Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 93
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
ان کے دل غفلت میں مدہوش ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے تو کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنس جائو گے۔
لاَھِیَۃً قُلُوْبُھُمْ ط وَاَسَرُّوا النَّجْوَیصلے ق الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا صلے ق ھَلْ ھٰذَآ اِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُکُم ج اَفَـتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ ۔ (الانبیاء : 3) (ان کے دل غفلت میں مدہوش ہیں اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے تو کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے۔ ) مشکل الفاظ کی تشریح لاَھِیَۃً قُلُوْبُھُمْ ” یہ دوسرا حال ہے۔ “ وَاَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا کے فقرہ میں اَسَرُّوا فعل ہے نَجْوَی مفعول ہے اور الَّذِیْنَ فاعل ہے۔ نَحْو کا قاعدہ یہ ہے کہ فاعل اگر اسم ظاہر ہو تو فعل واحد ہوتا ہے۔ اس قاعدے کے مطابق اَسَرَّالنَّجْوَیہونا چاہیے تھا۔ فاعل ظاہر ہونے کے باوجود فعل کو جمع کیوں لایا گیا۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اَسَرُّوا میں وائو ضمیر جمع نہیں بلکہ علامتِ جمع ہے تاکہ اَسَرُّوا کا لفظ سنتے ہی سننے والے کو پتہ چل جائے کہ اس کا ایک فاعل نہیں بلکہ متعدد ہیں۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ” وائو ضمیر جمع “ فاعل ہے اور الَّذِیْنَ فاعل نہیں بلکہ وائو کا بدل ہے۔ اور وائو مبدل منہ ہے۔ قریش کے اعراض کا سبب اس آیت کریمہ کے پہلے جملے میں سابقہ آیت میں ان کے مذکور رویئے کی وجہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم جیسی موثر اور باوقار کتاب اور آنحضرت ﷺ جیسے دلآویز شخصیت کی دعوت کا بھی اس لیے مذاق اڑاتے ہیں کہ ان کے دل غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جس طرح ایک مدہوش اور مخمور شخص کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، اسی طرح یہ بھی نہ صرف اپنی قبولیت کی صلاحیت کھو چکے ہیں بلکہ ان کے سردار اور سربرآوردہ لوگ جب تنہا ہوتے ہیں تو اپنی مجلس میں سرگوشی کے انداز میں اس دعوت کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ اور چونکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس دعوت کے اثرات آہستہ آہستہ لوگوں میں پھیل رہے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی دلآویز شخصیت لوگوں کے دلوں میں اتری جارہی ہے اور قرآن کریم کے الفاظ کی تاثیر ہزار کوششوں کے باوجود دلوں کے بند دروازوں کو کھول رہی ہے تو وہ آپس میں اس کا راستہ روکنے کے لیے نئی نئی تدبیریں سوچتے اور نئی نئی چالیں ایجاد کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں اس دعوت کے پھیلائو کو روکا جاسکے۔ چناچہ اس کے لیے انھوں نے جو سازشیں تیار کیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ انھوں نے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ تم اس شخص کی باتوں سے متأثر ہونا شروع ہوگئے ہو، ذرا یہ تو سوچو کہ یہ شخص اپنے آپ کو نبی کہتا ہے، تو کیا ہم جیسا کوئی شخص نبوت کے عظیم مقام پر فائز ہوسکتا ہے۔ اس میں اور ہم میں آخر ایسا بنیادی فرق کیا ہے۔ یہ بھی ہم جیسا ایک انسان ہے، ہماری طرح کھاتا ہے پیتا ہے، بازاروں میں کاروبار کرتا ہے، گھومتا پھرتا ہے، بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اس میں وہ نرالی بات کیا ہے جس کی وجہ سے ہم اس کو نبی تسلیم کرلیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس کی باتوں میں بلا کی تاثیر ہے، اس کی شخصیت میں ناقابلِ انکار معصومیت اور دلآویزی ہے جو دوسرے لوگوں میں اثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ جادو کا نتیجہ ہے جس نے اس کی شخصیت کو موثر بنادیا ہے اور اس کی باتوں میں اثر پیدا کردیا ہے کہ جو اس کے پاس جاتا ہے اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے بچائو کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم نہ اس کی بات سنیں اور نہ اس کے قریب جائیں تاکہ اس کا جادو ہم پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ آنحضرت ﷺ کی دعوت کی تاثیر کی مثالیں ہمارے سیرت نگاروں نے آنحضرت ﷺ کی شخصیت اور آپ ﷺ کی دعوت کے موثر ہونے کی چند مثالیں ذکر کی ہیں جنھیں قریش جادو کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ جسے ہمارے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ (ابوسفیان کے خسر ہند جگر خوار کے باپ) نے سردارانِ قریش سے کہا، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ﷺ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ یہ حضرت حمزہ ( رض) کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابرِ قریش سخت پریشان ہورہے تھے۔ لوگوں نے کہا ! ابوالولید ! تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو۔ وہ حضور ﷺ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ” بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزت حاصل تھی، تم خود جانتے ہو اور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو ؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بیوقوف ٹھہرایا۔ اس کے دین اور اس کے معبودوں کی برائی کی۔ باپ دادا جو مرچکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا۔ بھتیجے، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آئو ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ۔ سرداری چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار مانے لیتے ہیں۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں اور اگر تمہیں کوئی بیماری ہوگئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں۔ “ یہ باتیں وہ کرتا رہا اور نبی کریم ﷺ خاموش سنتے رہے۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپ نے فرمایا ” ابوالولید، جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں، یا اور کچھ کہنا ہے ؟ “ اس نے کہا بس مجھے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا اچھا اب میری سنو۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ ٰالرَّحِیْمِ ، حٰمٓ، تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اس کے بعد کچھ دیر تک مسلسل آپ سورة حم السجدہ کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپ نے سجدہ کیا اور پھر سر اٹھا کر عتبہ سے فرمایا، ” ابوالولید جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام۔ “ عتبہ یہاں سے اٹھ کر سردارانِ قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں نے دور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ” خدا کی قسم، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر وہ گیا تھا۔ “ اس کے پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا ” کہو ابوالولید کیا کر آئے ہو ؟ “ اس نے کہا ” خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے نہ سحر ہے اور نہ کہانت۔ اسے معشرقریش، میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو ۔ اس کی باتیں جو میں نے سنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آگئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہوگا، دوسرروں پر ہوگا۔ اور اگر یہ عرب پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی اور اس کی عزت تمہاری عزت۔ “ لوگوں نے کہا ” واللہ، ابوالولید تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ “ اس نے کہا ” یہ میری رائے ہے، اب تم جانو اور تمہارا کام۔ “ (ابن ہشام، جلد اول، ص 313۔ 314) بیہقی نے اس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور ﷺ سورة حم السجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر پہنچے کہ فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْدَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ تو عتبہ نے بےاختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلہ آراش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ آیا۔ ابوجہل نے اس کے اونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اراشی نے تنگ آکر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا کر پکڑا اور مجمعِ عام میں فریاد شروع کردی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے۔ سردارانِ قریش نے اس شخص سے کہا کہ ” ہم کچھ نہیں کرسکتے، دیکھو وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے۔ “ اراشی نبی کریم ﷺ کی طرف چلا گیا اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ” آج لطف آئے گا۔ “ اراشی نے جا کر حضور ﷺ سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپ ﷺ اسی وقت اٹھ کر کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابوجہل کے مکان کی طرف روانہ ہوگئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے۔ نبی کریم ﷺ سیدھے ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا ” کون ؟ “ آپ ﷺ نے جواب دیا ” محمد۔ “ ﷺ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا ” اس شخص کا حق ادا کردو۔ “ اس نے جواب میں کوئی چون و چرانہ نہ کی، اندر گیا اور اس کے اونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے جو کبھی نہ دیکھا تھا۔ ابوالحکم بن ہشام (ابوجہل) جب نکلا ہے تو محمد ﷺ کو دیکھتے ہی اس کا رنگ فق ہوگیا اور جب محمد ﷺ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ابوالحکم بن ہشام کے جسم میں جان نہیں ہے۔ (ابن ہشام، جلد 2، ص 29۔ 30) یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کردے گا۔ (تفہیم القرآن)
Top