Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور یاد کرو ایوب کو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
وَاَ یُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّـہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَابِـہٖ مِنْ ضُرِّ وَّاٰ تَیْنٰـہُ اَھْلَـہٗ وَمِثْلَھُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ ۔ (الانبیاء : 83، 84) (اور یاد کرو ایوب کو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ تو ہم نے ان کی فریاد قبول فرمائی اور ہم نے ان کی تکلیف دور کردی اور انھیں ان کے اہل و عیال بھی دیئے اور ان کے مانند ان کے ساتھ اور بھی، خاص اپنے فضل سے، اور عبادت گزاروں کی یاد دہانی کے لیے۔ ) صبر کے حوالے سے حضرت ایوب (علیہ السلام) کا اسوہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے، پھر جو لوگ ان آزمائشوں میں سرخرو ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں مختلف مدارج سے نوازتا ہے اور ان کی ذات اور ان کے کردار کو آنے والی دنیا کے لیے نمونہ بنا دیتا ہے۔ مزید یہ بات کہ اس کی آزمائش کے رنگ جدا جدا ہیں۔ کبھی وہ نعمتیں دے کر آزماتا ہے اور کبھی تکلیفوں میں مبتلا کرکے اور نعمتیں چھین کر آزماتا ہے۔ گزشتہ آیات میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دو شخصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکومت اور دولت دے کر آزمایا۔ وہ بجائے ناشکری کرنے اور عہدہ و منصب کے غرور میں مبتلا ہونے کے انھوں نے اللہ تعالیٰ کے شکر کا رویہ اختیار کیا۔ ایک طرف عادلانہ حکومت کی اور خلق خدا کے حقوق ادا کیے اور دوسری طرف تخت و تاج کو فقر و درویشی کی علامت بنادیا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی زمین کو اس کے باغیوں سے پاک کرنے کے لیے جہاد و غزا کے لیے اپنی ذاتوں اور اپنے وسائل کو جھونک دیا۔ پروردگار نے انھیں شکر کے پیکر اور درویش حکمران کے طور پر انسانوں کے لیے نمونہ ٹھہرایا اور قیامت تک آنے والی انسانیت کا سرمایہ بنادیا۔ پیشِ نظر آیات کریمہ میں ایک اور شخصیت کا ذکر کیا جارہا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے نعمتیں دے کر آزمایا اور پھر تکلیفوں میں مبتلا کر کے آزمایا۔ حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) شکر کے نمائندہ تھے۔ اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کو صبر کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ انسانی زندگی کے دو ہی اہم عنوان ہیں، صبر اور شکر۔ کبھی انسان ایک میں ٹھوکر کھاتا ہے اور کبھی دوسرے میں۔ اس لیے قرآن کریم نے انسانی اصلاح کے لیے ان دونوں پر بہت زور دیا ہے اور جابجا ایسی عظیم اور مقدس شخصیتوں کو ذکر فرمایا ہے جن کی زندگیاں ان دونوں کی تصویر تھیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی شخصیت، زمانہ، قومیت ہر چیز کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کا زمانہ نویں صدی قبل مسیح یا اس سے پہلے کا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے عیسو کی نسل سے تھے۔ حضرت وہب بن منبہ کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ سفرِایوب سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک عوض میں حضرت ایوب ایک نہایت کامل اور راست باز انسان تھے۔ اللہ نے انھیں بڑا خاندان اور بڑی دولت دے رکھی تھی۔ ان کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ اہلیہ محترمہ کا نام رحمت بتایا جاتا ہے جو حضرت یوسف کے فرزند ایفرائین کی لخت جگر تھیں۔ بڑی حسین و جمیل اور صحت مند تھیں۔ سات ہزار بھیڑیں، تین ہزار اونٹ، ایک ہزار بیل اور پانچ سو باربرداری کے گدھے ان کے پاس تھے۔ ان کے نوکر چاکر بھی بیشمار تھے۔ اہل مشرق میں اس درجہ کا مالدار کوئی اور نہ تھا۔ ان گوناگوں انعامات اور اس خدم و حشم کے باوجود آپ ( علیہ السلام) خدا کے نہایت شکرگزار اور فرمانبردار بندے تھے۔ ان کی نیکی پر شیطان اور اس کے ایجنٹوں کو حسد ہوا۔ انھوں نے طعنہ دیا جس طرح کہ سفرِایوب میں ذکر کیا گیا ہے کہ ( ایوب کی یہ خدا پرستی و راست بازی اس لیے ہوئی کہ خدا نے اسے ہر طرح کی خوشحالیاں دے رکھی ہیں، اگر یہ ان سے محروم ہوجائے تو پھر کبھی خدا کا شکرگزار نہ ہو) ۔ چناچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کھیتیاں جل کر راکھ ہوگئیں، مال مویشی میں ایسی وباء پھوٹی کہ ایک بھی زندہ نہ رہا۔ آپ ( علیہ السلام) کے سارے بیٹے اور بیٹیاں اپنے بڑے بھائی کے یہاں مدعو تھے کہ مکان گرا اور سب لقمہ اجل ہوگئے۔ آپ ( علیہ السلام) کے جسم میں آبلے نمودار ہوگئے، خارش کی وجہ سے انھیں کھجلایا تو انھوں نے ناسوروں کی شکل اختیار کرلی۔ ان میں چھوٹے چھوٹے کیڑے رینگنے لگے، جسم سے پیپ بہنے لگی، لیکن حضرت ایوب (علیہ السلام) ہرحال میں صبر کی تصویر بنے رہے، حرف شکایت تک زبان پر نہ آیا۔ ساری دولت و حشمت غائب ہوگئی لیکن سفرِ ایوب کی روایت کے مطابق آپ ( علیہ السلام) کا یہ حال رہا کہ : ” وہ سجدے میں گرپڑا اور کہا میں اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا اور برہنہ ہی دنیا سے جاؤں گا۔ خداوند نے مجھے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ اسی کے نام کے لیے ساری پاکیاں اور مبارکیاں ہوں۔ “ جب جسم سارا آبلوں اور ناسوروں سے بھر گیا اور جسم سے پیپ بہنے لگی، سب نیازمند اپنا سلسلہ نیازوعقیدت توڑ کر الگ ہوگئے، سب دوستوں نے نفرت سے آنکھیں پھیر لیں تب بھی آپ ( علیہ السلام) کے صبر اور شکر میں کوئی کمی نہ آئی۔ اس ناقابلِ برداشت تکلیف اور ناگفتہ بہ محرومی کی حالت میں بھی حرف شکایت تو زبان پر کیا آتا یا کسی اور کے سامنے دست سوال تو کیا پھیلاتے صرف اتنا کہا اور وہ بھی اپنے اللہ سے۔ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ” کہ مجھے سخت تکلیف نے چھویا ہے یعنی میں مبتلائے آزار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے۔ “ دعا کی بلاغت پر غور کیجیے کہ اپنے دکھ درد کا حوالہ تو دیا لیکن حرف مدعا زبان پر نہیں لائے، اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت پر چھوڑ دیا۔ جس طرح کوئی انتہائی خوددار آدمی جب کوئی چارہ کار نہیں دیکھتا اور پے در پے فاقے اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں تو وہ کسی کریم النفس ہستی کے سامنے صرف اتنی بات کہہ کے رک جاتا ہے کہ ” میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں۔ “ اس کے بعد اس کی خودداری اسے کچھ کہنے سے روک دیتی ہے۔ اس دعا میں بھی حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنے دکھ کا ذکر کیا، لیکن مداویٰ مانگنے کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حوالہ دے کر خاموش ہوگئے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو مقام رضا کہتے ہیں۔ جو شخص اس مقام کو حاصل کرلیتا ہے وہ نہ تو اللہ تعالیٰ کے آستانے سے بےنیاز ہوتا ہے اور نہ اپنی زبان کو بےقابو ہونے دیتا ہے کہ کہیں بےصبری کا اظہار نہ ہوجائے۔ بس وہ یہ سمجھتا ہے کہ ؎ جس نے دیا ہے درد وہی چارہ گر بھی ہے کہنی ہے چارہ گر سے ہی خود چارہ گر کی بات چناچہ اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھل گیا۔ سورة ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) سے فرمایا اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ، ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌوَّشَرَابٌ ” اپنا پائوں مارو، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے، نہانے کو اور پینے کو۔ “ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے زمین پر پائوں مارنے سے پانی کا چشمہ ابلنے لگا۔ آپ ( علیہ السلام) نے اس میں غسل کیا اور اس کا پانی پیا تو جسم کی ساری بیماریاں دھل گئیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی۔ تمام تکالیف بھی دور فرما دیں جن میں وہ مبتلا تھے اور ان کے اہل و عیال اور ان کے خدم و حشم بھی ازسرنو عطا فرمائے۔ حسن و شباب پھر لوٹ آیا، اجڑا ہوا گھر آباد ہوگیا، مال و دولت کی فراوانی ہوگئی۔ بعض روایات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بچے بچیوں کو زندہ کردیا گیا۔ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اس واقعہ کو اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ یہ قیامت تک آنے والے ان لوگوں کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی کو اپنا فریضہ اور سرمایہ سمجھتے ہیں یاددہانی کا کام دے۔ وہ جب بھی کبھی اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوں تو برے سے برے حالات میں بھی حضرت ایوب (علیہ السلام) کے صبر کو یاد کریں اور اس بات کا یقین اپنے اندر پیدا کریں کہ آج بھی پروردگار صبر اور شکر کرنے والوں کو نوازتا ہے اور ہر طرح کی نعمت سے بہرہ ور فرماتا ہے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ قرآن کریم نے حضرت ایوب کے سیرت و کردار کو کس قدر اہتمام کے ساتھ ذکر فرمایا اور قیامت تک کے لیے آنے والے صاحب ایمان لوگوں کے لیے اسے اسوہ حسنہ بنادیا۔ لیکن بائیبل نے جو آپ ( علیہ السلام) کا نقشہ کھینچا ہے اسے ذکر کرنے کی بجائے میں تفہیم القرآن کا ایک نوٹ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب (علیہ السلام) کو اس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے لیکن دوسری طرف بائیبل کی سفرِ ایوب ( علیہ السلام) پڑھئے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے۔ بار بار اس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں ” نابود ہو وہ دن جس میں، میں پیدا ہوا، میں رحم ہی میں کیوں نہ مرگیا، میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی۔ “ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ ” قادر مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں، میری روح انہی کے زہر کو پی رہی ہے، خدا کی ڈرائونی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں۔ “ ” اے بنی آدم کے ناظر ! اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں ؟ تو نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنایا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں ؟ تو میرا گناہ کیوں نہیں معاف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دور کردیتا ؟ “ میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھہرا، مجھے بتا کہ تو مجھ سے کیوں جھگڑتا ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے ؟ “ اس کے تین دوست اسے آکر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں مگر وہ نہیں مانتا۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، صرف ایک ظلم ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جارہا ہے۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکوکار ستائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایک کرکے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں اور پھر کہتا ہے کہ خدا کے پاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخرکار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور حضرت ایوب ( علیہ السلام) کو بےتحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ ” اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھہرایا۔ “ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور حضرت ایوب ( علیہ السلام) کے درمیان خوب دوبدو بحث ہوتی ہے۔ اس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اس صبر مجسم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصہ کچھ کہہ رہا ہے، بیچ کا حصہ کچھ اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکل آتا ہے۔ تینوں حصوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ابتدائی حصہ کہتا ہے کہ حضرت ایوب ( علیہ السلام) ایک نہایت راست باز، خدا ترس اور نیک شخص تھا اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ ” اہل مشرق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا۔ “ ایک روز خدا کے ہاں اس کے (یعنی خود اللہ میاں کے) بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پر فخر کا اظہار کیا۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے، وہ آپ کے منہ پر آپ کی ” تکفیر “ نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں۔ خدا نے کہا، اچھا، اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیو۔ شیطان نے جا کر حضرت ایوب ( علیہ السلام) کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کردیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا ” ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو۔ “ پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی۔ ان کے بیٹے بھی آئے اور شیطان بھی حاضر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا۔ شیطان نے کہا، جناب، ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے وہ آپ کے منہ پر آپ کی ” تکفیر “ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اچھا جا، اس کو تیرے اختیار میں دیا گیا، بس اس کی جان محفوظ رہے۔ چناچہ شیطان واپس ہوا اور آکر اس نے ” ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دکھ دیا۔ “ اس کی بیوی نے اس سے کہا ” کیا تو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا ؟ خدا کی تکفیر کر اور مرجا۔ “ اس نے جواب دیا ” تو ان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دکھ نہ پائیں۔ “ یہ ہے سفرِایوب ( علیہ السلام) کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ، لیکن اس کے بعد تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسیوں باب تک ایوب کی بےصبری اور خدا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خدا کا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا پھر بیالیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خوب دوبدو بحث کرلینے کے بعد، صبروشکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر، ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کرکے اس کی تکلیفیں دور کردیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دوچند دے دیتے ہیں۔ اس آخری حصے کو پڑھتے وقت آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں اور پھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کرلیا ہے تاکہ شیطان کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو۔ یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے نہ خود حضرت ایوب کا بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصہ ایوب کو بنیاد بنا کر ” یوسف زلیخا “ کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایوب، الیفزتیمانی، سوخی بلدو، نعماتی صوفر، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو، چند کیرکٹر ہیں جن کی زبان سے نظام کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے۔ اس کی شاعری اور اس کے زور بیان کی جس قدر جی چاہیے داد دے لیجیے۔ مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفہ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے کوئی معنی نہیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی سیرت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا ” یوسف زلیخا “ کا تعلق سیرت یوسفی سے ہے بلکہ شاید اتنا بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان میں صحیح تاریخ کا ایک عنصر پایا جاتا ہے اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہوگا جو اس کے زمانے میں مشہور ہوں گی یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہوگا جو اب ناپید ہے۔
Top