Ruh-ul-Quran - Yunus : 4
اِلَیْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا١ؕ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا١ؕ اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ بِمَا كَانُوْا یَكْفُرُوْنَ
اِلَيْهِ : اسی کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہارا لوٹ کر جانا جَمِيْعًا : سب وَعْدَ : وعدہ اللّٰهِ : اللہ حَقًّا : سچا اِنَّهٗ : بیشک وہی يَبْدَؤُا الْخَلْقَ : پہلی بار پیدا کرتا ہے ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : دوبارہ پیدا کریگا لِيَجْزِيَ : تاکہ جزا دے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک (جمع) بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَھُمْ : ان کے لیے شَرَابٌ : پینا ہے (پانی) مِّنْ : سے حَمِيْمٍ : کھولتا ہوا وَّعَذَابٌ : اور عذاب اَلِيْمٌ : دردناک بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ : وہ کفر کرتے تھے
اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔ یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بیشک وہی خلق کا آغاز کرتا ہے۔ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ بدلہ دے اور جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے کھولتا پانی ہے اور دردناک عذاب ہے۔ بسبب اس کے کہ وہ کفر کرتے تھے۔
اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا ط وَعْدَاللّٰہِ حَقًّاط اِنَّہٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ م بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ ۔ (یونس : 4) (اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔ یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بیشک وہی خلق کا آغاز کرتا ہے۔ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کیے ان کو پورے انصاف کے ساتھ بدلہ دے اور جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے کھولتا پانی ہے اور دردناک عذاب ہے۔ بسبب اس کے کہ وہ کفر کرتے تھے۔ ) عقیدہ آخرت کے اساسی حقائق میں اس سے پہلے یہ عرض کرچکا ہوں کہ مکی سورتوں میں زیادہ تر عقائد کی اصلاح پر زور دیا گیا ہے۔ چناچہ گزشتہ آیتوں میں عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت کو بیان کیا گیا ہے۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں اسلام کا تیسرا عقیدہ، عقیدہ آخرت کو بیان فرمایا جارہا ہے۔ عقیدہ آخرت کی بنیاد چند حقائق پر ہے۔ 1 اس بات کو دل و دماغ میں اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انسان کو اس دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔ وہ یہاں ایک محدود وقت کے لیے آیا ہے اور دنیا میں اس کے آنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ دوسری دنیا یعنی آخرت کے لیے تیاری کرے اور اپنی زندگی اس طریقے اور ان احکامات کے مطابق گزارے جن کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم دیا ہے اور جسے اسلامی شریعت کہتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا شکر بجالائے اور ان تمام حقوق کو ادا کرے جو اسلامی شریعت نے اس پر عائد کیے ہیں اور وہ دنیا میں، دنیا کا بندہ بننے کی بجائے اللہ کا بندہ بن کر رہے۔ اس کا ہر فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہو اور اس کی سوچ اور اس کے اعمال پر اسلامی شریعت کا پہرا ہو۔ وہ زندگی کی ضروریات حاصل کرے لیکن ان کے حصول کا ذریعہ اسلامی شریعت سے پوچھے۔ وہ اپنی محنت اور اپنی ہمت کے مطابق اکتساب کرے لیکن اس کا طریقہ اور اس کا مقصد وہ ہو جو اسلام نے متعین کیا ہے۔ اپنی زندگی اور اپنی صلاحیتوں اور اپنے مال و دولت کو اللہ کی امانت جانے اور امانت کا حق ادا کرنے کی فکر کرے اور ہر لمحہ اپنے ذہن میں اس بات کو مستحضر رکھے کہ کسی وقت بھی موت کا پیغام آسکتا ہے۔ اس کا آنا جس قدر ناگہانی ہے اسی طرح یقینی بھی ہے۔ یہ تصور جس قدر دل و دماغ میں پختہ ہوتا جاتا ہے زندگی ویسے ویسے پاکیزہ تر ہوتی جاتی ہے اور جیسے ہی اس تصور سے غفلت شروع ہوتی ہے۔ زندگی میں بگاڑ کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ اس لیے اللہ کے ہر نبی اور اس کی ہر کتاب نے سب سے زیادہ انسانوں کے لیے اس بات پر زور دیا کہ موت کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو۔ تمہارے ہر کام میں مہلت ہوسکتی ہے لیکن موت کے وقت میں مہلت نہیں ہوسکتی۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک لمحہ بھی ادھراُدھر نہیں ہوسکتا۔ امام رازی ( رح) نے سورة العصر کی تفسیر میں لکھا کہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک برف بیچنے والا برف کا بلاک سامنے رکھے دہائی دے رہا ہے کہ لوگو ! رحم کھائو اس آدمی پر جس کا سرمایہ گھلتا جارہا ہے، اگر تم اسے خرید لو گے تو اس کے دام کھرے ہوجائیں گے اور اگر خریدنے میں تاخیر کروگے تو برف گھل جانے کے باعث اس کے دام ضائع ہوجائیں گے۔ امام صاحب ( رح) فرماتے ہیں کہ مجھے معاً خیال آیا کہ برف کے گھلنے میں تو ایک وقت لگتا ہے، نہ وہ اس سے پہلے گھل سکتی ہے اور نہ بعد میں، لیکن عمر کی صورت میں جو سرمایہ میرے پاس ہے اس کے گھلنے میں تو ایک لمحہ بھی صرف نہیں ہوتا۔ پانی کا بلبلہ بھی اتنی جلدی نہیں ٹوٹتا جتنی جلدی بعض دفعہ انسانی عمر ختم ہوجاتی ہے۔ شیخ سعدی مرحوم نے ٹھیک فرمایا کہ ہر سانس پر آدمی کے ذمے دو شکر واجب ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک سانس، سانس کے آنے اور واپس جانے سے مکمل ہوتا ہے۔ اگر سانس پیٹ کے اندر جا کر واپس نہ آئے تو موت واقع ہوجاتی ہے اور اگر باہر آکر واپس نہ جائے تو تب بھی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے ایک سانس پر دو شکر لازم ہوئے۔ اس سے اندازہ فرمائے کہ انسان کی زندگی کتنی بےثبات اور ناپائیدار ہے۔ کتنی دفعہ دیکھا ہے کہ آدمی اچھا بھلا باتیں کررہا ہے کہ اچانک سانس رکا اور چلتا بنا۔ اچھا بھلا سویا، اٹھنا نصیب نہ ہوا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جان بلب مریض بعض دفعہ بچ جاتے ہیں اور تیماردار دوسری دنیا کو سدھار جاتے ہیں۔ ڈوبنے والے کو بچا لیا جاتا ہے اور بچانے والے بعض دفعہ ڈوب جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے زندگی کتنی بےاعتبار ہے اور یہ بےاعتباری انسان کے لیے کس قدر احتیاط کا تقاضہ کرتی ہے، لیکن یہاں تو ایک توجہ طلب بات اور بھی ہے کہ آدمی اگر ایسے کسی ناگہانی حادثے سے محفوظ بھی رہے تب بھی یہ ایسا سرمایہ ہے جو ہر وقت گھلتا رہتا ہے۔ آدمی کام کررہا ہو یا سو رہا ہو، رو رہا ہو یا ہنس رہا ہو، دکھ میں ہو یا راحت میں، ظلم کررہا ہو یا ظلم سہ رہا ہو، حاکم ہو یا محکوم کوئی لمحہ ایسا نہیں جب یہ سرمایہ گھلنے سے رک جاتا ہو۔ برف کو فریزر میں رکھ کر گھلنے سے بچایا جاسکتا ہے لیکن انسانی زندگی کو اس دنیا میں کہیں قرار نصیب نہیں۔ ہر وقت اس کا حال یہ ہے : ہو رہی ہے عمر مثل برف کم رفتہ رفتہ لحظہ لحظہ دم بدم سانس ہے اک رہ رو ملک عدم دفعۃً اک روز یہ جائے گا تھم اندازہ کیجیے یہ زندگی کس قدر بےثبات، بےقرار اور ناپائیدار ہے اور کس قدر تلخ ہے یہ حقیقت کہ انسان اس کی ناپائیداری اور بےثباتی کو کبھی یاد رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے سامنے جنازے اٹھتے ہیں، حادثے ہوتے ہیں، چھوٹے بھی مرتے ہیں اور بڑے بھی اور کتنی دفعہ جنازے کو کندھا دینے کا موقع ملتا ہے اور بعض دفعہ تو آدمی اپنے عزیزوں کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارتا ہے لیکن قبر سے نکلنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ جسے مرنا تھا وہ مرگیا ہے مجھے موت نہیں آئے گی۔ کس قدر حیرت انگیز ہے یہ بات کہ موت اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور انسان سب سے زیادہ اسی سے بیخبر نہیں تو بےنیاز ضرور ہے بلکہ کسی کو اگر موت کی یاد دلائی جائے تو اسے برا لگتا ہے اور وہ قبرستان میں جا کر بھی اس طرح درّانہ وار گھومتا ہے کہ اسے خیال ہی نہیں ہوتا کہ ایک دن مجھے یہیں آنا ہے اور یہی شہر خموشاں میری اصل منزل ہے۔” سودا “ نے ایسے ہی لمحہ کو محفوظ کرتے ہوئے کہا ہے : کل پائوں ایک کاسہ سر پر جو جا پڑا ہرچند وہ استخوانِ شکستہ سے چور تھا کہنے لگا کہ دیکھ کر چل راہ بیخبر میں بھی کبھی کسی کا سرِ پر غرور تھا چناچہ آخرت کی یاددہانی کے لیے اسلام سب سے پہلے موت کو یاد رکھنے پر زور دیتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ موت ہی وہ چیز ہے جو خواہشات اور غفلت کو توڑ دینے والی ہے۔ 2 آخرت کے بارے میں دوسرے جس تصور پر زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ تم زندگی میں جو کچھ کرتے ہو چاہے لوگوں کے سامنے کرو یا تنہائی میں، چاہے روشنی میں کرو یا تاریکی میں ہرحال میں اللہ اسے جاننے والا ہے۔ اس کی نگاہ برابر تمہارے تعاقب میں رہتی ہے۔ اس کے دو فرشتے ہر وقت تمہارے دونوں کندھوں پر رہتے ہیں۔ وہ ہر وقت تمہارے اعمال کو محفوظ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ تم اپنے اعمال اور خیالات کو بھول سکتے ہو لیکن اللہ کے علم میں اور تمہارے نامہ اعمال میں وہ ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ چناچہ یہی تمہارا نامہ اعمال تمہارے خلاف یا تمہارے حق میں قیامت کے دن حجت بنے گا۔ وہ جب تمہاری ایک ایک بات کو تمہارے سامنے کھول کر رکھ دے گا تو تم حیران ہو کر کہو گے کہ ہائے میری شامت اعمال یہ رجسٹر کیسا ہے جس نے میری کسی چھوٹی بڑی بات کو چھوڑا نہیں۔ اسی کو گواہ بنا کر اللہ تعالیٰ ہر شخص کا حساب لے گا۔ نیکیاں بھی تلیں گی اور برائیاں بھی۔ اسی کے مطابق جزاء اور سزا کا فیصلہ ہوگا۔ اس لیے جس طرح موت کو یاد رکھنا ضروری ہے اسی طرح اس حقیقت کو بھی مستحضر رکھنا ضروری ہے کہ میرا اصل سرمایہ ایمان اور حُسنِ عمل ہے۔ یہی وہ سکہ ہے جو قیامت میں کام آئے گا۔ اس کے علاوہ نہ کوئی رشتہ کام آئے گا اور نہ کوئی نسبت۔ مال و دولت اور عہدہ و منصب سب یہیں دھرے رہ جائیں گے۔ 3 جس طرح ہر شخص کا مرنا ضروری ہے کیونکہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں جسے موت سے رستگاری ہو ” امیرمینائی “ نے ٹھیک کہا : جو زندہ ہے وہ موت کی تکلیف سہے گا جب احمدمرسل ﷺ نہ رہے کون رہے گا اسی طرح یہ دنیا بھی ہمیشہ نہیں رہے گی۔ ایک دن آئے گا جب اس کائنات کی صف لپیٹ دی جائے گی۔ ہر زندہ موت کی نذر ہوجائے گا۔ ہر چیز ہلاکت کے گھاٹ اتر جائے گی۔ پھر اک وقت آئے گا جب قبریں پھٹیں گی اور لوگ زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکلیں گے اور جس کسی کی قبر کا نشان بھی نہیں ہوگا اسے بھی اللہ تعالیٰ اٹھا کھڑا کریں گے۔ ایک محشر بپا ہوگا، سب لوگ محشر میں جمع ہوں گے۔ خداوندذوالجلال کی عدالت سجے گی، ہر انسان وہاں اپنے حساب کتاب کے لیے پیش ہوگا۔ نیک لوگ جنت میں جائیں گے اور برے لوگ جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ عمل کی آمادگی کے دو سبب ان تین بنیادی تصورات کے مجموعے کو آخرت کہتے ہیں۔ یہ کیونکہ دنیا کے بعد آنے والی دنیا ہے اس لیے اس کو آخرت کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن کریم اس عقیدے پر اس لیے زور دیتا ہے کہ اگر یہ عقیدہ ذہنوں سے محو ہوجاتا ہے تو پھر انسان کو راہ راست پر رکھنے والی کوئی چیز نہیں کیونکہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ صرف دو سبب سے آمادہ عمل ہوتا ہے یا عمل میں اصلاح کی فکر کرتا ہے۔ وہ دو سبب ترغیب اور ترہیب کہلاتے ہیں۔ ترغیب کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی انسان کو یہ یقین دلادیا جائے اور رغبت پیدا کردی جائے کہ تم اگر یہ کام کرو گے تو اس کے بدلے میں تمہیں فلاں فلاں چیزیں مل سکتی ہیں تو اگر وہ چیزیں اس کی نگاہ میں قدر و قیمت کی حامل ہوں تو وہ ضرور اس کے حصول کے لیے محنت کرتا بلکہ جان مارتا ہے۔ راتوں کو جاگ کر چراغوں کی لو پر آنکھوں کو سینک کر جو لوگ حصول علم کے لیے محنت کرتے ہیں ایسے لوگ بہت کم ہوں گے جو اسے عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ بیشتر لوگ ایسے ہیں جو اس لیے محنت کا عذاب جھیلتے ہیں تاکہ اس کے نتیجے میں ان کو کوئی ڈگری ملے اور ڈگری اس لیے حاصل کرتے ہیں تاکہ کسی بہتر نوکری کو حاصل کرسکیں۔ کوئی بہتر تنخواہ پاسکیں اور اس طرح آسودہ زندگی گزار سکیں۔ دن بھر چلچلاتی دھوپ میں ایک مزدور محنت کرتا ہے صرف اس لیے تاکہ وہ اجرت حاصل کرسکے۔ کاروباری لوگ شب و روز محنت کرتے ہیں، سونا بھی نصیب نہیں ہوتا صرف اس لیے تاکہ بیش از بیش دولت حاصل کرسکیں۔ اسلام نے بھی آخرت کے لیے ترغیب سے کام لیا۔ اس نے کہا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے محنت کرو گے اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو گے اور شریعت کی پابندی کرو گے تو یقین جانو تمہیں قیامت کے دن جنت عطا ہوگی جس کی نعمتوں کو نہ تمہاری آنکھوں نے دیکھا نہ تمہارے کانوں نے سنا اور نہ کبھی تمہارے دل میں ان نعمتوں کا تصورگزرا اور پھر قرآن و سنت نے بعض دفعہ ان نعمتوں کی تفصیلات بھی بیان فرمائیں تاکہ ترغیب کا عمل مکمل ہو۔ چناچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان نہ صرف شریعت کی پابندی کے لیے محنت کرتے تھے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی بلندی کے لیے دنیا کا ہر دکھ اٹھاتے تھے اور اگر اس راستے میں شہادت نصیب ہوتی تھی تو زخمی ہو کر گرتے ہوئے بھی بجائے چیخنے چلانے کے ان کی زبان پر یہ جملہ ہوتا تھا فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جنت کی بیش بہا نعمتوں کے حصول کے لیے جان دینا بھی کوئی بڑی قیمت نہیں۔ ٹھیک کہا کسی شاعر نے : بہرِغفلت یہ تری ہستی نہیں دیکھ جنت اس قدر سستی نہیں دوسری چیز ہے ترہیب، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو یہ آگاہی دی جائے کہ اگر تم نے دنیا میں اللہ کی اطاعت کی بجائے شیطان کی اطاعت کی اور اگر تم نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی بجائے خواہشات نفس کا اتباع کیا یا طاغوت کی بندگی کی تو پھر یاد رکھو ممکن ہے کہ دنیا میں تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچے رہو لیکن قیامت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور جہنم کے عذاب سے نہیں بچ سکو گے اور یہ عذاب ایسا سخت ہے کہ اس کا تصور بھی تمہیں ہلا ڈالنے والا ہے۔ چناچہ ہم جو صحابہ کرام ( رض) کو راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کے دربار میں روتا ہوا دیکھتے ہیں اور بڑے سے بڑا اللہ کا ولی عمر بھر اس کے عذاب اور اس کے غضب سے لرزاں اور ترساں رہتا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز پانچویں خلیفہ راشد ہیں اور حضرت حسن بصری تابعین کے سرخیل ہیں لیکن وہ اللہ کے غضب اور جہنم سے ڈر کر اس طرح روتے کہ دیکھنے والے کہتے کہ ایسا لگتا تھا جیسے جہنم ان دونوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ انسان یا ترغیب سے کام کرتا ہے یا ترہیب سے۔ آخرت کے تصور میں یہ دونوں محرک شامل ہیں۔ اس لیے یہاں قرآن کریم نے خاص طور پر فرمایا کہ تمہیں اسی کی طرف پلٹنا اور لوٹنا ہے یعنی ایک دن سب انسانوں کو اسی کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہے۔ اگلے جملے میں قیامت کے وقوع پر عقلی دلیل دی گئی ہے کیونکہ مشرکین عرب کو عقلی طور پر قیامت کے آنے سے انکار تھا۔ وہ اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہر زندہ چیز موت کا شکار ہوجائے گی اور کائنات کا ایک ایک کرہ شکست و ریخت کی نذر ہوجائے گا اور پھر ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ زندگی آئے گی اور تمام انسانوں کو زندہ کرکے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کیا جائے گا۔ وہاں حساب کتاب ہوگا اور اسی کے مطابق جزاء سزا ہوگی۔ انھیں چونکہ اصل انکار دوبارہ زندہ ہونے سے تھا اس لیے سب سے پہلے عقلی طور پر اسی کا جواب دیا گیا۔ ارشاد فرمایا : اِنَّہٗ یَبْدَؤُاالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ” بیشک وہی خلق کا آغاز کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا۔ “ اس سے پہلے ارشاد فرمایا گیا کہ تم سب کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا پکا اور سچا وعدہ ہے۔ ہر پیغمبر اور اس کی امت نے اس کی سچائی پر گواہی دی ہے لیکن تمہیں نہ جانے کیوں قیامت کے آنے میں شبہ ہے حالانکہ قیامت کا آنا بعض مسلمات کا جواب بھی ہے اور عقل کا تقاضہ بھی۔ تم جس طرح اللہ کو خالق مانتے ہو اور اس کی قوت تخلیق میں کسی اور کو شریک نہیں سمجھتے اسی طرح تم اس بات کو بھی مانتے ہو کہ اللہ کی ذات قادر مطلق ہے۔ اس کے لیے کسی چیز کی تخلیق ناممکن تو دور کی بات ہے مشکل بھی نہیں ہے۔ جب تم اس کو کائنات کا اور خود اپنا خالق تسلیم کرتے ہو تو پھر یہ کس قدر بےعقلی کی بات ہے کہ تم یہ کہنے لگو کہ اللہ تعالیٰ ایک دفعہ تو کائنات کو پیدا کرچکا وہ دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ وہ ایک دفعہ پیدا کرنے کے بعد اپنی صفت تخلیق اور صفت قدرت سے محروم ہوگیا حالانکہ جو شخص بھی اللہ کی صفات کا معمولی فہم بھی رکھتا ہے وہ اس بےہودگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اللہ کسی حالت میں اپنی صفات سے محروم ہوسکتا ہے اور یا اس کی کسی صفت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ وہ اگر ایک دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو دوبارہ اسے پیدا کرنے میں کس طرح دشواری پیش آسکتی ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت قدرت کو دلیل بنا کر مشرکین کی اس غلطی کو بار بار واضح فرمایا۔ سورة نازعات آیت 27 تا 33 میں فرمایا : ئَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآئُ ط بَنَاھَا۔ وقفہرَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوّٰھَا۔ لا وَاَغْطَشَ لَیْلَھَا وَاَخْرَجَ ضُحٰھَا۔ ص وَلْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا۔ ط اَخْرَجَ مِنْھَا مَآئَ ھَا وَمَرْعٰھَا۔ ص وَالْجِبَالَ اَرْسٰھَا۔ لا مَتَاعَا لَکُمْ وَلْاَنْعَامِکُمْ ۔ ط (تمھاری تخلیق مشکل ہے یا آسمان کی ؟ اللہ نے آسمان کو پیدا کیا اور اس نے چھت کو بلند کرنے کے بعد اس کو استحکام بخشا۔ رات کو تاریک اور دن کو روشن بنایا۔ اس کے بعد زمین کو بچھایا، ان میں سے پانی نکالا، چارہ پیدا کیا اور پہاڑوں کو اس پر کھڑا کردیا۔ یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشوں کے لیے متاع ہے۔ یعنی جو خالق ومالک ان تمام باتوں پر قدرت رکھتا ہے آخر وہ تمہاری ہمہ گیر موت اور دوبارہ زندگی پر قدرت کیوں نہیں رکھتا۔ ) سورة بنی اسرائیل میں فرمایا : ” وَقَالُوْا اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرِفَاتًائَ اَنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا “ (بنی اسرائیل : 42) (اور وہ بولے کہ جب ہم ہڈی اور چورا ہوجائیں گے تو پھر کیسے نئے اٹھا کر بنائے جائیں گے۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ ان جیسے لوگوں کو دوبارہ بھی بنا سکتا ہے۔ ) سورة روم میں فرمایا کہ خدا وہی ہے جو خلق کو آغاز کرتا ہے، پھر اس کو دوبارہ خلق کرے گا اور یہ دوبارہ خلق کرنا اس کے لیے آسان ہے۔ سورة یٰسین میں فرمایا : قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْم۔ قُل یُحْیٖھَا الَّذِیْ اَنْشَاھَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۔ (یٰسین : 78 تا 79) ” وہ بولے کون ان کھوکھلی و سڑی ہڈیوں کو زندہ کرے گا۔ آپ کہہ دیجیے وہی جس نے پہلی دفعہ ان کو بنایا۔ “ سورة قیامہ میں ارشاد فرمایا : ” اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ لَنْ نَجْمَعَ عِظَامَہٗ بَلٰی قَادِرِیْنَ عَلٰی اَنْ نَسْوِیْ بَنَانَہٗ “ (کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو پھر جمع نہ کرسکیں گے۔ ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ چھوٹی ہڈیوں، ریشوں اور رگوں سے اس کی انگلیوں کے پورے بنا ڈالیں) یعنی جس پروردگار نے چھوٹی ہڈیوں، ریشوں اور رگوں سے ایسے پوروں کو ترتیب دیا ہے کہ جو آج بھی دستاویزی ثبوت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اربوں کھربوں انسانوں کی تخلیق کے باوجود کسی ایک انسان کے انگوٹھے کا نشان دوسرے انسان سے نہیں ملتا۔ جو خالق کائنات اس بات پر قادر ہے کیا وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ بِالْقِسْطِ ط وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّ عَذَابٌ اَلِیْمٌ م بِمَا کَانُوْا یَکْفِرُوْنَ ۔ (تاکہ وہ بدلہ دے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے عدل کے ساتھ اور جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے کھولتا پانی ہے اور دردناک عذاب ہے، ان کے کفر کی پاداش میں) قیامت کا وقوع عدل کا تقاضا ہے آیت کا یہ جملہ قیامت کے آنے پر دلیل بھی ہے اور قیامت کے وقوع کا مقصد بھی۔ یعنی قیامت محض شکست و ریخت کا نام نہیں۔ نہ ازسرنو نئی دنیا بسانے کا نام ہے بلکہ اس کے لانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نیکوں کو نیکی کا بدلہ ملے اور بروں کو برائی کی سزا ملے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم ترین صفت، صفت عدل بھی ہے۔ انسانوں کو شریعت کا پابند کرنا اور زمین پر خلافت کا قیام اور خلافت کو حکومت کے ساتھ قوت فراہم کرنا اور اللہ اور رسول کے بعد عادل حکمرانوں کی اطاعت کا حکم، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا اظہار ہے اور دنیا میں چونکہ اس صفت کو پوری طرح بروئے کار نہیں لایا جاسکتا اس لیے قیامت کا آنا عدل کا تقاضہ بھی ہے اور عقل کی اپیل بھی۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفت ِ عدل کو تسلیم کرتا ہے اور پھر بھی وہ قیامت کے آنے سے انکار کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ یا تو عدل کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا اور یا وہ عقل سے تہی دامن ہے۔ عدل کا ایک معنی ہے تلافی مافات۔ یعنی نقصان کو پورا کرنا۔ اس عدل کے بیشمار مناظر ہمارے سامنے ہیں۔ جب ہم کسی درخت کی شاخوں کو کاٹ دیتے ہیں تو نئی شاخیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ جب ہم کسی جنگل کا کوئی ٹکڑا درختوں سے صاف کردیتے ہیں تو وہاں نئے پودے اور نئی بوٹیاں اگ آتی ہیں۔ جب تلوار وغیرہ سے کسی حصہ جسم کا گوشت کٹ جاتا ہے تو قدرت نیا گوشت پیدا کردیتی ہے۔ ہم کنویں سے کتنا ہی پانی نکالیں، زمین کی رگوں سے اتنا ہی پانی اس میں آجاتا ہے۔ یہ حقیقتِ عدل ہے جو حیات کی ہر سطح میں پائی جاتی ہے اور جس پر ارض و سما کا نظام قائم ہے اس عدل کا تقاضا ہے کہ جب ہم سے یہ دنیا چھن جائے تو ہمیں ایک اور ایسی دنیا ملنی چاہیے جہاں اس زندگی کی تمام ناانصافیوں کی تلافی ہو۔ اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں جو لوگ انسانیت کے سب سے بڑے محسن رہے ہیں ان میں انبیاء بھی ہیں اور مصلحین امت بھی۔ وہ سب سے زیادہ ستائے گئے۔ انھوں نے انسان کو راہ راست دکھانے اور پنجہ استبداد سے چھڑانے کے لیے بےاندازہ مصائب اٹھائے لیکن اس کے بدلے میں جن پر انھوں نے احسان کیا ان کی طرف سے انھیں کیا ملا ؟ کوئی سپردِدار ہوا اور کوئی سپردِنار۔ کسی کو قتل کیا گیا تو کسی کو زندہ دیوار میں چن دیا گیا۔ انھیں اس زندگی میں سوائے مصیبتوں اور تکلیفوں کے کچھ نہیں ملا۔ بقول شاعر : زمانہ یونہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے وہ درس صلح دیتے ہیں یہ ان سے جنگ کرتا ہے اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ جنھوں نے انسانیت کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ دنیا میں ظلم و استبداد کی علامت بن کر رہے اور جنھوں نے خالق کائنات کے مقابلے میں اپنی ربوبیت کا صور پھونکا، وہ ہمیشہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے اور زندگی کی نعمتوں سے فیضاب ہوتے رہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ جب چنگیز کے پوتے ہلاکو خان نے 1258 ء میں بغداد پر حملہ کیا تھا تو وہاں 7 دن میں 19؍ لاکھ شہری موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہلاکو اور اسی نوع کے دیگر قزاقوں اور قاتلوں کو ان جرائم کی سزا کیا ملی ؟ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بیوہ کا اکلوتا بیٹا جو اس کے بڑھاپے کا سہارا تھا کسی قاتل کی گولی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ باقی زندگی پولیس کے چکر کاٹتی، دربدر ٹھوکریں کھاتی اور شب و روز آنسو بہاتی گزار دیتی ہے۔ اولاً تو اس کے قاتل پکڑے نہیں جاتے اور پکڑے بھی جائیں تو انھیں سزا نہیں ملتی۔ وہ رات دن یہ کہہ کہہ کر تخت الٰہی کو ہلاتی رہتی ہے۔ تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مظلوم کے اوقات اور پھر کتنے لوگ ایسے ہیں جو تخت اقتدار پر بیٹھ کر لاکھوں آدمیوں کی محرومیوں کا باعث بنتے ہیں یا ان کے قتل کا سبب ٹھہرتے ہیں اور کتنے ایسے تخریب کار ہیں جو گاڑی کی پٹڑی اکھاڑ کر یا بم پھینک کر سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو لقمہ اجل بنا دیتے ہیں۔ اولاً تو ان کو سزا نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو ان کی ایک جان سینکڑوں اور ہزاروں جانوں کا عوض تو نہیں بن سکتی۔ ایک جان تو ایک جان کا بدلہ ہوسکتی ہے، باقیوں کا بدلہ کون دے گا ؟ اگر اللہ عادل ہے اور عدل اس کی صفت ہے تو اسی صفت عدل کا تقاضہ ہے کہ ایسی دنیا ہونی چاہیے اور ایک ایسی عدالت قائم ہونی چاہیے جہاں انسانیت کے محسنوں اور قاتلوں کو اپنے اپنے کیے کا بدلہ ملے۔ محسن لافانی مسرتوں سے ہمکنار ہوں اور مجرم قہرو عذاب کا شکار ہوں۔
Top