Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - At-Tawba : 36
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ١ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
عِدَّةَ
: تعداد
الشُّهُوْرِ
: مہینے
عِنْدَ اللّٰهِ
: اللہ کے نزدیک
اثْنَا عَشَرَ
: بارہ
شَهْرًا
: مہینے
فِيْ
: میں
كِتٰبِ اللّٰهِ
: اللہ کی کتاب
يَوْمَ
: جس دن
خَلَقَ
: اس نے پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
مِنْهَآ
: ان سے (ان میں)
اَرْبَعَةٌ
: چار
حُرُمٌ
: حرمت والے
ذٰلِكَ
: یہ
الدِّيْنُ الْقَيِّمُ
: سیدھا (درست) دین
فَلَا تَظْلِمُوْا
: پھر نہ ظلم کرو تم
فِيْهِنَّ
: ان میں
اَنْفُسَكُمْ
: اپنے اوپر
وَقَاتِلُوا
: اور لڑو
الْمُشْرِكِيْنَ
: مشرکوں
كَآفَّةً
: سب کے سب
كَمَا
: جیسے
يُقَاتِلُوْنَكُمْ
: وہ تم سے لڑتے ہیں
كَآفَّةً
: سب کے سب
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
مَعَ
: ساتھ
الْمُتَّقِيْنَ
: پرہیزگار (جمع)
خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا اور اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو۔ جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
قولہ تعالیٰ : ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا فی کتب اللہ یوم خلق السموت والارض منھآ اربعۃ حرم ط ذلک الدین القیم فلاتظلموا فیھن انفسکم اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ قولہ تعالیٰ : ان عدۃ الشھور ‘ شھور ‘ شھر کی کی جمع ہے۔ پس جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے کہے : لا اکلمک الشھور ( میں تیرے ساتھ مہینے کلام کروں گا) اور وہ اس پر ہر قسم کھائے تو وہ ایک سال تک اس کے ساتھ کلام نہیں کرسکے گا۔ یہ بعض علماء نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ کلام نہیں کرسکے گا۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : میرا خیال یہ ہے کہ اگر اس کی کوئی نیت نہ ہو تو یہ قول تین مہینوں کا تقاضا کرتا ہے ‘ کیونکہ یہ وہ کم سے کم جمع ہے جس کا تقاضا فعول کا صیغہ کرتا ہے اور یہ فعل کی جمع ہے (
1
) ۔ اور عند اللہ کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے حکم میں اور اس میں جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اثنا عشر شھرا ‘ اثنا عشر شھرا کو معرب پڑھا گیا ہے ‘ بخلاف اس کی نظائر کے ‘ کیونکہ اس میں اعراب کا حرف اور اس کی دلیل موجود ہے۔ عام قراء نے عشر عین اور شین کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابو جعفر نے عشر شین کی جزم کے ساتھ پڑھا ہے۔ فی کتب اللہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ عند اللہ کہنے کے بعد اس کا اعادہ کیا کیونکہ بہت سی اشیا کا وصف اس کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے (کہ وہ اللہ کے پاس ہیں) اور یہ نہیں کہا جاسکتا انہ مکتوب فی کتاب اللہ ( کہ وہ کتاب اللہ میں لکھی ہوئی ہے) جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ان اللہ عندہ علم الساعۃ (لقمان :
34
) (بےشک اللہ کے پاس ہی ہے قیامت کا علم) مسئلہ نمبر
2
