Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور مدد چاہوصبر اور نماز سے، اور بیشک یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں
وَاسْتَعِیْنُوْابِاالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ۔ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۔ ( اور مدد چاہوصبر اور نماز سے، اور بیشک یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں۔ جو گمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ) (البقرۃ : 645 تا 46) عہد الٰہی کی پابندی کے لیے صبر اور نماز سے استعانت بنی اسرائیل سے فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم عہد الٰہی کو ازسر نو استوار کرنا چاہتے ہو اور تمہارے لیے اس عہد الہٰی کی پابندی دشوار ہورہی ہے اور تمہارے سرکش قلوب احکام الٰہی کی پابندیوں کو اپنے لیے دشوار محسوس کررہے ہیں تو ہم تمہارے لیے ایک نسخہ تجویز کیے دے رہے ہیں جس پر عمل کرنے سے تمہارے لیے عہد الٰہی کی پابندیوں پر چلنا آسان ہوجائے گا۔ اس نسخہ کے دو اجزا ہیں ” صبر اور نماز “۔ اگر تم نماز پڑھنا شروع کردو اور صبرکو زندگی کا معمول بنالوتو تمہارے لیے اللہ کے احکام پر چلنا کوئی مشکل نہیں رہے گا۔ نماز اللہ کے ساتھ عہد وفا کو استوار کرتی اور دن میں پانچ دفعہ اس عہد کی تجدید کرتی ہے۔ اگر آدمی شعور کے ساتھ نماز کو اختیار کرے تو زندگی میں کوئی کجی باقی نہیں رہتی۔ موذن جب نماز کے لیے پکارتا ہے تو سب سے پہلے اللہ کی کبریائی کا حوالہ دیتا ہے اور نمازی جب نماز کا آغاز کرتا ہے تو اس کا آغاز بھی اللہ اکبر سے ہوتا ہے تو وہ ہاتھ اٹھا کر اس کی عظمت کو سلام کرتا ہے اور ہاتھ باندھ کر اس ذات کبریا کے سامنے اپنی بندگی اور غلامی کا اقرار کرتا ہے پھر اس کے بعد اس غلامی کے جتنے طریقے ممکن ہیں وہ تمام کو بجالاتا ہے کبھی اس کے حضور غلاموں کی طرح کھڑا ہوتا ہے کبھی جھکتا ہے، کبھی غلاموں کی طرح بیٹھتا ہے اور بالآخر سجدہ ریز ہوجاتا ہے اور زبان پر اسی ذات کبریاجس کو وہ اپنا آقا مان چکا ہے کی تسبیح وتہلیل کے ترانے مچلتے ہیں اور دل اس کے تصور، اس کی محبت اور اس کی خشیت سے سرشا رہے۔ یہ عمل آدمی سے پانچ دفعہ کرایا جاتا ہے اور بنی اسرائیل سے بھی یقینا ایسا ہی عمل باربار کروایا جاتا تھا۔ جو آدمی اللہ کی آقائی اور اس کی حکمرانی اور اپنی غلامی اور محکومی کو باربار اس طرح دہراتا اور شعور سے دہراتا ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرسکتا ہے یا وہ کسی اور کے سامنے سر جھکاسکتا ہے یا کسی کے سامنے دست سوال دراز کرسکتا ہے۔ یہ کمزوریاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب نماز کی حقیقت زندگیوں سے نکل جاتی ہے۔ بنی اسرائیل نے نماز سے رشتہ توڑا تو اللہ سے رشتہ ٹوٹ گیا اب کہاں کے حقوق و فرائض کہاں کی انسانیت اور کہاں زندگی کی وہ طہارت جو فکری پاکیزگی اور اخلاقی بالیدگی کی ضمانت ہوتی ہے۔ البتہ بعض دفعہ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ انفرادی یا اجتماعی زندگی میں مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے اور مشکلات اگر واقعی سنگین ہوں اور آدمی کی ہمت کے لیے چیلنج بن جائیں تو بعض دفعہ اس کے سامنے کمزوری کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اس نسخہء شفا کے دوسرے جز کے طور پر اس کا علاج صبر کے نام سے تجویز فرمایا۔ صبر کا لغوی معنی تو ” روکنا اور باندھنا “ ہے۔ لیکن اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشاتِ نفس کا وہ انضباط ہے، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب وضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلاجائے یہاں یہی بات فرمائی جارہی ہے کہ تم اپنے اندر مشکلات اور موانع پر قابو پانے کے لیے وہ اخلاقی صفت پیدا کروجو نماز سے تمہارے اندر پیدا کرنا مقصود ہے۔ اگر تم پر خواہشات کا غلبہ ہو یا وقت کی قوتیں تمہیں جھکانا چاہیں یا نفسانی ترغیبات تمہیں زیر کرنا چاہیں تو ان پر قابو پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے ارادے کو مضبوطی سے باندھو اور اپنی قوت کو مجتمع کرو اور یہ فیصلہ کرلو کہ میں ٹوٹ سکتا ہوں، لیکن جھک نہیں سکتا۔ میں پیٹ پر پتھر باندھ سکتا ہوں، لیکن حرام لقمہ پیٹ میں نہیں ڈال سکتا۔ میں سر کٹواسکتا ہوں، لیکن غیر اللہ کے سامنے جھکا نہیں سکتا۔ اس ارادے کی توانائی کے لیے نماز کے ذریعے اللہ سے مدد مانگو۔ وہی دلوں کو قوت دینے والا اور وہی دلوں کو پاکیزگی عطا کرنے والا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کا یہی معمول تھا۔ کوئی مشکل پیش آتی تو فوراْ نماز کی طرف متوجہ ہوتے کوئی دشمن ان کو چیلنج کرتا تو اس کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرتے لیکن مدد اللہ سے مانگتے۔ کوئی صدمہ پیش آتاتو فوراً زبان پر اناللہ واناالیہ راجعون اور حسبنا اللہ وغیرہ کلمات جاری ہوجاتے۔ اس میں اپنے عزم بالجزم کا اظہار بھی ہے اور اللہ سے مدد کی طلب بھی ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے مجموعہ مضامین میں علی گڑھ یونیورسٹی کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ یونیورسٹی کے ایک نہایت ہونہار اور نیک نام طالب علم کا انتقال ہوگیا۔ سب کو نہایت صدمہ پہنچا ان کے گھر اطلاع کی گئی والد آئے، تکفین و تدفین کے بعد جب روانگی کا وقت آیا تو باپ نے اپنے ہاتھ سے بیٹے کا سامان باندھا خود سامان اٹھایا لڑکے کے ساتھ ٹرین میں انھیں چھوڑنے کے لیے گئے انھوں نے واپس آکر بتایا کہ ٹرین کے سفر میں مرحوم لڑکے کے والد اپنے بیٹے کے بستر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور اللہ کا ذکر کرتے رہے۔ لیکن جب طبیعت بےقابو ہونے لگتی تو نماز کے لیے نیت باندھ کر کھڑے ہوجاتے پھر بستر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے لیکن غم کی شدت جب حد سے بڑھنے لگتی تو پھر نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے اس طرح سے انھوں نے پورا سفر طے کیا جو نماز اور صبر سے مدد طلب کرنے کی بہترین مثال ہے۔ اہلِ کتاب کو یہی طریقہ سکھایا گیا کہ تم اس طریقے سے عہد الٰہی کے ٹوٹے ہوئے رشتے کو دوبارہ استوار کرسکتے ہو۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ یہ آسان نہیں مشکل ہے۔ صرف ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو خشوع کرنے والے ہیں۔ اس میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ انھا کی ضمیر کا مرجع کیا ہے۔ بعض اہل علم کی رائے ہے کہ اس کا مرجع صلوٰۃ ہے یعنی نماز آسان نہیں مشکل ہے۔ لیکن بعض دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ اس کا مرجع نماز اور صبر سے استعانت ہے۔ یعنی اپنی زندگی میں تبدیلی لانے اور عہد الٰہی سے استواری پیدا کرنے کے لیے تمہیں نماز اور صبر سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ لیکن یہ آسان نہیں، ایک مشکل پر اسس (Process) ہے۔ لیکن ان لوگوں کے لیے آسان ہے، جن کے اندر خشوع پایا جاتا ہے۔ خشوع اصل میں اس قلبی سکون اور انکساری کو کہتے ہیں جو اللہ کی عظمت اور اس کے سامنے اپنی حقارت کے علم سے پید اہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں دل بھی جھک جاتا ہے اور اعضاء وجوارح بھی اپنی سرکشی چھوڑ دیتے ہیں۔ جب تک کسی شخص میں یہ کیفیت پید انھیں ہوتی وہ نہ نماز کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے اور نہ نماز اور صبر سے مدد لے سکتا ہے۔ پروردگار نے دوسری آیت کریمہ میں خاشعین کی قلبی کیفیت کو خودایسی تعبیر دے دی ہے، جس سے خاشعین کی تعریف متعین کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے کہ خاشعین وہ لوگ ہیں جو یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ ایک نہ ایک دن اللہ کے سامنے جواب دہی کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ انھیں بہرصورت اپنے رب سے ملنا ہے اور ان کی زندگی کی آخری منزل مکمل فنا نہیں بلکہ اللہ کے حضور حاضری ہے۔ زندگی کا سفرنہ بےجہت ہے نہ منزل سے بےگانہ اس زندگی کی انتہا قیامت ہے اور قیامت کے بعد اللہ کے سامنے پیشی ہے اور پھر اس کا نتیجہ جز اور سزا کا ترتب ہے۔ ظن کا مفہوم لیکن یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آیت میں یظنون کا لفظ آیا ہے جس کا معنی ہے ” وہ گمان کرتے ہیں “۔ لیکن اہل لغت ہمیں بتاتے ہیں کہ ظن کا لفظ گمان کے لیے خاص نہیں بلکہ اس لفظ کی خوبی یہ ہے کہ یہ اندیشہ اور گمان غالب سے لے کر یقین اور قطعیت کے ہر درجہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ آدمی کے دل کی کیفیت ایسی ہے کہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کے لیے پہلے ہی مرحلہ میں یقین سے ہمکنار نہیں ہوجاتا بلکہ شروع میں وہ گمان کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور پھر یہ گمان بڑھتے بڑھتے یقین تک پہنچتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس نے ایک ایسا لفظ استعمال کیا ہے جو قلب کی تمام کیفیتوں پر حاوی ہے۔
Top