Ruh-ul-Quran - Hud : 59
وَ تِلْكَ عَادٌ١ۙ۫ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ
وَتِلْكَ : اور یہ عَادٌ : عاد جَحَدُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں کا رَبِّهِمْ : اپنا رب وَعَصَوْا : اور انہوں نے نافرمانی کی رُسُلَهٗ : اپنے رسول وَاتَّبَعُوْٓا : اور پیروی کی اَمْرَ : حکم كُلِّ جَبَّارٍ : ہر سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
اور یہ ہے قوم عادجنھوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر متکبر دشمن حق کے حکم کی پیروی کی۔
وَتِلْکَ عَادٌ قف لا جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہٗ وَاتَّبَعُوْ ٓا اَمْرَکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ وَاُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط اَلَآ اِنَّ عَادًا کَفَرُوا رَبَّھُمْ ط اَلاَ بُعْدًا لِّعَادٍ قَوْمِ ھُوْدٍ ۔ (سورۃ ہود : 59۔ 60) (اور یہ ہے قوم عادجنھوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر متکبر دشمن حق کے حکم کی پیروی کی۔ اور ان کے پیچھے لگا دی گئی اس دنیا میں لعنت، اور قیامت کے دن بھی۔ سنو ! عاد نے اپنے رب کا انکار کیا۔ سنو ! ہلاکت و بربادی ہے عاد کے لیے جو ہود کی قوم تھی۔ ) قومِ عاد کے بڑے بڑے جرائم قومِ عاد کے انجامِ بد کا ذکر فرمانے کے بعد مشرکینِ مکہ کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ قوم عاد جو تمہاری ہی طرح ایک مضبوط قوم تھی ان کا یہ حسرت ناک انجام اس لیے ہوا کہ ان کی داغدار زندگی میں چند جرائم ان کی زندگی کا عنوان بن کر رہ گئے تھے۔ ان میں پہلا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ہر معاملے میں اپنے رب کی آیات یعنی اس کے احکام کا انکار کیا۔ ” جحد “ اس بات کے انکار کو کہتے ہیں جس کا دل میں اقرار موجود ہو۔ دل مانتا ہو کہ پیغمبر جس بات کی دعوت دے رہا ہے وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، لیکن اپنے مفادات، غلط ترجیحات، اندھے تعصبات اور نفسانی خواہشات کے ساتھ وابستگی اور وفاداری اللہ کے دین کے راستے میں حائل ہوجائے۔ قوم ہود کا یہی حال تھا۔ وہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی دعوت کی تاثیر کے قائل تھے۔ ان کے دلائل کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ان کی بےعیب زندگی دلوں میں اتر جانے والی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ کسی طور بھی ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔ زندگی کی ناکامیوں کو انھوں نے قبول کیا لیکن حق سے عناد کی وجہ سے وہ کامرانیوں کا راستہ اختیار نہ کرسکے۔ جب کسی قوم میں عیش پرستی اور حب دنیا جڑ پکڑ لیتی ہے تو پھر اس کے دل و دماغ میں فاصلے حائل ہوجاتے ہیں۔ ان کے قلبی اعتقادات کچھ اور ہوتے ہیں اور دماغی فیصلے کسی اور سمت میں جاتے ہیں۔ عیش پرستی کے باعث ان میں جہد و عمل کی خواہش کمزور پڑجاتی ہے۔ وہ زندگی کے حقائق سے گریز کرتے ہیں اور خوابوں کے سہارے زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ دھرتی کا بوجھ ہوتے ہیں۔ ان کا دوسرا جرم یہ تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ قرآن کریم میں کہیں کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہو کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کے ساتھ کوئی اور پیغمبر بھی مبعوث ہوئے تھے۔ اس کے باوجود رسل جو رسول کی جمع ہے کا استعمال معلوم ہوتا ہے ایک خاص حقیقت کی طرف اشارے کے لیے ہوا ہے۔ وہ یہ کہ رسول تو قوم عاد کی طرف ایک ہی آیا تھا لیکن رسل کا لفظ لا کر یہ بتلانا مقصود ہے کہ تمام رسولوں کی دعوت ایک ہے۔ ان کے بنیادی اعتقادات یکساں ہیں۔ ان کی ہدایت ایک ہی سرچشمہ ہدایت سے پھوٹی ہے۔ وہ ایک ہی ذات کے نمائندہ ہو کر آتے۔ اس لیے کسی ایک رسول کا انکار درحقیقت تمام رسولوں کا انکار ہے۔ قوم عاد نے ایک رسول کا انکار ہی نہیں بلکہ تمام رسولوں کا انکار کیا کیونکہ حضرت ہود (علیہ السلام) تمام رسولوں کے نمائندہ تھے اور ان کی صفات کی ایک جامع شخصیت تھے۔ انھوں نے اس طرح دلسوزی اور جانسپاری سے اپنی قوم تک اللہ کا پیغام پہنچایا کہ اگر ایک سے زیادہ رسول بھی ہوتے تو شاید اس سے زیادہ جانفشانی کا عمل وجود میں نہ آتا لیکن قوم نے ہر قدم پر ان کی نافرمانی کی۔ ان کے پاکیزہ اطوار کو جھٹلایا، ان کی سچائیوں کا مذاق اڑایا اور اللہ کی وہ تمام آیات جو آپ کے عمل میں آکر دلیل وبرہان کی شکل اختیار کرگئی تھیں، ان کی پیروی کرنے سے انکار کردیا۔ ان دو جرائم میں معلوم ہوتا ہے کہ پوری قوم شریک تھی۔ ان کا عام آدمی بھی اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان تھا اور اس کے خواص بھی اپنے علم و دانش کے باوجود اللہ کی آیات اور اس کے احکام کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے دل جس بات کو قبول کرتے تھے ان کی زبانیں ان کے خلاف زہر اگلتی تھیں اور ان کے دماغ ان کے خلاف منصوبہ بندی کرتے تھے۔ اس طرح سے وہ ایک طاغوت کی شکل اختیار کرچکے تھے، لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے ان کی اصل کمزوری اور گمراہی جس نے ان کے کردار کی خصوصیات کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا تھا وہ یہ تھی کہ وہ نہ تو کسی حق کی پیروی کرنے کے لیے تیار تھے نہ اللہ تعالیٰ کی آیات ان کے لیے اپیل رکھتی تھیں، نہ اللہ کے رسول کی شخصیت ان کے لیے کسی کشش کا باعث تھی۔ وہ اگر اتباع کرتے تھے تو صرف اس شخص یا اس طبقے کی جسے جبار اور عنید کہا گیا ہے۔ یعنی ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے، جس کے پاس قوت ہے جو طاقت کے زور سے اپنی بات منوا سکتا ہے، جو لوگوں کے ضمیر خرید سکتا ہے، عہدہ و منصب کی چابیاں جس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ وہ جبار ہے جس کی اطاعت اور اتباع کرنے کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ایسا جبار ناممکن ہے کہ کسی حق کا اتباع کرے۔ اس لیے اس کی صفت کے طور پر عنید کا لفظ لایا گیا ہے کہ جو شخص صرف اپنی ذات کی پوجا کرواتا ہے اور اپنے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو قانون کا درجہ دیتا ہے اس سے بڑھ کر دشمن حق اور کون ہوسکتا ہے۔ چناچہ قوم عاد کا وہ طبقہ جسے عوام کہا جاتا ہے اور وہ طبقہ جو ذاتی مفادات اور خواہشات کے حصول کے لیے ارباب اقتدار کا طواف کرتا ہے، وہ ایسے ہی جابر اور دشمن حق کی پیروی کرتا ہے تاکہ اس کے مفادات محفوظ رہیں اور اس کے جبر اور ظلم کے سائے میں ان کی اپنی دنیا آباد رہے۔ وہ ہر جائز و ناجائز کے حصول کے لیے اسی قوت کے مرکز کو استعمال کرتے ہیں۔ قوم عاد کے یہی وہ جرائم تھے جنھوں نے انھیں ہر طرح کی خوبی سے تہی دامن کردیا تھا۔ اللہ کا دین ان کے لیے ایک اجنبی چیز تھی کیونکہ ان کی زندگی کے طور اطوار اس سے بالکل میل نہیں کھاتے تھے۔ اللہ کو اپنی زمین پر چونکہ ایسے لوگ گوارہ نہیں، اس لیے جب بھی کوئی قوم اس سطح تر پہنچتی ہے تو اسے فنا کردیا جاتا ہے اور ان کی تباہی کی داستان اس طرح عبرت انگیز بنادی جاتی ہے کہ لعنت ان کے دائیں بائیں چلتی ہے اور قیامت کے دن تولعنت کا مرکز جہنم ان کی جگہ ہوگا۔ آخر میں فرمایا کہ اے مشرکینِ مکہ اور اے دنیا کے لوگو ! کان کھول کے سن لو کہ جس قوم عاد کا انجام تم نے سنا اور جن کے کھنڈرات تمہیں ہمیشہ دعوت نظارہ دیتے ہیں انھوں نے بھی تمہاری طرح اپنے رب کا کفر کیا تھا اور اللہ ان سے اس حد تک ناراض ہے کہ ان کے بارے میں صاف فرمادیا گیا کہ دور ہو قوم عاد، اللہ کی رحمت سے، اور بربادی ہو ان کے لیے جو ہود کی قوم تھی۔ تو اگر کسی میں گوش حق نیوش ہے اور دیدہ عبرت نگاہ ہے تو اس قوم کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔
Top