Tafseer Ibn-e-Kaseer - Hud : 39
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا : کیا وہ نہیں جانتے اَنَّهٗ : کہ وہ جو مَنْ : جو يُّحَادِدِ : مقابلہ کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَاَنَّ : تو بیشک لَهٗ : اس کے لیے نَارَ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں ذٰلِكَ : یہ الْخِزْيُ : رسوائی الْعَظِيْمُ : بڑی
کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص خدا اور اس کے رسول ﷺ سے مقابلہ کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کی آگ (تیار) ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا ؟ یہ بڑی رسوائی ہے۔
آیت نمبر : 63۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) الم یعلموا “ یعنی کیا وہ منافق نہیں جانتے ابن ہرمز اور حسن نے تعلموا صیغہ خطاب کی بنا پر تا کے ساتھ پڑھا ہے انہ یہ یعلموا کے سبب محل نصب میں ہے اور ہا حدیث یعنی گفتگو سے کنایہ ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) من یحادد اللہ “ من مبتدا ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے، اور المحادۃ اس کا معنی ہے اس کا اس کی حد میں داخل ہونا اور اس کا اس کی حد میں واقع ہونا، جیسا کہ المشاقۃ ہے، کہا جاتا ہے : حاد فلان فلانا یعنی فلاں اپنی حد کے سوا دوسرے کی حد میں داخل ہوگیا قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان لہ نار جھنم “ کہا جاتا ہے : شرط میں فا کا ما بعد مبتدا ہے، پس واجب ہے کہ فان ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہو، تحقیق خلیل اور سیبویہ نے (آیت) ” فان لہ نار جھنم “ میں ہمزہ کو کسرہ کے ساتھ جائز قرار دیا ہے، سیبویہ نے کہا ہے : اور یہ جید اور عمدہ ہے اور یہ شعر بھی کہا ہے : وعلمی باسدام المیاہ فلم تزل قلائص تخدی فی طریق طلائق : وانی اذا ملت رکابی مناخھا فانی علی حظی من الامر جامح : مگر عام قرات فان ہمزہ کے فتح کے ساتھ ہے پس خلیل نے بھی اور سیبویہ نے کہا ہے : بیشک ان ثانیہ پہلے سے بدل ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 54 دارالکتب العلمیہ) اور مبرد کا گمان ہے کہ یہ قول مردود ہے اور صحیح وہ ہے جو جرمی نے کہا ہے، انہوں نے کہا : بیشک دوسرا ان توکید کے لیے مکرر لایا گیا ہے کیونکہ کلام طویل ہوگیا اور اس کی نظیر (آیت) وھم فی الاخرۃ ھم الاخسرون “۔ (النمل) ہے اور اسی طرح (آیت) ” فکان عاقبتھما انھما فی النار خالدین فیھا “۔ (الحشر : 17) ہے، اور اخفش نے کہا ہے : اس کا معنی ہے فوجوب النار لہ پس آگ کا وجوب اس کے لیے ہے، اور مبرد نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے : یہ اس وجہ سے غلط ہے بیشک ان مفتوحہ مشددہ سے ابتدا نہیں کی جاسکتی اور خبر کو مضمر کیا جارہا ہے، اور علی بن سلیمان نے کہا ہے : اس کا معنی ہے قالوا اجب ان لہ نار جھنم “۔ پس واجب ہے کہ اس کے لیے جہنم کی آگ ہو، کیونکہ دوسرا مبتدا محذوف کی خبر ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے : تقدیر کلام ہے، فلہ ان لہ نار جھنم، کیونکہ اسے فا اور ان کے درمیان ضمیر مجرور کی بنا پر ظرف مستقر کے ساتھ رفع دیا گیا ہے۔
Top