Ruh-ul-Quran - Yunus : 5
هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ١ؕ مَا خَلَقَ اللّٰهُ ذٰلِكَ اِلَّا بِالْحَقِّ١ۚ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
ھُوَ : وہ الَّذِيْ : جس نے جَعَلَ : بنایا الشَّمْسَ : سورج ضِيَآءً : جگمگاتا وَّالْقَمَرَ : اور چاند نُوْرًا : نور (چمکتا) وَّقَدَّرَهٗ : اور مقرر کردیں اس کی مَنَازِلَ : منزلیں لِتَعْلَمُوْا : تاکہ تم جان لو عَدَدَ : گنتی السِّنِيْنَ : برس (جمع) وَالْحِسَابَ : اور حساب مَا خَلَقَ : نہیں پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ ذٰلِكَ : یہ اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق (درست تدبیر) ہے يُفَصِّلُ : وہ کھول کر بیان کرتا ہے الْاٰيٰتِ : نشانیاں لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : علم والوں کے لیے
وہی ہے جس نے سورج کو درخشاں اور چاند کو نور بنایا اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم جان لو سالوں کا شمار اور حساب۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کارخانہ بےمقصد نہیں بنایا۔ وہ تفصیل سے بیان کرتا ہے اپنی قدرت کی نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں۔
ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّ الْقَمَرَ نُوْراً وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتٗعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ ط مَاخَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ ج یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ (یونس : 5) (وہی ہے جس نے سورج کو درخشاں اور چاند کو نور بنایا اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم جان لو سالوں کا شمار اور حساب۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کارخانہ بےمقصد نہیں بنایا۔ وہ تفصیل سے بیان کرتا ہے اپنی قدرت کی نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں۔ ) گزشتہ مضمون کی مزید تسہیل گزشتہ آیت کریمہ میں قیامت کے وقوع اور اللہ کی صفت عدل کے اظہار پر مسکت اور شافی دلائل دیئے گئے۔ اب اس آیت کریمہ میں اسی بات کی مزید تسہیل اور وضاحت کے لیے کچھ ایسی باتیں ارشاد فرمائی جارہی ہیں جسے ہر روز ہماری آنکھیں دیکھتیں اور ہر رات ہمارے دل محسوس کرتے ہیں جن کے ساتھ ہماری سرگرمیاں وابستہ اور ہماری خاموشیاں پیوستہ ہیں جن کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو دیکھتے ہوئے دل و دماغ سرنگوں ہوجاتے ہیں اور جن کی ہمہ گیری اور وسعتوں کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جس شخص کو بھی اللہ نے دو آنکھیں دے رکھی ہیں اور اس کے اندر حواس پوری طرح کارفرما ہیں۔ وہ جب آفتابِ عالم تاب کو افق مشرق پر جلوہ افروز ہوتے دیکھتا ہے اور پھر اس کی کرنوں کو ضیاء کے جام لنڈھاتے ہوئے محسوس کرتا ہے اور پھر جس کی تاثیر کبھی سمندروں سے بھاپ اٹھاتی اور کبھی غلے اور پھلوں کو پکاتی ہوئی نظر آتی ہے اور جس کی گرمی سے ہر گھر کا چولہا جل رہا ہے اور جس کی حدت اور تمازت سے انسانی زندگی کا انجن رواں دواں ہے۔ وہ جب مشرق سے طلوع ہوتا ہے تو اس کی ایک ایک کرن تاریکی کے آخری حصے تک کا تعاقب کرتی ہے اور پھر جب وہ اپنی مقررہ راہ سے گزرتے ہوئے شام کے وقت پردہ شب میں محجوب ہوجاتا ہے تو کون ہوش و خرد رکھنے والا شخص ایسا ہوسکتا ہے جو اس کے سحر میں ڈوب نہیں جاتا اور پھر کون ہے کہ جو اس کی عظمت اور افادیت کے سامنے مبہوت ہو کر نہیں رہ جاتا اور سوچنے پر مجبور نہیں ہوجاتا کہ جس مخلوق کی قدوقامت، وسعت، عظمت، ہیبت اور ہمہ گیری کا یہ عالم ہے، اس کا خالق کیسا ہوگا۔ جس نے اس کرہ کی گرمی میں کروڑوں ایٹم بموں کی طاقت بھردی ہے جو وہ ہر وقت اگلنے میں مصروف ہے۔ وہ بجائے اس کے کہ زمین کی مخلوقات کو بھسم کرکے رکھ دے۔ انھیں زندگی کی نوید دیتا اور ان کے لیے زندگی بخش ثابت ہوتا ہے۔ جب شام ہوتی ہے تو چاند آہستہ آہستہ افق سے ابھرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی روشنی ذاتی نہیں بلکہ سورج سے حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے اس کی روشنی کو نور اور سورج کی روشنی کو ضیاء کہا گیا ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سورج کی روشنی جس میں ایک تپش ہے اور حدت ہے اور آنکھیں جس کا سامنا نہیں کرسکتیں اور وہ اپنے اندر پارے سے بڑھ کر چمک اور سفیدی رکھتی ہے لیکن وہی روشنی جب چاند کے پیمانہ سے ہو کر گزرتی ہے تو اس کا رنگ روپہلی ہوجاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سورج اگر چاندی بکھیرتا ہے تو یہ سونا بکھیر رہا ہے۔ اس کی روشنی بجائے گرمی کے ٹھنڈک اور سکون دیتی ہے، غلے میں گداز اور پھلوں میں مٹھاس پیدا کرتی ہے۔ یہ دونوں اپنے اپنے سفر پر آگے پیچھے رواں دواں رہتے ہیں لیکن کیا مجال جو سورج چاند کو جا پکڑے یا رات دن سے آگے نکل جائے۔ اس نے ہر ایک کی منزلیں مقرر کردی ہیں، لیکن اس آیت کریمہ میں صرف چاند کی منزلوں کے تعین اور تقرر کا ذکر فرمایا اور اس کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ تم اس کی مدد سے دنوں اور سالوں کا حساب کرسکتے ہو۔ اسلامی شریعت میں شمسی کیلنڈر ممنوع نہیں۔ سورة بنی اسرائیل میں اس کی اجازت دی گئی ہے لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ قمری کیلنڈر ہے کیونکہ یہ ایسا کیلنڈر ہے جس سے ہر دور میں ہر سطح کا آدمی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اسے جاننا کوئی مشکل نہیں کیونکہ چاند زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور اپنی گردش کے فلک کو 27 دن، 7 گھنٹوں اور 43 منٹوں میں طے کرتا ہے لیکن اسے اس جگہ پر پہنچنے کے لیے جہاں وہ سورج سے نور حاصل کرسکے مزید اڑھائی دن لگتے ہیں۔ اس لیے نیا چاند 29/ 30 دن کے بعد دکھائی دیتا ہے۔ علماء فلک نے چاند کے لیے 28 منزلیں مقرر کی ہیں اور ہر منزل کو اس کے ستارے یا ستاروں کے مجموعہ سے موسوم کیا ہے جہاں وہ ہر رات پہنچ جاتا ہے۔ جب تک چاند ان منزلوں میں ہوتا ہے وہ آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے پھر اگر مہینہ 29 دن کا ہو تو ایک رات اور اگر 30 کا ہو تو 2 رات نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے اور پھر ازسرنومنزل اول سے گردش شروع کردیتا ہے۔ اس طرح سے انسانوں کے لیے سالوں کی گنتی، دن رات کا تعین اور مہینوں کا تقرر آسان ہوگیا۔ ہر شخص بڑی آسانی سے ہر علاقے میں چاہے میدانی ہو یا پہاڑی، اپنے اوقات معلوم کرسکتا ہے۔ اسلام میں عبادات کا نظام قمری حساب سے رکھا ہے اور باقی زندگی کے معاملات کو ہماری مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ شمسی حساب سے رکھو یا قمری حساب سے، لیکن یہ یاد رہے کہ قمری حساب چونکہ ہجرت سے متعلق ہے اس لیے اس کی اسلامی اور تاریخی حیثیت بھی ہے۔ بنابریں یہ ازبس ضروری ہے کہ ہجری تقویم کی عظمت و افادیت نظرانداز نہ ہونے پائے۔ شمسی تقویم سے فائدہ اٹھایا جائے لیکن ہجری تقویم متروک نہ ہونے پائے۔ جس پروردگار نے ہماری زندگی کو آسان اور رواں دواں کرنے کے لیے شمس و قمر کو تخلیق فرمایا اس کی روشنی سے ہماری زندگی آسان کی اور ان کی گردش سے ہمیں تقویم عطا فرمائی۔ اس کے بارے میں یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ کائنات کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ وہ ایک دفعہ مخلوق کو پیدا کرکے اپنی قوت کھو چکا ہے۔ اب کائنات کا نظام ایسے اتفاق اور مفروضوں سے چل رہا ہے جنھیں عقل کے لیے تسلیم کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح اس نظام کو دیکھ کر کون باور کرسکتا ہے کہ یہ ازخود وجود میں آنے والا نظام ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکمت نہیں۔ گویا یہ کسی کباڑیئے کا مال گودام ہے حالانکہ اس کا ایک ایک گوشہ اس کے خالق کی عظیم قدرت اور اس کی بےپایاں رحمت و ربوبیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کی ہر مخلوق کی تخلیق میں نہایت اعلیٰ درجہ کا اہتمام، بینظیر ترتیب اور نظم دکھائی دیتا ہے۔ اللہ نے اس کی ہر چیز کو ایک مقصد دے کر پیدا فرمایا ہے۔ پانی کے ایک قطرے، ریت کے ایک ذرے اور پھول کی ایک پنکھڑی اور درخت سے پھوٹنے والی ایک کونپل سے لے کر آسمان کے ستاروں، سیاروں اور ثوابت پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے خالق کی تخلیق ہے جس کی قدرت و حکمت کی کوئی انتہاء نہیں۔ جس نے ہر چیز کو بامقصد اور باغایت بنایا۔ نہ یہاں پھول بےمقصد کھلتا ہے اور نہ بےسبب کانٹے کی نوک تیز ہوتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان جیسے گل سرسبدکو بےمقصد زندگی دے کر پیدا کردیا ہے۔ اسے عقل جیسی نعمت کھیل تماشے کے لیے عطا کی گئی ہے۔ اس پر وحی الٰہی اس لیے اترتی رہی ہے کہ وہ گھروندے بناتا رہے اور توڑتا رہے۔ اس لیے فرمایا کہ اللہ نے ان میں سے کوئی چیز بھی بےمقصد نہیں بنائی اور وہ اپنی بعض مخلوقات کی طرف توجہ دلاکر تمہارے سامنے اپنی نشانیاں کھولتا ہے تاکہ تمہیں حقیقت شناسی میں آسانی ہو۔
Top