Al-Qurtubi - At-Tawba : 104
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا : کیا انہیں علم نہیں اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ ھُوَ : وہ يَقْبَلُ : قبول کرتا ہے التَّوْبَةَ : توبہ عَنْ : سے۔ کی عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيَاْخُذُ : اور قبول کرتا ہے الصَّدَقٰتِ : صدقات وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا اور صدقات (وخیرات) لیتا ہے ؟ اور بیشک خدا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر : 104۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) کہا گیا ہے : پیچھے بیٹھے رہنے والوں میں سے جنہوں نے توبہ نہیں کی انہوں نے کہا : یہ لوگ گزشتہ کل تو ہمارے ساتھ تھے، نہ وہ کلام کرتے ہیں اور نہ وہ (ہمارے ساتھ) بیٹھتے ہیں، تو اب انہیں کیا ہوگیا ہے ؟ اور یہ کون سی خصوصیت ہے جس کے ساتھ ہمارے سوا وہ خاص کردیئے گئے ہیں ؟ تب یہ آیت نازل ہوئی : الم یعلموا “ ، پس یعلموا “ میں ضمیر ان کی طرف لوٹ رہی ہے جنہوں نے توبہ نہیں کی پیچھے رہنے والوں میں سے، ابن زید نے یہ معنی بیان کیا ہے اور یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ضمیر ان لوگوں کی طرف لوٹ رہی ہو جنہوں نے توبہ کی اور اپنے آپ کو باندھ دیا، اور قول باری تعالیٰ : ھو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ان امور کے ساتھ منفرد اور یکتا ہونے کی تاکید کے لیے ہے۔ اور اس کی تحقیق یہ ہے کہ اگر اس نے کہا ہوتا : ان اللہ یقبل التوبۃ “ تو اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس کے رسول کا قبول کرنا اس کی طرف سے ہی قبول کرنا ہو۔ پس آیت نے یہ واضح کردیا کہ یہ ان امور میں سے ہے جس تک نہ کوئی نبی پہنچ سکتا ہے اور نہ کوئی فرشتہ (1) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 79) مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویاخذالصدقت “۔ یہ اس بارے میں صریح نص ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی صدقات لینے والا ہے اور ان پر ثواب وجزا عطا فرمانے والا ہے اور یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ جل وعز کا حق ہے، اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ واسطہ ہیں اور اگر آپ کا وصال ہوگیا تو آپ کے بعد آپ کا نائب اور خلیفہ ہی واسطہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ اور یہ اس کی وضاحت کر رہا ہے کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” خذمن اموالھم صدقۃ “۔ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی ذات گرامی پر محصور نہیں ہے۔ اور ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک اللہ تعالیٰ صدقہ قبول فرماتا ہے اور اسے اپنے دائیں دست قدرت کے ساتھ لیتا ہے، پھر وہ اسے تم میں سے کسی کے لیے بڑھاتا رہتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے بچھیرے کی تربیت اور پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ ایک لقمہ احد پہاڑ کی مثل ہوجاتا ہے اور اس کی تصدیق کتاب میں موجود ہے اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ربا (سود) کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے “ (1) (جامع ترمذی، کتاب الزکوۃ، جلد 1 صفحہ 84، ایضا حدیث نمبر 598، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) امام ترمذی (رح) نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور صحیح مسلم میں ہے : ” کوئی بھی حلال اور طیب کمائی سے ایک کھجور صدقہ نہیں کرتا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں دست قدرت سے لیتا ہے “۔ اور ایک بھی روایت ہے :” پھر وہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑھ جاتی ہے۔ “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 326 ) ۔ الحدیث : اور ایک روایت میں ہے : ” بیشک صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں واقع ہوتا ہے اس سے پہلے کہ سائل کے ہاتھ میں جائے پس وہ اسے بڑھتاتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے یا اونٹنی کے بچے کی تربیت کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے اسے کئی گنا کردیتا ہے “۔ (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ، 1011) ہمارے علماء نے احادیث کی تاویل میں کہا ہے : بلاشبہ یہ صدقہ کے قبول ہونے اور اس پر جز واقع ہونے سے کنایہ ہے، جیسا کہ اس نے مریض پر انتہائی رحم اور مہربانی فرماتے ہوئے مریض سے اپنی ذات کریمہ ومقدسہ کنایۃ مراد لی ہے اور فرمایا : ” اے ابن آدم میں بیمار ہوا تو تو نے میری عیادت اور بیمار پرسی نہیں کی “ (4) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، جلد 2، صفحہ 318) ۔ الحدیث یہ معنی سورة البقرۃ میں پہلے گزر چکا ہے، اور یمین اور کف کے الفاظ کو ذکر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے کیونکہ کسی شی کو قبول کرنے والا ہر کوئی بلاشبہ اسے اپنی ہتھیلی اور دائیں ہاتھ کے ساتھ ہی اسے پکڑتا ہے یا اسے اس میں رکھا جاتا ہے، تو اسی بنا پر اسے ہی ذکر کیا جسے وہ جانتے اور پہچانتے تھے ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ہر عضو سے پاک اور منزہ ہے اور یمین کا لفظ عضو خاص (دایاں ہاتھ) کے بغیر بھی کلام عرب میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : اذا ما رایۃ رفع لمجد تلقا ھا عرابۃ بالیمین : یعنی اسے ہی مجد وشرف کا اہل بنایا گیا ہے۔ اور یہاں اس سے مراد دایاں ہاتھ نہیں ہے، کیونکہ یہ معنوی طور پر بزرگی وشرف ہے پس وہ بزرگی اور شرف جو اس کے ساتھ حاصل ہوتا ہے میں نے اسے معنی دیکھ لیا ہے، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حق میں بھی لفظ یمین ہے۔ تحقیق کہا گیا ہے کہ ” وہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتی رہتی ہے “۔ (5) (جامع ترمذی، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 84) کا معنی ہے کہ یہ اس میزان عدل کے پلڑے سے عبارت ہے جس میں اعمال کا وزن کیا جائے گا، پس یہ حذف مضاف کے باب سے ہوگا، گویا کہ فرمایا : فتربوکفہ میزان الرحمن “۔ (پس وہ رحمن کے میزان کے پلڑے میں بڑھ جائے گی) اور امام مالک، ثوری اور ابن مبار کر حمۃ اللہ علیہم سے روایت ہے کہ انہوں نے ان احادیث اور جو ان کے مشابہ ہیں ان کی تاویل میں کہا ہے : تم اسے بلاکیف پر ہی محمول کرو، یہ ترمذی وغیرہ نے کہا ہے اور اسی طرح اہلسنت والجماعت کے اہل علم کا قول ہے۔ :
Top