Ruh-ul-Quran - Hud : 70
فَلَمَّا رَاٰۤ اَیْدِیَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَیْهِ نَكِرَهُمْ وَ اَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمِ لُوْطٍؕ
فَلَمَّا : پھر جب رَآٰ اَيْدِيَهُمْ : اس نے دیکھے ان کے ہاتھ لَا تَصِلُ : نہیں پہنچتے اِلَيْهِ : اس کی طرف نَكِرَهُمْ : وہ ان سے ڈرا وَاَوْجَسَ : اور محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً : خوف قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ : تم ڈرو مت اِنَّآ اُرْسِلْنَآ : بیشک ہم بھیجے گئے ہیں اِلٰي : طرف قَوْمِ لُوْطٍ : قوم لوط
اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھ نہیں رہے تو انھیں اجنبی خیال کیا اور دل ہی دل میں ان سے اندیشہ کرنے لگے۔ (مہمانوں) نے کہا آپ خوف نہ کھائیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
فَلَمَّا رَآٰ اَیْدِیَھُمْ لاَ تَصِلُ اِلَیْہِ نَکِرَھُمْ وَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً ط قَالُوْا لاَ تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ ۔ (سورۃ ہود : 70) (اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ مہمانوں کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھ نہیں رہے تو انھیں اجنبی خیال کیا اور دل ہی دل میں ان سے اندیشہ کرنے لگے۔ (مہمانوں) نے کہا آپ خوف نہ کھائیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تشویش اور اس کا سبب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ میں نے اپنے نامعلوم اور اجنبی مہمانوں کے لیے جس محبت اور اخلاص سے ضیافت پیش کی ہے وہ اس کی طرف ہاتھ ہی نہیں بڑھا رہے یعنی اسے کھانا نہیں چاہتے تو ان کے دل میں کھٹکاسا پیدا ہوا اور وہ اپنے جی ہی جی میں ان سے ڈرنے لگے کہ اللہ نہ کرے یہ شریفوں کے لباس میں کہیں کوئی ایسے ویسے لوگ نہ ہوں اور مہمانوں کے بھیس میں کہیں میرے دشمن نہ ہوں کیونکہ اگر یہ میرے اپنے ہوتے یا مجھ سے محبت کرنے والے ہوتے تو شوق سے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتے۔ کھانا بھی کھاتے اور شکریہ بھی ادا کرتے کیونکہ اس زمانے کی یہ ریت تھی کہ جب کوئی شخص برے ارادے سے اپنے دشمن کے گھر جاتا تھا تو اس کے گھر کا کھانا نہیں کھاتا تھا کیونکہ اسے نہایت ذلت کی بات سمجھا جاتا تھا کہ کسی کے گھر کا کھانا بھی کھایا جائے اور پھر اس سے دشمنی بھی کی جائے لیکن بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ اور وہ خیال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگلی آیت کریمہ سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اندیشوں کا سبب یہ نہ تھا کہ وہ مہمانوں کو اپنا دشمن سمجھے تھے بلکہ ان کے اندیشوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ جنھیں انسان سمجھ رہے ہیں کہیں وہ فرشتے نہ ہوں کیونکہ فرشتے کھاتے پیتے نہیں اور محض فرشتہ ہونا بھی کوئی ڈرنے کی وجہ نہ تھی بلکہ خدشے کا سبب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ سوچ تھی کہ اس طرح سے فرشتوں کا انسانی لباس میں آنا یہ اس بات کی علامت ہے کہ فرشتے کسی غیرمعمولی فرض کی انجام دہی کے لیے آئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے کوئی قصور سرزد ہوگیا ہو یا ہمارے گردوپیش رہنے والوں میں کوئی ایسی نافرمانی کے آثار ہوں جس پر سزا دینا ضروری ہو اور فرشتے سزا دہی کے لیے آئے ہوں۔ یہ سوچ کر نہایت پریشان ہوگئے کیونکہ آپ غائت درجہ اللہ سے ڈرنے والے اور نہایت نرم دل واقع ہوئے تھے۔ چناچہ فرشتوں نے آپ کے خدشوں کو محسوس کرتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ ہم آپ کے دشمن نہیں، آپ ہم سے خوف مت کھائیں اور نہ یہ کہا ہم تو فرشتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ فرشتے کھایا نہیں کرتے بلکہ اس کی بجائے یہ کہا ہم فرشتے ضرور ہیں اور فرشتوں کا اس طرح سے آنا یقینا فکر مندی کا سبب ہے لیکن آپ کو اطمینان رکھنا چاہیے، ہمیں آپ کی طرف نہیں بھیجا گیا، ہمیں تو قوم لوط کی طرف بھیجا گیا ہے۔
Top