Fahm-ul-Quran - Al-A'raaf : 177
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ١ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ١ۙ۬ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةً١ؕ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ
اِنَّ : بیشک عِدَّةَ : تعداد الشُّهُوْرِ : مہینے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اثْنَا عَشَرَ : بارہ شَهْرًا : مہینے فِيْ : میں كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب يَوْمَ : جس دن خَلَقَ : اس نے پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین مِنْهَآ : ان سے (ان میں) اَرْبَعَةٌ : چار حُرُمٌ : حرمت والے ذٰلِكَ : یہ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ : سیدھا (درست) دین فَلَا تَظْلِمُوْا : پھر نہ ظلم کرو تم فِيْهِنَّ : ان میں اَنْفُسَكُمْ : اپنے اوپر وَقَاتِلُوا : اور لڑو الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں كَآفَّةً : سب کے سب كَمَا : جیسے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑتے ہیں كَآفَّةً : سب کے سب وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ مَعَ : ساتھ الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
بیشک گنتی مہینوں کی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں جس دن سے کہ پیدا کیا ہے اس نے آسمانوں اور زمین کو ، اور ان (مہینوں) میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں یہ دین ہے مضبوط ، پس نہ ظلم کرو ان (مہینوں) میں اپنی جانوں پر اور لڑو شرک کرنے والوں سے پورے کے پورے جیسا کہ وہ تمہارے ساتھ لڑتے ہیں پورے کے پورے۔ اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے
ربط آیات : پہلی آیات میں اہل کتاب کے ساتھ جہاد کا ذکر تھا۔ اللہ نے کافروں اور مشرکوں کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اہل کتاب کے ساتھ جہاد کا حکم دیا۔ نیز فرمایا کہ اگر وہ مغلوبھ ہو کر جزیہ دینا قبول کرلیں تو ان کو امن حاصل ہوگا۔ اللہ نے ان کے عقائد فاسدہ کا ذکر بھی کیا کہ یہودی عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں جب کہ نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے ہیں پھر اللہ نے فرمایا کہ کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے مگر اہل کتاب کی بدنصیبی کہ انہوں نے یہ صفت اپنے عالموں اور درویشوں کے لیے ثابت کی۔ اہل کتاب کی ایک خرابی یہ بھی بیان فرمائی کہ وہ دین حق کو مٹانے کے یے مختلف قسم کے حیلے کرتے ہیں ، گویا اس چراغ کو پھونکوں سے بجانا چاہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ اس دین کو مکمل کرے چاہے کافرلوگ اسے کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کریں۔ اس کے بعد اللہ نے دین اسلام کے غلبے کا ذکر کیا کہ اس نے اپنے آخر ی نبی کو اس مقصد کے لیے مبعوث فرمایا تا کہ دین حق کو تمام ادیان پر غالب بنا دے۔ یہ غلبہ دلیل اور برہان کے لحاظ سے بھی ہے اور سیاسی قوت کے لحاظ سے بھی اس کے بعد اہل کتاب کے علماء اور درویشوں کے متعلق فرمایا کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اکثر لوگ مال جمع کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کو ان کو جمع شدہ سونا چاندی دوزخ کی آگ میں تپایا جائیگا۔ اور اس سے ان کی پیشانیوں ، کروٹوں اور پشتوں کو داغا جائیگا اور کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا خزانہ جسے تم نے دنیا میں جمع کیا اور اس کے حقوق ادانہ کیے۔ دوسری آیت میں بخل کرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ ان کے مال گنجے سانپ کی شکل میں متشکل کر کے ان کے گلے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ پکار پکار کرلیں گے کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں جسے جمع کرتا تھا مگر اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا تھا۔ آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے چار حرمت والے مہینوں کا ذکر کیا ہے اور مشرکین کی اس قبیح حرکت کا ذکر کیا ہے جس کے زریعے وہ حرمت والے مہینوں کو دوسرے مہینوں سے از خود تبدیل کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ کذشتہ درس میں گزر چکا ہے۔ اہل کتاب مختلف اشیاء کی حلت و حرمت میں دخل اندازی کرتے تھے جب کہ مشرکین اللہ کے مقرر کردہ حرمت والے مہینوں میں اولا بدلی کرلیتے تھے۔ حدیث شریف میں آتا ہے ” الحلال ما احل اللہ “ حلال وہ ہے جو اللہ نے حلال قرار دیا ہے ” الحرام ما حرم اللہ “ اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ کوئی انسان از خود کسی چیز پر حلت و حرمت کا حکم لگانے یا اسے تبدیل کرنے کا مجاز نہیں۔ حضرت نعمان بن نوفل ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا ، حضور ! اگر میں توحید و رسالت پر ایمان رکھتا ہوں اور اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتا ہوں تو کیا مجھے نجات مل جائے گی۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں ، تو نجات کا حقدار ہوجائیگا ، مقصد یہ کہ حلت و حرمت کا مکمل اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ، جو کوئی بہ صفت غیر اللہ میں نہیں گا۔ وہ مشرک ہوگا اور مجرم بنے گا۔ یہاں پر مختلف مہینوں کی حلت و حرمت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ان عدۃ الشھود عند اللہ اثنا عشر شھرا فی کتٰب اللہ “ بیشک اللہ کے ہاں اور اس کے حکم کے مطابق مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہے اور یہ کوئی نیا حکم نہیں بلکہ اس دن سے یہی کیلنڈر مقرر ہے (آیت) ” یوم خلق السموت والارض “ جس دن سے اللہ تعالٰٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالٰٰ نے نظام شمسی قائم کیا ہے۔ سال بھر کے مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی ہے۔ اور پھر ان بارہ مہینوں میں (آیت) ” منھا اربعۃ حرم “ چار مہینے حرمت والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان چاروں مہینوں کو ادب والے مہینے قرار دے کر ان کے دورانِ جنگ وجدال کو منع فرمایا ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور سے لے کر انکی ملت کا یہ اہم اصول رہا ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں ہر ایک کو امن وامان حاصل ہوگا۔ اور کوئی ایک دوسرے کے خلاف تعرض نہیں کریگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں یہ اصول ڈیڑھ ہزار سال تک قائم رہا۔ ان مہینوں کی حرمت کو برقرار رکھا جاتا رہا مگر حضور ﷺ کی بعثت سے چار یا ساڑھے چار سو سال پہلے ان مہینوں کی حرمت میں گڑ بڑ واقع ہونی شروع ہوگئی اور لوگ ان میں تغیر وتبدل کرنے لگے۔ تمام اقوام اور اہل مذاہب سال بھر کے بارہ مہینے تسلیم کرتے ہیں اور نظام اس وقت سے قائم ہے جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کر کے نظام شمسی قائم کیا ہے۔ کیلنڈروں دنوں ، ہفتوں ، مہینوں ، اور پھر سالوں کی ذریعہ بنتا ہے۔ البتہ یہ حساب دو طریقے سے دنیا پر رائج ہے ایک تقویم شمسی حساب کے ساتھ ہے جب کہ دوسری قمری حساب ہے ان دونوں میں سے کون سا حساب آسان ہے ؟ آپ دیکھتے ہیں کہ کہ قمری تقویم فطری ہے۔ کوئی حامل آدمی اگر کسی جنگل یا سمندر کی سطح پر بھی ہے جہاں اس کے پاس مہینہ کی تکمیل معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تو وہ ہر نئے چاند کے طلوع پر معلوم کرلے گا کہ پچھلا مہینہ ختم ہو کر نیا مہینہ شروع ہوگیا ہے برخلاف اس کے محض سورج کو دیکھ کر کوئی شخص از خود اندازہ نہیں لگا سکتا کہ مہینہ کب شروع ہوا اور کب ختم ہوا ، تاوقتیکہ مہینے کی ابتدا اور اختتام کا کوئی ذریعہ اس کے پاس نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ قمری تقویم زیادہ آسان اور فطرت کے مطابق ہے۔ حرمت والے مہینیے : فرمایا اللہ کے نزدیک سال بھر میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں کہ ان کا ادب واحترام کیا جاتا ہے۔ اور ان میں لڑائی جھگڑا نہیں کیا جاتا ہے ان چار مہینوں کے نام قرآن پاک میں تو نہیں ہیں البتہ ان کی تشریح حدیث شریف میں موجود ہے۔ ان چار میں سے تین مہینے تو اکٹھے آتے ہیں۔ یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب ہے جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ ان چار مٰں سے حج کا موسم بھی اول الذکر تین مہینوں میں پڑتا ہے ، چونکہ زمانہ جاہلیت میں بھی یہ مہینے محترم سمجھے جاتے تھے اس لیے اس دوران لوگوں کی آمدورفت عام ہوتی تھی۔ کوئی مسافر خطرہ محسوس نہیں کرتا تھا۔ تجارتی اور عام قافلے بلا خوف وخطر سفر کرتے تھے اور اس طرح حج کا سفر بھی بخیرو خوبی انجام پاتا تھا۔ فرمایا (آیت) ” ذلک الدین القیم “ یہی مضبوط دین ہے۔ ملت ابراہیمی کا یہ اٹل اصول ہے کہ حرمت والے مہینوں میں کسی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی۔ فرمایا (آیت) ” فلا تظلموا فیھن انفسکم “ پس ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ جان پر طلم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے ، اس کے حکم کو توڑ کر گناہ میں ملوث نہ ہو جائو۔ دراصل معصیت میں گرفتار ہو کر عذاب کا مستحق بننا خود اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی جان پر ظلم کرتا ہے ، اس کو جسمانی ، ذہنی یا مالی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ بھی دراصل اس کی اپنی جان پر ظلم ہوتا ہے کیونکہ اسے بالآخر اس ظلم کا بدلہ چکانا ہوگا۔ تخصیص کی وجہ : مفسرین کرام نے یہاں پر یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ طلم تو مطلقا حرام ہے۔ پھر یہاں پر ان چار مہنیوں کی تخصیص کی کیا وجہ ہے کہ ان مہینوں میں طلم نہ کیا جائے۔ فرماتے ہیں کہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے گناہ کرنا کسی وقت اور کسی مقام پر بھی حرام ہے مگر حرم شریف میں اس کا ارتکاب زیادہ سنگین اور ڈبل سزا کا موجب ہے۔ اسی طرح عام گلی ، بازار میں گناہ کرنے سے مسجد میں گناہ کرنا زیادہ سنگین جرم ہے۔ اس کی ایک مثال سورة بقرہ میں یوں آتی ہے (آیت) ” الحج اشھر معلومٰت “ حج کے مہینے معلوم ہیں (آیت) ” فمن فرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج “ پس جو کوئی ان مہینوں میں حج کا احرام باندھ لے پھر وہ نہ کوئی شہوانی بات کرے ، نہ گناہ کا ارتکاب کرے اور نہ جھگڑا فساد کرے۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ جھگڑا فساد اور معصیت تو ہر وقت حرام ہے ، پھر احرام کی حالت میں اسی کی تخصیص اس لیے کہ گئی ہے کہ ان ایام میں گناہ کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا ، حضور ! بڑا گناہ کونسا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ برا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ شریک بنائو۔ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ عرض کیا اس کے بعد بڑا گناہ کونسا ہے۔ آپ نے فرمایا ” ان تزنی حلیلۃ جارک “ کہ تو اپنے پڑوسی کے گھر پر ڈاکہ ڈالا جائے تو اس کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے کیونکہ پڑوسی کا ایک دوسرے پر بڑا حق ہوتا ہے اگر ایک پڑوسی دوسرے کی غیر حاضری سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کی عزت کی حفاظت کی بجائے اسے برباد کرتا ہے تو عام حالات کی نسبت اس کے جرم کو نوعت بڑھ جاتی ہے بہرحال اللہ نے فرمایا کہ حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ قمری تقویم کی تقدیم : امام رازی (رح) فرماتے ہیں ، چونکہ حرمت والے مہینوں کا تعلق قمری تقویم سے ہے اس لیے یہاں سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ حساب کتاب میں قمری تقویم کو اولیت دینی چاہیے۔ اگر شمسی حساب سے بھی کیلنڈر بنانا ضروری ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں تاہم اولیت قمری کیلنڈر کو ہی حاصل ہونی چاہییے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے تمام احکام شرعیہ کا مدار قمری مہینوں پر ہے۔ مثلا زکوٰۃ روزے حج اور عدت وغیرہ قمری مہینوں کے حساب سے ہی پورے کیے جاتے ہیں لہٰذا قمری تقویم کو بالکل ترک کرکے شمسی تقویم پر انحصار کرنا مکروہ تحریمی میں داخل ہے۔ ایسا کرنے والے مسلمان گنہگار ہوں گے۔ انگریزی کیلنڈر کے علاوہ ہندوئوں کا بکرمی سنہ ، پارسیوں کا فصلی سنہ اور رومیوں کا اپنا کیلنڈر بھی چلتا ہے۔ تا ہم اولیت قمری تقویم کو حاصل ہے اور یہی فطری تقویم ہے۔ ادلے کا بدلہ : ادلے کا بدلہ : فرمایا یہ چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ان میں لڑائی بالکل حرام ہے اور اگر مشرکین ان مہینوں کا احترام نہ کریں (آیت) ” وقاتلوا المشرکین کافۃ “ تو پھر مشرکوں کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ ٹکرا جائو (آیت) ” کما یقاتلونکم کافۃ “ جس طرح وہ تمہارے ساتھ پوری طرح جنگ میں ملوث ہوجاتے ہیں اگر وہ آمادہ بر لڑائی ہوں تو پھر مسلمانوں کو بھی اجازت ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ جنگ کریں۔ سورة بقرہ میں ہے (آیت) ” الشھر الحرام بالشھر الحرام والحرمت قصاص “ حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے مقابل ہے اور تمام حرمتوں کا بدلہ ہے (آیت) ” فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدای علیکم “ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی اس کے مطابق زیادتی کرو مقصد یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں کا تقدس اسی وقت تک قائم ہے جب تک مشرک بھی ان کا احترام کرتے ہیں اور اگر وہ اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو پھر ان کی سرکوبی کرنے کے لیے تم سے بھی لڑائی نہ کرنے کی قید اٹھ جائے گی فرمایا (آیت) ” واعلموا ان اللہ مع المتقین “ اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور نصرت متقیوں کے ساتھ ہے جو اللہ کے حکم کا جس قدر احترام کرے گا ، اسی درجے میں اسے اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوگی۔ حرام مہینوں کا تبادلہ : حرمت والے مہینوں کا تقدس واحترام بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس خرابی کا ذکر فرمایا جو وہ اس سلسلے میں کرتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” انما النسیء زیادۃ فی الفکر “ بیشک مہینے کو پیچھے ہٹا دینا کفر میں زیادتی ہے۔ نسی ، نسیٰ موخر کرنے کو کہتے ہیں کسی چیز کا آگے پیچھے کردینا۔ یہاں پر نسی سے مراد حرمت والے مہینوں کو آگے پیچھے کردینا ہے۔ (آیت) ” یضل بہ الذین کفروا “ کافر لوگ اسی نسی کے ذریعے گمراہ کیے گئے یعنی اللہ کے مقرر کردہ حرمت والے مہینوں میں اولا بدلی کرکے کافر لوگ گمراہ ہوچکے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد تقریبا ڈیڑھ ہزار سال تک تو حرمت والے مہینوں کا پوری طرح احترام کیا جاتا رہا مگر اس کے بعد مشرکین نے گڑبڑ کرنی شروع کردی ، اگر وہ کسی حرمت والے مہینے میں جنگ کرنا چاہتے تو حج کے موقع پر متعلقہ قبیلے کے سردار اعلان کردیتے کہ اس سال حرمت کا فلاں مہینہ فلاں مہینے کے ساتھ بدل جائیگا۔ اس طرح وہ اصل محترم مہینے کی حرمت کو پامال کر کے اسی میں لڑائی لڑتے اور اس حرمت کو کسی دوسرے مہینے پر موخر کردیتے اللہ نے فرمایا کہ ایسا کرنا ان کے کفر میں اضافہ کا باعث ہے ، کافر تو پہلے ہی ہیں۔ اب ان کے کفر میں مزید اضافہ ہوگیا۔ فرمایا (آیت) ” یحلونہ عاما یحرمونہ عاما “ اسی نسی کے ذریعے وہ ایک ہی مہینہ کو کسی سال حلال ٹھہر لیتے ہیں اور کسی سال حرام قرار دیے لیے ہیں۔ حلت و حرمت کا اختیار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے مگر انہوں نے اس کو از خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ یہ بالکل ایسا ہی کام ہے جیسا یہود ونصاریٰ نے حلت و حرمت کا اختیار اپنے عالموں اور درویشوں کو تفویض کر رکھا تھا (آیت) ” لیواطع عدۃ ما حرم اللہ “ تا کہ اس گنتی کو پورا کرلیں جس کو اللہ نے حرام کیا ہے (آیت) ” فیحلوا ما حرم اللہ “ پس وہ حلال کرلیتے ہیں اس چیز کو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اللہ نے رجب ، ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم کے مہینوں کو حرام قرار دے دیا اور ان مہینوں کی حرمت کو گول کر گئے۔ فرمایا یہ بات کفر میں زیادتی کا موجب ہے۔ شمسی اور قمری تقویم میں مطابقت : حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) نے اس مقام پر یہ حقیقت بیان کی ہے کہ قمری سال شمسی سال سے دس دن چھوٹا ہوتا ہے اور اس طرح تین سال میں ایک پورے ماہ کا فرق پڑجاتا ہے ۔ دونوں تقویموں میں اس فرق کو پورا کرنے کے لیے بعض لوگ ہر تین قمری سالوں کے بعد قمری تقویم میں ایک ماہ کا اضافہ کرلیتے ہیں تا کہ شمسی اور قمری سال برابر رہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر تین قمری سال بعد ایک ماہ لیپ le:p کا بڑا دیا جاتا ہے تو شاہ صاحب نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ کیا ایسا کرنا نسی کی زد میں تو نہیں آتا جسے اللہ تعالیٰ نے کفر میں زیادتی قرار دیا ہے۔ امام رازی (رح) اور بعض مفسرین ایسا کرنے کو بھی نسی میں داخل کرتے ہیں حالانکہ حق با ت یہ ہے کہ ایسا کرنا محض حساب کتاب کی تکمیل ہے اور اس میں کسی مہینے کی حلت و حرمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، لہٰذا اس قسم کا اہتمام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس انتظام کو کبیہ کہتے ہیں اور یہ قدیم یونانیوں اور ایرانیوں کے ہاں بھی رائج تھا۔ لہٰذا عام مفسرین کے نزدیک یہ نسی میں داخل نہیں۔ برے اعمال کی تزئین : فرمایا (آیت) ” زین لھم سواء اعمالھم “ ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔ وہ غلط کام کر رہے ہیں مگر سمجھتے ہیں کہ نیکی کا کام کر رہے ہیں انہوں نے ملت ابراہیمی کو بگاڑ دیا۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرالیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی ، اس کی منشاء کے خلاف کام کیا ، مگر اسی زعم میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ چار حرمت والے مہینوں کی بجائے چار دوسرے مہینے مقرر کر کے انہوں نے گنتی پوری کردی ہے اور اس طرح اللہ کے احکام کی تعمیل بھی کردی ہے۔ سورة انعام میں بھی ہے (آیت) ” وزین لھم الشیطٰن ما کانوا یعملون “ وہ جو کچھ الٹا سیدھا کام کرتے تھے شیطان اس کو مزین کر کے دکھاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم بہت اچھا اور نیکی کا کام کر رہے ہیں۔ آج بھی بزرگوں کی تعظیم کے نام پر شیطان کتنے ہیں شرکیہ کام لوگوں سے کرواتا ہے۔ قبروں پر سجدے ہور ہے ہیں ، مرادیں ، مانگی جا رہی ہیں ، چادریں چڑھتی ہیں ، قبروں کو غسل دیا جاتا ہے۔ ، یہ سب بزرگوں کی تعظیم کے نام پر شیطان کرواتا ہے اور لوگ اسے ثواب دارین سمجھ کر رہے ہیں۔ اسی چیز کے متعلق فرمایا کہ ان کے اعمال ان کے لیے مزین کردیے گئے ہیں اور وہ انہی میں مگن ہیں اور نہیں جانتے کہ کتنے بڑے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں (آیت) ” واللہ لا یھدی القوم الکفرین “ کافر لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب نہیں کرتا جو کفر میں بڑھ جاتے ہیں ان کی واپسی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور پھر وہ زندگی بھر کفر کے اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں۔ پھر ان کی ہدایت کی طرف واپسی کا کوئی امکان نہیں رہتا ایسے لوگوں کے متعلق سورة نساء میں اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” نولہ ما تولی ونصلہ جھنم “ پھر جدھر کوئی جانا چاہتا ہے ہم اسی طرف اس کو پھیر دیتے ہیں ، ادھر ہی جانے کی توفیق دے دیتے ہیں اور اسے ہم جہنم میں پہنچا دیتے ہیں (آیت) ” وساء ت مصیرا “ اور یہ بہت ہی بڑا ٹھکانہ ہے اگر کفر وشرک میں مبتلا کوئی شخص توبہ نہیں کرتا ، حق وصداقت کو قبول نہیں کرنا چاہتا ، گمراہی میں پرا ہوا ہے ، تو ایسا شخص اپنے برے اعمال کو اچھا سمجھ رہا ہے اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کی ہرگز راہنمائی نہیں کرتا اور نہ ہی ان کو ہدایت نصیب ہوتی ہے ، وہ گندگی میں ہیں پڑے رہتے ہیں۔
Top