Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 100
لَهُمْ فِیْهَا زَفِیْرٌ وَّ هُمْ فِیْهَا لَا یَسْمَعُوْنَ
لَهُمْ : ان کے لیے فِيْهَا : وہاں زَفِيْرٌ : چیخ و پکار وَّهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يَسْمَعُوْنَ : (کچھ) نہ سن سکیں گے
ان کے لیے اس میں (شدت عذاب سے) چلانا ہوگا اور وہ اس میں اور کچھ نہ سن سکیں گے۔
لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّ ھُمْ فِیْھَا لاَ یَسْمَعُوْنَ ۔ (الانبیاء : 100) (ان کے لیے اس میں (شدت عذاب سے) چلانا ہوگا اور وہ اس میں اور کچھ نہ سن سکیں گے۔ ) زَفِیْرٌکا معنی شدت عذاب سے چیخنا اور چلانا ہے اور یا زَفِیْرٌاس پھنکار کو کہتے ہیں جو سخت گرمی اور محنت اور تکان کے باعث آدمی کے منہ سے لمبے سانس کی صورت میں نکلتا ہے۔ کفار کی چیخ و پکار جو لوگ اپنے شرک کے باعث جہنم میں پھینکے جائیں گے، جہنم کے عذاب کی شدت کے باعث ان کے منہ سے چیخیں نکلیں گی، وہ انتہائی تکلیف میں چلائیں گے اور مدد کے لیے پکاریں گے اور ان پر تکلیف کی شدت کا اس حد تک غلبہ ہوگا کہ ایک دوسرے کی چیخ و پکار بھی انھیں سنائی نہیں دے گی۔ آدمی کے لیے جب کوئی تکلیف ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے تو وہ عموماً تکلیف کے احساس کے علاوہ باقی ہر طرح کے احساس سے محروم ہوجاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ پہلے جملے میں ” ہم “ ضمیر کا مرجع بتوں کے پجاری ہیں اور دوسرے جملے میں ان کے اصنام و احجار۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ مشرکین انتہائی تکلیف میں اپنے نام نہاد معبودوں کو پکاریں گے اور وہ جہنم میں ان کے ساتھ ہی ہوں گے۔ لیکن ان ٹھس پتھروں کو کچھ خبر نہیں ہوگی کہ جو زندگی بھر ہماری پوجا کرتے رہے ہیں، آج وہ ہمیں اپنی مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ اس میں ممکن ہے ذہن میں انتشارِ ضمیر کا خلجان پیدا ہو، لیکن یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انتشارِ ضمیر اس صورت میں کلام کا عیب ہے جب مرجع میں التباس کا اندیشہ ہو۔ لیکن اگر یہ اندیشہ نہ ہو بلکہ مرجع کے تعین کے لیے واضح قرینہ موجود ہو تو پھر انتشارِضمیر بجائے عیب ہونے کے ایجاز کے پہلو سے کلام کا حسن بن جاتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہے۔
Top