Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 29
وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْهُمْ اِنِّیْۤ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهٖ فَذٰلِكَ نَجْزِیْهِ جَهَنَّمَ١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّقُلْ : کہے مِنْهُمْ : ان میں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اِلٰهٌ : معبود مِّنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا فَذٰلِكَ : پس وہ شخص نَجْزِيْهِ : ہم اسے سزا دیں گے جَهَنَّمَ : جہنم كَذٰلِكَ : اسی طرح نَجْزِي : ہم سزا دیتے ہیں الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور جو ان میں سے یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میں اِلٰہ ہوں تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔
وَمَنْ یَّقُلْ مِنْھُمْ اِنِّیْٓ اِلٰـہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزِیْہٖ جَھَنَّمَ ط کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الانبیاء : 29) (اور جو ان میں سے یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میں اِلٰہ ہوں تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔ ) شرک اللہ تعالیٰ کے مقام سے جہالت کا نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور اپنے نام نہاد معبودوں کو ہر حالت میں اپنا شفیع سمجھنا یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات کے حقیقی مقام و مرتبہ سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ اور یہ جہالت دو طرح کی ہے۔ ایک جہالت تو وہ ہے جس کو علمی جہالت کہنا چاہیے یعنی اس عقیدے کا حامل سرے سے اللہ تعالیٰ کے مقام و مرتبہ سے ناواقف اور اس بارے میں انتہا درجہ جہالت کا مریض ہے۔ اور دوسری جہالت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقام و مرتبہ کو جاننے کے باوجود عملی استخفاف کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے مثلاً جب ایک شخص سے پوچھا جائے کہ اس کائنات کا خالق، مالک، رب، مدبر اور حاکم مطلق کون ہے ؟ تو وہ فوراً جواب دے کہ اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے یا اس کے حقوق کے بارے میں اس کا طرز عمل دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو کہ وہ نام لیتے ہوئے بھی ہلکے پن کا اظہار کرتا ہے اور حقوق کی ادائیگی میں تساہل کا شکار ہی نہیں، انکار کی حد تک پہنچا ہوا ہے۔ اور اس کی شریعت کو اتنا وزن دینیکو بھی تیار نہیں جتنا ہماری زندگی میں وضعی قوانین کو حاصل ہے۔ تو یہ وہ استخفاف ہے جس کے نتیجے میں جانتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم ذات کے بارے میں ہم نے عجیب و غریب تصورات بنا لیے ہیں۔ چناچہ اس استخفاف کو ختم کرنے اور انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے پروردگار بعض دفعہ ایسی بات ارشاد فرماتا ہے جو دلوں کو ہلا دینے والی ہوتی ہے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ جن قوتوں کے بارے میں تم نے شفاعتِ باطل کا عقیدہ بنا رکھا ہے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ شاید اللہ تعالیٰ ان قوتوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، وہ جس طرح چاہیں اپنی بات اس سے منوا سکتے ہیں، تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ عظیم ذات ہے کہ اگر فرشتے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں اور انبیائے کرام جو اللہ تعالیٰ کے یہاں نہایت اعلیٰ مقام کے حامل ہیں اگر کہیں ان میں سے بھی کوئی خدا ہونے کا دعویٰ کردے (جو ظاہر ہے کہ بالکل ناممکن ہے) تو اللہ تعالیٰ ایسا دعویٰ کرنے والے کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو کافروں اور ظالموں کے ساتھ کرتا ہے۔ انھیں پکڑے گا اور جہنم میں پھینک دے گا کیونکہ انھوں نے بندگی کی بجائے خدائی کا دعویٰ کرکے اپنے ساتھ ظلم کیا۔ اور جو لوگ اس ظلم میں ان کے ساتھ شریک ہوئے ہیں وہ بھی اس ظلم کا شکار ہوئے۔ اس لیے ان کے اس جرم کی کم سے کم سزا یہی ہے کہ انھیں جہنم رسید کردیا جائے۔ اس سے تصور یہ دینا ہے کہ اس کی ذات کے بارے میں غلط تصور باندھنا یا اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا یا یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے بےبس ہے یہ ایسا جرم ہے کہ اگر ہمارے مقرب بندوں میں سے بھی کوئی اس جرم کا ارتکاب کرے تو ہم اسے بھی سخت سزا دیں گے۔ اس سے اندازہ کرلو کہ کل کو تمہارے ساتھ کیا بیتنے والی ہے۔
Top