Ruh-ul-Quran - Hud : 61
وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا١ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَكُمْ فِیْهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ١ؕ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ
وَ : اور اِلٰي ثَمُوْدَ : ثمود کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی صٰلِحًا : صالح قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا هُوَ : وہ۔ اس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے وَاسْتَعْمَرَكُمْ : اور بسایا تمہیں فِيْهَا : اس میں فَاسْتَغْفِرُوْهُ : سو اس سے بخشش مانگو ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : رجوع کرو اس کی طرف (توبہ کرو اِنَّ : بیشک رَبِّيْ : میرا رب قَرِيْبٌ : نزدیک مُّجِيْبٌ : قبول کرنے والا
اور ہم نے بھیجا) قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی ( حضرت صالح (علیہ السلام) کو۔ ( حضرت صالح نے) کہا اے میری قوم ! عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا اور پھر اس زمین میں تمہیں بسا دیا۔ پس اس سے مغفرت طلب کرو، پھر لوٹ جائو اس کی طرف۔ بیشک میرا رب قریب ہے اور ( التجائیں) قبول کرنے والا ہے۔
َواِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا م قَالَ یـٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ط اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔ (سورۃ ہود : 61) (اور ہم نے بھیجا) قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی ( حضرت صالح (علیہ السلام) کو۔ ( حضرت صالح نے) کہا اے میری قوم ! عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس نے تمہیں زمین سے پیدا فرمایا اور پھر اس زمین میں تمہیں بسا دیا۔ پس اس سے مغفرت طلب کرو، پھر لوٹ جاؤ اس کی طرف۔ بیشک میرا رب قریب ہے اور ( التجائیں) قبول کرنے والا ہے۔ ) قومِ ثمود کی سرگزشت بھی گزشتہ واقعات کی کڑی ہے اس سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ہود (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوچکا ہے اور ان کی دعوت کے انکار کے نتیجے میں ان کی قوموں پر عذاب آنے کے واقعات بیان ہوچکے ہیں۔ مقصود مشرکینِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ نبی کریم ﷺ کوئی پہلے رسول نہیں ہیں جو تمہاری طرف مبعوث ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں ہر قوم کی طرف کوئی نہ کوئی رسول بھیجا ہے۔ رسول کے آنے کے بعد قوم ایک امتحان میں مبتلا ہوجاتی ہے، اگر وہ رسول کی دعوت کو قبول کرتی ہے تو دنیاوی اور اخروی کامیابیوں کا راستہ اس کے لیے کھل جاتا ہے لیکن اگر وہ انکار کرتی ہے تو اتمامِ حجت کے بعد اللہ تعالیٰ انھیں ہلاک کردیتا ہے۔ چناچہ جن قوموں کا تذکرہ ہورہا ہے یہ بھی اسی قانون کے تحت عذاب کا شکار ہوئیں، تو اب اگر مشرکینِ مکہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کریں گے تو وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ آنحضرت ﷺ کو تسلی بھی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ ان کی مخالفتوں کا زیادہ اثر نہ لیں۔ ہر قوم نے اپنے پیغمبر کے ساتھ ایسا ہی کیا، لیکن کامیابی بالآخر اللہ کے رسول اور ان پر ایمان لانے والوں کو ملتی ہے اور انکار کرنے والے فنا کردیئے جاتے ہیں۔ چناچہ اب اسی سلسلہ واقعات میں قوم ثمود اور حضرت صالح (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ قوم ثمود کا مسکن حجاز اور شام کا درمیانی خطہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم حضرت ہود پر ایمان لانے والوں کی اولاد تھی۔ جب قوم عاد پر عذاب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا، اور وہ یہاں آکر آباد ہوگئے۔ یہاں ان کی اولاد خوب پھیلی۔ انھوں نے محنت سے اس علاقے کو آباد کیا۔ کھیتی باڑی کے ہنر سے واقف تھے، اس لیے یہاں لہلہاتے ہوئے کھیتوں اور سرسبز و شاداب باغات کے باعث یہ علاقہ رشک ارم بن گیا۔ فنِ تعمیر میں بھی انھوں نے خوب ترقی کی تھی۔ اس لیے زراعت کے ساتھ ساتھ انھوں نے پہاڑوں میں ایسے حیرت انگیز طریقے سے کھدائی کرکے مکانات بنائے جو آج تک ان کی یادگار کے طور پر اس تباہ شدہ علاقے میں کھڑے ہیں۔ علوم و فنون میں ترقی کے باعث ان میں خودپسندی اور تکبر ونخوت ان کے کردار کا لازمی حصہ بن گئے تھے۔ دولت کی فراوانی نے انھیں خواہشات کا اسیر کردیا تھا۔ اس لیے ان کے اندر وہ تمام خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں جو دولت پر جان دینے والوں اور اپنی ترقی پر ناز کرنے والوں میں بالعموم پیدا ہوجاتی ہے۔ چناچہ ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے بارے میں سب سے پہلے وہی بات فرمائی جو پروردگار نے اکثر پیغمبروں کے بارے میں فرمائی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت صالح اور ان کے قوم کے درمیان اخوت کا رشتہ تھا۔ کیونکہ گزشتہ رکوع میں ہم یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ ہر پیغمبر کی بعثت کا مقصد اولیں لوگوں کی اصلاح ہوتا ہے۔ وہ ان کے لیے معلم اور مربی بن کے آتے۔ اس لیے یہ بات ازبس ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت اور تبلیغ و دعوت کے راستے میں کوئی چیز حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اخوت دراصل اس بات کی ضمانت ہے کہ تمہاری طرف جو معلم اور مربی بھیجا گیا ہے اس کے اور تمہارے درمیان کوئی اجنبیت کا پردہ نہیں۔ تم پورے اعتماد کے ساتھ اس کی ہر بات کو قبول کرسکتے ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت اور دلائل دوسری بات اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت ہے جس کی طرف آپ نے اپنی قوم کو بلایا ہے۔ ہم گزشتہ رکوع میں عرض کرچکے ہیں کہ دنیا میں جو رسول بھی آیا اس نے آکر اپنی قوم کے سامنے سب سے پہلے یہی نسخہ شفا پیش کیا۔ کیونکہ انسان کے بگاڑ کا کوئی بنیادی سبب ہوسکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ وہ کون سا آستانہ ہے جس پر اس کا سر جھکنا چاہیے۔ وہ کون سی ذات ہے جس کی اسے غیرمشروط اطاعت کرنی چاہیے۔ کون ساقادرِ مطلق ہے جس کے سامنے دست سوال دراز ہونا چاہیے، وہ کون سا محبوب حقیقی ہے جس سے دلوں کی دنیا آباد ہونی چاہیے، وہ کون سا حاکم حقیقی ہے جسے غیرمشروط طور پر آئین سازی کا حق حاصل ہے اور جس کی نافرمانی سے ہرحال میں ڈرنا چاہیے۔ وہ کون سا لاانتہاء علم و دانش کا مالک ہے جس کی ہرحال میں رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور وہ کون ہے جو دنیا کا بھی مالک ہے اور آخرت کا بھی۔ اس لیے اس نے دونوں کی ہدایت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اور وہ کون ہے جو بےپناہ علم و آگہی رکھتا ہے کہ وہ عالم الغیب بھی ہے اور عالم الشہادہ بھی۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے صحیح جواب پر انسان کی فلاح و بقا کا دارومدار ہے۔ اس لیے ہر نبی نے سب سے پہلے اسی بنیادی گرہ کو کھولا ہے اور یہ بتایا ہے کہ تم اللہ کے بندے اور اس کے غلام ہو اس لیے تمہیں ہر صورت اسی کی بندگی اور غلامی کرنی ہے اور غلامی کا تعلق صرف پوجا پاٹ سے نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں سے ہے۔ اسی طرح وہ یہ بات بھی بتاتے ہیں کہ تمہارا اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور اِلٰہ وہ ہوتا ہے جس میں متذکرہ بالا تمام صفات پائی جائیں۔ چناچہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کے سامنے تمام انبیاء کرام کی طرح یہی دعوت پیش کی اور پھر اللہ کو اِلٰہ ثابت کرنے کے لیے دو دلیلیں بھی ارشاد فرمائیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ تمہارا اِلٰہ اور حاکم حقیقی اس وجہ سے صرف اللہ ہی ہونا چاہیے کیونکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور پھر اس کی صفت تخلیق کی ہمہ گیری اور اس کی قدرت بالغہ کا حال یہ ہے کہ تمہیں پیدا بھی زمین کے جوہر سے کیا ہے۔ تمہارے جدِ امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو تو اس نے اپنے دست قدرت سے بنایا لیکن ان کاست بھی مٹی سے تیار ہوا اور ان کے بعد ان کی اولاد میں نسل انسانی کا طریقہ یہ ٹھہرا کہ اسی زمین سے پیدا ہونے والی غذا انسان کے اندر مادہ تولید پیدا کرے گی اور یہی مادہ بقائے نسلِ انسانی کا ضامن ہوگا۔ چونکہ یہ مادہ زمین سے پیدا ہونے والی غذا سے بنتا ہے اس لیے ارشاد فرمایا کہ تمہارا اِلٰہ وہ ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا۔ اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انسان کا مادہ تخلیق تو پانی کا گندا قطرہ ہے جو زمین کی پیدا کردہ غذا سے تیار ہوا۔ لیکن پستی کی امین اس مٹی سے اور نجاست کی علامت اس مادے سے جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس کے کمالات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس کی من موہنی اور دلآویز شکل و صورت، اس کا سڈول جسم، اس کے متناسب اعضاء، تمام مخلوقات میں سے سب سے زیادہ جاذب نظر اس کی شخصیت، اس کے دل و دماغ کی رعنائیاں، اس کے احساسات کی بلندی، اس کے تخیل کی پرواز، اس کا جمالیاتی ذوق، اس کے عزائم کی وسعت، اس کی حیرت انگیز قوت ایجاد جس نے لوہے میں قوت پرواز پیدا کردی، جس نے تاریکیوں میں روشنی کے قمقمے آویزاں کردیئے جس نے کمپیوٹر کی شکل میں ایک متبادل دماغ کو وجود دیا۔ جب انسان کی اس حیران کردینے والی شخصیت کو ہم دیکھتے ہیں اور پھر اس کے مادہ تخلیق کی بےبضاعتی پر نظر ڈالتے ہیں تو بےساختہ اللہ کی صفت تخلیق کے سامنے آدمی کا سر جھک جاتا ہے کیونکہ عقل یہ باور کرنے سے عاجز ہے کہ مٹی کی کچی اینٹوں سے تاج محل کھڑا ہوجائے اور بےجان مادے سے جاندار چیز وجود میں آجائے۔ ساکت و صامت مادہ سے دیکھنے والا، بولنے والا اپنے صلاحیتوں سے حیران کردینے والا اور دنیا کو اپنی قوت سے تسخیر کرنے والا انسان وجود میں آجائے لیکن ہم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی زمین میں تمہیں آباد فرمایا۔ مخلوق کو کسی جگہ آباد کرنے کا مطلب اس کی ضروریات کا مہیا کرنا اور گردوپیش کو اس کے مناسب بنانا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر زمین کی آبادی کا فیصلہ فرمایا تو زمین میں قوت روئیدگی رکھی تاکہ انسان کی غذائی ضرورتیں زمین ہی سے اگائی جاسکیں۔ زمین ہی پر پانی کے ذخیرے جمع کردیئے۔ زمین کے نیچے بھی پانی کے سوتے رواں کردیئے۔ کہیں چشمے ابل رہے ہیں، کہیں آبشاریں گر رہی ہیں، کہیں دریا بہہ رہے ہیں۔ سورج کی کرنوں کو حکم دیا کہ وہ سمندر سے اپنی کرنوں کے ڈول بھر بھر کر کھینچے اور فضاء میں ابر کی چادریں بچھا دے اور ہوا کو اس کام پر لگا دیا ہے کہ جہاں زمین کو آبیاری کی ضرورت ہو وہاں وہ بادلوں کو کھینچ کرلے جائے اور پانی برسا دے۔ سورج، چاند، ہوا اور آگ ہر چیز کو زمین کے اس باسی کی خدمت پر لگا دیا تاکہ اس کی آبادی کا سامان ہوسکے۔ جو شخص بھی سرسری نظر سے بھی آبادی کے ان اسباب پر غور کرے گا وہ اللہ کی صفت تخلیق کے بعد اس کی صفت ربوبیت کو دیکھ کر سر سجدے میں ڈال دے گا۔ بعض اہل علم نے اِسْتَعْمَرَکُمْ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اس نے تمہیں زمین کی آبادی کا حکم دیا ہے اور زمین کی آبادی پر لگا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تہذیبی اور تمدنی ضرورتوں کے لیے (جو آبادی ہی کا حصہ ہیں) تمہارے اندر اس کی صلاحیت پیدا کردی۔ آبادی کے لیے مکانوں کی ضرورت تھی۔ تمہیں فنِ تعمیر سے آگاہ فرمایا۔ زمین سے غذا کے حصول کے لیے تمہیں فنِ زراعت دیا گیا۔ تن پوشی کے لیے تمہیں کپاس کے اگانے اور پھر اس سے کپڑا بنانے کا ہنر سکھایا گیا اور یہ حقیقت ہے کہ ایک طرف تو ان تمام علوم و فنون کے سیکھنے کی صلاحیت انسان کے دماغ میں پیدا کی اور دوسری طرف انبیاء کرام کی معرفت ان چیزوں کی تعلیم کا بندوبست فرمایا۔ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت، اس کی صفت تخلیق کا کمال، اس کی صفت ربوبیت کی ہمہ گیری اور اس کی صفت رحمت کا ظہور قدم قدم پر انسان کو احساس دلاتا ہے کہ تم اس کا آستانہ چھوڑ کر کدھر سرگرداں پھر رہے ہو۔ تمہیں تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکرگزار ہونا چاہیے اور شکرگزاری کا ادنیٰ تقاضا یہ ہے کہ اس کی نافرمانی نہ ہونے پائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے، اس کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہونے پائے لیکن تم نے ان میں سے کون سی بات ہے جس کا ارتکاب نہیں کیا۔ اس کی ذات وصفات میں نجانے کس کس کو شریک ٹھہرایا۔ قدم قدم پر اس کی نافرمانیاں کیں۔ حتیٰ کہ تم نے زمین کو فساد سے بھر دیا۔ اب بھی اگر تمہیں کچھ احساس ہوجائے تو پھر سب سے پہلے اس سے استغفار کرو۔ یعنی اب تک جو نافرمانیاں کی ہیں اور غلط تصورات بنا رکھے ہیں ان سب سے ہاتھ اٹھالو۔ ایک ایک گناہ کو یاد کرو اور اسے حرف غلط کی طرح مٹا دو ۔ اس طرح جب تمہارا دامن آلودگیوں سے صاف ہوجائے اور گندگی کا کوئی داغ اور دھبہ باقی نہ رہے تو پھر پوری طرح اللہ کی طرف پلٹ جاؤ۔ اس کے سامنے سر ڈال دو اور اس سے یہ عہد کرو کہ آئندہ میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے اللہ اور اس کے رسول نے روکا ہے اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کروں گا جسے اللہ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ تمام غلط باتوں کو چھوڑ دینا اور اس پر ندامت کا اظہار کرنا استغفار ہے۔ اور آئندہ کے لیے ہمہ جہت اطاعت کا عہد کرنا اور دل و دماغ کو اسی کی محبت سے آباد کرنا یہ توبہ ہے۔ اس کے بعد مزید ایک حیرت انگیز بات فرمائی جس نے انسانی مایوسیوں کو ختم کرکے رکھ دیا۔ اسے ایک صالح زندگی اختیار کرنے کا حوصلہ ملا جس نے سالہاسال گناہوں کے دلدل میں گزارے تھے اور اسے دور سے تاریکی کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا اس کے لیے بھی نجات کا ایک راستہ کھل گیا۔ اسے تاریکی میں ایک روشنی جس سے اگر وہ چاہے تو ایک نئی صالح زندگی استوار کرسکتا ہے۔ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ میں ایک جہانِ معنی مضمرہے ارشاد فرمایا : ان اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْب بیشک میرا رب قریب بھی ہے اور دعائوں اور التجاؤں کو قبول کرنے والا بھی ہے۔ ان چند لفظوں میں ایک جہانِ معنی مضمر ہے۔ مشرک قوموں کو جن غلط تصورات نے اللہ سے دور رکھا ہے بلکہ جس نے شرک کے راستے کھولے وہ ان کی یہ حماقت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بادشاہ و راجوں مہاراجوں پر قیاس کرتے تھے۔ ان کا گمان یہ ہے جس طرح بادشاہ اپنے محل میں رہتا ہے، دربار لگاتا ہے لیکن اس تک رسائی صرف ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اس کے مقربانِ بارگاہ ہوتے ہیں جبکہ اس کا ملک دور دراز علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ملک کے مختلف گوشوں میں رہنے والے ہزار کوشش کے باوجود اس تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس نے لوگوں کی بھلائی کے لیے جابجا اپنے کارندے مقرر کر رکھے ہیں اور انھیں اپنے اختیارات میں سے کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ اس لیے جو آدمی بادشاہ کی رعیت ہوتے ہوئے اس سے وفاداری کا اظہار کرنا چاہتا ہے یا اپنے کسی کام کے لیے اس سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جو اس نے درمیان میں واسطے مقرر کر رکھے ہیں وہ ان واسطوں سے تعلق پیدا کرے۔ چناچہ اس کی درخواست انھیں واسطوں سے ہوتی ہوئی ممکن ہے بادشاہ تک پہنچ جائے ورنہ براہ راست اس کی درخواست کا بادشاہ تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں۔ بادشاہ تو بہت بلند ذات ہے۔ ایک شخص محکمہ مال کے سربراہ سے ملنا چاہتا ہے یا اس سے کوئی کام کرانا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پٹواری سے ملے، پھر قانونگو سے، پھر نائب تحصیلدار سے اور پھر تحصیلدار سے اس سے درجہ بدرجہ اوپر چڑھے گا تو اس کی فریاد کی شنوائی کا کوئی انتظام ہوسکے گا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ تک رسائی بھی اور اس سے التجا بھی واسطوں کی محتاج ہے۔ براہ راست اس سے رابطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس جملے میں اس تصور کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ دلیل اتنی براہ راست ہے جو دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ اس کے الفاظ بولتے ہوئے اور کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ نادانو ! ذرا غور کرو کہ جو تمہارے قریب ہو اور قریب بھی اتنا کہ شہہ رگ بھی اس سے زیادہ دور ہو۔ کیا اسے پکارنے یا اس سے رابطے کے لیے درمیان میں واسطے کی ضرورت پڑے گی۔ اسی طرح جو ہر وقت سنتا اور جواب دیتا اور التجاؤں کو قبول بھی کرتا ہو، اسے بجائے خود عرض کرنے کے کسی اور سے کہا جائے گا کہ آپ میری بات ان تک پہنچا دیں۔ عقلِ عام کا فیصلہ یہ ہے کہ جو خود قریب ہے اس میں فاصلے دے کر اسے دور مت کرو اور جو التجائیں سننے کے لیے ہر وقت مستعد ہو اسے التجائیں روک کر ناراض مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نامکان میں سمٹی ہوئی ہے اور نہ زمان میں۔ وہ ہر شخص کے اتنا قریب ہے کہ خود ارشاد فرماتا ہے کہ میں شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اور سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ میں ہر پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے اور اسے قبول کرتا ہوں۔ عیسائیت نے یہ تصور دے کر کہ انسان پیدائشی طور پر گنہگار پیدا ہوا ہے انسان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اور ہندو ازم کے آواگون اور تناسخ نے انسانی مستقبل کو مکمل طور پر مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ صرف اسلام نے انسانیت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سطح سمندر پر لا کر ازسرنو زندگی کا امکان مہیا کیا۔ آنحضور ﷺ نے توبہ و استغفار پر اس قدر زور دیا کہ آپ کو رسول التوبہ کہا گیا ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے اتنا حوصلہ دیا ہے کہ وہ براہ راست اپنے اللہ سے بات کرسکتا ہے۔ وہ ہر گنہگار کی بھی سنتا ہے اور نیک کی بھی۔ برسوں کا نیکیاں کرنے والا اگر نیکی کے پندار میں مبتلا ہوجائے تو وہ محروم ہوجاتا ہے اور زندگی بھر کا پاپی اگر اخلاص سے اس کے دروازے پر آجائے تو وہ درِ کرم اس کے لیے کھل جاتا ہے۔ اقبال نے اس احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے بالکل صحیح کہا : موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
Top