Ruh-ul-Quran - Ar-Ra'd : 28
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُؕ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَتَطْمَئِنُّ : اور اطمینان پاتے ہیں قُلُوْبُهُمْ : جن کے دل بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے اَلَا : یاد رکھو بِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر سے تَطْمَئِنُّ : اطمینان پاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع)
جو ایمان لاتے ہیں اور جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دلوں کو طمانیت حاصل ہوتی ہے۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِاللّٰہِ ط الَاَ بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ۔ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰی لَہُمْ وَحُسْنُ مَاٰبٍ ۔ (سورۃ الرعد : 28۔ 29) (جو ایمان لاتے ہیں اور جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دلوں کو طمانیت حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے خوشخبری ہے اور اچھا ٹھکانا ہے۔ ) انابت الی اللہ کی وضاحت پیشِ نظر آیت کریمہ میں گزشتہ آیت کریمہ میں بیان کردہ مضمون کی مزید وضاحت فرمائی جارہی ہے۔ سابقہ آیت میں فرمایا کہ قریش مکہ کے ایمان نہ لانے کا سبب یہ نہیں ہے کہ انھیں منہ مانگی نشانیاں نہیں دکھائی جارہیں۔ اگر یہ کوئی حقیقی سبب ہوتا تو یہ خود مختلف وقتوں میں آنحضرت ﷺ کے کئی معجزات دیکھ چکے۔ اور پھر ان کے گردوپیش میں اور ان کی ذات کے اندر نشانیوں کی کیا کمی ہے۔ غور و فکر کی نگاہ چاہیے، نشانیاں تو ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ گھاس کی پتی سے لے کر آفتاب عالم تاب تک اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی نشانیاں ہی تو ہیں۔ اسی طرح پہلی امتیں جو عذاب کا شکار ہوئیں ان پر عذاب اس وقت آیا جب انھوں نے منہ مانگے معجزات اور نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اور معجزات اور نشانیوں کو کبھی جادو قراردیا اور کبھی شعبدہ بازی ٹھہرایا۔ اگر ایمان کا سبب نشانیاں ہوتیں تو یقینا سابقہ امتیں اور خود قریش مکہ اس سے محروم نہ رہتے۔ ایمان کے لیے انابت الی اللہ تعالیٰ کی ضرورت ہے۔ جب تک ایک آدمی طلب صادق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، ایمان لانے کا امکان بھی پیدا نہیں ہوتا۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انابت وہ معتبر ہے جس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کو مانناہو اور ماننا بھی ایسا جس کے بعد دل کا ہر کانٹا نکل جائے۔ تشکک اور ارتیاب کی کہر چھٹ جائے۔ دل کے اندر روشنی کا ایسا دیپ جلے کہ دل کی تمام تاریکیاں دور ہوجائیں۔ ایک ایسی قوت فیصلہ جنم لے جو تذبذب کے تمام راستوں کو بند کردے۔ کیونکہ جب تک دل شبہات کا شکار رہتا ہے اور اس میں اشتباہات کے کانٹے اگتے رہتے ہیں اس وقت تک دل میں یقین کی قوت نہیں اترتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دل میں وہ پختگی پیدا نہیں ہوتی جو تمام اندیشہ ہائے دوردراز کا خاتمہ کردے۔ اور وہ اطمینان پیدا نہیں ہوتا جو ایمان لانے والے کی شخصیت کو آسودہ کردے۔ یہ ایمان اور یقین، یہ پختگی اور یہ آسودگی اور یہ قوت اور یہ استقامت صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے پیدا ہوتی ہے۔ اور ذکر بھی وہ جو ذات رسالت مآب ﷺ اور قرآن کریم کی تعلیم سے ملتا ہے۔ یہ زبان کا ورد بھی ہے اور زندگی کا عمل بھی۔ یہ دل کی روشنی بھی ہے اور شخصیت کا رویہ بھی۔ یہی وظیفہ بھی جب اللہ تعالیٰ کی یاد میں ڈھل جاتا ہے یا تنبیہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے تو پھر مومن کے دل سے بیک وقت ایک ایسی قوت کا ظہور ہوتا ہے جس میں جمال بھی ہوتا ہے اور جلال بھی۔ یہی وہ چیز ہے جو ہزار خطرات میں بھی انسان کو پریشان نہیں ہونے دیتی۔ اور یہی وہ سہارا ہے جس کے ساتھ ٹیک لگانے والا کبھی ڈولتا نہیں۔ اس لیے اس آیت کریمہ کے آخر میں فیصلہ کن انداز میں فرمایا کہ سنو، سننے والو ! اگر ایک انسان کی اصل قوت دل کا اطمینان ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا کسی اور حوالے سے کبھی نہیں ملتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے ذکر کو حرز جان بنائو، اس کی تعلیمات کو زندگی کا دستور بنائو، اسی کی ذات وصفات کو زندگی کا اثاثہ اور قوت کا سرچشمہ جانو۔ یہی وہ آب حیات ہے جس سے سیرکام ہونے والا کبھی تشنگی کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ چونکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اور سب سے بڑی دولت ہے اسی لیے اگلی آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو زندہ کرلیتے ہیں ان کے لیے خوشخبری اور بہترین انجام ہے۔ طوبیٰ مصدر ہے بشریٰ کے وزن پر، یہ طَابَسے ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کے نزدیک اس کا معنی ہے، دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کا وہ یقین اور اطمینان جو ذکر اللہ تعالیٰ سے پیدا ہوتا ہے اس میں صرف ایک قوت نہیں ہوتی بلکہ اس میں دل کی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ جمال و جلال کا ایک ایسا امتزاج ہے جسے خوبصورت تعبیر دیتے ہوئے اقبال نے کہا : ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن یا جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
Top