Al-Qurtubi - At-Tawba : 57
لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَیْهِ وَ هُمْ یَجْمَحُوْنَ
لَوْ يَجِدُوْنَ : اگر وہ پائیں مَلْجَاً : پناہ کی جگہ اَوْ مَغٰرٰتٍ : اور غار (جمع) اَوْ : یا مُدَّخَلًا : گھسنے کی جگہ لَّوَلَّوْا : تو وہ پھرجائیں اِلَيْهِ : اس کی طرف وَهُمْ : اور وہ يَجْمَحُوْنَ : رسیاں تڑاتے ہیں
اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ (جیسے قلعہ) یا غار ومغار یا (زمین کے اندر) گھُسنے کی جگہ مل جائے تو اسی طرف رسیاں تڑاتے ہوئے بھاگ جائیں
قولہ تعالیٰ : لو یجدون ملجاً اسی طرح اس پر وقف ہے۔ اور لکھنے میں دو الف ہیں : پہلا ہمزہ ہے اور دوسرا تنوین کے عوض ہے۔ اور اسی طرح رایت جزا ہے۔ اور ملجا کا معنی قلعہ ہے۔ یہ حضرت قتادہ وغیرہ سے منقول ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس کا معنی پناہ گاہ ہے۔ اور یہ دونوں معنی برابر ہیں۔ کہا جاتا ہے : لجات الیہ لجاء وملجا اور التجات الیہ (میں نے اسی کی طرف پناہ لی) یہ دونوں ہم معنی ہیں۔ اور وہ جگہ بھی لجاو ملجا کہلاتی ہے۔ اور التجئۃ کا معنی اکراہ ‘ مجبور کرنا ہے۔ اور الجاتہ الی الشق کا معنی ہے ( میں نے اسے اس کی طرف مجبور کردیا) اور ألجات أمری الی اللہ میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا۔ اور عمر و بن لجا تمیمی شاعر ہے اور یہ جوہری سے منقول ہے۔ او مغرت یہ مغارۃ کی جمع ہے اور یہ غار یغیر سے ماخوذ ہے۔ اخفش نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ یہ أغار یغیں ہو۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : الحمد لل ممسانا و مصبحنا حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : المغارات سے مراد غاریں اور تہہ خانے ہیں اور یہ وہ جگہیں ہیں جن میں چھپا جاسکتا ہے۔ اور اسی سے غار الماء اور غارت العین (پانی نیچے اتر گیا) ہے۔ او مدخلا یہ مفتعل کے وزن پر ہے اور دخول سے بنایا گیا ہے ‘ مراد ایساراستہ ہے جس میں داخل ہونے کے ساتھ ہم چھپ جاتے ہیں۔ اور لفظ مختلف ہونے کی وجہ سے اس کا اعادہ کیا (کیونکہ مفہوم تو دونوں لفظوں کا ایک ہے) نحاس نے کہا ہے : اس میں اصل مدتخل ہے ‘ تاکو دال سے بدلا گیا ہے۔ کیونکہ دال حروف مجہورہ میں سے ہے اور تامہموسہ میں سے اور یہ دونوں ایک مخرج سے ادا ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں اصل متدخل بروزن متفعل ہے ‘ جیسا کہ حضرت ابی کی قراءت میں ہے : أو متدخلا اور اس کا معنی ہے دخول بعد دخول ( یکے بعد دیگرے داخل ہوناض یعنی وہ قوم جو ان کے ساتھ داخل ہوتی ہیں۔ مہدوی نے کہا ہے : متدخلا یہ تدخل سے ہے جیسے تفعل جب کوئی دخول میں تکلف کرے۔ اور حضرت ابی سے یہ بھی مروی ہے : مندخلا یہ اندخل سے ہے اور یہ شاذ ہے ‘ کیونکہ یہ سیبویہ اور اس کے اصحاب کے نزدیک ثلاثی غیر متعدی ہے۔ اور حسن ‘ ابن ابی اسحاق اور ابن محیصن نے أ و مدخلا میم کے فتحہ اور دال کے سکون کے ساتھ قرأت کی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : اومدخلا میم کے ضمہ اور دال کے سکون کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ پہلا دخل یدخل سے ہے اور دوسرا ادخل یدخل سے۔ اسی طرح مصدر ‘ ظرف مکان اور ظرف زمان بھی ہیں جیسا کہ سیبویہ نے کہا ہے : مغارابن ھمام علی حی خشعما اور حضرت قتادہ عیسیٰ اور اعمش رحمۃ اللہ علیہم سے او مدخلا دال اور خاکی تشدید کے ساتھ مروی ہے (1) ۔ اور جمہور نے صرف دال کو تشدید کے ساتھ پڑھا ہے ‘ یعنی وہ مکان جس میں وہ اپنے نفسوں کو داخل کرلیتے ہیں۔ پس یہ چھ قراءتیں ہیں۔ لولوالیہ یعنی وہ اس کی طرف لوٹ جائیں۔ وھم یجمحون یعنی وہ تیزی کرتے ہیں کوئی شے ان کے چہروں کو واپس نہیں لوٹا سکتی۔ یہ جمع الفرس سے ہے جب لگام گھوڑ کے کو نہ لوٹا سکے۔ شاعر نے کہا ہے : سبوحا جمعوحا واحضارھا کمعیعۃ السعف الموقد اور اس کا معنی ہے : اگر وہ ان مذکورہ چیزوں میں سے کسی کو پالیں تو وہ مسلمانوں سے بھاگتے ہوئے تیزی کے ساتھ اس کی طرف پھرجائیں۔
Top