Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 10
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیقی ہم نے نازل کی اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف كِتٰبًا : ایک کتاب فِيْهِ : اس میں ذِكْرُكُمْ : تمہارا ذکر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
اور ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہارا ذکر ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟
لَقَدْ اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ کِـتٰـبًا فِیْہِ ذِکْرُ کُمْ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ۔ (الانبیاء : 10) (اور ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں تمہارا ذکر ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟ ) ذکر کا ایک معنی ہے یاد دہانی۔ اور دوسرا ہے یاد، تذکرہ اور سرگزشت۔ آیت کے مختلف مفاہیم پہلے معنی کے اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے پہلی امتوں کی طرف رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں تاکہ ان پر حجت تمام ہوجائے اور وہ قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس تو کوئی انذار اور تبشیر کرنے والا نہیں آیا تھا ورنہ ہم دوسروں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور صالح ہوتے۔ اس بیخبر ی میں ہمیں آخر کیسے پکڑا جاسکتا ہے لیکن رسول کے آجانے اور کتاب کے نازل ہوجانے کے بعد وہ یہ عذر پیش کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے جواب طلبی کرے گا اور اپنے جواب کے مطابق وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ اسی طرح اے اہل عرب ہم نے تمہاری طرف یاد دہانی کے لیے بھی اپنا آخری رسول بھیجا اور آخری کتاب اتاری۔ اب تمہارے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو پہلی امتوں کے ساتھ رسول کی دعوت اور کتاب کی ہدایت کے حوالے سے ہوتا رہا ہے۔ جن امتوں نے اسے قبول کیا وہ سرفراز ہوئیں اور جنھوں نے انکار کیا وہ اس کی پاداش میں عذاب کا شکار ہوئیں۔ اے اہل عرب ! آج تمہارے سامنے بھی ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے کہ تم اس دعوت کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو۔ اگر تم نے خدانخواستہ اسے رد کردیا اور اپنی مخالفت کا رویہ نہ بدلا تو تمہیں اس لیے معاف نہیں کردیا جائے گا کہ تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد اور بیت اللہ کے متولی ہو اور حرم کے رہنے والے یا بیت اللہ کا حج کرنے والے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہاں قانون کی عملداری میں دو عملی نہیں۔ وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت کسی کے لیے نہیں بدلتی۔ اس کے قانون میں کسی کے لیے کوئی ڈھیل نہیں۔ اس لیے تمہیں اس آئینہ میں اپنی شکل پہچان کر اپنے انجام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ چناچہ اس سخت تہدید و وعید کے بعد فرمایا گیا ہے کہ کیا تم اس سیدھے اور صاف معاملے پر غور نہیں کرتے کہ تم کس راستے پر چل پڑے ہو اور کس خطرناک انجام کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہو۔ دوسرے معنی کے اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اہل مکہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر کو کبھی شاعر کہتے ہو اور کبھی کاہن ٹھہراتے ہو اور جس کتاب کو وہ تمہارے پاس لے کے آیا ہے اسے کبھی شاعری، کبھی ساحری اور کبھی پراگندہ خواب سے تعبیر کرتے ہو۔ تم نے اس کتاب میں آخر ایسی کون سی عجیب بات دیکھی ہے جو تمہاری سمجھ میں آنے والی نہیں ؟ اگر تم اسے غور سے پڑھو تو دیکھو گے کہ اس میں جو عقائد بیان کیے گئے ہیں وہ تمہاری کامیابی کی اساس ہیں، جو ضابطہ حیات دیا گیا ہے وہ تمہاری کامیاب زندگی کی ضمانت ہے۔ اس میں انسان کی فطرت اور ساخت اور اس کے آغاز و انجام پر جو گفتگو ہوئی ہے ظاہر ہے وہ تمہاری ہی کہانی ہے اور تم جو کچھ اس دعوت کے حوالے سے کررہے ہو تمہیں ان غلطیوں پر متنبہ کیا گیا ہے اور سابقہ امتوں کے احوال سے استشہاد کرتے ہوئے تمہیں تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر تمہارے سامنے اچھے اور برے انسانوں کے اخلاق و اوصاف کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے تاکہ تم فضائلِ اخلاق سے اپنے آپ کو مزین کرو اور قبائح سے اجتناب کرو۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تمہارے لیے کامیابی کا راستہ کیا ہے اور ناکامی کس راستے کا انجام ہے۔ ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جو تم سے تعلق نہ رکھتی ہو اور جسے اجنبی اور بیگانہ سمجھ کر تم اس سے وحشت اختیار کرو۔ فرق صرف یہ ہے کہ تم ان باتوں پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے ہو۔ تیری ہر ادا میں بل ہے، تیری ہر نگہ میں الجھن میری آرزو میں لیکن کوئی پیچ ہے نہ خم ہے متذکرہ بالا دونوں مفاہیم اس حوالے سے بیان کیے گئے ہیں کہ خطاب قریش یا اہل عرب سے ہے۔ لیکن ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ خطاب مسلمانوں سے ہو۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب اتاری ہے جس میں اے مسلمانو ! تمہاری اپنی سرگزشت ہے۔ تمہارے لیے زندگی کے مختلف نمونوں کو زیر بحث لایا گیا ہے اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں کون سا وہ نمونہ ہے جو تمہارے لیے تجویز کیا گیا ہے اور گزشتہ امتوں کی تاریخ سے ان باتوں کو بیان کیا گیا ہے جن سے تمہیں بچنا ہے اور گزشتہ انبیائے کرام کے واقعات کو بیان کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ہیں وہ لوگ جن کے نقوش قدم تمہارے انتظار میں ہیں کیونکہ اب قیامت تک اس روشنی کے تم امین بنائے گئے ہو تاکہ تم غور و فکر سے اس کتاب کے آئینہ میں اپنی شکل پہچاننے اور اس کے حسن و قبح کو دیکھنے کی کوشش کرو۔ حضرت احنف بن قیس ایک مشہور تابعی گزرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اتنے بڑے قبیلے کے سردار اور اس قدر ہر دلعزیز تھے کہ اگر انھیں غصہ آجاتا تو کئی ہزار تلواریں بےنیام ہوجاتیں۔ ایک دفعہ ان کے سامنے یہ آیت کریمہ پڑھی گئی۔ سن کے کہنے لگے کہ ذرا قرآن کریم تو لائو، میں بھی دیکھوں کہ اس میں میرا ذکر کہاں ہے ؟ اس میں اگر ہم سب کی سرگزشت بیان کی گئی ہے اور سب کا ذکر کیا گیا ہے تو یقینا اس میں میرا بھی ذکر ہوگا۔ انھوں نے سب سے پہلے شخصیات کے حوالے سے عبادوزہاد کو دیکھا، ان کے احوال کو پڑھا، انبیاء کے حالات دیکھے، تاریخ کے مختلف ادوار میں اللہ تعالیٰ کے جن مقرب بندوں نے راہ حق میں قربانیاں دی ہیں ان کو پڑھا۔ اس کے شکرگزار بندوں اور صبر کرنے والوں کے حالات دیکھے تو پکار اٹھے کہ یا اللہ مجھ پر تیرا بےحد کرم ہے لیکن میں ایسا خوش نصیب نہیں کہ میں اپنے آپ کو ان عظیم لوگوں میں شمار کرسکوں۔ پھر انھوں نے ان لوگوں کے حالات پڑھنے شروع کیے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنے یا جن کے بارے میں پروردگار نے ناخوشی کا اظہار فرمایا۔ ان میں فراعنہ اور نماردہ بھی ہیں، ہامان اور قارون بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے قاتل اور اپنی ذات کی سربلندی کے لیے جان دینے والے بھی ہیں۔ ان میں فساق و فجار کے گروہ بھی ہیں اور منافقین کے ٹولے بھی۔ ایک ایک کو پڑھتے گئے آخر چیخ اٹھے کہ پروردگار میں ایسا گیا گزرا بھی نہیں کہ ان میں اپنے آپ کو شامل کرلوں، تو آخر میں کہاں ہوں ؟ تیرا ارشاد تو یہ ہے کہ اس کتاب میں سب کا ذکر ہے۔ آخر جب وہ اس آیت پر پہنچے وَآخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّآخَرَسَیِّئًا… الخ ” اور کچھ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے ملے جلے اعمال کیے، کچھ نیک اور کچھ برے، انھیں اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ امید ہے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کی نظر فرمائے گا، بیشک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ “ پڑھتے ہی جھوم اٹھے کہ میں اپنے اللہ کے قربان جاؤں، اس نے مجھے بھلایا نہیں، یہ ہے میری تصویر، مجھے اپنے بارے میں نہ خوش فہمی ہے نہ غلط فہمی۔ اس کی توفیق سے بہت سی نیکیاں کرنے کا بھی موقع ملا ہے اور بہت سی کو تاہیاں بھی ہوئی ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ میری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے گا۔ احنف اپنے رب کے پاس چلے گئے لیکن اس آیت کے فہم کا ایک راستہ کھول گئے۔ اقبال نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا : محمد بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرف شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا
Top