Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا
: اور جب ہم نے کہا
ادْخُلُوْا
: تم داخل ہو
هٰذِهِ
: اس
الْقَرْيَةَ
: بستی
فَكُلُوْا
: پھر کھاؤ
مِنْهَا
: اس سے
حَيْثُ شِئْتُمْ
: جہاں سے تم چاہو
رَغَدًا
: با فراغت
وَادْخُلُوْا
: اور تم داخل ہو
الْبَابَ
: دروازہ
سُجَّدًا
: سجدہ کرتے ہوئے
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
حِطَّةٌ
: بخش دے
نَغْفِرْ
: ہم بخش دیں گے
لَكُمْ
: تمہیں
خَطَايَاكُمْ
: تمہاری خطائیں
وَسَنَزِيْدُ
: اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے
الْمُحْسِنِیْنَ
: نیکی کرنے والوں کو
اور یاد کرو ! جب ہم نے کہا کہ داخل ہوجائو اس بستی میں، پس کھائو اس سے جہاں سے چاہوفراغت کے ساتھ، اور داخل ہو بستی کے دروازے میں سر جھکائے ہوئے اور کہتے جائو حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ ہم تمہاری خطائوں سے درگزر کریں گے اور خوب کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے
وَاِذ قُلْنَا ادْخُلُوْا ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْط وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَالَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔ (البقرۃ : 58 تا 59) (اور یاد کرو ! جب ہم نے کہا کہ داخل ہوجاؤ اس بستی میں، پس کھائو اس سے جہاں سے چاہو، فراغت کے ساتھ اور داخل ہو بستی کے دروازے میں سر جھکائے ہوئے اور کہتے جاؤ حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ ہم تمہاری خطائوں سے درگزر کریں گے اور خوب کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔ تو ظالموں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی دوسری بات سے۔ پس ہم نے اتارا ان لوگوں پر جنھوں نے ظلم کیا تھا آسمان سے عذاب، یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی جو وہ کررہے تھے) گزشتہ آیت کریمہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی اور معجزانہ طریقے سے ان کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ جب اپنی غذائی ضرورت کو پورا کرنے اور لذت کام ودہن کے لیے ان نعمتوں سے استفادہ کرو تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا اور اس کے احکام کی بجاآوری کو کبھی نہ بھولنا کیونکہ صحرائی زندگی میں تمہیں کسی سزا دینے کے لیے نہیں لایا گیا اور نہ یہ نعمتیں عیش و عشرت کے لیے دی جارہی ہیں، یقینا اس قومی انقلاب کے پیچھے ایک روحانی اور بامقصد انقلاب ہے جس کے لیے تمہیں تیار کیا جارہا ہے۔ اس لیے وہ مقصدی زندگی ہمیشہ تمہارے پیش نظر رہنی چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بتادیا کہ بنی اسرائیل نے آئندہ حالات میں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کیا اور اللہ کے احکام کی اطاعت اور بجاآوری کی بجائے انکار اور معصیت کو اپنا طرز عمل بنالیا۔ چناچہ یہ آیت کریمہ ان کے اسی طرز عمل کی وضاحت کررہی ہے۔ اس میں ایک تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے جس میں بنی اسرائیل اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہوئے اور پھر اسی سلسلے میں ان پر اللہ کا عذاب بھی آیا۔ اس واقعہ کی تفصیلات تو ذکر نہیں فرمائی گئیں کہ یہ واقعہ کہاں اور کیسے پیش آیا لیکن بین السطور سے یہ بات ضرور جھلکتی ہے کہ وہ یقینا کوئی شہر ہوگا جسے بنی اسرائیل فتح کرچکے تھے اور یا اس کی فتح یقینی ہوگئی تھی۔ اب صرف بنی اسرائیل کو اس میں داخل ہونے اور قابض ہونے کے آداب سکھائے جارہے تھے۔ الْقَرْیَۃَ کا مفہوم اور اس کا مصداق اس شہر کے لیے اس آیت میں الْقَرْیَۃَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قَرْیَۃَ کا معنی ” جمع ہونے کی جگہ “ کے ہیں۔ جمع ہونے کی جگہ چھوٹی بھی ہوسکتی ہے اور بڑی بھی اس لیے اس لفظ کا اطلاق چھوٹی بستی پر بھی ہوتا ہے اور بڑے شہر پر بھی۔ اسلوبِ کلام بتارہا ہے کہ وہ یقینا کوئی بڑا شہر تھا ورنہ تاریخی اعتبار سے وہ قابل ذکر نہ ہوتا۔ اب رہی یہ بات کہ وہ شہر کون سا تھا یہ بات ابھی تک تحقیق نہیں ہوسکی محض اندازے ہیں جن میں سے کوئی اندازہ بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ البتہ قرائن سے بعض باتیں گمان کی جاسکتی ہیں۔ جس سلسلہ واقعات میں یہ واقعہ ذکر ہورہا ہے، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ یہ شہرجزیرہ نمائے سینا کا ہی کوئی شہر ہوگا۔ لیکن قرآن کریم چونکہ تاریخی ترتیب سے زیادہ عبرت و نصیحت کے پہلو کو اہمیت دیتا ہے اور پھر فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا کا جملہ اس پر قرینہ ہے کہ یہ شہر ارض فلسطین کا کوئی شہر ہوگا۔ کیونکہ فلسطین ہی ایک ایسا علاقہ ہے جو اپنی سرسبزی اور شادابی میں ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے اور جس میں ہر طرح کی نعمتوں کی بہتات ہے۔ اس لیے اہل علم نے گمان کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد ” اریحا یا یریحو “ ہو۔ حضرت ابن عباس اور ابن زید کی یہی رائے ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی شہر ہے جو سب سے پہلے بنی اسرائیل کے قبضے میں آیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ” شطیم “ ہو، جو یریحو کے بالمقابل دریائے اردن کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ شہر کوئی بھی ہو مقصود شہر کا تذکرہ نہیں بلکہ اس بات کو واضح کرنا ہے کہ کسی شہر کا فتح ہوجانا اور وہ بھی بنی اسرائیل جیسی منفعل قوم کے ہاتھوں اللہ کا ایک بڑا احسان ہے۔ اسی احسان کے شکر کی ادائیگی کے لیے انھیں یہ حکم دیا گیا کہ اب جب تم شہر میں داخل ہو تو تمہارے رویے سے یہ نہیں معلوم ہونا چاہے کہ تم ایک ایسی فاتح قوم ہو جسے اپنی طاقت اور قوت پہ ناز ہے اور جو اپنے آپ کو فرعونِ بےسامان سمجھتے ہیں بلکہ تم شہر میں اس طرح داخل ہو کہ شہر کی فصیل کے دروازے سے جب تم گزرنے لگو تو تمہارے سر اللہ کے حضور عاجزی اور بندگی کے تصور سے جھکے ہوئے ہوں۔ سجداً کا مفہوم سجدہ کے اصل معنی ” سر جھکانے “ کے ہیں۔ اس کی کامل شکل زمین پر سر رکھ دینا ہے۔ لیکن محض جھک جانے کو جس طرح ہم رکوع کہتے ہیں سجدہ بھی کہتے ہیں۔ اس لیے قرین قیاس یہ ہے کہ یہاں صرف عاجزی کے اظہار کے لیے سر جھکانا مراد ہے۔ لیکن اس کی تکمیل اس وقت ہوگی جب یہ لوگ قصر اقتدار میں پہنچ کر لوگوں سے خطاب کریں گے۔ اس وقت انھیں لوگوں کے سامنے آنے سے پہلے اور ان کیساتھ معاملہ کرنے سے قبل اللہ کے حضور نماز ادا کرنی چاہیے۔ تاکہ اس حکم پر پوری طرح عمل ہوجائے۔ آنحضرت ﷺ کا فتح مکہ کے موقع پر جو عمل اور رویہ تاریخ نے ریکارڈ رکھا ہے اس سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ اور صحابہ کی پوری فوج اسی طرز عمل کا نمونہ تھی۔ محدثین اور مورخین کا اس بات پرا تفاق ہے کہ حضور جب مکہ میں داخل ہورہے تھے تو آپ کا سر مبارک عاجزی سے اس حد تک جھکا ہوا تھا کہ باربار کجاوے کی اگلی لکڑی سے ٹکرا جاتا تھا اور زبان پر اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی کبریائی کے الفاظ جاری تھے۔ جب آپ کو بتایا گیا کہ حضرت سعد بن عبادہ ( رض) نے جھنڈے کو حرکت دیتے ہوئے ابوسفیان کو سنا کر یہ بات کہی ہے کہ آج کعبہ حلال ہوگا۔ مطلب یہ تھا کہ سرزمینِ حرم میں آج لڑائی ہوگی خون بہے گا اور قریش کو اپنے ظلم اور زیادتی کا خمیازہ بھگتنا ہوگا، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا : ” ہرگز نہیں ! آج کعبۃ اللہ کی حرمت کا دن ہے اور ساتھ ہی حکم دیا کہ سعد سے علم لے کر ان کے بیٹے کو دے دیاجائے “۔ اسی طرزعمل کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا۔ سر جھکاکر داخل ہونے سے جسمانی طور پر اللہ کے شکر کی بجاآوری ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ نے اسے تکمیلی شکل دینے کے لیے زبان کو بھی اس سے ہم آہنگ کردیا اور یہ حکم دیا کہ تم شہر میں داخل ہوتے ہوئے حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ کہتے جانا۔ حِطَّۃٌ کی تحقیق حِطَّۃٌ خبر ہے اور اس کا مبتدا محذوف ہے۔ زمحشری نے لکھا ہے کہ اصل عبارت مَسْئَلَتُنَا حِطَّۃٌ ہے۔ حِطَّۃٌ اصل میں عبرانی کا لفظ ہے، وہیں سے عربی میں آیا۔ عربی میں اس کا معنی ” جھاڑ دینا “ ہے یعنی گناہوں پر جھاڑ دینا۔ عربی اور عبرانی دونوں قریب الماخذ ہیں اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ عبرانی میں بھی اس کا یہی معنی ہوگا۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا کہ تم یہ جملہ زبان سے ادا کرتے ہوئے شہر میں داخل ہونا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ ! آپ سے ہماری درخواست بخشش اور معافی ہے ہم آپ سے مغفرت چاہتے ہیں۔ ہم سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ہم اپنی غلطیوں سے توبہ کرتے ہیں آپ ہماری غلطیوں کو معاف فرمائیں۔ اس لیے توبہ اور استغفار کرتے ہوئے شہر میں داخل ہونادوسرا اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم شہر میں داخل ہونے کے بعد شہر کے باشندوں سے درگزر اور معافی کا سلوک کرنا نہ ان کی غلطیوں کی انھیں سزادینا اور نہ ان پر ظلم کرنا اور بہتر یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں ہی اس بات کا مصداق قراردی جائیں۔ آیت کے آخر میں مزید دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں کہ اگر تم شہر میں داخل ہوتے ہوئے عاجزی کی تصویر بن کے رہو اور تمہاری زبان پر توبہ اور استغفار کے کلمات ہوں اور تمہارا طرز عمل بھی انھیں باتوں کا عکاس ہو تو ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ شہر کو فتح کرنے اور پھر اس میں داخل ہونے اور اہل شہر کے ساتھ معاملہ کرنے میں چونکہ سخت انضباطِ نفس کی ضرورت ہے بہت ممکن ہے کہ تم سے غیر شعوری طور پر کو تاہیاں سرزد ہوں یا تمہاری جماعت کے بعض افراد اس اعلیٰ طرز عمل اور کردار کا ثبوت نہ دے سکیں تو ہم تمہاری ان لغزشوں کو معاف کردیں گے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ خوشخبری بھی دیتے ہیں کہ اگر تم نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کی پاکیزگی اور اللہ کے ساتھ تعلق میں مزید بہتری پیدا کرلی اور اپنی بساط کی حد تک بہتری لانے میں کوشاں رہے تو نہ صرف کہ تمہاری غلطیاں معاف کی جائیں گی بلکہ ہم اپنے فضل و کرم میں اضافہ بھی کریں گے۔ محسنین کے لفظ میں بھی دونوں باتوں کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ احسان کا معنی جس طرح دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کرنا ہے اسی طرح اس کا معنی اپنے طرز عمل کو زیادہ سے زیادہ مہذب، پاکیزہ اور خشیت الٰہی سے گراں بار بنانا بھی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگوں کے ساتھ احسانات کروگے اور اپنے آپ کو خشیت الہٰی کا آئنہ دار بنالوگے تو ہم اپنے فضل و کرم میں اس طرح اضافہ کریں گے کہ آج تم نے ایک شہر فتح کیا ہے اس کے بعد مزید فتوحات کا راستہ کھل جائے گا اور تم جب تک اپنے کردار کی خوبیوں اور رعنائیوں کو زندہ رکھو گے اس وقت تک تم اس زمین پر عزت اور سربلندی کے ساتھ زندہ رہو گے۔ فتح مکہ کے موقعہ پر آنحضرت ﷺ کا طرز عمل ان تمام باتوں کا آئنہ دار ہے۔ آپ اور آپ کے صحابہ استغفار اور ذکر اللہ بھی کرتے رہے اور ساتھ ہی عام معافی کا اعلان بھی کردیا اور جب آپ کے بدترین دشمن بےبس آپ کے سامنے کھڑے تھے تو آپ نے انھیں بجائے سزا دینے کے معاف فرما دیا۔ آپ کے اور صحابہ کرام کے اسی طرز عمل کا نتیجہ تھا کہ پورا جزیرہ عرب دوہی سالوں میں آپ کے سامنے سرنگوں ہوگیا۔ لیکن بنی اسرائیل نے اس حکم کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ دوسری آیت کریمہ میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ انھیں کہا گیا تھا کہ تم اللہ سے بخشش مانگتے ہوئے حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ کہتے ہوئے عاجزی سے شہر میں داخل ہونا۔ لیکن جو کچھ ان سے کہا گیا تھا انھوں نے یکسر اسے بدل ڈالا۔ یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ انھوں نے حِطَّۃٌ کو کس لفظ سے بدلا۔ مفسرین نے مختلف الفاظ نقل کیے ہیں۔ زیادہ ملتا جلتا لفظ حِنْطَۃٌہے۔ جس کا معنی ہے ” گندم “۔ وہ حِطَّۃٌ کی بجائے حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ کہتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے یعنی انھوں سے اس لفظ کو ایک ایسے لفظ سے بدلاجس سے اللہ کا حکم مذاق بن کر رہ گیا۔ اس لفظی تبدیلی نے یقینا ان کے طرز عمل میں بھی تبدیلی پیدا کی۔ وہ بجائے اس کے کہ شہر میں ایک ایسے فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے جو اللہ سے ڈرنے والے اور بندوں کے ساتھ عدل و احسان کا سلوک کرنے والے ہوتے۔ انھوں نے اپنی زبان اور عمل سے یہ ثابت کیا کہ ہم ایسے لوگ ہیں جن پر صرف شکم کی حکومت ہے۔ ہم تو اس شہر کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونا چاہتے ہیں۔ جب کوئی قوم بندہ شکم ہوجاتی ہے تو پھر اس کی غذائی ضرورتیں تمام حدود پامال کردیتی ہیں۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی خواہشیں ظلم کا راستہ کھولتی ہیں۔ پھر نہ صرف کہ لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے بلکہ عفتوں کے فانوس بھی بجھتے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل نے بھی اہل شہر پر صرف ظلم کے پہاڑ ہی نہیں توڑے بلکہ بائبل کی کی روایت کے مطابق وہاں بڑی بدکاریاں کیں اور موآبی عورتوں کی دل کھول کر عزتیں لوٹیں۔ عیش و عشرت میں اس حد تک اندھے ہوئے کہ اہل شہر کی دعوت پر ان کی مشرکانہ قربانیوں میں بھی شریک ہونے لگے۔ اس پر اللہ نے ان پر ایک سخت وبا بھیجی جس میں ان کے 24, 000 نفوس ہلاک ہوگئے۔ یہی وہ عذاب ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آسمان سے ان پر عذاب نازل کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عذاب کی نوعیت عام حوادث سے بالکل مختلف نوعیت کی تھی۔ طاعون اللہ کا ایسا ہی عذاب ہے، جو اچانک پھوٹتا ہے اور پھر پھیلتاچلا جاتا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک اور احسانِ عظیم کا ذکر فرمایا ارشاد ہوتا ہے :
Top