Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 87
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُهٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰى رَبِّهٖ فَیُعَذِّبُهٗ عَذَابًا نُّكْرًا
قَالَ : اس نے کہا اَمَّا : اچھا مَنْ ظَلَمَ : جس نے ظلم کیا فَسَوْفَ : تو جلد نُعَذِّبُهٗ : ہم اسے سزا دیں گے ثُمَّ : پھر يُرَدُّ : وہ لوٹایا جائیگا اِلٰى رَبِّهٖ : اپنے رب کی طرف فَيُعَذِّبُهٗ : تو وہ اسے عذاب دے گا عَذَابًا : عذاب نُّكْرًا : بڑا۔ سخت
ذوالقرنین نے کہا جو ان میں سے ظلم کا مرتکب ہوگا ہم اس کو سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت ترین عذاب دے گا۔
قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُـہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّـہٖ فَـیُـعَذِّبُـہٗ عَذَابًا نُّـکْرًا۔ وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَـہٗ جَزَآئَ نِ الْحُسْنٰی ج وَسَنَقُوْلُ لَـہٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا۔ (الکہف : 87، 88) (ذوالقرنین نے کہا جو ان میں سے ظلم کا مرتکب ہوگا ہم اس کو سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت ترین عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور عمل صالح اختیار کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس بھی اچھا بدلہ ہے اور ہم بھی اس کے ساتھ آسان معاملہ کریں گے۔ ) قول ذوالقرنین کا مفہوم اس آیت کریمہ میں قَالَ کا فاعل ذوالقرنین ہے۔ بظاہر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہقُلَنَا کا جواب ہے کہ پروردگار نے سابقہ آیت میں ذوالقرنین سے جو کچھ فرمایا تھا اس کے جواب میں ذوالقرنین نے یہ بات کہی، لیکن ہم اس سے پہلے یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ قول ہمیشہ کہنے ہی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ رویئے کے اظہار کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بھی قول سے مراد قول بلسانِ حال ہے۔ ذوالقرنین نے اس مفتوح قوم کے سامنے جو ہر طرح اس کے اختیار میں تھی اپنا رویہ یہ اختیار کیا اور یہ پالیسی بنائی کہ ہم فاتح ہونے کی حیثیت سے ظلم کا دروازہ نہیں کھولیں گے جیسا کہ عموماً فاتحین کیا کرتے ہیں، بلکہ ہم مفتوح قوم کے ساتھ نہ صرف عادلانہ رویہ اختیار کریں گے بلکہ فاتح اور مفتوح کا فرق مٹاتے ہوئے نہایت مساویانہ رویہ قائم کریں گے کہ جو شخص ان میں ظلم و زیادتی کرے گا اسے ہم سزا دیں گے۔ اور ساتھ ہی اسے تربیت کے انداز میں سمجھانے کی کوشش بھی کریں گے کہ اسے اسی دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا بلکہ ایک دن اللہ تعالیٰ کے روبرو بھی حاضر ہونا ہے۔ ہماری سزائیں اس عذاب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں جس سے اسے وہاں سابقہ پیش آنے والا ہے۔ البتہ جس شخص نے نیک چلنی کا رویہ اختیار کیا یعنی وہ ایمان لایا اور اعمالِ صالحہ کو اپنا توشہ بنایا اس کے لیے ہمارے پاس بہترین بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی وہ شخص اچھے انجام سے سرفراز ہوگا اور ہم اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کریں گے جس کی وجہ سے اسے زندگی گزارنے میں آسانی پیدا ہو۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے لیے نرم پالیسی اختیار کریں گے۔ ایسی پالیسی جو ایک طرف عدل اور مساوات اور دوسری طرف رحم اور مروت پر مبنی ہوگی۔ ذوالقرنین کا سلوک تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کا اپنی مفتوحہ قوموں کے ساتھ ایسا ہی رویہ تھا۔ اس کی فوج کے کسی سپاہی کی مجال نہ تھی کہ وہ مفتوح قوم کے کسی فرد پر ظلم کرسکتا۔ اس نے جن علاقوں کو بھی فتح کیا وہاں لوگوں کے ساتھ شفقت سے پیش آیا۔ جو پہلے سے ان پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے تھے وہ اس نے سب معاف کردیئے حتیٰ کہ خراج بھی لینا پسند نہ کیا جو ہر فاتح لیا کرتا ہے۔ اس کے بدترین دشمن بھی جب گرفتار کرکے اس کے سامنے لائے گئے تو اس نے انھیں معاف کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو علاقے اس نے فتح کیے وہاں کے رہنے والے لوگ اس کے سلوک سے متاثر ہو کر دل کی گہرائیوں سے اس کے وفادار ثابت ہوئے اور کہیں بھی اسے بغاوت سے سابقہ پیش نہیں آیا۔ اس سفر میں اس نے جس بادشاہ کو شکست دی تھی اس کے ساتھ اس کا رویہ حیرت انگیز حد تک فیاضانہ تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ذوالقرنین نے اس بادشاہ کو اس کی موت تک اپنے محل میں رکھا اور اسے دس ہزار پیادے اور پانچ ہزار سوار عطا کیے تاکہ اس کی حیثیتِ عرفی کو گزند نہ پہنچے۔ ذوالقرنین مومن تھا ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ایک مومن اور آخرت پر یقین رکھنے والا شخص تھا۔ اسی لیے وہ ایمان و عمل کی بات کرتا ہے اور آخرت کا حوالہ دیتا ہے۔ جن لوگوں نے ذوالقرنین سے سکندر مراد لیا ہے ان کی تردید کے لیے یہی بات کافی ہے کہ سکندر میں نہ ایمان تھا نہ عمل صالح اور نہ اس کا رویہ اپنے دشمنوں کے ساتھ فیاضانہ تھا۔ بلکہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار جلد 1، ص 567 میں لکھتا ہے کہ سکندر نے اپنے باپ فلپ کے مرنے کے بعد اپنے معصوم ننھے سوتیلے بھائی کو جو قلوپطرا کے بطن سے تھا قتل کرا دیا اور اسی طرح اپنے چچازاد بھائی منٹاس کو بھی اس نے مروا ڈالا۔ نیز اس کے متعلق یہ بھی گمان کیا جاتا ہے کہ اس کے باپ کے قتل میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔ ایسے شخص کی اس بلند کردار شخص سے کیا نسبت ہوسکتی ہے جس طرح کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے۔ ذوالقرنین زردشت کا ہمعصر اور اس کا پیرو تھا اور زردشت کی اصل تعلیمات میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا صحیح تصور موجود تھا۔ اگرچہ بعد میں نہ اس سے منسوب کتاب محفوظ رہی اور اس کا مذہب حقیقی صورت میں باقی رہا۔ حتیٰ کہ آج وہ ایک آتش پرست مذہب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ ذوالقرنین کا جانشیں دارا ظاہر ہے جو اپنے پیشرو کے طریقے پر چلنے والا ہوگا اس کے بارے میں دستیاب ہونے والے بعض کتبوں سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ اہورمزدا کی عبادت کیا کرتا تھا اور اپنی سلطنت کو اس کے فضل و کرم سے منسوب کرتا تھا اور اس سے راہ راست پر قائم رہنے کی توفیق مانگتا تھا۔ اس کی یہ دینداری یقینا ذوالقرنین کے اثرات کا نتیجہ تھی۔
Top