۔ قولہ تعالیٰ : یوم خلق السموت والارض بیشک اس نے کہا ہے : یوم خلق السموت والارض تاکہ وہ یہ بیان کرے کہ اس کی قضا و قدر اس سے پہلے تھی۔ اور یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان مہینوں کو وضع کیا اور ان کے نام ان اسماء کے ساتھ رکھے جن پر انہیں مرتب فرمایا اس دن سے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا۔ اور انہیں اپنے انبیاء (علیہم السلام) پر اپنی نازل کردہ کتابوں میں نازل فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ان عدۃ الشھور عنداللہ اثنا عشر شھرا کا یہی معنی ہے۔ اور ان کا حکم اسی حال پر باقی ہے جس پر یہ تھے مشرکوں نے ان کے ناموں کو بدلنے کے ساتھ انہیں اپنی ترتیب سے زائل نہیں کیا اور ان سے اسم میں مقدم کو مؤخر کو مقدم کرنے (انہیں اپنی ترتیب سے زائل نہیں کیا) اور اس سے مقصود ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی اتباع کرنا ہے اور اس طریقہ کو چھوڑنا ہے جسے مہینوں کے ناموں کو مقدم و مؤخر کرنے اور احکام کو ان اسماء پر جن کو انہوں نے ان پر مرتب کیا تھا معلق کرنے میں سے اہل جاہلیت اپنائے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا :” اے لوگو ! بیشک زمانہ اپنی اس حالت پر گردش کناں ہے جس روز سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق فرمایا ہے “۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ اور وہ جو اہل جاہلیت نے کیا کہ انہوں نے محرم کو صفر اور صفر کو محرم بنایا تو اس سے وہ وصف تبدیل نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے۔ یوم میں عامل وہ مصدر ہے جو فی کتب اللہ میں ہے اس سے مراد کتب کی واحد نہیں ‘ کیونکہ اعیان ظروف میں عمل نہیں کرسکتے۔ اور تقدیر عبارت یہ ہے : فیما کتب اللہ یوم خلق السموات والارض اور عند ‘ عدۃ مصدر کے متعلق ہے اور وہی اس میں عامل ہے اور فی کتب اللہ میں فی محذوف کے متعلق ہے ‘ وہ قول باری تعالیٰ : اثنا عشر کی صفت ہے۔ اور تقدیر کلام یہ ہے : اثنا عشر شھرا معدودۃ أ و مکتوبۃ فی کتاب اللہ اور یہ جائز نہیں کہ یہ عدۃ کے متعلق ہو ‘ کیونکہ اس میں صلہ اور موصول کے درمیان ان کی خبر کے ساتھ تفرقہ موجود ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ عبادات وغیرہ میں سے احکام کو معلق کرنا واجب ہے بلاشبہ وہ ان مہینوں اور سالوں کے ساتھ ادا ہوتے ہیں جنہیں عرب جانتے ہیں ‘ نہ کہ ان مہینوں کے ساتھ جو عجم ‘ روم اور قبط میں معتبر ہیں ‘ اگرچہ یہ بارہ مہینوں سے زائد نہیں ہیں ‘ کیونکہ ان کے دنوں کی تعداد مختلف ہے ‘ ان میں سے کچھ تیس دنوں سے زائد ہوتے ہیں اور کچھ تیس دنوں سے کم ہوتے ہیں اور عربوں کے مہینے تیس دنوں سے زائد نہیں ہوتے اگرچہ ان میں سے بعض ان سے کم ہوتے ہیں ل اور وہ جو کم ہوتا ہے وہ کوئی مہینہ متعین نہیں ‘ بلاشبہ ان میں کم ہونے اور مکمل ہونے کے درمیان تفاوت بروج میں چاند کی چال کے مختلف ہونے کی بناء پر ہوتا ہے۔ (
1
) مسئلہ نمبر
4
