Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Hud : 61
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا١ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ
وَ
: اور
اِلٰي ثَمُوْدَ
: ثمود کی طرف
اَخَاهُمْ
: ان کا بھائی
صٰلِحًا
: صالح
قَالَ
: اس نے کہا
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
اعْبُدُوا اللّٰهَ
: اللہ کی عبادت کرو
مَا
: نہیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مِّنْ اِلٰهٍ
: کوئی معبود
غَيْرُهٗ
: اس کے سوا
هُوَ
: وہ۔ اس
اَنْشَاَكُمْ
: پیدا کیا تمہیں
مِّنَ الْاَرْضِ
: زمین سے
وَاسْتَعْمَرَكُمْ
: اور بسایا تمہیں
فِيْهَا
: اس میں
فَاسْتَغْفِرُوْهُ
: سو اس سے بخشش مانگو
ثُمَّ
: پھر
تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ
: رجوع کرو اس کی طرف (توبہ کرو
اِنَّ
: بیشک
رَبِّيْ
: میرا رب
قَرِيْبٌ
: نزدیک
مُّجِيْبٌ
: قبول کرنے والا
اور ہم نے بھیجا) قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی ( حضرت صالح (علیہ السلام) کو۔ ( حضرت صالح نے) کہا اے میری قوم ! عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا اور پھر اس زمین میں تمہیں بسا دیا۔ پس اس سے مغفرت طلب کرو، پھر لوٹ جائو اس کی طرف۔ بیشک میرا رب قریب ہے اور ( التجائیں) قبول کرنے والا ہے۔
َواِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا م قَالَ یـٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ط اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔ (سورۃ ہود : 61) (اور ہم نے بھیجا) قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی ( حضرت صالح (علیہ السلام) کو۔ ( حضرت صالح نے) کہا اے میری قوم ! عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا اور پھر اس زمین میں تمہیں بسا دیا۔ پس اس سے مغفرت طلب کرو، پھر لوٹ جاؤ اس کی طرف۔ بیشک میرا رب قریب ہے اور ( التجائیں) قبول کرنے والا ہے۔ ) قومِ ثمود کی سرگزشت بھی گزشتہ واقعات کی کڑی ہے اس سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ہود (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوچکا ہے اور ان کی دعوت کے انکار کے نتیجے میں ان کی قوموں پر عذاب آنے کے واقعات بیان ہوچکے ہیں۔ مقصود مشرکینِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ نبی کریم ﷺ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں جو تمہاری طرف مبعوث ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں ہر قوم کی طرف کوئی نہ کوئی رسول بھیجا ہے۔ رسول کے آنے کے بعد قوم ایک امتحان میں مبتلا ہوجاتی ہے، اگر وہ رسول کی دعوت کو قبول کرتی ہے تو دنیاوی اور اخروی کامیابیوں کا راستہ اس کے لیے کھل جاتا ہے لیکن اگر وہ انکار کرتی ہے تو اتمامِ حجت کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں ہلاک کردیتا ہے۔ چناچہ جن قوموں کا تذکرہ ہورہا ہے یہ بھی اسی قانون کے تحت عذاب کا شکار ہوئیں، تو اب اگر مشرکینِ مکہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کریں گے تو وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ آنحضرت ﷺ کو تسلی بھی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ ان کی مخالفتوں کا زیادہ اثر نہ لیں۔ ہر قوم نے اپنے پیغمبر کے ساتھ ایسا ہی کیا، لیکن کامیابی بالآخر اللہ کے رسول اور ان پر ایمان لانے والوں کو ملتی ہے اور انکار کرنے والے فنا کردیئے جاتے ہیں۔ چناچہ اب اسی سلسلہ واقعات میں قوم ثمود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ قوم ثمود کا مسکن حجاز اور شام کا درمیانی خطہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم حضرت ہود پر ایمان لانے والوں کی اولاد تھی۔ جب قوم عاد پر عذاب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا، اور وہ یہاں آکر آباد ہوگئے۔ یہاں ان کی اولاد خوب پھیلی۔ انھوں نے محنت سے اس علاقے کو آباد کیا۔ کھیتی باڑی کے ہنر سے واقف تھے، اس لیے یہاں لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور سرسبز و شاداب باغات کے باعث یہ علاقہ رشک ارم بن گیا۔ فنِ تعمیر میں بھی انھوں نے خوب ترقی کی تھی۔ اس لیے زراعت کے ساتھ ساتھ انھوں نے پہاڑوں میں ایسے حیرت انگیز طریقے سے کھدائی کرکے مکانات بنائے جو آج تک ان کی یادگار کے طور پر اس تباہ شدہ علاقے میں کھڑے ہیں۔ علوم و فنون میں ترقی کے باعث ان میں خودپسندی اور تکبر ونخوت ان کے کردار کا لازمی حصہ بن گئے تھے۔ دولت کی فراوانی نے انھیں خواہشات کا اسیر کردیا تھا۔ اس لیے ان کے اندر وہ تمام خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں جو دولت پر جان دینے والوں اور اپنی ترقی پر ناز کرنے والوں میں بالعموم پیدا ہوجاتی ہے۔ چناچہ ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے بارے میں سب سے پہلے وہی بات فرمائی جو پروردگار نے اکثر پیغمبروں کے بارے میں فرمائی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت صالح اور ان کے قوم کے درمیان اخوت کا رشتہ تھا۔ کیونکہ گزشتہ رکوع میں ہم یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ ہر پیغمبر کی بعثت کا مقصد اولیں لوگوں کی اصلاح ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے معلم اور مربی بن کے آتے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت اور تبلیغ و دعوت کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اخوت دراصل اس بات کی ضمانت ہے کہ تمہاری طرف جو معلم اور مربی بھیجا گیا ہے اس کے اور تمہارے درمیان کوئی اجنبیت کا پردہ نہیں۔ تم پورے اعتماد کے ساتھ اس کی ہر بات کو قبول کرسکتے ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت اور دلائل دوسری بات اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت ہے جس کی طرف آپ نے اپنی قوم کو بلایا ہے۔ ہم گزشتہ رکوع میں عرض کرچکے ہیں کہ دنیا میں جو رسول بھی آیا اس نے آکر اپنی قوم کے سامنے سب سے پہلے یہی نسخہ شفا پیش کیا۔ کیونکہ انسان کے بگاڑ کا کوئی بنیادی سبب ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ وہ کون سا آستانہ ہے جس پر اس کا سر جھکنا چاہیے۔ وہ کون سی ذات ہے جس کی اسے غیرمشروط اطاعت کرنی چاہیے۔ کون ساقادرِ مطلق ہے جس کے سامنے دست سوال دراز ہونا چاہیے، وہ کون سا محبوب حقیقی ہے جس سے دلوں کی دنیا آباد ہونی چاہیے، وہ کون سا حاکم حقیقی ہے جسے غیرمشروط طور پر آئین سازی کا حق حاصل ہے اور جس کی نافرمانی سے ہرحال میں ڈرنا چاہیے۔ وہ کون سا لاانتہاء علم و دانش کا مالک ہے جس کی ہرحال میں رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور وہ کون ہے جو دنیا کا بھی مالک ہے اور آخرت کا بھی۔ اس لیے اس نے دونوں کی ہدایت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اور وہ کون ہے جو بےپناہ علم و آگہی رکھتا ہے کہ وہ عالم الغیب بھی ہے اور عالم الشہادہ بھی۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے صحیح جواب پر انسان کی فلاح و بقا کا دارومدار ہے۔ اس لیے ہر نبی نے سب سے پہلے اسی بنیادی گرہ کو کھولا ہے اور یہ بتایا ہے کہ تم اللہ کے بندے اور اس کے غلام ہو اس لیے تمہیں ہر صورت اسی کی بندگی اور غلامی کرنی ہے اور غلامی کا تعلق صرف پوجا پاٹ سے نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے ہے۔ اسی طرح وہ یہ بات بھی بتاتے ہیں کہ تمہارا اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور اِلٰہ وہ ہوتا ہے جس میں متذکرہ بالا تمام صفات پائی جائیں۔ چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کے سامنے تمام انبیاء کرام کی طرح یہی دعوت پیش کی اور پھر اللہ کو اِلٰہ ثابت کرنے کے لیے دو دلیلیں بھی ارشاد فرمائیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ تمہارا اِلٰہ اور حاکم حقیقی اس وجہ سے صرف اللہ ہی ہونا چاہیے کیونکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور پھر اس کی صفت تخلیق کی ہمہ گیری اور اس کی قدرت بالغہ کا حال یہ ہے کہ تمہیں پیدا بھی زمین کے جوہر سے کیا ہے۔ تمہارے جدِ امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو تو اس نے اپنے دست قدرت سے بنایا لیکن ان کاست بھی مٹی سے تیار ہوا اور ان کے بعد ان کی اولاد میں نسل انسانی کا طریقہ یہ ٹھہرا کہ اسی زمین سے پیدا ہونے والی غذا انسان کے اندر مادہ تولید پیدا کرے گی اور یہی مادہ بقائے نسلِ انسانی کا ضامن ہوگا۔ چونکہ یہ مادہ زمین سے پیدا ہونے والی غذا سے بنتا ہے اس لیے ارشاد فرمایا کہ تمہارا اِلٰہ وہ ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا۔ اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انسان کا مادہ تخلیق تو پانی کا گندا قطرہ ہے جو زمین کی پیدا کردہ غذا سے تیار ہوا۔ لیکن پستی کی امین اس مٹی سے اور نجاست کی علامت اس مادے سے جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس کے کمالات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس کی من موہنی اور دلآویز شکل و صورت، اس کا سڈول جسم، اس کے متناسب اعضاء، تمام مخلوقات میں سے سب سے زیادہ جاذب نظر اس کی شخصیت، اس کے دل و دماغ کی رعنائیاں، اس کے احساسات کی بلندی، اس کے تخیل کی پرواز، اس کا جمالیاتی ذوق، اس کے عزائم کی وسعت، اس کی حیرت انگیز قوت ایجاد جس نے لوہے میں قوت پرواز پیدا کردی، جس نے تاریکیوں میں روشنی کے قمقمے آویزاں کردیئے جس نے کمپیوٹر کی شکل میں ایک متبادل دماغ کو وجود دیا۔ جب انسان کی اس حیران کردینے والی شخصیت کو ہم دیکھتے ہیں اور پھر اس کے مادہ تخلیق کی بےبضاعتی پر نظر ڈالتے ہیں تو بےساختہ اللہ کی صفت تخلیق کے سامنے آدمی کا سر جھک جاتا ہے کیونکہ عقل یہ باور کرنے سے عاجز ہے کہ مٹی کی کچی اینٹوں سے تاج محل کھڑا ہوجائے اور بےجان مادے سے جاندار چیز وجود میں آجائے۔ ساکت و صامت مادہ سے دیکھنے والا، بولنے والا اپنے صلاحیتوں سے حیران کردینے والا اور دنیا کو اپنی قوت سے تسخیر کرنے والا انسان وجود میں آجائے لیکن ہم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی زمین میں تمہیں آباد فرمایا۔ مخلوق کو کسی جگہ آباد کرنے کا مطلب اس کی ضروریات کا مہیا کرنا اور گردوپیش کو اس کے مناسب بنانا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر زمین کی آبادی کا فیصلہ فرمایا تو زمین میں قوت روئیدگی رکھی تاکہ انسان کی غذائی ضرورتیں زمین ہی سے اگائی جاسکیں۔ زمین ہی پر پانی کے ذخیرے جمع کردیئے۔ زمین کے نیچے بھی پانی کے سوتے رواں کردیئے۔ کہیں چشمے ابل رہے ہیں، کہیں آبشاریں گر رہی ہیں، کہیں دریا بہہ رہے ہیں۔ سورج کی کرنوں کو حکم دیا کہ وہ سمندر سے اپنی کرنوں کے ڈول بھر بھر کر کھینچے اور فضاء میں ابر کی چادریں بچھا دے اور ہوا کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ جہاں زمین کو آبیاری کی ضرورت ہو وہاں وہ بادلوں کو کھینچ کرلے جائے اور پانی برسا دے۔ سورج، چاند، ہوا اور آگ ہر چیز کو زمین کے اس باسی کی خدمت پر لگا دیا تاکہ اس کی آبادی کا سامان ہوسکے۔ جو شخص بھی سرسری نظر سے بھی آبادی کے ان اسباب پر غور کرے گا وہ اللہ کی صفت تخلیق کے بعد اس کی صفت ربوبیت کو دیکھ کر سر سجدے میں ڈال دے گا۔ بعض اہل علم نے اِسْتَعْمَرَکُمْ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اس نے تمہیں زمین کی آبادی کا حکم دیا ہے اور زمین کی آبادی پر لگا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تہذیبی اور تمدنی ضرورتوں کے لیے (جو آبادی ہی کا حصہ ہیں) تمہارے اندر اس کی صلاحیت پیدا کردی۔ آبادی کے لیے مکانوں کی ضرورت تھی۔ تمہیں فنِ تعمیر سے آگاہ فرمایا۔ زمین سے غذا کے حصول کے لیے تمہیں فنِ زراعت دیا گیا۔ تن پوشی کے لیے تمہیں کپاس کے اگانے اور پھر اس سے کپڑا بنانے کا ہنر سکھایا گیا اور یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف تو ان تمام علوم و فنون کے سیکھنے کی صلاحیت انسان کے دماغ میں پیدا کی اور دوسری طرف انبیاء کرام کی معرفت ان چیزوں کی تعلیم کا بندوبست فرمایا۔ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت، اس کی صفت تخلیق کا کمال، اس کی صفت ربوبیت کی ہمہ گیری اور اس کی صفت رحمت کا ظہور قدم قدم پر انسان کو احساس دلاتا ہے کہ تم اس کا آستانہ چھوڑ کر کدھر سرگرداں پھر رہے ہو۔ تمہیں تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکرگزار ہونا چاہیے اور شکرگزاری کا ادنیٰ تقاضا یہ ہے کہ اس کی نافرمانی نہ ہونے پائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، اس کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہونے پائے لیکن تم نے ان میں سے کون سی بات ہے جس کا ارتکاب نہیں کیا۔ اس کی ذات وصفات میں نجانے کس کس کو شریک ٹھہرایا۔ قدم قدم پر اس کی نافرمانیاں کیں۔ حتیٰ کہ تم نے زمین کو فساد سے بھر دیا۔ اب بھی اگر تمہیں کچھ احساس ہوجائے تو پھر سب سے پہلے اس سے استغفار کرو۔ یعنی اب تک جو نافرمانیاں کی ہیں اور غلط تصورات بنا رکھے ہیں ان سب سے ہاتھ اٹھالو۔ ایک ایک گناہ کو یاد کرو اور اسے حرف غلط کی طرح مٹا دو ۔ اس طرح جب تمہارا دامن آلودگیوں سے صاف ہوجائے اور گندگی کا کوئی داغ اور دھبہ باقی نہ رہے تو پھر پوری طرح اللہ کی طرف پلٹ جاؤ۔ اس کے سامنے سر ڈال دو اور اس سے یہ عہد کرو کہ آئندہ میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے اللہ اور اس کے رسول نے روکا ہے اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کروں گا جسے اللہ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ تمام غلط باتوں کو چھوڑ دینا اور اس پر ندامت کا اظہار کرنا استغفار ہے۔ اور آئندہ کے لیے ہمہ جہت اطاعت کا عہد کرنا اور دل و دماغ کو اسی کی محبت سے آباد کرنا یہ توبہ ہے۔ اس کے بعد مزید ایک حیرت انگیز بات فرمائی جس نے انسانی مایوسیوں کو ختم کرکے رکھ دیا۔ اسے ایک صالح زندگی اختیار کرنے کا حوصلہ ملا جس نے سالہاسال گناہوں کے دلدل میں گزارے تھے اور اسے دور سے تاریکی کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا اس کے لیے بھی نجات کا ایک راستہ کھل گیا۔ اسے تاریکی میں ایک روشنی جس سے اگر وہ چاہے تو ایک نئی صالح زندگی استوار کرسکتا ہے۔ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ میں ایک جہانِ معنی مضمرہے ارشاد فرمایا : ان اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْب بیشک میرا رب قریب بھی ہے اور دعائوں اور التجاؤں کو قبول کرنے والا بھی ہے۔ ان چند لفظوں میں ایک جہانِ معنی مضمر ہے۔ مشرک قوموں کو جن غلط تصورات نے اللہ سے دور رکھا ہے بلکہ جس نے شرک کے راستے کھولے وہ ان کی یہ حماقت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بادشاہ و راجوں مہاراجوں پر قیاس کرتے تھے۔ ان کا گمان یہ ہے جس طرح بادشاہ اپنے محل میں رہتا ہے، دربار لگاتا ہے لیکن اس تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اس کے مقربانِ بارگاہ ہوتے ہیں جبکہ اس کا ملک دور دراز علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ملک کے مختلف گوشوں میں رہنے والے ہزار کوشش کے باوجود اس تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس نے لوگوں کی بھلائی کے لیے جابجا اپنے کارندے مقرر کر رکھے ہیں اور انھیں اپنے اختیارات میں سے کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ اس لیے جو آدمی بادشاہ کی رعیت ہوتے ہوئے اس سے وفاداری کا اظہار کرنا چاہتا ہے یا اپنے کسی کام کے لیے اس سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جو اس نے درمیان میں واسطے مقرر کر رکھے ہیں وہ ان واسطوں سے تعلق پیدا کرے۔ چناچہ اس کی درخواست انھیں واسطوں سے ہوتی ہوئی ممکن ہے بادشاہ تک پہنچ جائے ورنہ براہ راست اس کی درخواست کا بادشاہ تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔ بادشاہ تو بہت بلند ذات ہے۔ ایک شخص محکمہ مال کے سربراہ سے ملنا چاہتا ہے یا اس سے کوئی کام کرانا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پٹواری سے ملے، پھر قانونگو سے، پھر نائب تحصیلدار سے اور پھر تحصیلدار سے اس سے درجہ بدرجہ اوپر چڑھے گا تو اس کی فریاد کی شنوائی کا کوئی انتظام ہوسکے گا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ تک رسائی بھی اور اس سے التجا بھی واسطوں کی محتاج ہے۔ براہ راست اس سے رابطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس جملے میں اس تصور کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ دلیل اتنی براہ راست ہے جو دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ اس کے الفاظ بولتے ہوئے اور کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ نادانو ! ذرا غور کرو کہ جو تمہارے قریب ہو اور قریب بھی اتنا کہ شہہ رگ بھی اس سے زیادہ دور ہو۔ کیا اسے پکارنے یا اس سے رابطے کے لیے درمیان میں واسطے کی ضرورت پڑے گی۔ اسی طرح جو ہر وقت سنتا اور جواب دیتا اور التجاؤں کو قبول بھی کرتا ہو، اسے بجائے خود عرض کرنے کے کسی اور سے کہا جائے گا کہ آپ میری بات ان تک پہنچا دیں۔ عقلِ عام کا فیصلہ یہ ہے کہ جو خود قریب ہے اس میں فاصلے دے کر اسے دور مت کرو اور جو التجائیں سننے کے لیے ہر وقت مستعد ہو اسے التجائیں روک کر ناراض مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نامکان میں سمٹی ہوئی ہے اور نہ زمان میں۔ وہ ہر شخص کے اتنا قریب ہے کہ خود ارشاد فرماتا ہے کہ میں شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اور سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ میں ہر پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے اور اسے قبول کرتا ہوں۔ عیسائیت نے یہ تصور دے کر کہ انسان پیدائشی طور پر گنہگار پیدا ہوا ہے انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اور ہندو ازم کے آواگون اور تناسخ نے انسانی مستقبل کو مکمل طور پر مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ صرف اسلام نے انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سطح سمندر پر لا کر ازسرنو زندگی کا امکان مہیا کیا۔ آنحضور ﷺ نے توبہ و استغفار پر اس قدر زور دیا کہ آپ کو رسول التوبہ کہا گیا ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے اتنا حوصلہ دیا ہے کہ وہ براہ راست اپنے اللہ سے بات کرسکتا ہے۔ وہ ہر گنہگار کی بھی سنتا ہے اور نیک کی بھی۔ برسوں کا نیکیاں کرنے والا اگر نیکی کے پندار میں مبتلا ہوجائے تو وہ محروم ہوجاتا ہے اور زندگی بھر کا پاپی اگر اخلاص سے اس کے دروازے پر آجائے تو وہ درِ کرم اس کے لیے کھل جاتا ہے۔ اقبال نے اس احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا : موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
Top