Ruh-ul-Quran - Hud : 96
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍۙ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ وَ : اور سُلْطٰنٍ : دلیل مُّبِيْنٍ : روشن
ہم نے بھیجا موسیٰ ( علیہ السلام) کو اپنی آیات اور ایک روشن نشانی کے ساتھ رسول بنا کر
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰـتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ۔ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْ ئِہٖ فَاتَّبَعُوْ ٓا اَمْرَفِرْعَوْنَ ج وَمَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْد۔ یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَھُمُ النَّارَ ط وَبِئْسَ الْوِرْدُالْمَوْرُوْدُ ۔ وَاُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہٖ لَعْنَۃً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط بِئْسَ الرِّفْدُالْمَرْفُوْدُ ۔ (سورۃ ہود : 96، 97، 98، 99) (ہم نے بھیجا موسیٰ ( علیہ السلام) کو اپنی آیات اور ایک روشن نشانی کے ساتھ رسول بنا کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، تو انھوں نے فرعون ہی کی بات مانی، حالانکہ فرعون کی بات راست نہ تھی۔ وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور ان کو دوزخ میں لے جا اتارے گا اور کیا ہی برا گھاٹ ہوگا جہاں انھیں اتارا جائے گا۔ اور ان کے پیچھے لگا دی گئی اس دنیا میں لعنت۔ اور قیامت کے دن بھی۔ کیا ہی برا عطیہ ہے جو انھیں دیا گیا ہے۔ تمہید متعدد انبیاء اکرام کے حالات بیان کرنے کے بعد اب نہایت اختصار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی سرگزشت بیان فرمائی جارہی ہے۔ یاد ہوگا کہ سورة یونس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت تفصیل سے بیان کی گئی تھی اور باقی انبیاء اکرام کی اختصار سے۔ اب اس سورت میں اس کے بالکل برعکس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کی طرف صرف اشارات کیے گئے ہیں اور باقی چند انبیاء کرام کی سرگزشتیں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں۔ مقصد اس کے بیان کا وہی ہے جو دیگر انبیاء کرام کی سرگزشتوں کا مقصد ہے۔ مشرکینِ مکہ کو تنبیہہ کرنا ہے کہ تم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا اور تم اسی ڈگر پر چلتے رہے جس طرح پہلی معذب قومیں چلتی رہی ہیں تو پھر ان کی سرگزشتوں کے آئینہ میں تمہیں اپنا انجام دیکھ لینا چاہیے اور نبی کریم ﷺ کو یہ تسلی ہے کہ آپ مخالفین کی دشمنی سے پریشان نہ ہوں ہر پیغمبر کے ساتھ اس کی قوم نے ہمیشہ یہی سلوک کیا ہے لیکن آخرکار غلبہ ہمیشہ پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو ملتارہا ہے۔ مشرکینِ مکہ بہت جلد تاریخ کی اس حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آپ پر بھی انشاء اللہ بہت جلد فتح و نصرت کی سحر طلوع ہوگی۔ حضرت موسیٰ و فرعون کی سرگزشت اور سلطان مبین کا مفہوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کا آغاز کرتے ہوئے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور سلطان مبین کے ساتھ فرعون اور اعیانِ فرعون کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا۔ اس میں آیات سے مراد وہ نو نشانیاں ہیں جس کا ذکر سورة الاسراء میں آئے گا اور سلطان مبین سے مراد معلوم ہوتا ہے، عصائے موسیٰ ہے۔ یہ وہ عظیم معجزہ ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر نبوت عطا فرماتے ہوئے عطا فرمایا۔ جیسے ہی آپ کوہ طور پر پہنچے اور آپ کو بتایا گیا کہ آپ طور کی پاکیزہ وادی میں پہنچ گئے ہیں۔ سب سے پہلے جوتا اتارنے کا حکم دیا گیا ہے، پھر آپ کو نبوت سے نوازا گیا اور دین کی چند بنیادی حقیقتوں سے آگاہ کیا گیا۔ اس کے بعد اچانک پوچھا کہ موسیٰ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ عرض کیا : میری لاٹھی ہے، جس سے میں تھکاوٹ کے وقت ٹیک لگا لیتا ہوں اور بکریاں چراتے ہوئے اس کے ذریعے بکریوں کے چرنے کے لیے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں اور بھی اس سے کئی کام لیتا ہوں۔ ارشاد فرمایا : اسے زمین پر پھینک دو ۔ پھینکنے کی دیر تھی کہ وہ ایک اژدھا بن گیا اور دوڑنے لگا، کیونکہ اگر ایسا اژدھا بنتا جو بےحس و حرکت پڑا رہتا تو یہ سمجھا جاتا کہ شاید نظر کا فریب ہے لیکن اسے دوڑتا ہوا دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ڈر گئے۔ ان کے لیے رات کی تاریکی اور پہاڑوں کے سناٹے ایک عجیب تجربہ تھا کہ وہ غیب سے آوازیں سن رہے تھے۔ ایک درخت سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ جل رہا ہے لیکن جلنے کے باوجود اس کی سرسبزی میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ اس کی سرسبز شاخیں اور اس کے سبز پتے ویسے ہی آگ میں لہرا رہے تھے۔ ایک عجیب، حیران اور سراسیمہ کردینے والا منظر تھا۔ اس میں اچانک دیکھا کہ اپنے ہاتھ کی لاٹھی اتنا بڑا سانپ بن گئی ہے۔ آپ ڈر کے بھاگے، آواز آئی کہ موسیٰ پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔ تم اسے پکڑ لو، ہمیں اس کو پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ چناچہ آپ نے آگے بڑھ کر اسے ہاتھ لگایا تو وہ پہلی جیسے لاٹھی بن گئی۔ اس معجزے کو سلطان مبین شاید اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ جب ہدایت کی دعوت لے کر فرعون کے دربار میں پہنچے تو اس نے نہایت تند و تلخ باتیں کیں۔ لیکن جب آپ نے اسے بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس نے پوچھا تمہارے پاس اس کی کیا نشانی ہے تو آپ نے سندماموریت کے اظہار کے طور اپنا عصا پھینکا تو وہ اژدھا بن کر دربار میں لہرانے لگا تو پورے دربار پر ایک خوف طاری ہوگیا اور وہ فرعون جو بڑھ بڑھ کر باتیں بنا رہا تھا اور اس کا انگ انگ اظہارتمکنت میں پھڑک رہا تھا، سہم گیا۔ لوگوں نے اسے تسلی دی کہ آپ پریشان نہ ہوں یہ سراسر جادوگری ہے، شعبدہ بازی ہے۔ ہم بھی اپنے جادو گروں کو اکٹھا کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں یہ فن نہایت ترقی یافتہ ہے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ اس پر غالب آجائیں گے، لیکن جب جادوگروں کے ساتھ ایک کھلے مقابلے میں ہزاروں آدمیوں کی نگاہوں کے سامنے اس عصا نے سانپ بن کر جادوگروں کا تمام طلسم توڑ ڈالا اور جادوگر سجدے میں گرگئے تو اب فرعون اور آل فرعون کے لیے اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ کسی طرح اس موقع کو ٹال دیں، لیکن وہ دل ہی دل میں اس حد تک مرعوب ہوچکے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سامنا کرنا ان کے لیے آسان نہ رہا۔ اس وجہ سے قرآن کریم نے اسے سلطان مبین یعنی کھلے کھلے غلبے یا حجت غالبہ کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اعیانِ سلطنت اور قوم فرعون کے دوسرے سربرآوردہ لوگ جو قوم کو لیڈ کرتے تھے باوجود اس کے کہ وہ اس حقیقت کو پاچکے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) دونوں اللہ کے پیغمبر ہیں، لیکن اربابِ اقتدار کے لیے اقتدار سے الگ ہونا اور ایک فقیر بےنوا کی اقتداء کرنا ناممکن سی بات تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر انھیں پیغمبر تسلیم کرلیا گیا تو پھر ہر معاملے میں فرمانبرداری ان کی کرنا پڑے گی اور وہ پر تعیش زندگی جس کے وہ عادی تھے اور وہ حاکمانہ وجاہت جو ان کی پہچان تھی اس سے یکسر دستکش ہوناپڑے گا۔ اس لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کی بجائے فرعون اور فرعون کے حکم کی پیروی کی حالانکہ وہ جانتے تھے کہ نہ فرعون راستی پر ہے اور اس کے احکام راستی پر ہیں۔ وہ انسان ہو کر انسانوں سے پوجا کرواتا ہے، محتاج ہو کر اپنے آپ کو رب کہتا ہے۔ اپنے اعیانِ سلطنت اور اپنی قوم کے سوا اس نے سب کو غلام بنا رکھا ہے۔ تیسری آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح دنیا میں قوم فرعون نے اس کی پیروی کی اور اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے بالآخر اس کے نتیجے میں وہ بھی بحرقلزم میں غرق ہوا اور اس کی قوم کے تمام بڑے بڑے لوگ بھی۔ قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ ان سے یہی معاملہ کرے گا کہ جب انھیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا تو فرعون اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور وہ اس طرح چل رہا ہوگا جیسے کسی صحرا میں قافلہ بھٹک جائے اور پانی کا ذخیرہ ان کے پاس ختم ہوجائے تو وہ پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ اس کے بغیر زندگی نہیں بچے گی تو ان کا جو اصل پانی کا کھوج لگانے والا ہوتا ہے وہ سب سے آگے آگے چلتا ہے۔ یہاں بھی فرعون ان کے آگے آگے چلے گا اور انھیں جہنم کی آگ پر لا اتارے گا کیونکہ وہاں جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کس قدر برا ہے وہ گھاٹ جس پر انھیں اتارا گیا۔ قرآن کریم کی دوسری تصریحات سے اس منظرنامے پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر و شر کے حوالے سے قوموں کے لیڈر وہاں بھی اپنے پیروکاروں کے آگے چلیں گے، لیکن وہ منظر دیکھنے کے قابل ہوگا۔ اگر آگے چلنے والا شر اور گمراہی کا امام ہوگا اور لوگ دیکھیں گے کہ اسی شخص کی غلط قیادت کی وجہ سے ہم اس انجام کو پہنچے ہیں۔ اگر یہ شخص گمراہی میں ہماری قیادت نہ کرتا تو ہم آج یہ دن نہ دیکھتے۔ چناچہ وہ شخص آگے آگے ان کی قیادت کرتا ہوا جہنم کی طرف بڑھتا جائے گا اور پیچھے چلنے والے مسلسل گالیوں، بددعائوں اور لعنتوں سے اسے نواز رہے ہوں گے۔ دنیا ہوتی تو یہ کبھی اس کے سامنے زبان نہ کھولتے لیکن آج یہ وہاں ہیں جہاں کوئی کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتا۔ لیکن اگر قیادت کرنے والا نیکی کا امام ہوگا اور وہ انھیں جنت کی طرف لے جارہا ہوگا تو پیچھے چلنے والے مسلسل اس پر تحسین و تبریک کے پھول برسائیں گے اور اس کی ترقی و درجات کے لیے دعائیں مانگیں گے اور ساتھ ہی اس کا شکریہ بھی ادا کریں گے کہ اگر آپ نے اس نیک راستے کی طرف ہماری رہنمائی نہ کی ہوتی تو آج یہ عزت و کرامت ہمیں نصیب نہ ہوتی۔ ورد کا معنی ورد کا معنی کسی گھاٹ پر پانی پینے پلانے کے لیے اترنے کے بھی ہیں اور گھاٹ کے بھی۔ کیونکہ یہ مصدر اور ظرف دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ورد اسم ہے اور اس کا مصدر ورود ہے۔ ورد اس پانی کو کہتے ہیں جس کا قصد کیا گیا ہو۔ مآل سب کا ایک ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کو جس پانی پر اتارا یا جس گھاٹ پر اتارا اس سے بدتر گھاٹ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور چوتھی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ فرعون اور قوم فرعون ایسے بدنصیب ہیں کہ دنیا میں بھی ہمیشہ ان پر لعنت کی گئی۔ ان کے مرنے کے بعد جس نے بھی انھیں یاد کیا، لعنت سے یاد کیا اور قیامت میں بھی ان پر لعنت کی پھٹکار ہوگی۔ اربابِ حکومت چونکہ انعامات اور عطیات سے ہمیشہ واسطہ رکھتے ہیں۔ دیتے بھی ہیں اور لیتے بھی ہیں۔ اس لیے فرمایا گیا کہ کیسا برا ہے وہ انعام یا وہ عطیہ جو انھیں دیا گیا۔ دنیا میں بحرقلزم میں غرق کردیا گیا اور آخرت میں جہنم ان کا مقدر ٹھہرا۔
Top