Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 125
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اُدْعُ
: تم بلاؤ
اِلٰى
: طرف
سَبِيْلِ
: راستہ
رَبِّكَ
: اپنا رب
بِالْحِكْمَةِ
: حکمت (دانائی) سے
وَالْمَوْعِظَةِ
: اور نصیحت
الْحَسَنَةِ
: اچھی
وَجَادِلْهُمْ
: اور بحث کرو ان سے
بِالَّتِيْ
: ایسے جو
هِىَ
: وہ
اَحْسَنُ
: سب سے بہتر
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكَ
: تمہارا رب
هُوَ
: وہ
اَعْلَمُ
: خوب جاننے والا
بِمَنْ
: اس کو جو
ضَلَّ
: گمراہ ہوا
عَنْ
: سے
سَبِيْلِهٖ
: اس کا راستہ
وَهُوَ
: اور وہ
اَعْلَمُ
: خوب جاننے والا
بِالْمُهْتَدِيْنَ
: راہ پانے والوں کو
(دعوت دو اپنی رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہو، بیشک آپ ﷺ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَا اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ ۔ (سورۃ النحل : 125) (دعوت دو اپنی رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہو، بیشک آپ ﷺ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ ان کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔ ) اس آیت کا پس منظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور اس کے بعد کی آیات اس وقت نازل ہوئی ہیں جب حالات میں دو تبدیلیاں محسوس کی جارہی تھیں، ایک یہ کہ قریش مکہ کی جانب سے مسلمانوں پر اذیت رسانی کا عمل انتہائوں کو چھونے لگا تھا۔ ان کے راستے میں کوئی روک باقی نہیں تھیں اور کسی رشتے کا پاس ان کے یہاں بےمعنی ہو کر رہ گیا تھا۔ اندیشہ پیدا ہورہا تھا کہ مسلمانوں میں اس بےپناہ اذیت رسانی کیخلاف کوئی ردعمل پیدا نہ ہوجائے کیونکہ مسلمانوں کے حالات اب ایسے نہیں رہے تھے کہ وہ خاموشی سے مار کھاتے رہیں، لیکن مسلمانوں کی طرف سے ردعمل کی صورت میں چونکہ دعوت الی اللہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ پیدا ہوسکتا تھا اس لیے پروردگار نے ضروری سمجھا کہ دعوت کے بنیادی اصول واضح کیے جائیں۔ دوسری تبدیلی یہ محسوس کی جارہی تھی کہ اب شاید ہجرت کا زمانہ دور نہیں، وہاں مسلمانوں کو ایسے لوگوں میں دعوت کا کام کرنا ہوگا جو قریش مکہ سے مختلف مزاج کے حامل تھے۔ اوس و خزرج اگرچہ قحطانی عرب تھے لیکن عدنانی عربوں سے بہت مختلف مزاج رکھتے تھے۔ پھر وہاں تین قبیلے یہود کے بھی آباد تھے، ان کا مزاج یکسر الگ اور ان کے تحفظات دعوت الی اللہ کے بالکل معارض۔ ایسے حالات میں ضرورت محسوس ہوئی کہ تبلیغ و دعوت کے آداب تفصیل سے واضح کردیے جائیں۔ اس آیت کریمہ میں جو آداب ذکر فرمائے گئے ہیں ان کے دو عنوانات ہیں، دعوت بالحکمت اور موعظہ حسنہ، لیکن کبھی کبھی بحث اور جدال تک بھی نوبت پہنچ سکتی ہے۔ وہ اگرچہ دعوت کا لازمی تقاضا نہیں لیکن ضرورت بلاشبہ ہے۔ اس لیے بعد کی آیات میں صبر کے عنوان سے اس کے بارے میں ہدایات دی گئیں۔ عام طور پر حکمت سے مراد دلائل وبراہین لیے جاتے ہیں اور موعظت حسنہ سے مخلصانہ اور خیرخواہانہ انداز میں تذکیر و تنبیہ مراد لی جاتی ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر نیز موقع و محل دیکھ کر بات کی جائے۔ اور عمدہ نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ صرف دلائل پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ مخاطب کے جذبات کو بھی اپیل کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ ان دونوں اصطلاحات کو کوئی سا بھی لفظی معنی پہنا لیجئے، مقصود تو صرف یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے لیے جن جن نزاکتوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور جیسے کچھ اس کے آداب ہونے چاہئیں اور داعی کو جیسا ہمدرد اور یقین کا حامل ہونا چاہیے اور اسلوب جیسا کچھ دلآویز ہونا چاہیے اور موقع و محل کی سمجھ اور گفتگو کے موضوع پر دلائل کا جیسا استحضار ہونا چاہیے، یہ سب چیزیں جمع ہوں تو تبلیغ و دعوت کی وہ صورت وجود میں آتی ہے جس کے بارے میں ہدایات دی جارہی ہیں اور نبی کریم ﷺ جس کے عملی نمائندہ تھے۔ چناچہ اس لحاظ سے جب ہم اس موضوع پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سید المر سلین خاتم النبین ﷺ کی عظیم اور تابناک زندگی کا ہر عمل اپنی جگہ پر ایک معجزہ ہے۔ مگر بالخضوص تبلیغ آپ کا ایک ایسا عمل ہے کہ جس کی کا میابیوں کو دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ یقینا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ورنہ تبلیغ و دعوت کے لیے یہ جانفشانی اور پھر اس میں ہر ہر قدم پر حکمت ِ تبلیغ کا لحاظ اور پھر ہر موقع کی منا سبت سے افراد اور قوموں کے مزاج کے اعتبار سے اس حکمت میں نئے نئے پہلو ؤں کا اضافہ یہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کے رسول ہی کی صفات ہوسکتی ہیں۔ وہی ذات والا صفات ایسی ہوسکتی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم نبوت سے نئے نئے گوشوں کو کھولتی ہے اور تبلیغ و دعوت کے ہر میدان میں حکمت کے نئے پہلو اجاگر کرتی ہے۔ حکمت کا ایک پہلو اس حوالے سے سب سے پہلے جو چیز سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے پیغام کی تبلیغ اور اس کی دعوت کے لیے جس قوم سے واسطہ پڑا اس سے زیادہ جاہل، اجڈ، اپنی بات پر اڑنے والی، اپنے آبائو اجداد کی روایات کی پاس داری کرنے والی اور اپنے باطل خیالات پر ہر طرح کی قربانی دینے والی اور پھر علم کی ہر شاخ سے تہی دامن قانون اور اخلاق کے الفاظ تک سے نا بلد۔ خاص طور پر دینی اصطلا حات اور دینی مز اج سے کوسوں دور شاید ہی کوئی قوم گزری ہو۔ صدیاں بیت گئیں تھیں کہ اس خطے میں کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا تھا۔ اس لیے توحید اور آخرت کا تصور ان کے لیے بالکل ایک اجنبی بات تھی۔ اس سخت صورت حال کو جب رسول اللہ ﷺ نے ملاحظہ فرمایا تو حیرت ہوتی ہے کہ آپ نے آغاز ہی میں دعوت و تبلیغ کے لیے جن حکمتوں کو ملحوظ رکھا اس کی گہرائی اور گیرائی پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو سوائے حیرت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ آپ نے اس قوم کی تمام منفی خصو صیات کو یکسر ایک طرف رکھ کر ان کی مثبت خصو صیات کو تلاش کیا اور آپ چونکہ خود عرب تھے اس لیے عربوں کی نفسیات کو پہچانتے ہوئے اس کا پورا لحاظ رکھا۔ آپ جانتے تھے کہ یہ لوگ دینی اصطلا حات اور لاہوتی مسائل سے تو واقف نہیں لیکن بات کی تہہ تک پہنچ جانے اور جلد سے جلد کسی حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اس کا اعتراف کرلینے میں ان کو امتیاز حاصل ہے اسی طرح وہ قوت ِ مشاہدہ اور عقل عام سے بہت حد تک بہرہ ور تھے۔ وہ عالم ِ غیب اور اس کی نفسیات کو تو نہیں جانتے تھے لیکن فطری ماحول کی نزاکتوں کو خوب سمجھتے تھے چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنی دعوت کے آغاز میں ان کی انہی خصوصیات کا سہارا لیا۔ آپ ﷺ نے اپنی قوم کو اپنی بات سنانے کی خاطر جمع کرنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جو عربوں میں رائج تھا۔ عربوں کا قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص کوئی خطرہ محسوس کرتا یا اسے کسی دشمن کا خوف ہوتا تو وہ کسی پہاڑ کی چوٹی یا ٹیلے پر چڑھ کر بلند آواز سے پکارتا، یا صبا حاہ، یا وا صبا حاہ… لوگ اس کی آواز کو سن کر دوڑ پڑتے اور اپنے کام چھوڑ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل پڑتے۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی کوہ صفا پر کھڑے ہو کر یہ طریقہ اختیار فرمایا۔ یہ پہاڑ قریش کی آبادی سے قریب تر تھا۔ آپ نے وہاں سے آواز دی یا صبا حاہ، لوگوں نے خطرے کی اس گھنٹی کو سنکر اس کی طرف دوڑنا شروع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اہل مکہ میں کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو یہ آواز سن کر نہ آیا ہوا اور جو خود نہ آسکا اس نے اپنے نمائندے یا قائم مقام کو بھیجا۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ عملی طور پر حضور ﷺ نے پہاڑ پر کھڑے ہو کر اپنے منصب کی حقیقت واضح کی۔ نبوت جو سراسر ایک علمی مو ضوع ہے آپ نے اس کو علمی اند از میں سمجھانے کی بجائے وہ اند از اختیار فرمایا جس سے عرب استفادہ کرسکتے تھے آپ نے انہیں پہاڑ پر کھڑے ہو کر عملاً یہ بات سمجھائی کہ تم پہاڑ کے دامن میں ہو۔ ظاہر ہے کہ صرف پہاڑ کے سامنے دیکھ سکتے ہو اس کے پیچھے نہیں دیکھ سکتے اور وہ خطرہ جو تمہارے لیے وبال جان بن سکتا ہے وہ پہاڑ کے پیچھے اور تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہے اس کو وہ شخص دیکھ سکتا ہے جو پہاڑ کے اوپر کھڑا ہو کیونکہ اس کی نظر سامنے اور پیچھے دونوں طرف ہے۔ میری حیثیت یہ ہے کہ میں نوع انسانی کے مسائل ضروریات احساسات اور انفعالات کے ایک بلند وبالا پہاڑ پر کھڑا ہوں۔ اس کی زندگی کے بارے میں جو نقصانات پیش آسکتے ہیں وہ اس پہاڑ کے پیچھے ہیں۔ پوری نوع انسانی صرف پہاڑ کو دیکھ سکتی ہے لیکن اس کے عقب کو نہیں دیکھ سکتی۔ اس کو وہ دیکھے گا جو پہاڑ کے اوپر کھڑا ہو۔ وہ دنیا جس کو تم دیکھتے ہو وہ ظاہری دنیا ہے اور اس ظاہری دنیا کا انجام تو اس عالم غیب کے پہاڑ کے پیچھے ہے اور میں اوپر کھڑا دونوں کو دیکھ رہا ہوں اگر تم میری اس حیثیت کا اعتراف کرسکو تو میں تمہیں آنے والے خطرے سے آگاہ کرسکتا ہوں۔ اس طرح آپ نے وہ قوم جو صرف پیکر محسوس کو ماننے کی خوگر تھی اس کو مخصوص مثال کے ذریعے اپنی حیثیت سے آگاہ فرمایا۔ چناچہ جب ان کو نبوت کی اصل حیثیت کا احساس ہوگیا تو اب اس کے بعد دوسری بات یہ تھی کہ ایسے بلند وبالا منصب پر کون فائز ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے وہی فائز ہوسکتا ہے جو اس بگڑے ہوئے معاشرے میں 40 سال گزار کر بھی سچائی کا مینار ثابت ہوا ہو۔ جس نے گندگی میں رہ کر بھی کبھی دامن کو گندہ نہ ہونے دیا ہو۔ جو اندھیروں میں رہ کر بھی دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو چناچہ آپ نے نہایت حکمت و دانش سے سب سے پہلے یہی سوال کیا کہ لوگو بتلائو تم میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو۔ کیا تم نے کبھی مجھے جھوٹ بولتے سنا ہے میں نے کبھی کسی معاملے میں خیانت کی ہے۔ تمہیں کبھی مجھ سے کسی ناحق بات کا تجربہ ہوا ہے تو پورے مجمع نے بیک زبان یہ اعتراف کیا۔ کہا سب نے قول آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا اس اعتراف حقیقت کا نتیجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے آپ کا پیغام ماننے سے انکار کیا اور آپ کی دعوت کو جھٹلایا وہ بھی ہمیشہ اپنی اس کمزوری کو محسوس کرتے رہے اور آپس میں جب انھیں باتیں کرنے کا موقع ملتا تو ایک دوسرے سے کہتے کہ بھائیوعجیب بات ہے کہ جس شخص نے لڑکپن کا زمانہ اور جوانی کے ایام ہم میں گزارے ہیں اور اس پورے چالیس سالہ دور میں ہمیں کبھی اس سے جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا اور بندوں کے معاملات میں کبھی اس نے خیانت نہیں کی تو کیا اب اس عمر میں پہنچ کر جب کہ اس کی جوانی ڈھل رہی ہے تو کیا وہ اللہ پر بہتان باندھے گا یعنی آپ کی حکمت تبلیغ نے جس طرح اپنے منصب اور اپنی حقیقت کو تسلیم کروایا اس سے ہمیشہ کے لیے آپ کے مخالفین اخلاقی طور پر آپ کے سامنے کمزور ہوگئے۔ اپنے منصب کی عظمت اور اپنی اخلاقی بلندیوں کا اعتراف کروانے کے بعد آپ کے جس عمل نے سب سے زیادہ لوگوں پر اثر ڈالا اور جسے حکمت تبلیغ کی جان کہنا چاہیے وہ تین چیزیں تھیں۔ حکمتِ تبلیغ کی جان تین چیزیں آپ نے مشرکین مکہ کے سامنے جب اپنی دعوت رکھی تو انھوں نے اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے جو ہتھکنڈے اختیار کیے اور جس طرح آپ کا تمسخر اڑایا گیا آپ پر عجیب و غریب پھبتیاں کسی گئیں۔ آپ پر الز امات اور اتہامات کا ایک طوفان اٹھایا گیا۔ حتی کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ راستوں میں آپ کے لیے چلنا گھر میں قیام کرنا اور کعبتہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مشکل بنادیا گیا۔ بالاخر آپ کے قتل کے منصوبے باندھے جانے لگے۔ آپ کو وطن سے نکالنے کے لیے تدبیریں ہونے لگیں لیکن یہ ساری بد تمیزیوں کے طوفان میں ہمیں کوئی ایک ایسا واقعہ بھی نہیں ملتا کہ حضور اکرم ﷺ کی استقامت میں اپنے مو قف پر یقین و اطمینان میں اللہ پر توکل اور اعتماد میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی کمی آئی ہو۔ حتیٰ کہ جب بھی آپ کے ماننے والوں میں سے کسی نے پریشان ہو کر مخالفین کے لیے بد دعا کی درخواست کی تو آپ نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے گزرنے والی قوموں میں جن لوگوں نے دعوت کا کام کیا وہ اس سے زیادہ سخت حالات سے دو چارہو چکے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اس دعوت کا انجام کیا ہوگا تو تم اپنی زندگی میں اس کے غلبہ عمومی کو دیکھو گے اور صرف یہ مکہ ہی نہیں بلکہ قیصر و کسریٰ کی عظمتیں بھی تمہارے سامنے خم ہوں گی اور آج جبکہ راہ چلتے قافلے لوٹ لیے جاتے ہیں تم دیکھو گے کہ یہ خطہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ آج جبکہ تمہیں کھانے کو نصیب نہیں ہوتا تم دیکھو گے کہ لوگ زکوٰۃ کے مستحقین کو ڈھو نڈیں گے لیکن انھیں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملے گا۔ اپنی دعوت اپنی بات اپنے رویئے اور اپنی پیش کردہ صداقت پر یہ بےپناہ اطمینان اور یہ حد درجہ استقامت بالا خر مخالفین کو سوچنے پر مجبور کردیتی تھی کہ اگر اس دعوت میں کوئی نفسانی خواہش شامل ہوتی تو اس کے داعی اور اس کے پیرو کار کبھی تو اس میں کوئی تر میم کوئی سمجھوتہ اور کسی کمزوری کو قبول کرلیتے چناچہ یہ استقامت کتنے لوگوں کے دل کھولنے کا باعث ہوگئی۔ اسی طرح دوسری چیز جسے حکمت تبلیغ کی جان کہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ دشمنانِ حق کی طرف سے جیسے ابھی عرض کیا گیا کوئی ایسی اذیت کوئی ایسی مصیبت اور کوئی ایسا دکھ نہیں جو حضور اکرم ﷺ کی ذات والا صفات کو بر داشت نہ کرنا پڑا ہو۔ مگر اس کے باوجود آپ کے دل میں کبھی ان کی طرف تنفر انتقام یا اشتعال کا کوئی ایک لمحہ بھی تلاش کرنے سے نہیں ملتا بلکہ اس کے بر عکس ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ گالیاں دیتے ہیں۔ حضور ﷺ دعائیں دیتے ہیں وہ پتھر مارتے ہیں حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ان کے لیے پھول جھڑتے ہیں۔ وہ آپ کی جان لینے کے درپے ہیں اور حضور ﷺ کو ان کی زندگیاں سنوانے کی فکر ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ بد سے بدتر دشمن بھی ہمد ردی اور خیر خواہی کے مقابلے میں دیر تک کھڑا نہیں رہ سکتا اور جس کی خیر خواہی کا عالم یہ ہے کہ طائف میں اس پر پتھروں کی بارش کی جائے اور وہ زخموں سے نڈھال ہو کر باربار غش کھا کر گرے۔ حتیٰ کہ جان بچانے کے لیے ایک باغ کی پناہ لینے پر مجبور ہوجائے اور جب اس کسمپرسی، بےبسی اور اذیت کے دوران پہاڑوں کا فرشتہ آکر یہ کہے کہ حضور ﷺ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اگر آپ حکم دیں تو میں طائف کے دونوں پہاڑوں سے اس آبادی کو پیس ڈالوں تو حضور ﷺ فرمائیں کہ نہیں میں ان کے لیے بد دعا نہیں کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ یہ لوگ اگر خود نہیں تو ان کی اولاد سے خدا کے نام لیوا اٹھیں گے۔ چناچہ یہ دنیا والوں کی عجیب و غریب خیر خواہی اور ہمد ردی تھی جس نے آخر ان لوگوں کو بھی قدموں میں جھکنے پر مجبور کردیا جو آپ کے بد ترین دشمن تھے۔ تیسری چیز جسے آپ کی حکمت تبلیغ میں بڑی اہم حیثیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے جس بات کا حکم دیا اور جس بات کی تبلیغ فرمائی خود سب سے پہلے اس پر عمل کر کے دکھایا بلکہ اس سے بڑھ کر اس پر عمل کر کے دکھایا۔ لوگوں کو اگر آپ نے مال کا چالیس واں حصہ راہ خدا میں دینے کا حکم دیا تو خود اپنے ساری پونجی پیش کردی۔ دوسروں کے چھوڑے ہوئے مال میں اگر آپ نے قانون وراثت کے مطابق تقسیم کا حکم دیا تو خود اپنے پیچھے کوئی ترکہ تک نہیں چھوڑا۔ لوگوں کو اگر پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا تو خود آٹھ نمازیں پڑھیں اور تہجد آپ کے لیے فرض قرار دے دی گئی۔ اگر آپ نے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ زندگی میں حقیقی اہمیت آخرت کو ہے دنیا ایک ضرورت ہے مقصود نہیں۔ تمہیں دنیا اور متاع دنیا سے دل لگانے کی بجائے بےرغبتی کا ثبوت دینا ہوگا تو خود آپ نے دنیا سے بےرغبتی کا ایسا اعلی نمونہ پیش فرمایا کہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کے الفاظ میں۔ قدموں میں ڈھیر اشرفیوں کا لگا ہوا اور تین دن سے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا ہیں دوسروں کے واسطے سیم و زر و گہر اور اپنا یہ حال کہ ہے چولہا بجھا ہوا بےرغبتی کی انتہا یہ ہے کہ آپ نے اپنی اولاد کے لیے زکوۃ تک کو حرام کر ڈالا اور حکومت اور ریاست امت مسلمہ کے پاس امانت چھوڑ گئے۔ آپ کی زندگی کا یہ رویہ وہ عملی تبلیغ ہے کہ جس کے بارے میں صحابہ کہتے تھے کہ ہم نے احکام تو قرآن حکیم سے سیکھے لیکن اس کی حقیقت حضور ﷺ کے اعمال سے سیکھی۔ حضرت بلال ؓ فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع و خضوع کیا ہوتا ہے یہ اس وقت معلوم ہوا جب رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ کے سینے سے ایسی آواز آتی تھی کہ جیسے ہنڈیا ابلنے سے یا چکی کے چلنے سے آتی ہے۔ بڑے سے بڑا دشمن بھی جب حضور ﷺ کی زندگی کی اس عملی تصویر کو دیکھتا تھا تو عبد اللہ بن سلام جو یہودی عالم تھے ان کی طرح پکار اٹھتا تھا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ آپ کے اعمال حقیقت میں آپ کی تبلیغ کی وہ حکمت ہے جس سے بڑھ کر کوئی تبلیغ موثر نہیں ہوسکتی۔ حکمتِ تبلیغ کا ایک اور پہلو رسول اللہ ﷺ کی حکمت تبلیغ کا تعلق دو چیزوں سے ہے۔ ایک آپ کی دعوت، منصب ِ دعوت اور داعی کی حیثیت اور دوسری چیز ہے اسلوبِ دعوت۔ جس طرح آپ نے اپنی عملی زندگی اپنی خیر خواہی اپنی گہری دلسوزی، اللہ تعالیٰ پر بےپناہ یقین اور اعتماد اور مصائب کے مقابلے میں برداشت اور صبر اور ہر طرح کی برائی کے مقابلے میں حسن سلوک جیسی حکمتوں سے اپنی دعوت و تبلیغ کو آگے بڑھایا۔ اسی طرح اس تبلیغ و دعوت کے موثر ہونے میں حکمت کے ایک دوسرے پہلوکا بھی دخل ہے جس کا تعلق اسلوبِ دعوت سے ہے اس میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں چند حکمتیں بہت نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ سب سے پہلی چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ہر شخص کی ذہنی سطح اور اس کے مدارج ِ عقلی کا پورا پورا خیال فرماتے تھے۔ شہری لوگوں سے ان کے اند از اور معیار کے مطابق گفتگو فرماتے اور دیہاتی اور بدوی لوگوں سے ان کی ذہنیت کے مطابق بات کرتے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اس سلسلے میں بنی فزارہ کے ایک شخص کا ذکر کیا ہے جو بدوی تھا۔ وہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جو سیاہ رنگ کا ہے میں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ ہم میاں بیوی میں سے کوئی بھی سیاہ رنگ کا نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی سمجھ اور پیشہ کے مطابق جواب مرحمت فرمایا۔ اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں۔ اس نے کہا جی ہیں۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا وہ کس رنگ کے ہیں۔ اس نے کہا سرخ رنگ کے۔ آپ نے اس پر سوال کیا کیا ان میں کوئی خاکستری رنگ کا یا کم سیاہ رنگ کا کوئی اونٹ بھی ہے اس نے کہا ہاں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب تم ہی بتائو کہ سرخ رنگ کے اونٹوں میں یہ سیاہی کیسے آگئی۔ اس نے اس کے جواب میں کہا ممکن ہے کہ اس کی نسل میں کوئی اونٹ خاکستری یا سیاہ رنگ کا ہو اور یہ اس کی جھلک آگئی ہو۔ جب بات یہاں تک پہنچی تو آپ نے یہ فرما کر اس کے شک کو دور کردیا کہ تمہارے بیٹے کے معاملے میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ نسب کا کرشمہ ہے اور اس میں تمہاری بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے اس طرح طبرانی کی روایت ہے کہ قریش کا ایک نوجوان جو حیو انیت کے جذبات سے مغلوب تھا۔ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے بدکاری کی اجازت فرما دیجیے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ حاضرین اس پر لپکے اور اس گستاخی پر اس کو خوب ڈانٹا۔ آپ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ اس سے تعرض نہ کرو اور اس کو اپنے قریب بلا کر پوچھا کہ کیا تم اس بات کو پسند کرو گے کہ جن رشتوں کا تم احترام کرتے ہو ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی یہ بری حرکت کرے اس نے کہا میں تو ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ تم جس برائی کا ارادہ کر رہے ہو وہ برائی بھی تو آخر کسی کی بہن اور بیٹی کے ساتھ ہی ہوگی اس کے بعد آپ ﷺ نے اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ وہ اس سادہ تفہیم کے اند از سے جو اس کی ذہنی سطح کے عین مطابق تھی اس قدر متاثر ہوا کہ ہمیشہ کے لیے اس سے تائب ہوگیا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حضور اپنی دعوت میں آسانی، تیسیر اور تدریج کو ملحوظ رکھتے تھے۔ آپ کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ احکام اور مسائل میں تنگی پیدا نہ ہونے پائے اور اس کی خاطر اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی فرماتے تھے اور جب دوسرے لوگوں کو کہیں تعلیم یا تبلیغ کے لیے بھیجتے تو ان کو بھی حکم دیتے کہ لوگوں کو تعلیم دو اور آسانی پیدا کرو اور مشکلات سے پرہیز کرو۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ اغلو طات سے منع فرمایا کرتے تھے۔ امام اوزاعی ( رح) کہتے ہیں کہ اس سے مقصود یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے مشکل و پیچیدہ مسائل بیان نہ کیے جائیں جن سے وہ کچھ اخذ نہ کرسکیں بلکہ صرف وہ باتیں بیان کی جائیں جن کو وہ آسانی سے سمجھ سکیں۔ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ حکمت ِ تبلیغ کا دارومد ارچون کہ اس بات پر تھا کہ اپنی دعوت کو لوگوں کے دماغوں میں اتارا جائے۔ اس لیے آپ ﷺ بعض دفعہ حسب ضرورت گفتگو میں اپنے مخاطب کے لب و لہجہ کا بھی خیال رکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ اس کا تعلق کس قبیلے سے ہے اور اس قبیلے میں کس نوعیت کی زبان رائج ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے عاصم الاشعری سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔ لیس من امبرامصبیام فی امسفر (لیس من البرالصیام فی السفر) کہ سفر کے دوران روزہ رکھنا نیکی نہیں۔ لیکن چونکہ عاصم قبیلہ اشعر سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی عادت یہ تھی کہ اکثر لام کو م کے ساتھ بدل دیتے تھے۔ چناچہ آپ نے انہی کے لب و لہجہ میں بات فرمائی اور مقصود صرف یہ تھا کہ مخاطب بات کو پوری طرح سمجھ سکے۔ صحابہ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی عادت میں یہ بات بھی تھی کہ جب کسی اہم دینی بات کو دل و دماغ میں اتارنا چاہتے تو عموماً اسے تین مرتبہ دہراتے تاکہ بات دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ اس معاملے میں آپ کی احتیاط کا عالم یہ تھا کہ جس طرح آپ لوگوں کے لب و لہجہ اور احساسات کا خیال فرماتے تھے اسی طرح ان کی نفسیات کا بھی خیال فرماتے۔ انسانی فطرت ہے کہ آدمی ہر وقت بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اگر موقع بےموقع اسے بات سننے پر مجبور کیا جائے تو اس کا ذہن اس کا دل اسے قبول نہیں کرتا۔ حضرت علی ؓ اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دلوں میں خواہشات اور میلانات ہوتے ہیں اور کسی وقت وہ بات سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کسی وقت وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لوگوں کے دلوں میں ان میلانات کے اندر داخل ہو کر اس وقت بات کہنی چاہیے جب وہ سننے کے لیے تیار ہوں۔ اس لیے کہ دل کا حال یہ ہے کہ جب اس کو کسی بات پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے اور بات قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اس کا ہمیشہ لحاظ رکھتے تھے اور ہر وقت اور موقع بےموقع وعظ و نصیحت سے احتراز فرماتے تھے۔ حضرت ابن مسعود ( رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ وعظ و نصیحت میں تخول سے کام لیتے تھے۔ یعنی وقفہ دے کر بات کرتے تھے تاکہ روزانہ اور ہر وقت کی نصیحت سے طبیعتیں اکتا نہ جائیں۔ مختصر یہ کہ تبلیغ و دعوت چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی اس کا تعلق دعوت اسلام سے ہو یا دعوت اصلاح سے، سامعین شہری ہوں یا دیہاتی مخاطب پیروکار ہو یا بد ترین دشمن ہرحال میں آنحضرت ﷺ کی تبلیغ و دعوت اپنے اند رایسی حکمت و دانش اور حکیمانہ اسلوب رکھتی ہے کہ جس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک زندگی چاہیے اور اس کو بیان کرنے کے لیے ایک سفینہ چاہیے اور یہی وہ حکمت و دانش ہی تھی جس کے نتیجے میں تبلیغ و دعوت کی کامیابی اور کامرانی کی وہ شکل آج ہمارے سامنے ہے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ جو پذیرائی جو وسعت اور جو قبول ِ عام حضور ﷺ کی تبلیغ و دعوت کو مختصر عرصے میں نصیب ہوا اور پھر جس طرح اس نے دماغوں اور دلوں میں نفوذ حاصل کیا اور پھر جس کی وسعتوں کے سامنے ملکوں بلکہ براعظموں کی وسعتیں سمٹ گئیں وہ کسی اور دعوت کو آج تک نصیب نہیں ہوسکا مگر آہ اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ جس دعوت کی بنیاد حکمت و دانش اور جس طریقہ دعوت کی بنیاد حکیمانہ اسلوب پر رکھی گئی تھی آج یہ دعوت بہت حد تک اس سے محروم ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دوسرے مذاہب اور دوسری قوموں کو ہمارے اندر داخل ہو کر ارتداد اور الحاد کے لیے کام کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ ہم دوسروں کو اس دعوت سے تو کیا متأثر کرتے اپنے گھر میں لگی ہوئی آگ کو بجھانا بھی ہمارے بس سے باہر ہورہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوبارہ اپنی اس کھوئی ہوئی میراث کو پانے کی کوشش کریں اور وہی حکیمانہ اسلوب وہی حکمت و دانش وہی خیر خواہی وہی اعتماد و توکل کی بےپنا ہی وہی برائی کے مقابلے میں نیکی کارویہ، الزامات اور اتہامات کے مقابلے میں اسی موعظہ حسنہ کا اند از اختیار کر کے ایک دفعہ پھر اتمام حجت اور شہادت حق کا فرض انجام دیں کیونکہ : ہم کو بخشی ہیں خدا نے دہری دہری خدمتیں خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے خود سراپا نور بن جانے سے کب چلتا ہے کام ہم کو اس ظلمت کدے میں نور پھیلانا بھی ہے
Top