۔ قولہ تعالیٰ : منھآ اربعۃ حرم وہ حرمت اور عزت والے مہینے جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ ذوالقعدہ ‘ ذوالحجہ ‘ محرم اور وہ رجب ہے جو جمادی الآ خر اور شعبان کے درمیان ہے۔ اور وہی رجب مضر ہے اور اس کو رجب مضر کہا گیا ہے : کیونکہ ربیعہ بن نزار رمضان کے مہینے کو حرام اور عزت والا مہینہ قرار دیتے تھے اور وہ اسے رجب کا نام دیتے تھے۔ اور مضر نفس رجب کو بھی حرمت والا مہینہ کہتے تھے ‘ پس اس لیے حضور نبی مکرم ﷺ نے اس کے بارے کہا ہے : الذی بین جمادی و شعبان (یعنی وہ جمادی اور شعبان کے درمیان ہے) اور اس کے نام میں جو خلل تھا اسے اس بیان کے ساتھ ختم کردیا۔ عرب بھی اسے منصل الاسنہ کا نام دیتے تھے ( کیونکہ ان کا طریقہ تھا کہ جب رجب آتا تو وہ اپے تیر اور نیزوں کے بھالے اتار کر رکھ چھوڑتے تھے تاکہ اس مہینے میں کوئی ایسا فعل نہ صادر ہو جو اس کی حرمت کے خلاف ہو) امام بخاری (رح) نے ابور جا عطار دی سے روایت نقل کی ہے۔ اور ان کا نام عمران بن ملحان ہے اور یہ قول بھی ہے کہ نام عمران بن تیم ہے۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بیان کیا : ہم پتھروں کی پوجا کرتے تھے ‘ پس جب ہم کسی پتھر کو پاتے کہ وہ اس (پہلے) سے بہتر اور اچھا ہے تو ہم اسے پھینک دیتے اور دوسرے کو اٹھا لیتے اور جب ہم کوئی پتھر نہ پاتے تو ہم کچھ مٹی جمع کرتے پھر ہم اس بکریوں کے پاس لے کر آتے اور اس پر انہیں دو ہتے پھر اسے لے کر گھومتے پھر تے رہتے اور جب رجب کا مہینہ آجاتا تو ہم کہتے منصل الا سنہ ‘ پس ہم کسی نیزے میں اس کا بھالہ اور نہ کسی تیر میں اس کا لوہا چھوڑ تے مگر ہم اسے اتار لیتے اور اسے پھینک دیتے۔ مسئلہ نمبر
5
۔ قولہ تعالیٰ ۔ ذلک الدین القیم مراد صحیح حساب اور پورا عدد ہے۔ اور حضرت علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے : ذلک الدین سے مراد ذلک القضاء (وہ فیصلہ) ہے۔ حضرت مقاتل نے کہا ہے : مراد حق ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : میرے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہاں دین سے مراد اس کی مشہور وجوہ ہوں ‘ مراد وہ شرع اور طاعت ہے۔ القیم یعنی سیدھا قائم ہونے والا ‘ یہ قام یقوم سے ہے۔ اور یہ سید کی مثل ہے جو کہ سادیسوں ہے۔ اور اس کی اصل قیوم ہے۔ (
1
) مسئلہ نمبر
6
۔ قو لہ تعالیٰ : فلا تظلموا فیھن انفسکم حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق ھن ضمیر تمام مہینوں کی طرف راجع ہے۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ صرف اشہر حرم کی طرف لوٹ رہی ہے ‘ کیونکہ یہ ان کے زیادہ قریب ہے اور ظلم بڑھنے کی صورت میں ان کی فضیلت کا اظہار ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلارفث ولافسوق لا ولا جدال فی الحج (البقرہ :
197
) ( تو اسے جائز نہیں بےحیائی کی بات اور نہ من مانی اور نہ جھگڑا حج کے دنوں میں) یہ مطلب نہیں کہ ان دنوں کے علاوہ میں ظلم جائز ہے جیسا کہ ہم اسے بیان کریں گے۔ پھر یہ کہا گیا ہے کہ ظلم میں دو قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے تم ان میں قتال کے ساتھ اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو ‘ پھر تمام مہینوں میں قتال کو مباح قرار دے کر اسے منسوخ کردیا گیا۔ یہ حضرت قتادہ عطا خراسانی ‘ زہری اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے۔ اور ابن جریج نے کہا ہے کہ حضرت عطا بن ابی رباح (رح) نے اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی کہ لوگوں کے لیے حلال نہیں ہے کہ حرم پاک میں لڑیں اور نہ یہ حلال ہے کہ وہ اشہر حرام میں لڑیں مگر یہ کہ وہ ان میں باہم لڑیں اور یہ منسوخ نہیں ہے۔ صحیح پہلا قول ہے ‘ کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ہوازن کے ساتھ حنین میں اور ثقیف کے ساتھ طائف میں جنگ لڑی اور آپ نے شوال اور ذوالعقدہ کے کچھدن ان کا محاصرہ کیے رکھا۔ اور یہ بیان سورة بقرہ میں پہلے گزرچکا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ تم ان مہینوں میں گناہوں کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر ظلم نہ کرو ‘ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب ایک جہت سے کسی شے کو عظیم بنا دیتا ہے تو اس کے لیے ایک حرمت ہوجاتی ہے اور جب وہ اسے دو جہتوں سے یا کئی جہتوں سے عظیم بنا دے تو پھر اس کی حرمت بھی متعدد ہوتی ہے پس اس میں برے عمل کے سبب سزا دوگنا کردی جاتی ہے اور اسی طرح عمل صالح کے سبب ثواب بھی دوگنا کردیا جاتا ہے ‘ کیونکہ جس نے حرمت والے مہینے میں بلد حرام میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی تو اس کا ثواب اس آدمی کے ثواب کی مثل نہیں ہوگا جس نے حلال مہینے میں بلد حرام میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اور جس نے حلال مہینے میں شہر حرام میں اس کی اطاعت کی اس کا ثواب اس کے ثواب کی مثل نہیں ہوگا جس نے حلال مہینے میں بلد حلال میں اس کی اطاعت کی۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اپنے اس قول سے اشارہ (الاحزاب :
30
) (اے نبی کریم بیبیو ! جس کسی نے تم میں سے کھلی بیہودگی کی تو اس کے لیے عذاب کو دو چند کردیا جائے گا) (
1
) مسئلہ نمبر
7
۔ اس معنی کے اعتبار سے علماء نے اس آدمی کے بارے میں اختلاف کیا ہے جس نے شہر حرام میں کسی کو خطاء قتل کردیا کہ کیا اس پر دیت مغلظہ ہوگی یا نہیں ؟ امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : دیت کے بارے میں جو ہمیں معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی نے شہر حرام میں اور حرم پاک میں کسی کو قتل کیا تو اس میں دیت مغلظہ لازم کی جائے گی ‘ لہٰذا وہ دیت اور ایک ثلث مقررہو گی اور شبہ عمد کی صورت میں اونٹوں کی عمروں میں اضافہ کیا جائے گا۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : حرام مہینے اور بد حرام اور ذوی الرحم میں کسی کو قتل کرنے اور زخم لگانے کی صورت میں دیت مغلظہ لازم ہوگی۔ قاسم بن محمد ‘ سالم بن عبد اللہ ‘ ابن شہاب اور اباب بن عثمان رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے : حل اور حرم پاک میں قتل کرنا برابر ہے۔ اسی طرح حرام مہینے میں اور دوسرے مہینے میں قتل کرنا برابر ہے اور یہی تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے۔ اور یہی صحیح ہے ‘ کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے دیتوں کا ذکر کیا اور ان میں حرم پاک اور حرام مہینوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اور انہوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جس نے حرام مہینے یا کسی دوسرے مہینے میں کسی کو خطاء قتل کیا اس پر ایک جیسا کفارہ ہوگا ‘ (یعنی کفارہ میں دونوں برابر ہوں گے) تو پھر قیاس یہ ہے کہ دیت بھی اسی طرح ہوگی۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
