Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 106
ذٰلِكَ جَزَآؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَ اتَّخَذُوْۤا اٰیٰتِیْ وَ رُسُلِیْ هُزُوًا
ذٰلِكَ : یہ جَزَآؤُهُمْ : ان کا بدلہ جَهَنَّمُ : جہنم بِمَا : اس لیے کہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَاتَّخَذُوْٓا : اور ٹھہرایا اٰيٰتِيْ : میری آیات وَرُسُلِيْ : اور میر رسول هُزُوًا : ہنسی مذاق
یہی جہنم ان کا بدلہ ہے، بسبب اس کے کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا۔
ذٰلِکَ جَزَآؤْھُمْ جَھَنَّمْ بِمَا کَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْٓا اٰیٰـتِیْ وَرُسُلِیْ ھُزُوًا۔ (الکہف : 106) (یہی جہنم ان کا بدلہ ہے، بسبب اس کے کہ انھوں نے کفر کیا اور میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑایا۔ ) یہ اشرافِ قریش اور دیگر اہل مکہ آج جس جہنم کا انکار کررہے ہیں قیامت کے دن یہی جہنم ان کے اعمال کا بدلہ ہوگی۔ آج یہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں کا مذاق اڑاتے ہیں کل یہی تمسخر اور استہزاء ان کی تباہی کا باعث بنے گا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً ۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لاَ یَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلاً ۔ (الکہف : 107، 108) (بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، وہ اس جگہ کو بدلنا نہیں چاہیں گے۔ ) کامیابی ایمان و عمل میں ہے جن لوگوں کی تمام تگ و دو اور تمام مساعی دنیا اور اسباب دنیا ہی کے حصول ہی میں گم ہو کر رہ گئیں انھوں نے جب بھی کسی چھوٹے یا بڑے کام کا آغاز کیا تو پیش نظر صرف یہ رہا کہ اس سے ہمیں دنیوی طور پر کیا فائدہ پہنچے گا اور اس سے ہمارے اسباب دنیا میں کیا اضافہ ہوگا۔ ہماری عزت اور شہرت کو کیسے چاند لگیں گے اور کس طرح ہمارے لیے اقتدار کی راہ آسان ہوگی۔ ان کی محنتوں کا ہدف صرف وہ چیزیں ٹھہریں جن کا تعلق انسان کی غذا، لباس یا آرام و راحت سے ہے۔ اور انھوں نے اپنی دماغی کاوشوں کو اگر صرف کیا تو مطعومات، مشروبات، ملبوسات اور تعیشات میں تنوع پیدا کرنے میں یا ان علوم و فنون کو آگے بڑھانے میں جن کا تعلق انسان کے سفلی جذبات کے تقاضوں، شہرت کی طلب یا ذکر دوام کی ہوس سے ہے۔ رہے وہ علوم و فنون جن کا تعلق انسانی قدروں سے ہے یا انسانی اخلاق سے یا انسان کے اندر مکارمِ اخلاق اور ملکاتِ عالیہ سے یا ان راہوں سے جن پر چل کر انسانیت سربلند ہوتی اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کا حق ادا ہوتا اور پیغمبر کریم ﷺ کے نقوش زندگی کو توانائی ملتی ہے تو اس کا ان کی سوچ، اس کی فکر اور ان کے عمل سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ گزشتہ آیت کریمہ میں یہ بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے اعمال دنیا ہی میں رہ جائیں گے، آخرت میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی بلکہ وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جائیں گے۔ لیکن جن لوگوں نے ان بنیادی حقائق اور صداقتوں پر یقین پیدا کیا جنھیں پیغمبر لے کر مبعوث ہوئے ہیں اور جو انسانیت کا حقیقی سرمایہ ہیں اور پھر انھوں نے اپنی زندگی نفسانیت اور خواہشات کی پیروی میں گزارنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق گزاری، ان کے لیے رہنما صرف اللہ کی کتاب رہی اور ان کا آئیڈیل صرف اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی زندگی رہی۔ دنیا کی زیب وزینت نے نہ ان کی نگاہوں کو خیرہ کیا اور نہ ان کی عملی قوت صراط مسقیم کے سوا کسی اور راستے پر صرف ہوئی۔ ان کا یقین ان کے لیے قیامت کے دن مشعل بنے گا اور ان کا ایک ایک عمل قیامت کے دن اتنا وزنی ہوگا کہ میزانِ عدل میں اس کا پلڑا سب سے جھکا رہے گا۔ جس طرح حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) کی کمزور اور پتلی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر صحابہ اپنی ہنسی نہ روک سکے، لیکن آنحضرت ﷺ کو اس سے ناگواری ہوئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کیا جانو، اللہ تعالیٰ کے ترازو میں ان پنڈلیوں کا وزن کیا ہے۔ قیامت کے دن یہ پنڈلیاں کوہ احد سے بھی بھاری ہوں گی۔ گزشتہ آیت میں کافروں کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن جہنم ان کی مہمانی کے لیے تیار ہوگا اور اس آیت میں ان مومنوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے باغات ان کے لیے بطور ضیافت تیار ہوں گے۔ ہر ایسی نعمت جس کے وجود یا جس کی لذت کا تصور بھی ممکن نہ ہو وہ بھی وہاں موجود ہوگی۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ ” نزل “ کا معنی جس طرح مہمانی ہے اسی طرح منزل بھی ہے۔ اس سورت میں معنی یہ ہوگا کہ جنت الفردوس ایسے مومنوں کی منزل اور رہائش گاہ ہوگی۔ یہ جنت الفردوس عام جنت نہیں۔ ویسے تو عام جنت بھی نعمتوں کے اعتبار سے بےمثال اور بینظیر ہے۔ لیکن جنت الفردوس خصوصی مقام و مرتبہ کی حامل اور بعض روایات کے مطابق سب سے بالاقدر جنت ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے جب بھی مانگو جنت الفردوس مانگو کیونکہ ایک مومن کی دعا کا ہدف بھی جنت ہی کی طرح سب سے بلند ہونا چاہیے۔ ایک سوال کا جواب انسانی فطرت کے حوالے سے عام طور پر ایک سوال کیا جاتا ہے کہ انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے اس کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یکرنگی اور یکسانی کو پسند نہیں کرتا۔ انسان تلون پسند اور تغیر پسند واقع ہوا ہے۔ اسے کبھی میٹھا اچھا لگتا ہے اور کبھی نمکین۔ وہ کبھی دھوپ پسند کرتا ہے اور کبھی سایہ، کبھی میدانی علاقے میں رہنا چاہتا ہے اور کبھی پہاڑوں کے زیروبم اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ہر روز گوشت کھانے پر بھی انسان اکتفا نہیں کرسکتا۔ وہ مختلف چیزیں کھانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کی طبیعت کے اس تقاضے کو دیکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنت کی یکرنگی اور یکسانی پر کیسے صبر کرسکے گا۔ وہ جنت کی نعمتوں سے اکتا کر کبھی جنت سے باہر کی دنیا کو دیکھنا بھی پسند کرے گا بلکہ ہمارے شاعر نے تو کہا کہ ابدی زندگی بھی ایک مجبوری بن جائے تو اس میں کیا لذت باقی رہ جاتی ہے۔ ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے آخر میں فرمایا گیا کہ جنت ایک ایسا مقام ہے جس میں داخل ہونے والا کبھی اس سے اکتا نہیں سکتا۔ وہ کبھی اس سے مختلف منزل تلاش نہیں کرے گا۔ جس طرح جنت کی مثال بلکہ اس کی ہر نعمت کی مثال اس دنیا میں ممکن نہیں، وہ دنیا اس دنیا سے بالکل مختلف ہوگی۔ وہاں کے احساسات بھی یہاں کے احساسات سے مختلف ہوں گے۔ ہمارے تاثیر وتأثر کے پیمانے وہاں بدل جائیں گے، وہاں سوچ کا انداز مختلف ہوگا، غم، پریشانی اور اکتاہٹ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ وہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی، یہاں ہر خوشی کی ایک انتہا ہے وہاں کسی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوگی، یہاں خوشی کی انتہا تک پہنچنا بعض دفعہ انسان کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے وہاں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوگی۔ یہاں کی خوشیاں بھی محدود ہیں اور اس کے متعلقات بھی محدود ہیں، وہاں جس طرح زندگی ابدی ہے اسی طرح ہر چیز ابدی ہوگی۔ اس لیے یہاں کی زندگی پر قیاس کرکے وہاں کی زندگی پر حکم لگانا قیاس مع الفارق کی بدترین قسم ہے۔
Top