلب کیا ہوا مال قاتل کے لیے نہیں، کیونکہ اگر اس کے لیے ہوتا تو حضور نبی مکرم ﷺ اسے ان دونوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔ اور صحیح میں حضرت عوف بن مالک ؓ سے بھی روایت ہے انہوں نے کہا : میں ان کے ساتھ نکلا جو حضرت زید بن حارثہ ؓ کی معیت میں غزوہ موتہ کے لیے نکلے تھے۔ اور یمن سے آنے والے معاونین اور مدد گاروں میں سے ایک آدمی نے میرے مرافقت اور سنگت اختیار کی۔ آگے حدیث بیان کی۔ اس میں ہے کہ حضرت عوف ؓ نے کہا : اے خالد ! کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلب کیے ہوئے مال کا فیصلہ قاتل کے لیے کہا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں، لیکن میں اسے کثیر سمجھتا ہوں (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 88) ۔ ابوبکر برقانی نے اپنی اس اسناد کے ساتھ اسے روایت کیا ہے جس کے ساتھ مسلم نے اسے روایت کیا اور اس میں یہ زائد ذکر کیا کہ حضرت عوف بن مالک ؓ نے کہا : بیشک رسول اللہ ﷺ نے سلب کیے ہوئے مال کا خمس نہیں نکالا اور بیشک وہ معاون ومدد گار غزوہ موتہ میں ان کا ساتھی تھا جو شام کی طرف سے آیا ہوا تھا، اس نے کہا : ان میں سے ایک رومی بڑی شدت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کرنے لگا اور وہ اشقر (سرخ وزرد رنگ) گھوڑے پر سوار تھا۔ زین سنہری تھی، کمر کا کپڑا لتھڑا ہوا تھا اور تلوار سونے کے ساتھ آراستہ کی ہوئی تھی۔ راوی نے بیان کیا : وہ انہیں اکسا رہا تھا، فرمایا : پس میرا معاون ان کے لیے مہربان ہوا ( یعنی اس نے اپنا رخ اس کی طرف پھیرا) یہاں تک کہ اس کے پاس سے گزرا اور اس کے گھوڑے کی کونچوں پر وار کیا اور وہ گر پڑا اور اس نے اسے تلوار کیساتھ اٹھایا اور اسے قتل کردیا اور اس کا اسلحہ لے لیا۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت خالدبن ولید ؓ نے وہ اسے دیا اور اس میں سے کچھ روک لیا۔ حضرت عوف ؓ فرماتے ہیں : پس میں نے انہیں کہا : یہ سارے کا سارا اسے عطا فرما دو ۔ کہا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے : السلب للقاتل (سلب کیا ہوا مال قاتل کے لیے ہے) انہوں نے فرمایا : ہاں، لیکن میں اسے زیادہ خیال کرتا ہوں۔ حضرت عوف ؓ نے بیان کیا : میرے اور ان کے درمیان گفتگو ہوئی، تو میں نے انہیں کہا : میں رسول اللہ ﷺ کو ضرور آگاہ کروں گا۔ حضرت عوف ؓ نے بیان کیا : پس جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہوئے تو حضرت عوف ؓ نے اس کا ذکر رسول للہ ﷺ سے کیا تو آپ نے حضرت خالد ؓ سے پوچھا : ” تم نے اسے کیوں نہیں دیا “ ؟ تو انہوں نے عرض کی : میں نے اسے بہت زیادہ سمجھا۔ آپ نے فرمایا :” پس تم اسے وہ سب دے دو “ تو میں نے انہیں کہا : کیا میں نے آپ کے لیے وہ وعدہ پورا نہیں کردیا جو میں نے تمہارے ساتھ کیا تھا ؟ راوی کہتے ہیں : پس رسول اللہ ﷺ غصے میں ہوگئے اور فرمایا : ” اے خالد تو اسے نہ دینا کیا تم میرے لیے میرے امراء (افسر) کو چھوڑ رہے ہو “ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 88) ۔ تو یہ اس پر واضح دلیل ہے کہ قاتل سلب کیے ہوئے مال کا نفس قتل سے مستحق نہیں ہوتا، بلکہ امام کی رائے اور اس کی نظر سے اس کا مستحق ہوتا ہے۔ امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا ہے : سوائے خاص مقابلہ کے سلب کیا ہوا مال قاتل کے لیے نہوں ہوگا۔ مسئلہ نمبر 5۔ چھینے ہوئے مال سے خمس نکالنے کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اس سے خمس نہیں نکالا جائے گا۔ اور ابو اسحاق نے کہا ہے : اگر چھینا ہوا مال تھوڑا ہو تو وہ قاتل کے لیے ہوگا اور اگر زیادہ ہو تو پھر اس سے خمس لیا جائے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت براء بن مالک ؓ کے ساتھ ایسا ہی کیا جس وقت وہ مر زبان کے مقابل ہوئے اور اسے قتل کردیا، تو اس کے کمر بند اور اس کے کنگنوں کی قیمت تیس ہزار تھی تو آپ نے اس کا خمس نکالا۔ حضرت انس ؓ نے حضرت براء بن مالک ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے مشرکین کے سو آدمی قتل کیے مگر مقابلہ ایک آدمی کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے جب زارہ ( بحرین کا ایک گاؤں) پر حلمہ کیا تو الزارہ کے دہقان نکل آئے اور انہوں نے کہا : ایک ایک آدمی ایک دوسرے کے مقابل تھا، پس حضرت براء ؓ نے اس (مرزبان) سے مقابلہ کیا دونوں کی ایک دوسرے کے خلاف تلواریں چلیں، پھر دونوں نے ایک دوسرے کا گلا پکڑ لیا اور حضرت براء نے اسے سرین کے بل گرا دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گئے، پھر تلوار پکڑی اور اسے ذبح کردیا۔ اس کے ہتھیار اور اس کا کمر بند اٹھا لیا اور حضرت عمر ؓ کے پاس لے آئے، تو آپ نے ہتھیار انہیں بطور انعام (نفل) عطا فرما دیئے اور کمر بند کی تیس ہزار قیمت لگائی پھر اس سے خمس نکالا اور فرمایا : بیشک یہ مال ہے۔ اور امام اوزاعی اور مکحول (رح) نے بیان کیا ہے : چھینا ہوا مال، مال غنیمت ہے اور اس میں خمس بھی ہے۔ اور اسی طرح حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے۔ اور امام شافعی (رح) کی حجت وہ روایت ہے جسے ابو داؤد نے عوف بن مالک اشجعی اور حضرت خالب بن ولید ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقتول سے چھینے ہوئے مال کا قاتل کے لیے فیصلہ فرمایا اور اس چھینے ہوئے مال سے خمس نہیں لیا۔ مسئلہ نمبر 6 جمہور علماء نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سلب کیا ہوا مال قاتل کو نہیں دیا جائے گا مگر اس صورت میں کہ وہ اس قتل کرنے پر گواہ پیش کرے۔ ان میں سے اکثر نے کہا ہے : ایک شاہد کی شہادت کافی ہوگی۔ ان کی بنیاد حضرت ابو قتادہ کی حدیث پر ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو گواہ ہوں یا پھر ایک شاہد ہو اور ساتھ قسم بھی ہو۔ امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : قاتل کو چھینا ہوا مال صرف دعویٰ کے ساتھ دے دیا جائے گا، اس کے استحقاق کے لیے بینہ شرط نہیں ہے، بلکہ اگر وہ اس پر متفق ہوجائے تو پھر تنازعہ ختم کرنے لیے بینہ لانا اولیٰ ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت ابو قتادہ ؓ کو مقتول سے چھینا ہوا مال بغیر کسی شہادت اور قسم کے عطا فرمایا۔ اور ایک آدمی کی شہادت کافی نہیں ہوگی اور نہ صرف اس کیساتھ کوئی فیصلہ کہا جائے گا۔ لیث بن سعد نے یہی کہا ہے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : میں نے اپنے شیخ الحافظ المنذری الشافعی ابو محمد عبدالعظیم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اسود بن خزاعی اور عبداللہ بن انیس کی شہادت کے ساتھ انہیں مقتول کا مال عطا فرمایا۔ اس بنا پر تو نزاع ختم ہوجاتا ہے اور اشکال زائل ہوجاتا ہے اور حکم جاری رہے گا۔ اور رہے مالکیہ ! تو وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ امام وقت کو اس بارے میں بینہ کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ ابتداء امام کی طرف سے عطیہ ہے، پس اگر وہ شہادتیں شرط قرار دے تو اسے یہ اختیار ہے اور اگر شرط نہ قرار دے تو یہ جائز ہے کہ وہ اسے بغیر شہادت کے عطا کر دے۔ مسئلہ نمبر : 7 سلب کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ وہ کیا ہے ؟ بس ہتھیار اور وہ تمام چیزیں جو جنگ کے لیے ضرورت ہوتی ہے اس کے سلب ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے اور گھوڑا بھی اس میں داخل ہے اگر اس نے اس پر قتال کیا ہو اور اس سے اسے گرایا گیا ہو۔ امام احمد (رح) نے گھوڑے کے بارے کہا ہے کہ وہ سلب میں شامل نہیں ہے۔ اور اس مال کے بارے اختلاف ہے جس کے ساتھ وہ جنگ کے لیے مزین اور آراستہ ہوتا ہے، پس امام اوزاعی نے کہا ہے : وہ سارے کا سارا مال سلب میں سے ہے۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے : وہ سلب میں سے نہیں ہے۔ اور یہ حضرت سحنون (رح) سے مروی ہے، سوائے کمر بند کے کیونکہ ان کے نزدیک وہ سلب میں سے ہے۔ اور ابن حبیب نے ” الواضحہ “ میں کہا ہے : کنگن مال سلب میں سے ہیں (المحرر الوجیز، زیر آیت) ۔ مسئلہ نمبر : 8 قولہ تعالیٰ : آیت : فان للہ خمسہ ابو عبید نے کہا ہے : یہ اس سورت کی پہل آیت قل الانفال للہ والرسول کے لیے ناسخ ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے غنائم بدر میں سے خمس نہیں نکالا تھا، پس اس آیت کے ساتھ خمس نہ نکالنے کے بارے میں آپ کا فیصلہ منسوخ ہوگیا، مگر صحیح مسلم میں حضرت علی ؓ کے قول سے یہ ظاہر ہوتا ہے : کہ ” بدر کے دن مال غنیمت میں سے میرے حصے میں دو سال کی اونٹنی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اس دن خمس سے دو سال کی اونٹنی مجھے عطا فرمائی “ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج، جلد 2، صفحہ 63) الحدیث۔ کہ آپ ﷺ نے خمس نکالا، پس اگر معاملہ اس طرح ہے تو پھر ابو عبید کا قول مردود ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ خمس جس کا ذکر حضرت علی ؓ نے کیا ہے وہ ان غزوات میں سے کسی کا ہو جو بدر اور حد کے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔ اور وہ غزوہ بنی سلیم، غزوہ بن مصطلق، غزوہ زی امر اور غزوہ بحران ہیں۔ ان میں کوئی یاد گار جنگ تو نہیں ہوئی، لیکن یہ ممکن ہے کہ مال غنیمت حاصل کیا گیا ہو (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 529 ) ۔ واللہ اعلم میں (مفسر) کہتا ہوں : اس تاویل کو حضرت علی ؓ کے قول میں یومئذ کے الفاظ رد کرتے ہیں، کیونکہ اشارہ اس دن کی طرف ہے جس میں بدر کے غنائم کو تقسیم کیا گیا، مگر یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ خمس سے ہو اگرچہ بدر کے غنائم سے خمس نہ بھی نکالا گیا ہو، ( وہ) سریہ حضرت عبداللہ بن جحش ؓ کے خمس میں سے ہو، کیونکہ وہی پہلا مال غنیمت ہے جو اسلام میں حاصل ہوا اور پہلا خمس ہے جو اسلام میں نکالا گیا تھا۔ بعد ازاں قرآن کریم میں آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ ارشاد نازل ہوا۔ اور یہ پہلی تاویل سے اولی اور بہتر ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 9 قول باری تعالیٰ : آیت : ما غنمتم میں ما بمعنی الذی ہے اور اس میں ھا ضمیر محذوف ہے۔ (اصل میں) الذی غنمتموہ ہے۔ اور اس میں (یعنی فان فیہ) فا داخل کی گئی ہے کیونکہ کلام میں مجازات کے معنی ہیں اور دوسرا ان پہلے کے لیے تاکید ہے۔ اور اس پر کسرہ پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور یہ ابو عمرو سے مروی ہے۔ حسن نے کہا ہے : یہ مفتاح کلام ہے۔ دنیا اور آخرت اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے، اسے نسائی نے ذکر کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فئی اور خمس کے بارے کلام کا آغاز اپنی ذات کے ذکر سے کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں انتہائی اشرف واعلی کسب ( کمائی) ہیں اور صدقہ کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا ہے، کیونکہ وہ لوگوں کی میل ہے۔ مسئلہ نمبر : 10 خمس کی تقسیم کی کیفیت میں علماء کے مابین اختلاف ہے اس بارے چھ اقول ہیں : (1) ایک جماعت نے کہا ہے : خمس کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، پس چھٹا حصہ کعبہ معظمہ کے لیے رکھا جائے گا اور یہی ہو حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اور دوسرا حصہ رسول اللہ ﷺ کے لیے ہوگا۔ تیسرا حصہ ذوی القربیٰ کے لیے۔ چوتھا یتامیٰ کے لیے۔ پانچواں حصہ مساکین کے لیے۔ اور چھٹا حصہ ابن سبیل کے لیے ہوگا۔ یہ قول کرنے والوں میں سے بعض نے کہا ہے : وہ حصہ جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے وہ حاجت مندوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ (2) ابو العالیہ اور ربیع نے کہا ہے : مال غنیمت پانچ حصوں پر تقسیم کیا جائے گا، پھر ان میں سے ایک حصہ الگ کرلیا جائے گا اور بقیہ چار حصے لوگوں میں تقسیم کردیئے جائیں گے، پھر اس جدا کیے گئے حصہ پر اپنا ہاتھ مارا جائے گا پس اس میں سے جس شی پر قبضہ کرلیا گیا اسے کعبہ معظمہ کے لیے مقرر کردیا جائے، پھر اس باقی ماندہ حصہ کو پانچ حصوں پر تقسیم کردیا جائے گا، ایک حصہ حضور نبی مکرم ﷺ کے لیے ہوگا، ایک حصہ ذوی القربیٰ کے لیے، ایک یتامیٰ کے لیے، ایک حصہ مساکین کے لیے اور ایک حصہ ابن سبیل کے لیے ہوگا۔ (3) منہال بن عمرو نے کہا ہے : میں نے عبداللہ بن محمد بن علی اور علی بن حسین سے خمس کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا : وہ ہمارے لیے ہے۔ میں نے علی کو کہا : بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت : والیتمی والمسکین وابن السبیل تو انہوں نے فرمایا : مراد ہمارے یتیم اور ہمارے مساکین ہیں۔ (4) امام شافعی (رح) نے کہا : اسے پانچ حصوں پر تقسیم کیا جائے گا۔ اور آپ نے اللہ تعالیٰ اور رسول مکرم ﷺ کے حصہ کو ایک قرار دیا ہے اور یہ کہ اسے مومنین کے مصالح میں خرچ کیا جائے گا۔ اور بقیہ چار حصے آیت میں مذکور چار صنفوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ (5) امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : اسے تین حصوں پر تقسیم کیا جائے گا : یتامی، مساکین اور ابن سبیل پر۔ اور آپ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا حکم آپ کے وصال کے ساتھ ختم ہوچکا ہے، جیسا کہ آپ کے اپنے حصہ کا حکم ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے : خمس کو پلوں کی اصلاح، مساجد کی تعمیر، قضاۃ اور لشکریوں کی تنخواہ وغیرہ کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ اسی طرح کا حکم امام شافعی (رح) سے بھی مروی ہے۔ (6) امام مالک (رح) نے کہا ہے : اسے امام کی رائے اور اجتہاد کے سپرد کردیا جائے گا۔ پس وہ اس سے بغیر اندازے کے لے سکتا ہے اور اس سے اجتہاد کے ساتھ رشتہ داروں کو دے سکتا ہے اور باقی ماندہ مسلمانوں کے مصالح کے لیے خرچ کرے گا۔ اسی طرح خلفاء اربعہ ؓ نے کہا ہے اور اسی کے مطابق عمل کیا ہے۔ اور اس پر رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے : مالی مما افاء اللہ علیکم الا الخمس والخمس مردود علیکم (السنن اکبری، للبہیقی، کتاب الصدقات، جلد 7، صفحہ 17) ” اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مال غنیمت عطا فرمایا ہے میرے لیے اس میں سے سوائے خمس کے کچھ نہیں اور خمس بھی تم پر لوٹا دیا جائے گا “۔ کیونکہ آپ نے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور نہ تین حصوں میں اور آیت میں جو ذکر کیا گیا ہے وہ محض ان پر تنبیہ کے لیے ذکر کردیا گیا، کیونکہ وہ ان میں سے زیادہ اہم ہیں جنہیں وہ دیا جاسکتا ہے۔ زجاج نے امام مالک (رح) کیلیے حضت بیان کرتے ہوئے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل ” آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ؟ آپ فرمائیے : جو کچھ خرچ کرو ( اپنے) مال سے تو اس کے مستحق تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور مسکین ہیں اور مسافر ہیں “۔ اور آدمی کے لیے بالاجماع ان اصناف کے علاوہ کہیں اور خرچ کرنا جائز ہے جب وہ اسے زیادہ مستحق سمجھے۔ اور نسائی نے حضرت عطاء سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ کا خمس اور اس کے رسول معظم ﷺ کا خمس ایک ہی ہے، رسول اللہ ﷺ اس سے لیتے تھے اور اس سے عطا بھی فرماتے تھے اور اسے جہاں چاہتے خرچ کرتے اور اس سے جو چاہتے بناتے۔ مسئلہ نمبر 11 قولہ تعالیٰ : آیت : ولذی القربی اس میں لام بیان استحقاق اور ملکیت کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ مصرف اور محل بیان کرنے کے لیے ہے اور اس پر دلیل وہ روایت ہے جسے مسلم (رح) نے روایت کیا ہے کہ فضل بن عباس اور ربیعہ ابن عبدا لمطلب دونوں حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس آئے، ان میں سے ایک نے گفتگو کی اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ آپ تمام لوگوں سے زیادہ نیک ہیں (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 344) اور عام لوگوں سے بڑھ کر آپ لوگوں کو ملانے والے ہیں۔ تحقیق ہم نکاح کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ہم آپ کے پاس حاضر ہیں تاکہ آپ ہمیں ان بعض صدقات پر امارت عطا فرما دیجئے، تو ہم آپ کو اسی طرح ادا کریں گے جیسے لوگ ادا کرتے ہیں اور ہم اسی طرح حصہ دیں گے جیسے لوگ دیتے ہیں۔ پس آپ ﷺ طویل وقت تک خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے آپ سے کلام کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ فرماتے ہیں : حضرت زینب ؓ پردے کے پیچھے سے ہمیں اشارہ فرما رہی تھیں کہ تم آپ سے کلام نہ کرنا۔ راوی کا بیان ہے : پھر آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک صدقہ آل محمد ﷺ کے لیے حلال نہیں بلاشبہ وہ لوگوں کی میل ہے، تم دونوں محمیہ کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔ وہ خمس پر مامور تھے۔ اور نوفل بن حارث بن عبد المطلب کو بلا کر لاؤ“۔ بیان فرمایا : پھر وہ دونوں آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے محمیہ کو فرمایا :” تو اس بچے یعنی فضل بن عباس کا نکاح اپنی بچی سے کر دے “۔ تو اس نے ان کا نکاح کردیا اور نوفل بن حارث کو فرمایا :” تو اس بچے یعنی ربیعہ بن عبدا لمطلب کا نکاح اپنی بیٹی سے کردے “ اور پھر محمیہ کو فرمایا : ” تو ان دونوں کی طرف سے خمس میں اتنا اتنا صدقہ کر دے “۔ اور وہ خمس بھی تم پر لوٹا دیا گیا ہے “۔ تحقیق آپ ﷺ نے مذکروہ تمام اصناف کو عطا کیا اور بعض کو بھی اور آپ نے اس میں سے مولفۃ قلوب کو بھی دیا۔ اور یہ ان میں سے نہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے تقسیم میں فرمایا ہے۔ پس یہ اس پر دلیل ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق بخشنے والا ہے۔ مسئلہ نمبر : 12 علماء نے ذوی القربی کے بارے میں اختلاف کیا ہے اور اس بارے میں تین اقول ہیں : (1) تمام کے تمام قریش، یہ قول بعض سلف نے کہا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ جب صفا پہاڑی پر چڑھے اور آپ بلند آواز سے پکارنے لگے :” اے بنی فلاں، اے بنی عبدمناف، اے بنی عبدالمطلب، اے بنی کعبہ، اے بنی مرہ، اے بنی عبد شمس اپنے آپ کو آتش جہنم سے بچا لو “ (الحدیث) عنقریب اس کا بیان سورة الشعراء میں آئے گا۔ (2) امام شافعی، امام احمد، ابو ثور، مجاہد، قتادہ، ابن جریج اور مسلم بن خالد رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے : وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں، کیونکہ حضور ﷺ نے جب ذوی القربی کا حصہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تو فرمایا : ” بلاشبہ انہوں نے مجھے جدا نہیں کیا نہ زمانہ جاہلیت میں اور نہ زمانہ اسلام میں بیشک بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب (مسند امام احمد بن حنبل، جلد 4، صفحہ 81) ایک ہی شے ہیں “۔ اور اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر کے جال بنایا، اسے نسائی اور بخاری نے روایت کیا ہے۔ امام بخاری (رح) نے کہا ہے : لیث نے بیان کیا کہ مجھے یونس نے بتایا اور یہ زائد بیان کیا : حضور نبی مکرم ﷺ نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کے لیے کوئی شے تقسیم نہیں کی۔ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے : عبدشمس، ہاشم، مطلب یہ سب ماں کی جانب سے بھائی ہیں اور ان کی ماں عاتکہ بنت مرہ تھی اور نوفل ان کے باپ کی جانب سے ان کا بھائی تھا۔ امام نسائی نے کہا ہے ؛ حضور نبی کریم ﷺ نے ذوی القربیٰ کو حصہ دیا اور وہ (ذوی القربی) بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں، ان میں غنی بھی ہیں اور فقیر بھی۔ اور یہ بھی کہا گیا : بیشک ان میں سے فقیر کے لیے تو حصہ ہے لیکن غنی کے لیے نہیں، جیسا کہ یتامی اور ابن سبیل کے لیے ہے۔ اور میرے نزدیک راہ صواب کے زیادہ قریب دونوں قولوں میں سے یہی ہے۔ واللہ اعلم۔ اس میں صغیر وکبیر اور مونث ومذکر سبھی برابر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان کے لیے قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ان میں اسے تقسیم فرمایا ہے۔ اور حدیث میں یہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہو۔ (3) ذوی القربیٰ سے مراد صرف بنو ہاشم ہیں۔ اسے مجاہد اور علی بن حسین نے بیان کیا ہے۔ اور یہی امام مالک، ثوری اور اوزاعی وغیرہم کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر 13 : جب اللہ تعالیٰ نے خمس کا بیان فرمایا ہے اور بقیہ چار حصوں سے سکوت فرمایا ہے، تو یہ اس پر دلیل ہے کہ وہ لشکریوں کی ملکیت ہیں۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے اپنے اس ارشاد کے ساتھ بیان کیا ہے :” جس بستی کے رہنے والوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ کی نافرمانی کی تو بلاشبہ اس بستی کا خمس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ کے لیے ہے پھر وہ تمہارے لیے ہے “ (سنن ابی داؤد، کتاب الخراج، صفحہ 74) ۔ اور یہ وہ ہے جس میں نہ امت کے درمیان اختلاف ہے اور نہ ہی ائمہ کے درمیان، جیسا کہ علامہ ابن عربی نے احکام وغیرہ میں بیان کیا ہے۔ مگر یہ کہ اگر امام قیدیوں کو رہا کر کے ان پر احسان کرنا چاہے تو وہ کرلے۔ اور ان میں غانمین کے حقوق باطل ہوجائیں گے، جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ثمامہ بن اثال وغیرہ کے ساتھ کیا اور فرمایا : ” اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا پھر وہ ان قیدیوں (مراد بدر کے قیدی ہیں) کے بارے گفتگو کرتا تو میں اس کے لیے انہیں چھوڑ دیتا “ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الجہاد، جلد 5، صفحہ 209) ۔ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے درحقیقت قریش مکہ کے معاہدہ کو توڑنے میں اس نے جو کردار ادا کیا تھا اس کے بدلہ کے لیے آپ نے یہ فرمایا : اور امام کو اختیار ہے کہ وہ تمام قیدیوں کو قتل کر دے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے عقبہ بن ابی معیط کو قیدیوں کے درمیان سے پکڑ کر قتل کردیا اور اسی طرح نضر بن حارث کو صفراء کے مقام پر پکڑ کر قتل کیا اور یہ وہ حکم ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کے لیے دوسرے لشکریوں کے حصہ کی طرح حصہ ہوتا تھا چاہے آپ جنگ میں حاضر ہوتے یا وہاں سے غائب ہوتے۔ اور صفی کا حصہ بھی ہوتا، آپ تلوار، تیر یا خادم یا کوئی جانورچن سکتے تھے۔ حضرت صفیہ بن حیی خیبر کے غنائم میں سے چنی ہی گئی تھیں ( سنن ابی داود، کتاب الخراج، حدیث نمبر 2600) ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور اسی طرح ذوالفقار (حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کی تلوار کا نام ہے) بھی صفی میں سے تھی (جامع ترمذی، حدیث نمبر 1485۔ سنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2797، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور یہ حصہ آپ ﷺ کے وصال کے ساتھ ختم ہوگیا۔ مگر ابو ثور کے نزدیک اب بھی امام وقت کے لیے یہ حصہ باقی ہے وہ اسے حضور نبی کریم ﷺ کے حصے کے استعمال کی جگہ استعمال کرسکتا ہے۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ اہل جاہلیت اپنے سردار کے لیے مال غنیمت کا چوتھائی حصہ رکھتے تھے۔ ان کے شاعر نے کہا ہے : لک المریاع منھا والصفایا وحکمک والنشیطۃ والفضول اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : منا الذی ربع الجیوش لصلبہ عشرون وھو یعد فی الاحیاء کہا جاتا ہے : ربع الجیش یریعہ رباعۃ جب وہ مال غنیمت کا چوتھائی حصہ لے لے۔ اصمعی نے کہا ہے : جاہلیت میں چوتھائی حصہ تھا اور اسلام میں پانچوں حصہ ہے۔ پس اس وقت سردار بغیر کسی شریعت اور دین کے مال غنیمت سے چوتھائی حصہ لیتا تھا اور اس سے جو چاہتا چن لیتا تھا، پھر صفی کے بعد جس شی کے بارے چاہتا اسی کے مطابق وہ فیصلہ کردیتا اور گھریلو سامان اور دیگر سازوسامان میں سے کوئی شی جو اس سے الگ ہوتی اور اس سے بچتی وہ اس کے لیے ہوتی، پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ساتھ اس کے لیے دین کا حکم نافذ فرمایا : آیت : واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ اور اپنے محبوب ﷺ کے لیے صفی (چناؤ) کا حصہ باقی رکھا اور زمانہ جاہلیت کا حکم ساقط کردیا۔ اور عامر شعبی نے کہا ہے : رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک حصہ تھا وہ صفی کہلاتا تھا اگر آپ ﷺ کسی غلام یا کنیز یا گھوڑے میں سے چاہتے تو آپ اسے خمس نکالنے سے پہلے چن سکتے تھے، اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے انہوں نے بیان کیا : پس کسی غلام سے ملتے اور کہتے :” اے فلاں ! کیا میں نے تجھے عزت عطا نہیں کی اور تجھے سردار نہیں بنایا اور تیری شادی نہیں کروائی اور تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ کو مسخر نہیں کیا اور تجھے چھوڑ نہیں دیا تو سردار بن جا اور چوتھائی لے “ (صحیح مسلم، کتاب الزہد، جلد 2، صفحہ 409) الحدیث۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اس حدیث میں تریع کا معنی ہے تاخذ المریاع یعنی تیری قوم کو غنائم اور دیگر کمائی میں سے جو مال حاصل ہوتا ہے اس سے چوتھائی لے۔ بعض اصحاب شافعی (رح) اس طرف گئے ہیں کہ خمس کا خمس حضور نبی مکرم ﷺ کے لیے تھا آپ اسے اپنی اولاد اور اپنی ازواج مطہرات کی حاجات پورا کرنے کے لیے خرچ کرتے تھے اور اپنے سال بھر کی خوراک اس سے ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اور باقی ماندہ گھوڑوں اور اسلحہ وغیرہ میں خرچ کرتے تھے۔ اسے وہ روایت رد کرتی ہے جسے حضرت عمر ؓ نے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : بنی نضیر کے اموال ان میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول معظم ﷺ کو عطا فرمائے لیکن اس پر مسلمانوں نے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ کوئی سعی نہیں کی، پس وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے خاص تھے، آپ اس میں سے اپنی ذات پر سال بھر کی خوراک خرچ کرتے تھے اور ما بقی فی سبیل اللہ گھوڑوں اور اسلحہ کی تیاری میں خرچ کردیا کرتے تھے۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ اور فرمایا : والخمس مردود علیکم ” اور خمس بھی تم پر لوٹا دیا گیا “۔ مسئلہ نمبر 14 کتاب اللہ میں گھوڑ سوار کو پیدل پر فضیلت دینے کے بارے کچھ نہیں ہے، بلکہ اس میں یہ ہے کہ وہ سب برابر ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خمس کے بعد بقیہ چار حصے ان کے لیے رکھے ہیں اور اس میں پیدل کو گھوڑ سوار سے خاص نہیں کیا۔ اگر حضور نبی مکرم ﷺ سے اخبار وارد نہ ہوتیں تو یقینا گھوڑ سوار پیدل کی طرح ہوتا، غلام آزاد کی مثل ہوتا اور بچہ بالغ کے برابر ہوتا۔ علماء نے چار حصوں کی تقسیم میں اختلاف کیا ہے، پس وہ موقف جو اس بارے میں عام اہل علم نے اپنایا ہے اسے ابن منذر نے ذکر کیا ہے کہ گھوڑ سوار کو دو حصے دیئے جائیں گے اور پیدل کو ایک حصہ۔ اور جنہوں نے یہ کہا ہے ان میں امام مالک بن انس ہیں اور اہل مدینہ میں سے جو ان کے متبعین ہیں۔ اسی طرح امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے اور اہل شام میں سے وہ جنہوں نے ان سے موافقت کی ہے۔ اور اسی طرح ثوری اور اہل عراق میں جو ان کے ہم خیال ہیں نے کہا ہے اور یہی لیث بن سعد کا قول ہے اور ان اہل مصر میں سے جنہوں نے ان کی اتباع کی ہے۔ اور اسی طرح امام شافعی (رح) اور ان کے اصحاب نے کہا ہے۔ اسی کے مطابق امام احمد بن حنبل، اسحاق، ابو ثور، یعقوب اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : ہم کسی کو نہیں جانتے سوائے حضرت نعمان ( امام ابو حنیفہ) کے جس نے اس میں اختلاف کیا ہو، کیونکہ آپ نے اس میں سنن اور جس نظریہ پر قدیم و جدید عظیم اہل علم ہیں سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے : گھوڑ سوار کو بھی صرف ایک حصہ دیا جائے گا۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : شاید اس پر حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے شبہ واقع ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑ سوار کے لیے دو حصے رکھے اور پیدل کے لیے ایک حصہ۔ اسے دار قطنی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : رمادی نے کہا ہے اسی طرح ابن نمیر کہتے ہیں کہ ہمیں نیشاپوری نے بتایا : یہ میرے نزدیک ابن ابی شیبہ یا رمادی کی جانب سے وہم ہے۔ کیونکہ امام احمد بن حنبل اور عبدالرحمن بن بشر وغیرہما نے اسے حضرت ابن عمر ؓ سے اس کے خلاف روایت کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے آدمی اور اس کے گھوڑے کے لیے تین حصے مقرر کیے، ایک حصہ آدمی کے لیے اور دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے (مسند امام احمدبن حنبل، جلد 2، صفحہ 41 ) ۔ اسی طرح اسے عبدر الرحمن ابن بشر نے عبداللہ بن نمیر سے انہوں نے عبیداللہ بن عمر سے انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور پوری حدیث ذکر کی ہے۔ اور صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑے کے لیے دو حصے اور اس کے مالک کے لیے ایک حصہ مقرر کیا (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 401) ۔ اور یہ نص ہے۔ اور تحقیق دار قطنی نے حضرت زبیر ؓ سے بھی روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن مجھے چار حصے عطا فرمائے، دو حصے میرے گھوڑے کے لیے، ایک حصہ میرے لیے اور ایک حصہ ذوی القرابہ میں سے میرے ماں کے لیے۔ اور ایک روایت میں ہے : اور ایک حصہ ان کی ماں کے لیے تھا وہ ذوی القربی کا حصہ تھا۔ اور انہوں نے بشر بن عمرو بن محصن سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے میرے گھوڑے کے لیے چار حصے عطا فرمائے اور میرے لیے ایک حصہ، پس میں نے پانچ حصے لیے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک یہ امام کے اجتہاد کی طرف راجع ہے ( یعنی ان کے سپرد ہے) جو اس کی رائے ہوگئی وہ نافذ ہوجائے گی۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر : 15 گھڑ سوار اور پیدل کے درمیان ایک سے زیادہ گھوڑوں کے ساتھ فرق نہیں کیا جائے گا ( یعنی گھڑ سوار کے لی صرف ایک گھوڑے کا اعتبار ہوگا اس سے زائد گھوڑوں کا اعتبار نہ ہوگا۔ ) یہی امام شافعی (رح) نے کہا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : ایک سے زیادہ گھوڑوں کا حصہ بھی دیا جائے گا، کیونکہ اس کی مشقت زیادہ ہے اور منفعت عظیم ہے۔ اس کے مطابق ہمارے اصحاب میں سے ابن الجہم نے بیان کیا ہے اور اسے سحنون نے ابن وہب سے روایت کیا ہے اور ہماری دلیل یہ ہے کہ حضور بنی مکرم ﷺ سے مروی اس روایت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے ایک گھوڑے سے زیادہ کو حصہ عطا فرمایا اور اسی طرح آپ کے بعد ائمہ بھی ہیں، کیونکہ دشمن کے لیے قتال کرنا ممکن نہیں ہے مگر صرف ایک گھوڑے پر اور جو اس سے زائد ہوں گے وہ محض تیاری میں زیادتی اور سہولت و آسانی کے لیے ہوں گے۔ اور وہ حصوں کی زیادتی میں موثر نہیں ہوں گے۔ تو یہ اس کی طرح ہے جس کے پاس زیادہ تلواریں یا نیزے ہوں اور اس میں قیاس تیسرے اور چوتھے نمبر کا ہے۔ اور سلیمان بن موسیٰ سے روایت ہے : اس کے لیے حصہ نکالا جائے گا جس کے پاس گھوڑے ہوں۔ ہر گھوڑے کے لیے ایک حصہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر 16 صرف عربی گھوڑوں کا حصہ دیا جائے گا، کیونکہ ان میں کروفر ہے اور رومی گھوڑے اس معاملہ میں ان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ اور جو اس طرح نہیں ان کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اگر امام وقت ان کی اجازت دے دے تو پھر ان کے لی حصہ بھی نکالے، کیونکہ گھوڑوں کے ساتھ نفع حاصل کرنا جگہ کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے۔ پس رومی گھوڑے کٹھن اور مشکل جگہوں میں کام کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں مثلا گھاٹیاں اور پہاڑ وغیرہ اور عربی گھوڑے ایسی جگہوں میں زیادہ کام آتے ہیں جن میں کروفر ( بار بار پلٹ کر حملہ کرنا) ہوتا ہے، پس یہ امام کی رائے کے متعلق ہوگا۔ کتاب میں العتاق سے مراد عربی گھوڑے ہیں اور الھجن والبراذین سے مراد رومی گھوڑے ہیں۔ مسئلہ نمبر 17 ہمارے علماء نے ضعیف اور کمزور گھوڑے کے بارے اختلاف کیا ہے۔ پس اشہب اور ابن نافع نے کہا ہے : اس کے لیے کوئی حصہ نہ نکالا جائے گا، کیونکہ ایسے گھوڑے پر جنگ کرنا ممکن نہیں ہوتی پس وہ ٹوٹے ہوئے (کسیر) کے مشابہ ہوجائے گا۔ اب رہا مریض ! تو اگر اسے ہلکی سی بیماری ہو مثلا رہیص (گھوڑے کے کھر کے اندر زخم اور درد ہونا) اور اسی طرح کی کوئی ایسی بیماری جو اس سے مطلوبہ منفعت کے حصول میں مانع نہ ہو تو اس کے لیے حصہ نکالا جائے گا۔ اور ادھار لیے ہوئے اور اجرت پر لیے ہوئے گھوڑے کو حصہ دیا جائے گا۔ اور اسی طرح مغصوبہ گھوڑے کا حصہ بھی دیا جائے گا۔ اور اس کا حصہ اسکے مالک کے لیے ہوگا۔ اور وہ گھوڑے کے لیے حصہ کا مستحق ہوجاتا ہے اگرچہ وہ کشتیوں میں ہوں اور غنیمت سمندر میں حاصل ہو، کیونکہ وہ خشکی کی طرف اترنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ مسئلہ نمبر : 18 فالتو اور رذیل لوگوں کے لیے غنائم میں کوئی حق نہیں جیسا کہ مزدور اور وہ کاریگر جو کاروبار کے لیے لشکر کے ساتھ ہوجاتے ہیں، کیونکہ نہ وہ جنگ کا قصد کرتے ہیں اور نہ مجاہدین بن کر نکلتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ان کو حصہ دیا جائے گا، کیونکہ حضور بنی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : الغنیمۃ لمن شھد الواقعۃ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، جلد 2، صفحہ 440) ( جو جنگ میں حاضر ہوا اس کے لیے غنیمت ہے) اسے امام بخاری (رح) نے نقل کیا ہے۔ اس میں اس بارے کوئی حجت نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث اس کے بیان اور وضاحت کے لیے ہے جو عملا جنگ میں شریک ہوا اور اس کی طرف نکلا اور جنگجو اور اہل معاش (تجار) مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا بیان کافی ہے اس حدیث سے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دو الگ الگ فرقے قرار دیا ہے، ہر ایک کے لیے حکم اس کی حالت کے مطابق ہے، پس ارشاد فرمایا : آیت : علم ان سیکون منکم مرضی واخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ واخرون یقاتلون فی سبیل اللہ (المزمل : 20) ” وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم میں سے کچھ بیمار ہوں گے اور کچھ سفر کرتے ہوں گے زمین میں تلاش کر رہے ہوں گے اللہ کے فضل (رزق حلال) کو اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوں گے “۔ مگر یہ کہ جب یہ لوگ (تجار) جنگ میں شریک ہوں پھر ان کا اپنے کاروبار میں مشغول ہونا ان کے لیے ضرر رساں نہیں، کیونکہ اب مال غنیمت میں استحقاق کا سبب ان کی جانب سے پایا گیا ہے۔ اور اشہب نے کہا ہے : ان میں سے کوئی اس کا مستحق نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ قتال بھی کرے، اسی طرح ابن قصار نے اجیر (مزدور) کے بارے کہا ہے کہ اس کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوگا اگرچہ وہ عملا جنگ میں شریک ہو۔ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کی حدیث اس کا رد کرتی ہے انہوں نے فرمایا : میں طلحہ بن عبیداللہ کے تابع تھا میں اس کے گھوڑے کو پانی پلاتا تھا اور اس پر کھریرا مارتا تھا اور اس کی خدمت کیا کرتا تھا اور اس کے کھانے میں سے کھا لیتا تھا، الحدیث۔ اس میں ہے : پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھے دو حصے عطا فرمائے، ایک گھوڑ سوار کا حصہ اور ایک پیدل کا حصہ، پس آپ نے دونوں کو میرے لیے جمع کردیا۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ ابن قصار اور جس نے اس کے قول کے مطابق قول کیا ہے اس نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اسے عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے، اور اس میں ہے : پس رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن ؓ کو فرمایا : ” یہ تین دینار اس کی دنیا اور آخرت کے معاملہ میں اس کی جنگ میں سے حصہ اور نصیب ہیں “ (مصنف عبدالرزاق، کتاب الجہاد، جلد 5، صفحہ 229، سنن ابی داود، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2165، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ مسئلہ نمبر : 19 رہے غلام اور عورتیں ! تو صاحب کتب کا مذہب یہ ہے کہ نہ ان کے لیے کوئی حصہ نکالا جائے گا اور نہ انہیں بچا کھچا سامان دیا جائے گا۔ اور یہ بھی کا ہ گیا ہے کہ انہیں بچا کچھا تھوڑا تھوڑا مال دے دیا جائے گا۔ اور جمہور علماء نے یہی کہا ہے۔ اور امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : اگر عورت نے عملا قتال کیا تو اس کے لیے حصہ نکالا جائے گا۔ اور ان کا گمان یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خبیر کے دن عورتوں کو حصص عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا : ہمارے نزدیک مسلمانوں نے اسی سے اخذ کیا ہے۔ اور ہمارے اصحاب میں سے ابن حبیب بھی اسی قول کی طرف مائل ہیں۔ امام مسلم (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے نجدہ کی طرف اپنے خط میں لکھا : تو مجھ سے سوال کرتا ہے کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو جنگ میں ساتھ لے جاتے تھے ؟ تحقیق آپ ﷺ انہیں غزوہ میں ساتھ لے جاتے اور وہ زخمیوں کی مرہم پٹی علاج وغیرہ کرتی اور انہیں مال غنیمت میں سے کچھ عطیہ دیا جاتا تھا اور رہا سہم (حصہ) تو ہو آپ نے انہیں نہیں دیا۔ اور جہاں تک بچوں کا تعلق ہے پس اگر وہ جنگ لڑنے کی طاقت رکھتے ہوں تو ہمارے نزدیک اس بارے میں تین اقول ہیں : سہم مقرر کرنا اور سہم کی نفی یاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے ( بالغ ہونے سے پہلے اس کے لیے مال غنیمت سے سہم نہیں ہے) اس کی وجہ حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہما نے یہی کہا ہے۔ ان کے درمیان فرق کرنا اس طرح کہ اگر وہ (بچہ) عملا جنگ میں شریک ہو تو اس کے لیے حصہ نکالا جائے گا اور اگر اس نے قتال نہیں کیا تو پھر اس کے لیے حصہ نہیں ہوگا۔ صحیح پہلا قول ہے، کیونکہ بنی قریطہ کے بارے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم ارشاد فرمایا تھا کہ ان میں سے ان بچوں کو قتل کردیا جائے جن کے بال پھوٹے ہوئے ہیں اور انہیں چھوڑ دیا جائے جن کے بال ابھی تک نہیں نکلے۔ اور اس میں جنگ کی طاقت رکھنے کا لحاظ رکھا گیا نہ کہ بالغ ہونا کا ( 1) ۔ اور ابو عمر نے ” الاستیعاب “ میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے پاس انصار کے بچوں کو پیش کیا جاتا تھا پس آپ ﷺ ان میں سے صاحب ادراک کو (لشکر کے ساتھ) ملا دیتے۔ تو ایک سال مجھے آپ پر پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے ایک بچے کو ملحق کرلیا اور مجھے رد کردیا۔ تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ آپ نے اسے شامل کرلیا ہے اور مجھے واپس لوٹا دیا ہے، حالانکہ اگر وہ مجھ سے کشتی لڑے تو میں اسے پچھاڑ ستکتا ہوں۔ راوی کا بیان ہے : پس ان سے مجھ سے کشتی لڑی تو میں نے اسے پچھاڑ دیا نتیجتا آپ ﷺ نے مجھے بھی ملا لیا (2) ۔ رہے غلام ! تو ان کے لیے بھی نہ کوئی حصہ نکالا جائے گا اور انہیں حقیر سا مال دیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 20 ۔ کافر جب امام وقت کی اجازت سے جنگ میں حاضر ہوا اور وہ عملاً قتال بھی کرے تو ہمارے نزدیک اس کو حصہ دینے کے بارے میں تین اقوال ہیں : سہم دینا اور اس کی نفی کرنا۔ اس کے مطابق امام مالک اور ابن قاسم نے کہا ہے۔ ابن حبیب نے یہ زائد کہا ہے کہ ان کے لئے کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اور تیسرے میں تفریق کی جاتی ہے۔ اور وہ سخنون کا ہے۔ ( فرق اس قدر ہے) کہ اگر مسلمان ذاتی اعتبار سے مستقبل اور طاقتور ہوں تو پھر کافر کو کوئی حصہ نہ دیا جائے گا۔ اور اگر وہ مستقل نہ ہوئے اور انہیں کافر کی مدد کی ضرورت اور حاجت ہوئی تو اسے حصہ نہ دیا جائے گا۔ اور اگر عملاً جنگ میں شریک نہ ہوا تو وہ کسی شے کا مستحق نہ ہوگا۔ اسی طرح آزاد آدمیوں کے ساتھ غلاموں کا حکم دیا جائے گا۔ امام ثوری اور امازاعی (رح) نے کہا ہے : انہیں کوئی حصہ نہ دیا جائے، البتہ انہیں بچا کچھا حقیرسا مال دے دیا جائے گا۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : امام وقت مطلق مال کے ساتھ انہیں اجرت پر لے سکتا ہے نہ کہ بعینہ تیرا مال اس کے لئے ہوگا۔ اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو حضور نبی مکرم ﷺ کا حصہ انہیں دے دے۔ اور دوسرے مقام پر کہا ہے : وہ مشرکین کو بچا کچھا تھوڑا سا مال دے سکتا ہے جب وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر قتال کریں۔ ابو عمر نے کہا ہے : تمام اس پر متفق ہیں کہ غلام ان افراد میں سے ہیں جن کی امان جائز ہوتی ہے، جب وہ قتال کریں۔ ابو عمر نے کہا ہے : تمام اس پر متفق ہیں کہ غلام ان افراد میں سے ہیں جن کی امان جائز ہوتی ہے، جب وہ قتال کرے تو اس کے لیے سہم نہیں ہوگا بلکہ اسے بچا کچا تھوڑا، سا مال دے دیا جائے گا، پس کافر کے لئے بدرجہ اولیٰ یہ حکم ہوگا کہ اسے سہم نہیں دیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر :21 ۔ اگر غلام اور اہل ذمہ چوری کرنے کے لیے نکلے اور وہ اہل حرب کا مال لے کر آگئے تو وہ انہیں کا ہوگا، اس کا خمس نہیں نکالا جائے گا، کیونکہ ان میں سے کوئی آیت کے عموم میں داخل نہیں ہے : واعلموا انماغومتم من شیء فان للہ خمسہ اور نہ ہی کوئی عورت اس عموم میں داخل ہے۔ اور رہے کفار تو ان کا بغیر کسی اختلاف کے کوئی دخل نہیں ہے۔ اور سحنون نے کہا ہے : جو غلام کے قائم مقام ہوگا اس کا خمس نہیں نکالا جائے گا۔ اور ابن القاسم نے کہا ہے : خمس نکالا جائے گا، کیونکہ یہ جائز ہے کہ اس کا آقا اسے جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے اور وہ دین کی خاطر جنگ لڑے، بخلاف کفار کے۔ اشہب نے کتاب محمد میں کہا ہے : جب گلام اور ذمی لشکر سے نکلیں اور مال غنیمت لے آئیں تو وہ مال غنیمت ان کے سوا لشکر کے لیے بھی ہوگا۔ مسئلہ نمبر 22 ۔ سہم کے استحقاق کا سبب مسلمانوں کی مدد و نصرت کے لیے جنگ میں حاضر ہونا ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ پس اگر کوئی جنگ کے آخر میں بھی شریک ہوگا تو وہ اس کا مستحق ہوگا۔ اور اگر کوئی جنگ ختم ہونے کے بعد حاضر ہوا تو وہ مال غنیمت میں سے سہم ( حصہ) کا مستحق نہ ہوگا اور اگر وہ شکست خوردہ ہو کر غائب ہوگیا تو اس کا حکم بھی اسی طرح ہے۔ اور اگر وہ جماعت کے ساتھ ملنے کے ارادہ سے نکلا ( تاکہ قوت کے ساتھ پلٹ کر آئے) تو اس کا استحقاق ساقط نہ ہوگا۔ امام بخاری اور ابودائود رحمتہ اللہ علیہا نے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابان بن سعید کو ایک سر یہ پر مدینہ طیبہ سے نجد کی جانب بھیجا۔ تو حضرت ابان بن سعید اور ان کے ساتھ اسے فتح کرنے کے بعد خبیر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آملے اور ان کے گھوڑوں کے تنگ ( کھجور کی) چھال کے تھے۔ تو حضرت ابان ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ انہیں تقسیم نہ کیجئے۔ تو حضرت ابان نے کہا : اے وبر ( بلی کی مثل چھوٹا سا جانور) تو اس کے ساتھ بیری کے اوپر سے ہمارے اوپر نیچے اترا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ انہیں نے فرمایا : اے ابان بیٹھ جاـ“ (1) اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں تقسیم فرمایا۔ مسئلہ نمبر 23 ۔ علماء کا ان کے بارے میں اختلاف ہے جو کوئی جنگ میں شریک ہونے کے لئے نکلا پھر کسی عذر نے اسے اس سے روک دیا جیسا کہ بیماری وغیرہ، اس کے سہم کے ثابت ہونے اور اس کی نفی میں تین قول ہیں : تیسرے میں فرق کیا گیا ہے اور وہی مشہور ہے۔ پس سہم اس کے لئے ثابت ہوگا اور عذر کے سبب اس کا جنگ سے غائب ہونا جنگ شروع ہونے سے پہلے اور میدان جنگ میں داخل ہونے کے بعد ہو، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ علامہ ابن عربی نے یہی کہا ہے۔ اور اگر اس کا غائب ہونا اس سے پہلے ہو تو وہ اس کے لیے سہم کی نفی کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ وہ آدمی جسے امیر لشکر سے ایسے کام کے لیے بھیجا جو لشکر کے لیے نفع بخش تھا اور وہ جنگ میں شریک ہونے کی بجائے اس میں مشغول رہا تو اس کے لیے سہم ہوگا۔ یہ ابن المواز نے کہا ہے، اور اسے ابن وہب اور ابن نافع نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ اس کے لیے سہم نہیں ہوگا بلکہ اسے بچا کچھا تھوڑا سا مال دیا جائے گا، کیونکہ وہ سبب معدوم ہے جس کے ساتھ وہ سہم کا مستحق ہو سکتا ہے۔ واللہ علم اور اشہب نے کہا ہے : قیدی کا حصہ دیا جائے گا اگرچہ وہ پڑوس میں ہو۔ اور صحیح قول یہ ہے کہ اسے حصہ نہیں دیا جائے گا، کیونکہ اس کے لیے جنگ کے ساتھ حاصل ہونے والی ملک ضروری ہے۔ پس جاغائب ہوا یا حالت مرض میں حاضر ہوا توہ وہ اس کی طرح ہے جو حاضر نہیں ہوا۔ مسئلہ نمبر 24 ۔ جو مطلق غائب ہوا اس کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا اور رسول اللہ ﷺ نے یوم خبیر کے سوا کبھی بھی کسی غائب کو حصہ نہیں دیا، کیونکہ اس دن آپ ﷺ نے اہل حدیبیہ میں سے جو حاضر تھے اور جو غائب تھے سبھی کو ان کا حصہ دیا، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے وعد کم اللہ مغانم کثیرۃ تاخذو نھا ( الفتح :20) ’( اے غلامان مصطفیٰ ! ) اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے جنہیں تم ( اپنے وقت پر) حاصل کرو گے “۔ یہ موسیٰ بن عقبہ نے کہا ہے۔ اور سلب کی پوری جماعت سے یہ مروی ہے۔ اور بدر کے دن حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت عثمان، حضرت سعید بن زید اور حضرت طلحہ ؓ کو حصہ عطا فرمایا حالانکہ وہ غائب تھے، پس وہ ان کی طرح تھے جو وہاں حاضر تھے انشاء اللہ تعالیٰ ، چونکہ حضرت عثمان ؓ اپنی رفیقہ حیات بنت رسول ﷺ نے انہیں ان کا حصہ اور اجر عطا فرمایا لہٰذا وہ ان کی طرح ہوئے جو وہاں حاضر تھے۔ اور رہے حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ تو وہ تجارت کے لیے شام میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بھی ان کا حصہ اور اجر عطا فرمایا۔ پس اس وجہ سے وہ دل بدر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اور رہے حضرت سعید بن زیدی ؓ تو وہ بھی شام میں غائب تھے اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں بھی ان کا حصہ اور اجر عطا فرمایا اور بدری صحابہ کرام میں شمار ہوئے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : جہاں تک اہل حدیبیہ کا تعلق ہے تو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے وعدہ تھا اس کے ساتھ وہی لوگ مختص ہیں اور اس میں ان کے علاوہ کوئی دوسرا ان کے ساتھ شریک نہیں۔ حضرت عثمان، سعید اور طلحہ ؓ کے بارے میں احتمال ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو خمس سے حصص عطا فرمائے ہوں، کیوں کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ جو کوئی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تو اس کے لیے سہم نہ ہوگا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ظاہر یہ ہے کہ وہ حضرت عثمان، طلحہ اور سعید ؓ کے ساتھ مخصوص ہے لہٰذا ان پر دوسروں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اور بلا شبہ ان کا حصہ اصل مال غنیمت سے تھا ان تمام افراد کے حصص کی طرھ جو وہاں حاضر تھے وہ خمس میں سے نہ تھا۔ یہی احادیث سے ظاہر ہے، واللہ اعلم۔ امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا : جب حضرت عثمان ؓ بدر سے غائب ہوئے ( اس کی وجہ یہ تھی) کیونکہ آپ کے نکاح میں حضور نبی رحمت ﷺ کی صاحبز ادی تھی اور وہ بیمار تھیں، تو رسول ﷺ نے انہیں فرمایا : ” بیشک تمہارے لیے اس آدمی کا اجرا اور حصہ ہے جو غزوہ بدر میں حاضر تھا “ (1) ۔ مسئلہ نمبر 25 ۔ قولہ تعالیٰ : ان کنتم امنتم باللہ ز جاج نے ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ اس کا معنی ہے پس تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے اگر تم پر ایمان رکھتے ہو ( فاعلموان اللہ ان کنتم) تو اس میں ان اس وعدہ کے ساتھ متعلق ہے۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے : بیشک ان قول باری تعالیٰ واعلمو انما غنمتم کے متعلق ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہی صحیح ہے، کیونکہ قول تعالیٰ واعلموا امر غنائم کے بارے میں اللہ کے حکم کی پیروی کرنے اور اس کو تسلیم کرنے کے معنی کو متضمن ہے۔ پس اس معنی کی بنا پر ان، واعلمو کے ساتھ معلق ہوا، یعنی اگر تم اللہ کے ساتھ ایمان رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرو اور اسے تسلیم کرو اس بارے میں جو مال غنیمت کے بارے میں، میں تمہیں آگاہ کر رہا ہوں۔ قولہ تعالیٰ : وما انزلنا علی عبدنا یوم الفرقان اس میں مامحل جر میں ہے اور اس کا عطف اسم اللہ پر ہے، یوم الفرقان سے مراد وہ دن ہے جس میں حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا گیا اور عزوہ بدر کا دن ہے۔ یوم التقی الجسعن الفرقان سے مراد وہ دن ہے جس میں حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا گیا اور وہ غزوہ بدر کا دن ہے۔ یوم التقی الجسعن اس جمعان سے مراد ایک اللہ تعالیٰ کا گروہ ہے اور دوسرا شیطان کا گروہ ہے۔ واللہ علی کل شیء قدیر ( اور اللہ تعالیٰ ہر چیر پر قادر ہے) ( آیت 42)
Top