8
۔ اللہ تعالیٰ نے چار اشہر حرام کو ذکر کے ساتھ خاص کیا ہے اور ان میں ظلم سے منع کیا ہے : یہ ان کے شرف اور عظمت کو بیان کرنے کے لیے ہے ‘ اگرچہ زمانے میں ظلم ممنوع ہے ‘ جیسا کہ ارشاد فرمایا (البقرہ :
197
) اکثر اہل تاویل کا موقف یہی ہے ‘ یعنی تم چار مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ اور حماد بن مسلم نے علی بن زید سے ‘ انہوں نے یوسف بن مہران سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : فلا تظلموا فیھن انفسکم کا معنی ہے تم بارہ مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو (
2
) اور قیس بن مسلم نے حسن سے اور انہوں نے محد بن حنفیہ سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا : فیھن کلھن (ان تمام مہینوں میں) پس اگر پہلے قول کی بنا پر کہا جائے : فیھن کیوں فرمایا اور فیھا نہیں فرمایا ؟ تو وہ اس لیے ہے کہ عرب لوگ تین سے لے کر دس تک کے لیے ھن اور ھولاء بولتے ہیں اور جب وہ دس سے تجاوز کرجائیں تو پھر ھی اور ھذہ بولتے ہیں ‘ یہ ارادہ کرتے ہوئے کہ قلیل کو کثیر کا نام دینا معروف ہے (یعنی جمع قلت کا جمع کثرت سے نام رکھنا معروف ہے) اور کسائی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : میں عربوں کے اس فعل سے بڑا متعجب ہوں۔ اسی طرح وہ دس سے کم راتوں کے لیے کہتے ہیں : خلون اور اس سے زیادہ کے لیے خلت بولتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ بعض زمانوں کو بعض سے حرمت کے اعتبار سے عظیم کیسے بنا دیا گیا ہے ؟ کیونکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے فضیلت کے ساتھ خاص کردیتا ہے ‘ اس کے عمل کی نہ کوئی علت ہے اور نہ اس پر کوئی پابندی ‘ بلکہ جو وہ اپنی حکمت کے مطابق ارادہ فرماتا ہے وہ کردیتا ہے ‘ اور کبھی اس میں حکمت ظاہر ہوتی ہے اور کبھی مخفی ہوتی ہے۔ قولہ تعالیٰ : وقاتلوا المشرکین کآفۃ اس میں ایک مسئلہ ہے۔ قولہ تعالیٰ : قاتلوا یہ قتال کے بارے امر ہے۔ اور کافۃ کا معنی ہے جمیعا (سب کے سب) یہ مصدر ہے اور حال کے محل میں واقع ہے ایمحیطین بھم ومجتمعین (اور تم جنگ کرو مشرکوں سے اس حال میں کہ تم ان تمام کو گھیرے ہوء ہو اور وہ اکٹھے ہوں) زجاج نے کہا ہے : اس قسم کے مصادر عافاہ اللہ عافیۃ اور عاقبہ عاقبۃ بھی ہیں ان کی تثنیہ اور جمع نہیں بنائی جاتی اور اسی طرح عامۃ اور خاصۃ بھی ہیں۔ بعض علماء نے کہا ہے : یہ جو انہوں نے کہا ہے یہ حضور نبی مکرم ﷺ کی شریعت میں سے کبھی نہیں جانا گیا کہ انہوں نے ساری امت کو نفر (بھاگنے) کا الزام دیا ہے ‘ بلکہ اس آیت کا معنی مشرکوں کے قتال پر ابھارنا ‘ ان کے خلاف جماعت بندی کرنا اور کلمہ کو جمع کرنا ہے ‘ پھر اسے اپنے اس قول کے ساتھ مقید کردیا : کما یقاتلو نکم کآفۃ ان کے ہمارے ساتھ قتال کرنے اور ہمارے خلاف جمع ہونے کے اعتبار سے ہمارا بھی ان کے لیے جمع ہونا فرض ہے (
1
) ۔ واللہ اعلم
Top