Ruh-ul-Quran - Al-Humaza : 3
یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗۚ
يَحْسَبُ : وہ گمان کرتا ہے اَنَّ : کہ مَالَهٗٓ : اس کا مال اَخْلَدَهٗ : اسے ہمیشہ رکھے گا
وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال نے اسے لافانی بنادیا ہے
یَحْسَبُ اَنَّ مَالَـہٗٓ اَخْلَدَہٗ ۔ (الہمزۃ : 3) (وہ سمجھتا ہے کہ اس کے مال نے اسے لافانی بنادیا ہے۔ ) مال و دولت میں گہرے انہماک کا سبب اس کے مال و دولت میں گہرے انہماک کا اصل سبب یہ ہے کہ اس کا گمان یہ ہے کہ یہ مال اسے کبھی مرنے نہیں دے گا بلکہ اسے زندہ وجاوید رکھے گا۔ یعنی مال کی محبت ایک ایسا دھوکہ یا ایسا نشہ ہے جو موت جیسی حقیقت کو بھی آنکھوں سے اوجھل کردیتا ہے۔ وہ دوسروں کے جنازے اٹھتے ہوئے دیکھتا ہے لیکن اپنی موت اسے کبھی یاد نہیں آتی۔ ٹھیک کہا کسی نے : جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بو نے قومیں جب بگڑتی ہیں تو ان کے بگاڑ کا حقیقی سبب یہی مال و دولت میں استغراق ہوتا ہے۔ وہ دولت دنیا میں اپنے لیے دوام دیکھنے لگتے ہیں۔ سورة شعراء میں اسی ذہنیت کی عکاسی فرمائی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا : اَتَبْنُوْنَ بِکِلِّ رِیْعٍ آیٰـۃً تَعَبَثُوْنَ ۔ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّـکُمْ تَخْلُدُوْنَ ۔ ” کیا تم ہر بلندی پر بیکار یادگاریں تعمیر کرتے رہو گے اور شاندار محل تعمیر کرتے رہو گے گویا تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے “ یعنی جن لوگوں کی زندگی کا عمومی رویہ یہ ہو کہ وہ ہر معاملے میں دولت دنیا کو ترجیح دیتے اور دنیا ہی کو اپنی منزل سمجھتے ہوں تو ان کے بارے میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ زبان سے کیا کہتے ہیں بلکہ ان کے طرزعمل سے ان کی زندگی کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ جو شخص آخرت کا قائل ہوگا اسے تجوریوں کی فکر نہیں ہوگی بلکہ اس کے پیش نظر کردارسازی کے محل کی تعمیر رہے گی۔ یہی وہ پیمانہ ہے جس سے کسی قوم کی حقیقت سامنے آتی ہے۔
Top