Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 82
وَ مِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَهٗ وَ یَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ كُنَّا لَهُمْ حٰفِظِیْنَۙ
وَ
: اور
مِنَ
: سے
الشَّيٰطِيْنِ
: شیطان (جمع)
مَنْ يَّغُوْصُوْنَ
: جو غوطہ لگاتے تھے
لَهٗ
: اس کے لیے
وَيَعْمَلُوْنَ
: اور کرتے تھے وہ
عَمَلًا
: کام
دُوْنَ ذٰلِكَ
: اس کے سوا
وَكُنَّا
: اور ہم تھے
لَهُمْ
: ان کے لیے
حٰفِظِيْنَ
: سنبھالنے والے
اور شیطانوں (قوی ہیکل لوگوں) میں سے ایسے شیطان جو اس کے لیے غوطہ لگاتے اور اس کے علاوہ اور بھی طرح طرح کے کام کرتے اور ہم انہیں اپنی پاسبانی میں لیے ہوئے تھے
بڑے بڑے قوی ہیکل اور سرکش لوگوں کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا تابع بنا دیا گیا : 82۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لئے بحر یعنی سمندروں کو مسخر کرنے کا ذکر آیا ہے تو اس کے مختلف شعبوں کا ذکر بھی کردیا گیا ۔ فرمایا کتنے ہی سرکش تھے جو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے غوطہ زنی کرتے تھے اور سمندر سے بڑی بڑی قیمتی چیزیں نکال لاتے تھے اور ان کو شیطان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم اقوام سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے شعبہ میں بہت تیز تھے اور آج کل اس کے لئے پورا ایک محکمہ کام کر رہا ہے جو اسی کی ترقی پذیر صورت ہے اور اسی طرح غوطہ زنی باقاعدہ ایک فن تشکیل پا چکا ہے جو سمندر کی تہہ میں جا کر کام کرنے والے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ تفصیلی ذکر انشاء اللہ آپ کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے تذکرہ میں مل جائے گا جو اؤد (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد نقل کیا گیا ہے ہمارے مفسرین نے شیطان من الجن ہی مراد لئے ہیں جیسا کہ تفسیر ماجدی میں مذکور ہے کہ ” الشیطن “ سے مراد جن ہیں جو اغلبا کافر تھے ۔ لیکن قرآن کریم میں فقط (الشیطین) کا لفظ آیا ہے اس کے بعد جن یا انس کا ذکر نہیں اور دوسری جگہ (آیت) ” اذا خلوا الی شیاطینھم “۔ (البقرہ 2 : 14) میں شیاطین ہی کا لفظ ہے اور اس سے مراد مفسرین نے سردار ہی مراد لئے ہیں جن کا تعلق انسانون ہی کی جنس سے تھا نہ کہ جنس ” جن “ سے ۔ اور (آیت) ” شیاطین من الانس والجن “۔ تسلیم شدہ بات ہے اور جس طرح انسانوں میں سردار ہوتے ہیں یقینا جنوں میں بھی ہوتے ہوں گے جن سے ” جن “ ہی استفادہ کرتے ہوں گے کیونکہ وہی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں جس طرح انسان سرداروں سے جن انسان ہی فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے بعد اب ہم داؤد (علیہ السلام) اور پھر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت : سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے والد کا نام ایشا یا ایشی ہے ۔ آپ یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں ۔ ابن کثیر (رح) نے اپنی تاریخ میں سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا نسب نامہ تحریر کیا ہے کہ تیرہ واسطوں سے اسحاق (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے ۔ قرآن کریم نے سورة بقرہ میں بنی اسرائیل کی اپنی نبی سے کسی شخص کو سپہ سالار بنانے کی اپیل ‘ نبی وقت کا طالوت کو سپہ سالار بنانے اور بنی اسرائیل کی اکثریت کا اس کی سپہ سالاری سے انکار کرنے کا بیان موجود ہے وہ لوگ جنہوں نے طالوت کی سپہ سالاری کو قبول کیا اور طالوت کی معیت میں جہاد فی سبیل اللہ کیا ان میں جالوت کے قتل کرنے والے آپ ہی تھے اور اس قتل جالوت میں بےنظر شجاعت کے اظہار نے بنی اسرائیل کے قلوب پر داؤد (علیہ السلام) کی محبت و عظمت کا سکہ بٹھا دیا تھا اور ان کی شخصیت ممتاز اور نمایاں ہوچکی تھی چناچہ یہی داؤد آگے چل کر اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی ورسول بنے اور بنی اسرائیل کی رشد وہدایت کے لئے رسالت کے منصب کے لئے منتخب کر لئے گئے اور اس کے ساتھ قومی سردار یعنی بادشاہ بھی بن گئے جو اسلام کی نگاہ میں ان کے اجتماعی نظم وضبط کے لئے ” خلیفہ “ مقررہ ہوئے ۔ قرآن کریم میں سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا ذکر سورة البقرہ ‘ النسائ ‘ المائدہ ‘ الانعام ‘ الاسرا ‘ الانبیائ ‘ النمل ‘ سبا اور ص کل 9 سورتوں میں آیا ہے اور زیادہ تر دونوں باپ بیٹے کا ذکر اکٹھا ہی کیا گیا ہے یعنی سیدنا داؤد (علیہ السلام) اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا ۔ نبوت و رسالت اور حکومت میں سے کونسی چیز آپ کو پہلے عطا ہوئی ؟ غالبا حکومت آپ کو پہلی ملی کیونکہ طالوت کی موجودگی ہی میں آپ کو عنان حکومت مل گئی تھی اور اس کے جلوہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ انعام بھی ہوا کہ آپ کو منصب نبوت و رسالت سے سرفراز فرما دیا گیا ، کہا جاتا ہے کہ آپ سے پہلے بنی اسرائیل میں یہ سلسلہ قائم تھا کہ حکومت ایک سبط میں اور نبوت و رسالت دوسرے سبط سے چلی آرہی تھی اور سیدنا داؤد (علیہ السلام) پہلے نبی ورسول ہیں جن کو دونوں نعمتیں عطا کی گئیں ۔ (البدایہ والنھایہ ج 2 ص 10) انبیاء ورسل میں سے آدم (علیہ السلام) کے بعد داؤد (علیہ السلام) پہلے نبی و رسول ہیں جن کے لئے قرآن کریم نے (آیت) ” خلیفۃ فی الارض “۔ کا لفظ استعمال کیا ۔ چناچہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” یداود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض “۔ (ص 38 : 26) ” اے داؤد ! بلاشبہ ہم نے تم کو زمین میں ” خلیفہ “ بنایا ہے ۔ “ اس میں کیا حکمت تھی ؟ بنی اسرائیل میں صدیوں سے یہ رسم قائم چلی آتی تھی کہ حکومت ایک خاندان میں اور نبوت دوسرے میں رکھی گئی تھی چناچہ اس رسم کے خلاف سیدنا داؤد (علیہ السلام) میں نبوت و رسالت کے ساتھ حکومت وسلطنت بھی جمع کردی گئی اس لئے ضروری تھا کہ ان کو ایک ایسے لقب سے پکارا جائے ، جو اللہ تعالیٰ کی صفات علم وقدرت دونوں کا مظہر اتم ہونے میں صراحت کرتا ہو اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے شریعت اسلامی کی اصطلاح میں ” خلیفہ “ سے بہتر اور کوئی لفظ نہیں ہو سکتا تھا ۔ مختصر یہ کہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) بنی اسرائیل کی رشد وہدایت کی خدمت بھی انجام دیتے اور ان کی اجتماعی حیات کی نگرانی کا فرض بھی ادا فرماتے رہے ۔ قرآن کریم ‘ تورات اور اسرائیل روایات اس کی شاہد ہیں کہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) شجاعت وبسالت ‘ اصابت رائے اور قوت فکر وتدبیر جیسے اوصاف کے پیش نظر کامل ومکمل انسان تھے اور فتح ونصرت ان کے قدم چومتی تھی اور خدا کا فضل و کرم اس درجہ ان کے شامل حال تھا کہ دشمن کے مقابلہ میں ان کی جماعت کتنی ہی مختصر ہوتی کامیابی ہمیشہ ان ہی کے ہاتھ رہتی اس لئے بہت تھوڑے عرصہ میں شام ‘ عراق ‘ فلسطین اور شرق اردن کے تمام علاقوں پر ان کا حکم نافذ اور ایلہ (خلیج عقبہ) سے لے کر فرات کے تمام علاقوں اور دمشق تک تمام ملک ان کے زیر نگین تھا اور اگر حجاز کے بھی ان حصوں کو شامل کرلیا جائے جو ان کے قلم رو حکومت کا حصہ بن چکے تھے تو یہ کہنا کسی طرح بےجا نہ ہوگا کہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی ملکت و حکومت بلاشرکت ” سامی اقوام “ کی واحد سلطنت تھی ‘ جو جدید فلسفہ تاریخ اقوام کے مطابق ” وحدت عرب “ یا اس سے بھی زیادہ وسیع ” وحدت اقوام سامیہ “ کی حکومت کہی جاسکتی ہے اور پھر کثرت لشکر اور وسعت حدود رقبہ مملکت کے ساتھ ساتھ ” وحی الہی “ کے شرف نے ان کی عظمت و شوکت اور صولت وہیبت کو اور بھی زیادہ بلند کردیا تھا اور رعایا کو یہ یقین حاصل تھا کہ اگر سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے سامنے کوئی ایسا معاملہ رکھ دیا ہو ‘ تب بھی ” وحی الہی “ کے ذریعہ ان پر حقیقت حال منکشف ہوجاتی ہے اس لئے جن وانس کسی کو بھی یہ حوصلہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ ان کے احکام کی خلاف ورزی کریں ۔ چناچہ ابن جریر نے اپنی تاریخ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ دو آدمی ایک بیل کا مناقشہ لے کر کی خدمت میں پیش ہوئے ، ہر ایک یہ کہتا تھا کہ یہ میری ملک ہے اور دوسرا غاصب ہے ، سیدنا داؤد (علیہ السلام) نے قضیہ کا فیصلہ دوسرے دن پر مؤخر کردیا ۔ دوسرے دن انہوں نے مدعی سے فرمایا کہ رات میں اللہ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تجھ کو قتل کردیا جائے لہذا تو صحیح صحیح بات بیان کر ۔ مدعی نے کہا : خدا کے سچے نبی ! اس مقدمہ میں تو میرا بیان قطعا حق اور سچ ہے لیکن اس واقعہ سے قبل میں نے (مدعی علیہ) کے باپ کو دھوکا دے کر مار ڈالا تھا ، یہ سن کر سیدنا داؤد (علیہ السلام) نے اس کو قصاص میں قتل کردینے کا حکم صادر فرمایا ۔ (تاریخ ابن کثیر ج 2 ص 12) اسی قسم کے واقعات ہوتے تھے جن کی وجہ سے سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے حکم اور ان کی عظمت و شوکت کے سامنے سب پست اور فرمانبردار تھے ۔ قرآن کریم کی آیت ذیل میں سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی اسی عظمت مملکت اور موہبت حکمت ونبوت کا اظہار کیا گیا ہے ۔ (آیت) ” وشددنا ملکہ واتینہ الحکمۃ وفصل الخطاب “۔ (ص 38 : 20) ” اور ہم نے اس کی حکومت کو مضبوط کیا اور اس کو حکمت (نبوت) عطا کی اور صحیح فیصلہ کی قوت بخشی ۔ اس آیت اور گزشتہ آیات میں ” حکمت “ سے کیا مراد ؟ یہ سوال ہے جو مفسرین کے یہاں زیر بحث ہے ہمارے نزدیک اقوال سلف کا خلاصہ یہ ہے کہ اس جگہ حکمت سے دو باتیں مراد ہیں ایک نبوت اور دوسری عقل و دانش کا وہ مقام جس پر فائز ہو کر کوئی شخص راہ راست کی بجائے کبھی کج روی اختیار نہیں کرسکتا ، بعض علماء نے حکم سے زبور مراد لی ہے ‘ اسی طرح ” فصل خطاب “ سے بھی دو امور کی جانب اشارہ ہے ۔ (1) ۔ وہ تقریر وخطابت کے فن میں کمال رکھتے تھے اور اس طرح بولتے تھے لفظ لفظ اور فقرہ فقرہ جدا جدا فہم وادراک میں آتا تھا اور اس سے کلام میں فصاحت ولطافت اور شوکت بیان پیدا ہو اجاتی تھی ۔ (2) ۔ ان کا حکم اور فیصلہ حق و باطل کے درمیان قول فیصل کی حیثیت رکھتا تھا ۔ بنی اسرائیل کی رشد وہدایت کے لئے ” اصل اور اساس “ توراۃ تھی لیکن حالات وواقعات اور زمانہ کے تغیرات کے پیش نظر سیدنا داؤد (علیہ السلام) کو بھی خدا کی جانب سے زبور عطا ہوئی جو توراۃ کے قوانین و اصول کے اندر رہ کر اسرائیلی گروہ کی رشد وہدایت کے لئے بھیجی گئی تھی ‘ چناچہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) نے شریعت موسوی کو از سر نو زندہ کیا ‘ اسرائیلیوں کو راہ ہدایت دکھائی اور نور وحی سے مستفیض ہو کر تشنہ کا مان معرفت الہی کو سیراب فرمایا ۔ زبور خدا کی حمد کے نغموں سے معمور تھی اور سیدنا داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایسا لہجہ اور سحر آگیں لحن عطا فرمایا تھا کہ جب زبور کی تلاوت فرماتے تو جن وانس حتی کہ وحوش و طیور تک وجد میں آجاتے ۔ اس لئے آج تک ” لحن داؤدی “ ضرب المثل ہے ۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ابو موسیٰ اشعری ؓ کے حسن صوت کو سنتے تو ارشاد فرماتے ابو موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے لحن داؤد عطا فرمایا ہے ۔ لغت میں زبور کے معنی پارے اور ٹکڑے کے ہیں چونکہ یہ کتاب دراصل توراۃ کی تکمیل کے لئے نازل ہوئی تھی اس لئے گویا اسی کا ایک حصہ اور ٹکڑا ہے ۔ زبور ایسے قصائد اور مسجع کلمات کا مجموعہ تھا جس میں خدا کی حمد وثنا اور انسانی عبدیت وعجز کے اعتراف اور پند ونصائح اور بصائر وحکم کے مضامین تھے ، مسند احمد میں ایک روایت منقول ہے کہ زبور کا نزول رمضان میں ہوا اور وہ مواعظ وحکم کا مجموعہ تھی ، نیز بعض بشارات اور پیشن گوئیاں بھی منقول تھیں ‘ چناچہ بعض مفسرین نے یہ تصریح کی ہے کہ آیت مسطورہ ذیل میں زبور کے جس واقعہ کا اظہار کیا گیا ہے وہ دراصل نبی کریم ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی بشارت سے متعلق ہے اور وہی اس کا مصداق ہے ۔ (البدایہ والنھایہ ج 2 ص 11 ‘ 12) (آیت) ” ولقد کتبنا فی الذبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون “۔ (الانبیائ 21 : 105) اور بیشک ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد یہ کہہ دیا تھا کہ زمین کے وراث میرے نیک بندے ہوں گے ۔ قرآن کریم نے جگہ جگہ تورات ‘ انجیل اور زبور کو خدا کی وحی فرمایا ہے اور منزل من اللہ بتایا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے دیدہ و دانستہ خدا کی ان کتابوں کو بدل ڈالا اور جگہ جگہ اپنی مرضی کے مطابق ان میں تحریف کردی حتی کہ اب ان کے حقائق پر اس قدر پردہ پڑگیا ہے کہ اصل اور جعلی کے درمیان فرق کرنا سخت مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا ہے ۔ (آیت) ” من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ “۔ (النسائ 4 : 46) ” بعض یہود وہ ہیں جو (تورات وانجیل وزبور) کے کلمات کو ان کی اصل حقیقت سے بدلتے اور پھیرتے ہیں ۔ چناچہ تورات وانجیل کے علاوہ خود زبور اس کی زندہ شہادت موجود ہے زبور میں ان مختلف حصوں کی تعداد جن کو اہل کتاب کی اصطلاح میں مزبور کہا جاتا ہے ایک سو پچاس ہے ‘ ان حصوں پر جو نام درج ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ سب حصے سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے ” مزبور “ نہیں ہیں کیونکہ بعض پر اگر حضرت داؤد (علیہ السلام) کا نام ثبت ہے تو بعض پر مغنیوں کے استاذ قورح کا اور بعض پر شوشنیم کے سروں پر آصف کا اور بعض پر گتیت کا اور بعض پر کسی کا نام نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں بعض ایسے مزبور بھی ہیں جو حضرت داؤد (علیہ السلام) سے صدیوں بعد تصنیف کئے گئے ہیں ۔ مثلا یہ مزبور : اے خدا قومیں تیری میراث میں گھس آئی ہیں ‘ انہوں نے تیری مقدس ہیکل کا ناپاک کیا ہے انہوں نے یروشلم کو کھنڈر بنا دیا ہے ۔ “ (مزبور 79) اس مزبور میں اس ہولناک واقعہ کا تذکرہ ہے جو بنو کدرزر (بخت نصر) کے ہاتھوں بنی اسرائیل کو پیش آیا اور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ داؤد (علیہ السلام) کے صدیوں بعد پیش آیا ہے ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زبور نازل فرمائی اور ان کے ذریعہ بنی اسرائیل کو رشد وہدایت کا پیغام سنایا ۔ (آیت) ” ولقد فضلنا بعض النبین علی بعض واتینا داؤد زبورا “۔ (الاسراء 17 : 55) ” اور بیشک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور بخشی۔ (آیت) ” واتیناداؤد زبورا “۔ (نسائ 4 : 163) اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی ۔ بخاری کتاب الانبیاء میں ایک روایت منقول ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) پوری زبور کو اتنے مختصر وقت میں تلاوت کرلیا کرتے کہ جب وہ گھوڑے پر زین کسنا شروع کرتے تو تلاوت بھی شروع کرتے اور جب کس کر فارغ ہوتے تو پوری زبور ختم کرچکے ہوتے ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور قرآن کریم وتورات : اس مقام پر قرآن کریم اور تورات کے درمیان سخت اختلاف ہے ۔ قرآن کریم تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اگر صاحب شوکت وصولت بادشاہ مانتا ہے توجلیل القدر پیغمبر اور رسول بھی تسلیم کرتا ہے لیکن تورات ان کو صرف ” کنگ داؤد “ (شاہ داؤد) ہی تسلیم کرتی ہے اور ان کی نبوت و رسالت کا اقرار نہیں کرتی ۔ ظاہر ہے کہ تورات کا انکار تحکم اور بےسروپا بات ہے اور اسی قسم کے کذب وافتراء پر مبنی ہے جس کا ثبوت بارہا ان ہی صفحات میں پیش کیا جا چکا ہے ۔ خصائص داؤد : اللہ تعالیٰ نے یوں تو سب ہی پیغمبروں کو خصوصی شرف و امتیاز بخشا ہے اور اپنے نبیوں اور رسولوں کو بیشمار انعام واکرام سے نوازا ہے ‘ تاہم شرف وخصوصیت کے درجات کے اعتبار سے انکے درمیان بھی فرق مراتب رکھا ہے اور یہی امتیازی درجات و مراتب ان کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں ۔ (آیت) ” تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض “۔ (البقرہ 2 : 253) یہ رسول ! ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق بھی قرآن کریم نے چند خصائص وامتیازات کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس رسول کو کس درجہ بزرگی اور عظمت عطا فرمائی ہے لیکن یہ واضح رہے کہ قرآن کریم کی بیان کردہ خصائص انبیاء ورسل میں خاصہ کے وہ منطقی معنی مراد نہیں ہیں کہ کسی دوسرے شخص میں قطعا اس کا وجود نہ پایا جائے اور وہ وصف صرف اسی کے اندر محدود ہو بلکہ اس مقام پر خاصہ سے وہ وصف مراد ہے جو اس ذات میں تمام و کمال درجہ پر پایا جاتا ہے اور اس کے ذکر سے ذہن فورا اس شخصیت کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے اگرچہ بعض حالات میں اس وصف خاص کا وجود دوسرے نبیوں میں بھی جلوہ گر نظر آتا ہو۔ تسخیر وتسبیح جبال وطیور : حضرت داؤد (علیہ السلام) خدائے تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں بہت زیادہ مصروف رہتے تھے اور اس قدر خوش الحان تھے کہ جب زبور پڑھتے یا خدا کی تسبیح وتہلیل میں مشغول ہوتے تو ان کے وجد آفریں نغموں سے نہ صرف انسان بلکہ وحوش وطیور وجد میں آجاتے اور آپ کے اردگرد جمع ہو کر حمد خدا کے ترانے گاتے اور سریلی اور پرکیف آوازوں سے تقدیس وتسبیح میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ہمنوائی کرتے اور صرف یہی نہیں بلکہ پہاڑ بھی خدا کی حمد میں گونج اٹھتے ۔ چناچہ داؤد (علیہ السلام) کی اس فضیلت کا قرآن کریم نے سورة انبیاء ‘ سبا اور ص میں صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے : (آیت) ” وسخرنا مع داؤد الجبال یسبحن والطیر وکنا فعلین “۔ (الانبیا 21 : 79) ” اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو تابع کردیا ہے کہ وہ داؤد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ہم ہی میں ایسا کرنے کی قدرت ہے ۔ (آیت) ” ولقد اتینا داؤد منا فضلا یا جبال اوبی معہ والطیر “۔ (سباء 34 : 10) ” اور بیشک ہم نے داؤد کو اپنی جانب سے فضیلت بخشی ہے (وہ یہ کہ ہم نے حکم دیا) اے پہاڑو اور پرند تم دادؤ کے ساتھ مل کر تسبیح اور پاکی بیان کرو۔ (آیت) ” انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والاشراق ، والطیر محشورۃ کل لہ اواب “۔ (ص 38 : 18 ، 19) بیشک ہم نے داؤد کے لئے پہاڑوں کو مسخر کردیا کہ اس کے ساتھ شام اور صبح تسبیح کرتے ہیں اور پرندوں کے پرے کے پرے جمع ہوتے اور سب مل کر حمد خدا کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ان آیات کی تفسیر میں کہا ہے کہ چرند اور پرند اور پہاڑوں کی تسبیح زبان حال سے تھی گویا کائنات کی ہر شے کا وجود اور اس کی ترکیب بلکہ اس کی حقیقت کا ذرہ ذرہ خدا کی خالقیت کا شاہد ہے اور یہی اس کی تسبیح و تمحید ہے ۔ سیب اگرچہ زبان قال نہیں رکھتا اور نطق سے محروم ہے لیکن اس کی خوشبو اور اس کی لطافت ‘ اس کا حسن اور اس کی نزاکت جدا جدا پکار کر کہہ رہے ہیں (فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ امام رازی (رح) نے یہی مسلک اختیار کیا ہے لیکن دوسرے محققین کی رائے یہ ہے کہ حیوانات ‘ نباتات اور جمادات حقیقتا تسبیح کرتے ہیں اور ان کی تسبیح صرف یہی نہیں ہے کہ ان کا وجود زبان حال سے صانع حکیم پر دلالت کرتا ہے اور یہی ان کی تسبیح ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ بصراحت یہ اعلان کیا ہے کہ : (آیت) ” تسبح لہ السموات السبع والارض ومن فیھن وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم “۔ (الاسراء 17 : 44) ” آسمان اور زمین اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کا فہم وادراک نہیں رکھتے ۔ “ اس آیت میں دو باتیں صاف صاف نظر آتی ہیں ایک یہ کہ کائنات کی ہر شے تسبیح کرتی ہے اور دوسری یہ کہ جن وانس ان کو تسبیح سمجھنے کا فہم وادراک نہیں رکھتے اس طرح جب اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین اور کائنات کی ہر شے حیوانات ‘ نباتات اور جمادات کی جانب تسبیح فرمائی ہے تو یہ ضروری ہے کہ ان اشیاء میں تسبیح کا حقیقی وجود موجود ہو اور پھر دوسرے جملہ کو اسی پر اطلاق کیا جائے کہ جن وانس ان کی تسبیح کے فہم وادراک سے قاصر ہیں اگر اس جگہ تسبیح کے حقیقی معنی نہ لئے جائیں بلکہ زبان حال سے تسبیح کرنا اس معنی کو اختیار کیا جائے تو پھر قرآن کریم کا یہ ارشاد کیسے صحیح ہوگا (آیت) ” ولکن لا تفقھون تسبیحھم “۔ (الاسراء 17 : 44) ” تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے اگر ایک سطحی ذہن اس کو نہیں سمجھتا کہ کائنات کا ہر ذرہ خدائے واحد لا شریک لہ کی ہستی کا پتہ دے رہا ہے تو تمام اہل مذاہب خصوصا ہر مسلمان تو بلاشبہ اس کو سمجھتا ہے اور وہ جب کبھی وجود باری پر کچھ سوچتا ہے تو اس کا یقین کرکے سوچتا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی ہستی کا اقرار کر رہا ہے اور ہر شے کا وجود ہی خود خالق کائنات کا پتہ دے رہا ہے ۔ قرآن کریم نے اس آیت سے قبل مشرکین کا تذکرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ مشرکین اپنی ناسمجھی اور کج فہمی سے خدا کے ساتھ معبودان باطل کو شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کے بعد قرآن کریم اس مسئلہ کے بطلان کو ان پر واضح کرتا اور طرح طرح سے سمجھتا ہے تو ان پر اس کی نصیحت کا الٹا اثر پڑتا ہے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ نفرت کرنے لگتے ہیں حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک اور برتر ہے ان تمام باطل نسبتوں سے جو مشرکین اس کی جانب منسوب کرتے ہیں اس کے بعد قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ انسان ہی ہے جو اس قسم کی مشرکانہ گمراہی میں مبتلا ہو رہا ہے ورنہ ساتوں آسمان و زمین اور کائنات کی ہر شے خدا کی پاکیزگی کا بیان کرتی ہے مگر انسان ان کی اس تسبیح کے فہم وادراک سے قاصر ہے بلاشبہ اللہ بردبار ہے اور بہت ہی پیار کرنے والا ہے ۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) شاہی اور شہنشاہی کے باوجود سلطنت ومملکت کے خزانہ سے ایک حبہ نہیں لیتے تھے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی معاش کا بار بیت المال پر نہیں ڈالتے تھے بلکہ اپنے ہاتھ کی محنت اور ہاتھ کی کمائی سے حلال روزی حاصل کرتے اور اس کو ذریعہ معاش بناتے تھے ، چناچہ داؤد (علیہ السلام) کے اس وصف کو حدیث صحیح میں ان الفاظ کے ساتھ سراہا گیا ہے کہ : قال رسول اللہ ﷺ ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یا کل من عمل یدہ وان نبی اللہ داؤد (علیہ السلام) کان یا کل من عمل یدہ “۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء اور کتاب التجارۃ) ” رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی انسان کا بہترین رزق اس کے اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا ہوا رزق ہے اور بلاشبہ اللہ کے پیغمبر داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ سے محنت کرکے رزق کماتے تھے ۔ “ قرآن کریم نے اس واقعہ کو سورة الانبیاء اور سباء میں بیان کیا ہے چناچہ فرمایا ہے : (آیت) ” وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم فھل انتم شاکرون “۔ (21 ؛ 80) ” اور ہم نے اس (داؤد) کو سکھایا ایک قسم کا لباس بنانا تاکہ تم کو لڑائی کے مواقعہ پر اس سے بچاؤ حاصل ہو پس کیا تم شکرگزار بنتے ہو ؟ “۔ (آیت) ” والنالہ الحدید ، ان اعمل سابغات وقدر فی السرد واعملوا صالحا انی بما تعملون بصیر “۔ (34 : 10 ، 11) ” اور ہم نے اس (داؤد) کے لئے لوہے کو نرم کردیا کہ وہ زرہیں بنائے کشادہ اور اندازہ سے کڑیاں جوڑ کر اور شاندار عمل کرکے تم جو کچھ کرتے ہو میں اس کو دیکھتا ہوں۔ “ تورات اور ” لوہے کے استعمال کے زمانہ کی تاریخ “ سے پتہ چلتا ہے کہ داؤد (علیہ السلام) سے پہلے لوہے کی صنعت نے اس حد تک تو ترقی کرلی تھی کہ فولاد پگھلا کر اس سے سپاٹ ٹکڑے بناتے اور ان کو جوڑ کر زرہیں بنایا کرتے تھے لیکن یہ زرہیں بہت بھاری ہوتی تھیں اور چند قوی ہیکل انسانوں کے علاوہ عام طریقہ سے ان کا استعمال مشکل اور دشوار سمجھا جاتا تھا اور میدان جنگ میں سبک خرامی دشوار ہوجاتی تھی ۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت بخشی کہ انہوں نے تعلیم وحی کے ذریعہ ایسی زرہیں ایجاد کر کیں جو باریک اور نازک زنجیروں کے حلقوں سے بنائی جاتی تھیں اور ہلکی اور نرم ہونے کی وجہ سے میدان جنگ کا سپاہی اس کو پہن کر بآسانی نقل و حرکت بھی کرسکتا تھا اور دشمن سے محفوظ رہنے کے لئے بھی بہت عمدہ ثابت ہوتی تھیں ۔ “ چاہئے تو یہ تھا کہ ان آیات کے پیش نظر سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے آج لوہے کی صنعت اور خصوصا اوزار حرب میں مسلمانوں کو وہ مقام حاصل ہوتا کہ دوسری قوموں کے لوگ اس کے مرہون منت ہوتے اور ان پر رشک کرتے اور آلات حرب اور جدید قسم کے اسلحہ کا مرکز و محور مسلمان قرار پاتے لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں نے اس کو چھو کر بھی نہ دیکھا اور اس میں سب سے بڑا قصور ان لوگوں کا ثابت ہوتا ہے جنہوں نے لوہے کو موم کرنا سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا معجزہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور قوم کو بتایا کہ اس سے لوہے کی صنعت وحرفت کا پیشہ مراد نہیں بلکہ اس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس خام لوہے کو سیدنا داؤد (علیہ السلام) ہاتھ لگاتے وہ موم کی طرح نرم ہوجاتے اور آپ کو اس معاملہ میں کوئی کلفت نہ ہوتی جس طرح آج کوئی شخص کسی رسی سے کوئی کام لیتا ہے اس سے بھی زیادہ سہل طریقہ سے آپ خام لوہے کو ہاتھ لگاتے تو خود بخود نرم ہوجاتا وہ لوہا لوہا نہ رہا بلکہ موم ہوجاتا یا اس سے بھی زیادہ نرم جو قرآن کریم کے مفہوم کے سراسر خلاف ہے نتیجہ یہ ہوا کہ جن قوموں نے اس لوہے سے کام لینا سیکھا اور قرآن کریم کی اس آیت سے راہنمائی لی آج وہ ترقی کرکے دنیا میں اپنا نام روشن کر گئیں اور مسلمان قوم ان کی بھکاری بن کر رہ گئی اب ان کا جی چاہتا ہے تو وہ باسی ٹکڑا ہمارے سامنے مشروط طریقہ سے پھینک دیتے ہیں اور نہیں چاہتا تو ڈانٹ پلاکر واپس کردیتے ہیں اور جو حال بھکاریوں کا ہے وہی ان اقوام کے سامنے آج ہمارا ہے اور کوئی شخص آج بھی یہ سوچنے کے لئے تیار نہیں کہ ہماری یہ حالت کیوں ہوئی ؟ اور کیسے ہم اپنی حالت کو درست کرسکتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ان کی یہ کامیابی تو فقط دنیوی ہے اور ہم دین و دنیا دونوں میں کامیابی حاصل کرکے ان کے منہ میں مٹی ڈال کر دکھائیں گے اور غفلت کے سارے پردے چاک کردیں گے ۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) اور دو اہم تفسیری مقامات : سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ میں دو اہم مقام ایسے ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی اور مفسرین کے تفسیری مباحث کے لحاظ سے بھی اہم شمار ہوتے ہیں اور پہلا مقام اگرچہ اختلافی نہیں ہے مگر دوسرا مقام معرکۃ الآراء بن گیا ہے اور اہل علم کی موشگافیوں نے اس کو کچھ سے کچھ بنا دیا ہے اس لئے ضرورت ہے کہ اصل حقیقت کو آشکارا کیا جائے اور باطل ادہام ومزعومات کو دلائل وبراہین کی روشنی میں رد کیا جائے ۔ مقام اول : (آیت) ” وداؤد وسلیمن اذ یحکمان فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم وکنا لحکمھم شاھدین ، ففھمنا ھا سلیمن وکلا اتینا حکما وعلما “۔ (الانبیاء 2 : 78 ، 79) اور داؤد اور سلیمان (کا واقعہ) جب کہ وہ ایک کھیتی کے معاملہ کا فیصلہ کر رہے تھے جس کو ایک فریق کی بکریوں کے ریوڑ نے خراب کر ڈالا تھا اور ہم نے ان کے فیصلہ کے وقت (اپنے علم محیط کے اعتبار سے) موجود تھے پھر ہم نے اس کے (بہترین) فیصلہ کی سمجھ سلیمان کو عطا کی اور داؤد وسلیمان کو ہم نے علم و حکمت عطا کئے ۔ اس آیت کی تفسیر میں جمہور مفسرین نے بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت دؤادعلیہ السلام کی خدمت میں دو شخص ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوئے ‘ مدعی نے دعوے کی روئداد یہ سنائی کہ مدعی علیہ کی بکریوں کے گلے نے اس کی تمام کھیتی تباہ وبرباد کر ڈالی اور اس کو چرچگ کر روند ڈالا ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے علم و حکمت کے پیش نظر یہ فیصلہ دیا کہ مدعی کی کھیتی کا نقصان چونکہ مدعی علیہ کے گلہ کی قیمت کے قریب قریب متوازن ہے لہذا یہ پورا گلہ مدعی کو تاوان میں دے دیا جائے ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمر ابھی گیارہ سال کی تھی وہ والد ماجد کے نزدیک ہی بیٹھے ہوئے تھے ‘ کہنے لگے اگرچہ آپ کا یہ فیصلہ صحیح ہے مگر اس سے بھی زیادہ مناسب شکل یہ ہے کہ مدعی علیہ کا تمام ریوڑ مدعی کے سپرد کردیا جائے کہ وہ اس کے دودھ اور اس کی اون سے فائدہ اٹھائے اور مدعی علیہ سے کہا جائے کہ وہ اس درمیان میں مدعی کے کھیت کی خدمت انجام دے اور جب کھیت کی پیداوار اپنی اصلی حالت پر واپس آجائے تو کھیت مدعی کے سپرد کر دے اور اپنا ریوڑ واپس لے لے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بیٹے کا یہ فیصلہ بہت پسند آیا ۔ قرآن کریم نے بھی اس طرح اشارہ کیا ہے کہ اس معاملہ میں سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ زیادہ مناسب رہا اور اس واقعہ خاص میں فہم داؤد پر فہم سلیمان گوئے سبقت لے گئے ، فقہی اصطلاح میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے فیصلہ کو قیاسی کہیں گے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلہ کو ” استحسانی “ مگر اس قسم کی جزئی فضیلت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بحیثیت مجموعی فضائل حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) پر فضیلت رکھتے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجموعہ فضائل کے اعتبار سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو جو منقبت فرمائی ہے وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حصہ میں نہیں آئی ۔ مقام ثانی : تورات اور ” اسرائیلی روایات “ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ انبیاء (علیہم السلام) کی ذات قدسی صفات کی جانب ایسی مضحکہ خیز اور بیہودہ حکایات وقصص منسوب کرتی ہیں کہ جن کو پڑھ کر ان مقدس ہستیوں کے متعلق نبی یا رسول ہونے کا تو کیا یقین ہو سکتا ہے یہ بھی باور نہیں ہوتا کہ وہ بااخلاق بزرگ ہستیاں ہیں ۔ بہتان طرازی کی مثال : چناچہ ان قصص و حکایات میں سے ایک خرافی روایات حضرت داؤد (علیہ السلام) سے بھی تعلق رکھتی ہے ۔ تورات کے صحیفہ سموئیل میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق ایک طویل داستان بیان کی گئی ہے جو مختصر الفاظ میں اسی کی زبانی سننے کے قابل ہے : ” اور شام کے وقت داؤد اپنے پلنگ پر سے اٹھ کر بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور چھت پر سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی ، تب داؤد نے لوگ بھیج کر اس عورت کا حال دریافت کیا اور کسی نے کہا کیا وہ العام کی بیٹی بنت سبع نہیں جو حتی اور یاہ کی بیوی ہے ؟ اور داؤد (علیہ السلام) نے لوگ بھیج کر اسے بلا لیا ۔ وہ اس کے پاس آئی اور اس نے اس سے صحبت کی (کیونکہ وہ اپنی ناپاکی سے پاک ہوچکی تھی) پھر اپنے گھر کو چلی گئی اور وہ عورت حاملہ ہوگئی ، سو اس نے داؤد کے پاس خبر بھیجی کی میں حاملہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ صبح کو داؤد نے یوآب کے لئے ایک خط لکھا اور اسے اور یاہ کے ہاتھ بھیجا اور اس نے خط میں یہ لکھا کہ اور یاہ کو گھمسان میں سب سے آگے رکھنا اور تم اس کے پاس سے ہٹ جانا تاکہ وہ مارا جائے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس شہر کے لوگ نکلے اور یوآب سے لڑے اور وہاں داؤد کے خادموں میں سے تھوڑے سے لوگ کام آئے اور حتی کہ اور یاہ بھی مر گیا ۔ تب یوآب نے آدمی بھیج کر جنگ کا سب حال داؤد کو بتایا ۔۔۔۔۔ جب اور یاہ کی بیوی نے سنا کہ اس کا شوہر اور یاہ مرگیا تو وہ اپنے شوہر کے لئے ماتم کرنے لگی اور جب سوگ کے دن گزر گئے تو داؤد نے اسے بلوا کر اس کو اپنے محل میں رکھ لیا اور وہ اس کی بیوی ہوگئی اور اس سے اس کے ایک لڑکا ہوا ۔ پر اس کام سے جسے داؤد نے کیا تھا خداوند ناراض ہوا ۔ (سموئیل 2 باب 11 : 2 تا 27) اس داستان میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا جو اخلاقی نقشہ پیش کیا گیا ہے اس کے مطالعہ کے بعد ان کو نبی اور پیغمبر تو کجا ایک صحیح اخلاق کا انسان بھی نہیں سمجھا جاسکتا ۔ دوسرے کی بیوی پر نظر بد ڈالنا ‘ اس سے ناجائز طور پر ملوث ہونا اور پھر سازش کرکے شوہر کو ناحق قتل کروا دینا انسانی زندگی کے وہ ناپاک اعمال ہیں جن کے لئے علم اخلاق کی زبان میں ” بدکاری “ سے کم کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ (آیت) ” سبحنک ھذا بھتان عظیم “۔ تورات کا تضاد بیان : لیکن اس سے قبل کہ ہم حضرت داؤد (علیہ السلام) کی معصوم ہستی پر لگائے ہوئے اس بہتان کی مدلل تردید کریں خود تورات ہی کی زبانی یہ سنانا چاہتے ہیں کہ دوسرے مقامات پر اس نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نسبت کیا کہا ہے اور ان کی پاکدامنی اور خدا رسی کا کس انداز میں ذکر کیا ہے ؟ تورات کے صحیفہ سموئیل میں ہے : ” تب ناتن (نبی) نے بادشاہ (داؤد) سے کہا جا جو کچھ تیرے دل میں ہے کر کیونکہ خداوند تیرے ساتھ ہے ۔ “ ” اور اسی رات کو ایسا ہوا کہ خداوند کا کلام ناتن کو پہنچا ۔ جا اور میرے بندہ داؤد سے کہہ خداوند یوں فرماتا ہے ۔۔۔۔۔ سو اب تو میرے بندے داؤد سے کہہ کہ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ میں نے تجھے بھیڑ سالہ سے جہاں تو بھیڑ بکریوں کے پیچھے پیچھے پھرتا تھا لیا تاکہ تو میری قوم اسرائیل کا پیشوا ہو ۔۔۔ “ (سموئیل 2 باب 7 : 3 تا 7) ” اس نے میرے زور آور دشمن اور میرے عداوت رکھنے والوں سے مجھے چھڑا لیا کیونکہ وہ میرے لئے نہایت زبردست تھے ‘ وہ میری مصیبت کے دن مجھ پر آپڑے پر خداوند میرا سہارا تھا ۔ وہ مجھے کشادہ جگہ میں نکال لایا ‘ اس نے مجھے چھڑایا اس لئے کہ وہ مجھ سے خوش تھا ۔ خداوند نے میری راستی کے موافق مجھے جزا دی اور میرے ہاتھوں کی پاکیزگی کے مطابق مجھے بدلہ دیا ‘ کیونکہ میں خداوند کی راہوں پر چلتا رہا اور شرارت سے اپنے خداوند سے الگ نہ ہوا کیونکہ اس کے سارے فیصلے میرے سامنے تھے اور میں اس کے آئیں سے برگشتہ نہ ہوا ۔ میں اس کے حضور کامل بھی رہا اور اپنی بدکاری سے باز رہا ‘ اس لئے خداوند نے مجھے میری راستی کے موافق بلکہ میری اس پاکیزگی کے مطابق جو اس کی نظر کے سامنے تھی بدلہ دیا ۔ “ (سموئیل 2 باب 22 : 18 تا 25) داؤد بن یسی کہتا ہے یعنی یہ اس شخص کا کلام ہے جو سرفراز کیا گیا اور یعقوب کے خدا کا ممسوح اور اسرائیل کا شریں نغمہ ساز ہے ۔ خداوند کی روح نے میری معرفت کلام کیا اور اس کا سخن میری زبان پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔ (سموئیل 2 باب 23 : 1 تا 3) ” سلیمان نے کہا تو نے اپنے خادم میرے باپ داؤد پر بڑا احسان کیا اس لئے کہ وہ تیرے حضور راستی اور صداقت اور تیرے ساتھ سیدھے دل سے چلتا رہا ۔۔۔۔۔ سو اس (سلیمان) نے کہا خداوند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے اپنے منہ سے میرے باپ داؤد سے کلام کیا ۔۔۔۔۔ اور داؤد کو چنا تاکہ وہ میری قوم اسرائیل پر حاکم ہو ۔ اب اے خداوند اسرائیل کے خدا اپنے بندے میرے باپ داؤد کے ساتھ اس قول کو بھی پورا کر جو تو نے اس سے کیا تھا کہ تیرے پاس میرے حضور اسرائیل کے تخت پر بیٹھنے کے لئے آدمی کی کمی نہ ہوگی بشرطیکہ تیری اولاد جیسے تو میرے حضور چلتا ہے ویسے ہی میری شریعت پر عمل کرنے کے لئے اپنی راہ کی احتیاط رکھے ۔۔۔۔۔ پھر بھی میں ساری سلطنت کو نہیں چھینوں گا بلکہ اپنے بندے داؤد کی خاطر اور یروشلم کی خاطر جسے میں نے چن لیا ہے ایک قبیلہ تیرے بیٹے کو دوں گا ـ۔۔۔۔۔ “ (سلاطین 1 باب 11 : 13) اور ایسا ہوگا کہ اگر تو ان سب باتوں کو جن کا میں تجھے حکم دوں سنے اور میری راہوں پر چلے اور جو کام میرے نظر میں بھلا ہے اس کو کرے اور میرے آئین و احکام کا مانے جیسا میرے بندہ داؤد نے کیا تو میں تیرے ساتھ رہوں گا اور تیرے لئے ایک پائیدار گھر بناؤں گا جیسا میں نے داؤد کے لئے بنایا اور اسرائیل کو تجھے دوں گا ۔ (سلاطین 1 باب 11 : 38) یہ تمام عبارات بھی تو راۃ ہی کی ہیں ‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ داؤد خدا کے مختار اور پسندیدہ بندے تھے ‘ بلاواسطہ اس سے ہمکلام ہونے کا شرف رکھتے تھے ‘ خدا کی شریعت کے کامل مطیع وفرمانبردار تھے ‘ راست باز ‘ پاک دامن اور باعفت بزرگ تھے اور خدا کے دیئے ہوئے ملک میں بنی اسرائیل کے امیر اور خلیفۃ اللہ تھے ‘ ہر وقت خدا کی حفاظت وصیانت ان کی کفیل تھی ‘ گویا برگزیدہ ” پیغمبر “ اور صاحب اقتدار ” حکمران “ تھے ۔ پس نہیں کہا جاسکتا کہ اہل کتاب تورات کے ان متضاد بیانات میں کس طرح تطبیق دیتے ہیں اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی شخصیت ان کی نگاہ میں کیا وقعت رکھتی ہے ؟ اگر داؤد ” نبی “ ہیں یا اخلاق حسنہ سے متصف ” کنگ داؤد “ ہیں تو حتی اور یاہ کی عورت سے متعلق داستان کا ان کے پاس کیا جواب ہے اور اگر اور یاہ کی بیوی کا واقعہ صحیح ہے تو اس مسطورہ بالامنقبت ومدحت کا استحقاق کس داؤد کو حاصل ہے ۔ اس کے برعکس قرآن کریم نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق تفصیل کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول اور معصوم پیغمبر ہیں ‘ خلیفۃ اللہ اور بنی اسرائیل کے امیر وحکمراں ہیں ، وہ کہتا ہے : (آیت) ” ولقد فضلنا بعض النبین علی بعض واتینا داؤد زبورا “۔ (الاسراء 17 : 55) ” اور بیشک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور بخشی۔ (آیت) ” ووھبنا لداود سلیمن نعم العبد انہ اواب “۔ (ص 38 : 30) ” اور ہم نے داؤد کو سلیمان بخشا داؤد اچھا بندہ ہے بلاشبہ وہ خدا کی رحمت کی جانب رجوع ہونے والا ہے ۔ (آیت) ” ولقد اتینا داؤد منا فضلا “۔ (سباء 34 : 10) ” اور بلاشبہ ہم نے داؤد کو اپنی جانب سے فضیلت بخشی ہے ۔ (آیت) ” وشددنا ملکہ واتینہ الحکمۃ وفصل الخطاب “۔ (ص 38 : 20) ” اور ہم نے اس (داؤد) کو مضبوط ملک عطا کیا اور اس کو حکمت سے نوازا اور حق و باطل کے فیصلہ کی قوت بخشی ۔ (آیت) ” ولقد اتینا داؤد سلیمن علما وقالا الحمد للہ الذی فضلنا علی کثیر من عبادہ المؤمنین “۔ (النمل 27 : 15) ” اور بلاشبہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو ” علم “ سے بہرہ ور کیا اور ان دونوں نے کہا ” اس اللہ کے لئے ہر طرح کی حمد جس نے اپنے بہت سے مومن بندوں پر ہم کو فضیلت اور برتری عطا فرمائی ۔ ان تمام آیات میں حسب عادت قرآن کریم نے کتب سابقہ کے ان خیالات کی تردید اور اصلاح فرمائی ہے جو ان کے پیروؤں کی تحریف وتبدیل کی بدولت ان میں بطور معتقدات داخل ہوگئے ہیں ۔ اس نے تاریخ کے اس تاریک پردہ کو چاک کر کے بتایا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان بنی اسرائیل میں مقدس ہستیاں گزری ہیں وہ خدا کے سچے نبی اور پیغمبر ہیں اور ہر قسم کے گناہ اور نافرمانیوں سے مقدس اور پاک ہیں ۔ مگر افسوس اور صد ہزار افسوس کہ قرآن کریم کے اس مقدس اعلان کے باوجود حتی اور یاہ کی بیوی کی اس خرافی داستان کو تورات اور اسرائیلیات سے لے کر بعض مفسرین نے قرآن کریم کی تفسیر میں نقل کردیا اور اسرائیلی ہفوات کو بلا دلیل وسند اسلامی روایات کی حیثیت دے دی ۔ ان سادہ لوح بزرگوں نے یہ مطلق خیال نہیں فرمایا کہ جن خرافی داستانوں کو آج وہ اسرائیلی روایات کی حیثیت سے قرآن کریم کی تفسیر میں نقل کر رہے ہیں کل وہ آیات قرآنی کی تفسیر وتشریح سمجھی جا کر امت مرحومہ کے لئے فتنہ سامانی کا باعث بنیں گی اور ان کی گمراہی کا سبب ثابت ہوں گی اور حیرت وصد حیرت ہے بعض ان جدید وقدیم متکلمین پر جنہوں نے اس قسم کی ہزلیات کو سختی کے ساتھ رد کردینے اور ان بہتان طرازیوں کو مردود قرار دینے کے بجائے ان روایات کے نیک محمل تلاش کرکے ان کو قابل قبول بنانے کی سعی نامشکور فرمائی ہے اور بےمحل حسن ظن سے کام لے کر اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ یہ تاویلات جو اس خرافی روایات کے بارہ میں کی جا رہی ہیں ‘ ریت کی دیوار اور تار عنکبوت ہیں اور کسی نہ کسی اسلوب کے ساتھ اس کو تسلیم کرنے سے ” عصمت انبیائ “ جیسے اہم اور بنیادی اسلامی عقیدہ پر ضرب کاری لگاتی ہیں اور یہ کہ انبیاء ورسل کی جانب اس قسم کے انتساب سے جبکہ قرآن کریم کا دامن پاک اور بےلوث ہے اور وہ اس قسم کی روایات کو بہتان عظیم سمجھتا ہے تو پھر کسی شخص کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس تفسیر میں اس قسم کی خرافات کا تذکرہ کرے ۔ بہرحال ان مفسرین نے جن آیات کی تفسیر میں اس زہر ہلاہل کو ملایا ہے وہ سورة ص میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے متعلق ہے ۔ (آیت) ” وَہَلْ أَتَاکَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ (21) إِذْ دَخَلُوا عَلَی دَاوُودَ فَفَزِعَ مِنْہُمْ قَالُوا لَا تَخَفْ خَصْمَانِ بَغَی بَعْضُنَا عَلَی بَعْضٍ فَاحْکُم بَیْْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاہْدِنَا إِلَی سَوَاء الصِّرَاطِ (22) إِنَّ ہَذَا أَخِیْ لَہُ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَۃً وَلِیَ نَعْجَۃٌ وَاحِدَۃٌ فَقَالَ أَکْفِلْنِیْہَا وَعَزَّنِیْ فِیْ الْخِطَابِ (23) قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ إِلَی نِعَاجِہِ وَإِنَّ کَثِیْراً مِّنْ الْخُلَطَاء لَیَبْغِیْ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ إِلَّا الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہُ وَخَرَّ رَاکِعاً وَأَنَابَ ۔ (24) فَغَفَرْنَا لَہُ ذَلِکَ وَإِنَّ لَہُ عِندَنَا لَزُلْفَی وَحُسْنَ مَآبٍ (25) یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّونَ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَابِ (ص 38 : 21 تا 26) ” اور کیا تجھ کو ان دعوے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار کود کر عبادت خانہ میں گھس آئے داؤد کے پاس تو داؤد ان سے گھبرایا وہ بولے گھبراؤ نہیں ہم دو جھگڑ رہے ہیں ۔ زیادتی کی ہے ایک دوسرے پر سو ہمارے درمیان انصاف کے مطابق فیصلہ کر دے اور ٹالنے والی بات نہ کرنا اور ہم کو سیدھی راہ بتا یہ میرا بھائی ہے اس کے اس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے یہاں ایک دنبی ہے ‘ پس یہ کہتا ہے کہ وہ ایک بھی میرے حوالہ کر دے اور مجھ سے گفتگو میں بھی تیز ہے ‘ داؤد نے کہا وہ اپنی دنبیوں میں تیری ایک دنبی کو ملانے کے لئے جو سوال کرتا ہے ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں الا یہ کہ جو ایمان لائے اور عمل کئے انہوں نے نیک اور ایسے بہت کم ہیں اور داؤد کے خیال میں گزرا کہ ہم نے اس کا امتحان لیا پس مغفرت چاہئے لگا وہ اپنے رب سے اور گر پڑا جھک کر اور رجوع ہوا (خدا کے سامنے) پھر ہم نے اس کو وہ کام معاف کردیا اور اس کے لئے ہمارے پاس (عزت کا) مرتبہ ہے اور اچھا ٹھکانا ، اے داؤد ہم نے تجھ کو ملک میں (اپنا) نائب مقرر کیا ہے سو تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ حکومت کر اور نفس کی خواہش پر نہ چل کہ وہ تجھ کو اللہ کی راہ سے بھلا دے جو لوگ اللہ کی راہ کو بھلاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے ۔ آیات کی باطل تفسیر : اس جگہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ایک امتحان کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کو پیش آیا ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اول اس کو نہیں سمجھا مگر یکایک دل میں یہ خیال آیا کہ یہ منجانب اللہ ایک آزمائش ہے لہذا فورا ہی اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کی طرح حق تعالیٰ کی جانب رجوع کیا ‘ استغفار کیا اور درگاہ الہی میں ان کا استغفار قبول ہو کر ان کی عظمت شان اور تقرب الی اللہ کا باعث بنا ۔ معاملہ صرف اسی قدر تھا لیکن بعض مفسرین نے جب یہ دیکھا کہ قرآن کریم نے اس آزمائش کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی اور تورات اور ” اسرائیلی روایات “ میں اور یاہ کی بیوی کی ایک داستان موجود ہے جس میں حضرت داؤد (علیہ السلام) سے خدا کی ناراضگی کا بھی ذکر ہے تو بلا تامل اس خرافات کو اس آیت کی تفسیر بنا کر آزمائش ‘ استغفار اور قبول استغفار کو اس کے ساتھ چسپاں کردیا ۔ یہ دیکھ کر جلیل القدر مفسرین اور محققین سے ضبط نہ ہوسکا اور انہوں نے روشن دلائل وبراہین کے ساتھ یہ واضح کیا کہ اس خرافی روایت کا سورة ص کی ان آیات کی تفسیر سے دور کا بھی کوئی علاقہ نہیں ہے اور نہ صرف یہ بلکہ یہ پوری داستان از اول تا آخر یہودیوں کی من گھڑت اور پر از بہتان روایتیں ہیں جن کے لئے اسلامیات میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ چناچہ حافظ عماد الدین بن کثیر (رح) اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں : قد ذکر المفسرون ھھنا قصۃ اکثرھا ما خوذ من الاسرائیلیات ولم یثبت فیھا عن المعصوم حدیث یحب اتباعۃ (تفسیر ابن کثیر سورة ص) اس جگہ مفسروں نے ایک ایسا قصہ بیان کیا ہے بلاشبہ جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے لیا گیا ہے اور اس بارے میں رسول اکرم ﷺ سے ایک حدیث بھی موجود نہیں ہے کہ جس کی پیروی ضروری ہوجائے ۔ اور اپنی تاریخ البدایہ والنھایہ میں اس سے بھی زیادہ زور کے ساتھ فرماتے ہیں ۔ وقد ذکر کثیر من المفسرین من السلف والخلف ھھنا قصصا واخبارا اکثرھا اسرائیلیات ومنھا ماھو مکذوب لا محالۃ ترکنا ایرادھا فی کتابنا قصدا اکتفاء واقتصارا علی مجرد تلاوہ القصۃ من القران العظیم واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم ۔ اور بہت سے اگلے اور پچھلے مفسروں نے اس مقام پر چند قصے اور حکایتیں نقل کی ہیں ان میں سے اکثر وبیشتر یہودیوں کی من گھڑت روایتیں ہیں اور بعض ان میں سے یقینی طور پر جھوٹی اور باطل ہیں ہم نے اس لئے ان کو قصدا بیان نہیں کیا اور قرآن عظیم نے جس قدر واقعہ بیان کیا ہے صرف اسی قدر بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے راہ مستقیم پر چلاتا ہے ۔ اور کتاب الفضل میں حافظ ابو محمد بن حزم ان آیات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں : وھذا قول صادق صحیح لا یدل علی شی مما قالہ المستھزء ون الکاذبون المتعلقون بخرا فات ولدھا الیھود (الفصل فی الملل والنمل ج 2 ص 14) اور قرآن کا یہ قول سچا اور صحیح ہے اور یہ کسی طرح بھی اس روایت پر دلالت نہیں کرتا جس کو ان مسخروں ‘ کاذبوں نے بیان کیا ہے جو ایسی خرافات سے لپٹے رہتے ہیں جن کو یہود نے ایجاد کیا ہے ۔ اسی طرح نسیم الریاض میں خفاحی نے ‘ شفاء میں قاضی عیاض نے بحرالمحیط میں ‘ ابو حیان اندلسی نے تفسیر کبیر میں امام رازی (رح) نے اور دیگر محققین نے اس تمام خرافات کو مردود قرار دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ اس سلسلہ میں نبی معصوم ﷺ سے کوئی تفصیل منقول نہیں ہے ۔ آیات کی صحیح تفاسیر : پھر ان تمام خرافات سے الگ ہو کر ان محققین نے آیات کی جو تفسیریں کی ہیں وہ یا صحیح آثار صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) سے منقول ہیں اور یا قرآن کریم کے سیاق وسباق کو پیش نظر رکھ کر ذوق سلیم کے ذریعہ کی گئی ہیں ۔ اس لئے یہی صحیح اور قابل توجہ ہیں ۔ (10) ۔ علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ واقعہ صرف اس قدر ہے کہ دو شخص محراب داؤد میں داخل ہوگئے جہاں حضرت داؤد (علیہ السلام) عبادت الہی میں مشغول تھے اور چونکہ ان دونوں کا معاملہ حقیقی اور واقعی تھا اور ان کو اس کے طے کرانے میں عجلت تھی اس لئے وہ دیوار پھاند کر چلے آئے ‘ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے مدعی کا بیان سن کر تذکیر ووعظ کے پیش نظر اول زمانے کے فساد حال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ زیردستوں پر ارباب قوت کے مظالم کا ہمیشہ یہی حال رہا ہے کہ وہ ان کی زندگی کو صرف اپنی راحت کا ایک آلہ سمجھتے رہے ہیں اور یہ بہت ہی بری بات ہے ۔ البتہ اللہ کے مومن بندے جو نیکو کار بھی ہیں ایسے مظالم سے بچتے اور اللہ کا خوف کرتے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ اس کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) نے انصٓف پر مبنی فیصلہ کرکے قضیہ کو ختم کردیا جب فریقین چلے گئے تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بلند احساسات نے ان کے قلب و دماغ کو ادھر متوجہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان حکومت اور بےنظیر سطوت جو ان کو بخشی ہے درحقیقت یہ ان کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے اور امتحان ہے اس امر کا کہ ذات واحد نے اپنی اس کثیر مخلوق پر مجھ کو جو عزت وبلندی عطا فرمائی ہے ‘ اس سے متعلق عائد شدہ فریضہ کو میں کہاں تک صحیح طور پر انجام دیتا اور خدا کی اس نعمت کا اپنی عملی زندگی سے کس طرح شکر ادا کرتا ہوں ۔ چناچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اس وجدانی کیفیت کا اس قدر اثر پڑا کہ وہ فورا درگاہ الہی میں سربسجود ہوگئے اور طلب مغفرت کرتے ہوئے اعتراف کرنے لگے کہ خدایا اس عظم المرتبت ذمہ داری سے سبکدوش ہونا بھی میری اپنی طاقت سے باہر ہے جب تک کہ تیری اعانت شامل حال نہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کا یہ عمل پسند آیا اور اس کی مغفرت نے ان کو اپنی آغوش میں ڈھانپ لیا ۔ ابن حزم اس تفسیر کے بعد فرماتے ہیں کہ ” استغفار “ خدا کی درگاہ میں ایسا محبوب عمل ہے کہ اس کے لئے ہرگز یہ ضروری نہیں کہ اس سے پہلے گناہ اور معصیت وجود میں آئے اور پھر اس کے ردعمل کے طور پر طلب مغفرت کی جائے ، یہی وجہ ہے کہ ” استغفار “ ملائکۃ اللہ سے بھی ثابت ہے حالانکہ قرآن کریم نے تصریح کی ہے کہ ملائکۃ اللہ کی شان یہ ہے ۔ (آیت) ” لایعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون “۔ (التحریم 66 : 6) ” وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے ۔ “ چناچہ قرآن کریم نے فرشتوں کے استغفار کا اس طرح ذکر کیا ہے : (آیت) ” ویستغفرون للذین امنوا ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما فاغفرللذین تابوا واتبعوا سبیلک “۔ (ال مومن 40 : 7) ” اور وہ فرشتے استغفار کرتے ہیں مومنوں کے لئے (اور کہتے ہیں) اے ہمارے پروردگار تو ہر شے پر اپنی رحمت اور اپنے علم سے چھایا ہوا ہے تو بخش دے ان کو جو تیری جانب رجوع ہوتے ہیں اور تیری راہ کی پیروی کرتے ہیں ۔ ابن حزم کی اس تفسیر کی تائید میں ہم اس قدر اور اضافہ کرتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زیر بحث واقعہ میں قرآن کریم نے ان کے عصیان اور گناہ کا مطلق کوئی تذکرہ نہیں کیا بلکہ (فتناہ) کہہ کر صرف یہ بتایا ہے کہ ان کو کسی آزمائش میں ڈال دیا گیا اور آزمائش کے لئے ہرگز یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی گناہ اور خطا سے ہی متعلق ہو جیسا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ساتھ امتحان کا معاملہ پیش آیا ۔ لہذا حضرت داؤد (علیہ السلام) کا یہ معاملہ بھی کسی معصیت یا گناہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ پیغمبرانہ شان کے مطابق احساس فرض اور خدا کے حضور میں اپنی عبودیت وبیچارگی کا بہترین مظاہرہ تھا ۔ اس پر مزید بھی بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے لیکن اس جگہ اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عمر اور وفات : تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) نے سو سال عمر پائی اور اسرائیلیوں میں چالیس سال حکومت کی اگر یہ روایات صحیح ہیں تو ان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کو نبوت و رسالت پہلے عطا ہوئی اور حکومت بعد میں ملی چناچہ تحریر ہے کہ : ” اور داؤد بن ایشی نے سارے اسرائیلیوں پر سلطنت کی اور وہ عرصہ جس میں اس نے اسرائیل پر سلطنت کی چالیس برس کا تھا اس نے حیرون میں سات برس اور یروشلم میں پینتیس برس سلطنت کی اور اس نے بڑھاپے میں خوب عمر رسیدہ ہو کر اور دولت وعزت سے آسودہ ہو کر وفات پائی ۔ “ (تواریخ 1 باب 29 : 26 ، 28) عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا انتقال اچانک سبت کے دن ہوا وہ سبت کے دن مقررہ عبادت میں مشغول تھے کہ اچانک اس حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔ (فیض الباری جلد 2 کتاب الانبیائ) تورات کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ” داؤد اپنے باپ دادا کے ساتھ سو گیا اور داؤد کے شہر صیہوں میں دفن ہوا “۔ (سلاطین 1 باب 2 : 11) سیدنا دادؤ (علیہ السلام) کی مقدس زندگی کے واقعات و حالات نے ہمارے لئے جن بصیرتوں اور عبرتوں کو پیش کیا ہے وہ اگرچہ بہت وسیع دائرہ رکھتی ہیں تاہم ان میں سے چند ایک کا ذکر کردینا مفید مطلب نظر آتا ہے تاکہ ان سے ہم بھی درس حاصل کرسکیں ۔ 1۔ اللہ تعالیٰ جب کسی ہستی کو اولو العزم بناتا ہے تو اس کی شخصیت کو خاص فضائل سے سرفراز کردیتا ہے اور اس کے فطری جوہروں کو شروع ہی سے چمکا دیتا ہے اور اس میں بہادری اور اولوالعزمی ہر بینا آنکھ کو نظر آنے لگتی ہے ۔ غور کرو کہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کو زندگی کے ابتدائی دور ہی میں جالوت جیسے جابر وقاہر بادشاہ کے مقابلہ میں لا کر ان کے ہاتھوں سے جالوت کو قتل کروا دیا جس سے آپ کی شجاعت کا سکہ اہل یہود کے دلوں میں بیٹھ گیا ۔ 2۔ بسا اوقات ایک معمولی انسان کو اللہ تعالیٰ اٹھا کر آسمان رفعت پر پہنچا دینا چاہتا ہے تو اس سے ایسے کام سرزد ہونے لگتے ہیں اور وہ اس طرح انہی کاموں کے باعث آسمان رفعت کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور اس طرح ہوتے ہوتے وہ مرہوب چیز تک پہنچ جاتا ہے یہ سنت اللہ آج بھی جاری وساری ہے اگر کوئی بینا آنکھ رکھتا ہے تو وہ دیکھ سکتا ہے جو چیز ختم ہوئی ہے وہ فقط نبوت و رسالت ہے نبی اعظم وآخر ﷺ کی نبوت و رسالت کی دعوت قیامت تک جاری وساری رہے گی اور دعوت حق جاری ہو تو داعی کیوں نہیں ہوگا ؟ ۔ 3۔ خلیفۃ اللہ اور طاغوتی بادشاہی کے درمیان واضح فرق موجود ہے اول الذکر میں ہمہ قسم کی سطوت و شوکت کے باوجود فروتنی ‘ تواضع اور خدمت خلق نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں اور ثانی الذکر میں کبر ‘ انانیت ‘ جبر اور قہر مانیت کا غلبہ پایا جاتا ہے اس لئے دونوں ایک طرح کے نہیں ہو سکتے ۔ 4۔ قانون الہی ہے کہ جو ہستی عزت اور عروج پہنچنے کے بعد جس قدر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے فضل و کرم کا اعتراف کرتی ہے اسی قدر اس کو بیش از بیش انعام واکرام سے اور زیادہ نوازا جاتا ہے ۔ داؤد (علیہ السلام) کی زندگی ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے ۔ 5۔ دین و مذہب کا تعلق اگرچہ روحانیت سے ہے تاہم مادی طاقت وقوت بھی اس کی بہت حد تک پشت پناہ ہے اس لئے دونوں کا اجتماع نور علی نور ہے جس کی فضیلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے طاغوتی طاقت وقوت قطعا مراد نہیں ۔ 6۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے اور توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ ہر حال میں ہونا چاہئے اور خصوصا دنیوی طاقت سطوت آنے کے بعد ان کی طرف زیادہ متوجہ رہنا چاہئے ۔ 7۔ اسلام کبھی دنیوی ترقی حاصل کرنے کے خلاف نہیں لیکن اس سلسلہ کا ہر قدم اسلامی ہدایات کے مطابق اٹھنا ضروری ہے طاغوتی راہنمائی میں اٹھایا گیا ہر قدم سیدھی راہ سے دور ہی کرتا چلا جائے گا ۔ 8۔ اسلام کی نظر میں عقل وفکر کا استعمال آزادی کے ساتھ کرنے کا حق ہر انسان کے لئے ہے اس میں بڑے اور چھوٹے کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا الا یہ کہ چھوٹے سے جب کسی ایسی بات کا اظہار ہوگا تو اس کو سراہا جانا بہت ضروری ہے تاکہ اس کی ہمت اس راہ میں مزید ترقی پذیر ہو لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں یہ بات الٹ ہوچکی ہے ۔ 9۔ غیر نبی کے مقابلہ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور رسل عظام کا درجہ عظمت بہت زیادہ ہے اور یہ بھی کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں ان کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی گئی ہو جو اخلاقیات سے گری ہوئی ہو تو اس کا صاف انکار کردینا لازم وضروری ہے بشرطیکہ اس کا مفہوم اس کے سوا اور ممکن نہ ہو اگر مفہوم علاوہ مشہور ومعروف مفہوم کے ممکن ہو تو وہی بیان کرنا مفید مطلب ہے ۔ 10۔ اللہ تعالیٰ قومی مناصب میں سے کسی منصب پر فائز کر دے تو اس منصب سے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے اور قومی فائدہ کو پیش نظر رکھنا ہر حال میں ضروری ہے خواہ اپنا ذاتی نقصان کرکے وہ حاصل کرنا پڑے اور اس بات کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہئے اور اس معاملہ میں اپنا تجزیہ کرتے رہنا چاہئے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی مختصر سرگزشت : سیدنا سلیمان (علیہ السلام) سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے صاحبزادے ہیں ان کا اصل نام عبرانی زبان میں سولومون تھا جو ” سلیم “ کا ہم معنی ہے ۔ آپ 965 ق م میں داؤد (علیہ السلام) کی جگہ جانشین ہوئے اور 926 ق م تک تقریبا 40 سال فرمانروا رہے اور ان کی والدہ ماجدہ کا نام معلوم نہیں ہوسکا تورات نے اگرچہ اس کا نام بنت سبع “ بتایا ہے لیکن اس طرح کہ وہ پہلے اور یاہ کی بیوی تھی اور پھر داؤد (علیہ السلام) کی بیوی بنی اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) اس سے پیدا ہوئے مگر اس قصہ کی لغویت داؤد (علیہ السلام) کی سرگزشت میں واضح کردی ہے اس لئے اس کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی والدہ قرار دینا کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی والدہ کی نصیحت کا ذکر پایا جاتا ہے لیکن وہاں اس کا نام نہیں بتایا گیا ۔ قرآن کریم میں سورة البقرہ ، النساء ‘ الانعام ‘ الانبیاء ‘ النمل ‘ سباء اور ص میں آیا ہے ۔ لیکن مختصر اور کہیں تفصیل سے اور یہ بات پہلے معلوم ہے کہ قرآن کریم میں جو تفصیلات قصص کے سلسلہ میں ہیں وہ تاریخی واقعات کی نہیں بلکہ وہی ہیں جن میں ہماری زندگی کے لئے کوئی نہ کوئی سبق موجود ہوتا ہے ۔ قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) بچپن ہی میں فیصلہ کرنے کی صلاحتیں رکھتے تھے جس عمر میں عام بچے ایسی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) سن رشد کو پہنچ چکے تھے کہ داؤد (علیہ السلام) کا انتقال ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت اور حکومت دونوں میں داؤد (علیہ السلام) کا جانشین بنا دیا اور اس طرح فیضان نبوت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت بھی ان کو عطا کردی قرآن کریم نے اس جانشینی کو وراثت داؤد سے تعبیر کیا ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” وورث سلیمن داؤد “۔ (النمل 27 : 16) ” اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا “ ۔ لیکن یہ الفاظ مفسرین کے ہاں ایک بہت بڑی بحث کا باعث بن کر رہ گئے کیونکہ انبیاء کی وراثت کا مسئلہ ان کے ہاں مختلف فیہ تھا اور یہ ایسا اختلاف تھا جو شیعہ اور سنی کا اختلاف تصور کیا گیا لیکن ہم اس بحث کو اس جگہ چھیڑنا نہیں چاہتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی حدیث کا مفہوم وہ ہے جو عام طور پر سمجھا گیا ہے کسی نبی و رسول کا ذاتی مال چھوڑ کر نہ جانا اور بات ہے اور وراثت کا جاری ہونا اور بات ۔ اسی طرح قومی مال اور ذاتی مال دونوں کی اقسام مختلف ہیں وراثت ذاتی مال میں ہوتی ہے قومی مال میں نہیں ۔ ذاتی مال ہوگا تو یقینا وہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق تقسیم بھی ہوگا اور اس سے کسی کو قرآن کریم نے مستثنی نہیں کیا اور نہ ہی حدیث میں اس طرح کی کوئی بات موجود ہے اور قرآن کریم نے سلیمان (علیہ السلام) کے دوسرے بہن بھائیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن عدم ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے کوئی بہن بھائی نہیں تھے اور تاریخ سے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے بہن بھائیوں کا پتہ چلتا ہے ۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو بھی بعض خصوصیات اور امتیازات سے نوازا اور اپنی نعمتوں سے بعض ایسی نعمتیں ان کو عطا فرمائیں جو آپ کی زندگی مبارک کا طغرائے امتیاز ہوئیں ‘ ان میں سے منطق الطیر تسخیر ریاح ‘ تسخیر جن وطیور اور بیت المقدس کی تعمیر وغیرہ ہیں اور اسی طرح قرآن کریم نے آپ کی آزمائش کا مختصر ذکر بھی کیا ہے لیکن ان ساری باتوں میں مفسرین نے اسرائیلیات پر انحصار کرتے ہوئے ان کی تفسیر میں بہت کچھ رطب ویابس بھر دیا ہے اور عوام میں اس سلسلہ میں عجیب و غریب داستانیں بیان کی جاتی ہیں جن کا نہ سر ہے نہ پیر۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) اور منطق الطیر : نطق کیا ہے ؟ نطق اور منطق وہ بولی جو دل کی بات کو ظاہر کرتی ہے خواہ مفرد ہو یا مرکب قاموس میں ہے نطق ینطق (باب ضرب) نطقا ومنطقا ونطوقا “ (تینوں مصدر) آواز کے ساتھ اور ایسے حروف کے ساتھ تلفظ کرنا جس سے معنی سمجھ آسکیں ۔ بلاشبہ انسان کے لئے اس کی زبان تلفظ کرکے ہی ایک بات کو دوسرے تک پہنچاتی ہے لیکن یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بعض اوقات اشاروں سے ایک آدمی دوسرے کو وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو زبان بھی نہیں سمجھا سکتی پھر بعض اوقات فقط دیکھنے ہی دیکھنے میں ایک دوسرے کو بات سمجھا دی جاتی ہے اور دل سے دل کو راہ ہونے کا محاورہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب طریقے نطق ہی میں آتے ہیں ۔ جس طرح انسان دوسرے انسان کو کوئی بات پہنچاتا ہے بلاشبہ سارے حیوانات خواہ وہ چرند ہوں یا پرند ایک دوسرے کو اپنی بات پہنچاتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات کو سمجھتے ہیں اور انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے اس لئے اگر وہ کوشش کرے تو دوسرے حیوانات کی بات سمجھ سکتا ہے اور ان کو اپنی بات سمجھا سکتا ہے اس میں نہ کوئی بات عقل وفکر کے خلاف ہے اور نہ ہی عقل وفکر سے دور ہے آج ہی نہیں بلکہ آج سے بہت عرصہ پہلے یہ بات عام تھی کہ انسان نے پرندوں ‘ چرندوں ‘ درندوں سے وہ وہ کام لئے جو ایک انسان کے اختیار وبس میں نہیں ہیں کہ وہ ان کو سرانجام دے سکے ۔ اس سے یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ان سب حیوانات میں بھی نطق وادراک موجود ہے اور انسان ان کو اپنی بات سمجھا سکتا اور ان کی سمجھ سکتا ہے چناچہ پرندوں سے پیغام رسانی کا کام لیا جانا زبان زد خاص وعام ہے اور خصوصا کبوتر سے یہ ، کام لیا جانا سب جانتے ہیں ۔ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی حکومت کو اتنی وسعت دی کہ وہ رقبہ کے لحاظ سے بھی وسیع و عریض ہوئی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی انہوں نے بےپناہ ترقی حاصل کی انہی شعبوں میں ایک شعبہ پرندوں کی منطق کا بھی تھا اور ان سے مملکت کے کام لئے جاتے تھے اور اس شعبہ میں آپ نے اتنی طرقی حاصل کی اس کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) اپنے درباریوں کو مخاطب کرکے فرمایا (آیت) ” یایھا الناس علمنا منطق الطیر “۔ اے لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے یعنی ہم ان سے کام لیتے ہیں ان کی بات سنتے اور اپنی ان کو سناتے ہیں اور جو جو کام ہم ان سے لینا چاہتے ہیں وہ ہم کو بحسن و خوبی دے رہے ہیں اور اس طرح گویا آپ نے اپنی فضائی فوج بھی تیار کر رکھی تھی جو آپ کے حکم سے کام کرتی تھی اور آپ کے حکم سے مراد ظاہر ہے کہ آپ کی حکومت ہی کا حکم مراد ہے کہ حکومت کے سارے کاموں کی نسبت حکمران اعلی ہی کی طرف کی جاتی ہے اور اس وقت اپنے ملک کے حکمران اعلی سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ہی تھے ۔ قرآن کریم کی اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات جن میں صاف صاف تصریح ہے کہ کائنات کی ہرچیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے (آیت) ” ولکن لاتفقھون تسبیحھم “۔ (بنی اسرائیل 17 : 44) ” اور لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ۔ “ ۔ یہ ہرچیز کی نطق پر دال ہے خواہ ہر انسان ان کی نطق کو سمجھتا ہو لیکن اگر کوئی کوشش کرے تو یقینا سیکھ بھی سکتا ہے اور بغیر سیکھے تو ہر انسان ہر دوسرے انسان کی نطق کو بھی نہیں سمجھ سکتا ۔ دو پنجابی آپس میں بات کر رہے ہوں تو ضروری نہیں کہ ایک پٹھان بھی ان کی بات کو سمجھتا ہوں اور اسی طرح دو انگریز آپس میں بات کر رہے ہو تو ضروری نہیں کہ ہر پنجابی ان کی بات کو سمجھتا ہوں وقس علی ہذا ۔ لیکن اگر کوشش کی جائے تو ہر انسان دوسرے کی بولی کو سمجھ سکتا ہے اور یہی حال جانوروں کی نطق کا بھی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ زبان سے بول کر ہی کچھ کہیں یا سمجھیں نہیں وہ حکم بجا لانے لگیں جو کچھ ان سے اشارہ سے کہا جائے وہ اس کو بجا لانے لگیں تو اس کو بیان کرتے وقت یہی کہیں گے کہ ہم ان کی بولی جانتے ہیں اور ان کی بات کو سمجھتے اور اپنی بات ان کو سمجھا سکتے ہیں چناچہ دوسری جگہ قرآن کریم نے کتوں اور شکاری جانوروں کو سکھانے کا ذکر کیا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : (آیت) ” وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللہ “۔ (المائدہ 5 : 4) ” اور شکاری جانور جو تم نے شکار کے لئے سدھا رکھے ہوں اور شکار کا طریقہ جیسا کچھ اللہ نے تم کو سکھا دیا ہے تم انہیں سکھا دو ۔ “ اس آیت میں (علمکم اللہ) سے جو مراد لی جاسکتی ہے وہ مراد سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے اس کلام سے سمجھنی چاہئے جو آپ نے فرمایا کہ (آیت) ” علمنا منطق الطیر “۔ ہم پرندوں کی بولی سکھائے گئے ۔ لیکن افسوس کہ ہماری مفسرین نے اس طرف دھیان نہ دیا اور وہ بات جو فطری طور پر انسان کے اندر اور دوسرے حیوانات کے اندر اللہ تعالیٰ نے رکھی تھی اس کی طرف دھیان نہ دے کر کہاں سے کہاں نکل گئے ، وہ قومیں جنہوں نے ایسی فطری باتوں پر غور کیا وہ روز بروز ترقی کرتی گئیں اور انہوں نے اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ان تسخیر کردہ چیزوں سے کام لے کر جو نباتات و جمادات اور مختلف دھاتوں ‘ مادوں اور گیسوں سے تعبیر ہوتی تھیں کہاں سے کہاں نکل گئے اور ہم اس بحث میں الجھے رہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو یہ منطق الطیر معجزانہ طور پر عطا کی گئی تھی تاکہ اس کا تعلق فرد واحد سے قائم رہے اور اس سے سبق حاصل کرکے قوم ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع نہ کر دے ۔ کیونکہ یہ کام مسلمانوں کے کرنے کا نہیں اس کام کے لئے اللہ نے دوسری قومیں تیار کی ہیں جو مسلمان نہیں اور ہمارے مفسرین نے اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے بڑی عجیب و غریب روایات گھڑ کر بیان کردیں جن کو آج تک ہم پڑھتے ہیں اور پھر پڑھ پڑھ کر جھومتے ہیں اور انہی کو قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر سمجھتے ہیں ۔ چناچہ تحریر ہے کہ : ٍ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت کعب ؓ نے فرمایا سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے پاس جنگلی کبوتر نے آواز نکالی تو آپ نے لوگوں سے پوچھا کیا تم کو معلوم ہے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے جواب دیا ‘ نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ کہہ رہا ہے ” مرنے کے لئے جنو یعنی بچے پیدا کرو اور ویران ہونے کے لئے عمارتیں بناؤ ۔ “ فاختہ نے آواز نکالی تو آپ نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہی ہے ؟ حاضرین نے کہا نہیں ‘ فرمایا یہ کہہ رہی ہے ” کاش ! یہ مخلوق پیدا نہ کی جاتی “ مور بولا تو آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ کہہ رہا ہے ” جیسا دوسروں سے معاملہ کرو گے ویسا ہی تم سے کیا جائے گا “ ہدہد نے آواز نکالی تو پوچھا یہ کہ کہہ رہا تمہیں معلوم ہے حاضرین نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ کہہ رہا ہے ” جو رحم نہیں کرے گا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ “ ترمتی نے آواز دی تو آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہی ہے حاضرین نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ کہہ رہی ہے ” گنہگارو اللہ سے معافی کی درخواست کرو۔ “ تیہوچیخا تو آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ کہہ رہا ہے ” ہر زندہ مرے گا اور ہر نیا پرانا اور فرسودہ ہوگا ۔ “ خطاف بولا تو آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہا ہے حاضرین نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ کہہ رہا ہے ” پہلے سے نیکی بھیجو وہاں تم کو مل جائے گی ۔ “ کبوتری نے آواز دی تو آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہی ہے حاضرین نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ کہہ رہی ہے ” پاکیزگی بیان کرو میرے رب برتر کی اتنی کہ زمین و آسمان کو بھر دے “ قمری چیخی تو آپ نے پوچھا جانتے ہو یہ کیا کہہ رہی ہے حاضرین نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ کہہ رہی ہے ” میرے رب اعلی کی پاکی بیان کرو پھر آپ نے فرمایا کہ ” کوا عشر وصول کرنے والے کو بددعا دیتا ہے “ اور چیل کہتی ہے ” سوائے اللہ کے ہرچیز کو فنا ہے “ اور قسطاۃ کہتی ہے ” جو خاموش رہا محفوظ رہا “ اور طوطا کہتا ہے ” تباہی اس کے لئے جس کا مقصد دنیا ہی ہے “ اور مینڈک کہتا ہے ” میرے رب قدوس کی پاکی بیان کرو “ اور باز کہتا ہے ” میرے رب کی پاکی بیان کرو “۔ اور مینڈکی کہتی ہے ” پاکی بیان کرو اس کی جس کا ذکر ہر زبان پر ہے “ اس طرح مختلف جانوروں کے نام لے لے کر ان کی صداؤں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کی نسبت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے اور یہی وہ تفسیر ہے جس کو سلف صالحین کی تفسیر کا نام دیا جاتا ہے اور پھر ان روایتوں پر مزید روایتیں بیان کی جاتی ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے فلاں فلاں جانوروں کی آوازوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ان کی آوازوں کا مطلب اس طرح بیان کیا مثلا پوچھا گیا کہ مرغ اپنی بانگ میں کیا کہتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا وہ کہتا ہے کہ ” غافلو ! اللہ کی یاد کرو “ اور چنڈول کہتا ہے ” اے اللہ محمد اور آل محمد سے بغض رکھنے والوں پر لعنت کر “ اور گھوڑا کہتا ہے کہ ” سبوح قدوس رب الملئکہ والروح “ پھر اسی طرح کی روایات حضرت امام جعفر ‘ امام حسین ‘ اور مکحول سے بیان کی گئی ہیں لیکن ذرا غور کرو اور دیکھو کہ ان باتوں کی تفسیر سے زیر نظر آیت سے بھی کیا کوئی نسبت ہے ؟ ایسی باتوں پر غور وفکر کرکے یہ تلاش کرنا کہ یہ یہ راوی بہت ثقہ اور ان کی روایتیں ہر لحاظ سے سے قابل سند ہیں اور اس میں فلاں راوی کی ثقاہت فلاں فلاں امام نے کی ہے کچھ فائدہ ؟ پھر کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ یہ سب کچھ جس نے کہا اس کو مبارک اس کا تفسیر سے کوئی تعلق نہیں اور قرآن کریم کے ساتھ یہ ظلم ہے کہ اس کے سوا اور کچھ نہیں اور نبی اعظم وآخر ﷺ نے ہم کو اس طرح کی کبھی تعلیم نہیں دی اور نہ ہی اس تفسیر کا ماقبل یا ما بعد کی آیتوں سے کوئی تعلق ہے اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا دامن ان پہیلیوں سے بالکل پاک ہے ۔ قرآن کریم کی زیر نظر آیت کا مفہوم بالکل واضح ہے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے عہد سلطنت میں پر وندوں سے پیغام رسانی ‘ سراغ رسانی اور بہت سے دوسرے شعبوں میں کام لیا گیا اور اس قدر ترقی کے کام ہوئے کہ اس سے پہلے نہیں ہوئے تھے اور یہ جو کچھ ہوا اس کو سلیمان (علیہ السلام) نے دنیا کے دو سے بادشاہوں اور سلاطین کی طرح اس کو اپنا اور اپنے اعوان وانصار کا کمال نہیں بتایا بلکہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم قرار دیا جس نے آپ کو اور آپ کے اعوان وانصار کو عقل بخشی اور اس سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائی اور اس بات کو اجاگر کرنے کے لئے قرآن کریم نے اس رویداد کو بیان کیا اور مسلمانوں کو تعلیم دی کہ دنیوی ترقی میں وہ بھی قدم آگے بڑھائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کی ہرچیز کو انسان کے لئے مسخر کردیا ہے اور ان ساری چیزوں کو مسخر کردینے والا صرف اور صرف اللہ ہے وہ اللہ کی توحید کو ثابت کرنے کے لئے اللہ کی ان مسخر کردہ چیزوں سے کام لے کر کفر وشرک کی یلغار کو شکست فاش دیں اور ان پر ثابت کردیں کہ ان چیزوں سے کام لے کر ان چیزوں کے پیدا کرنے والے رب سے منہ موڑنا لعنت خداوندی کا مستحق ہونا ہے تم اس لعنت کو حاصل کرنے کی بجائے اس کی رحمت کی تلاش بھی کرو تاکہ تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری آخرت بھی سنور جائے ۔ بلاشبہ ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات ہی سے فائدہ حاصل کرکے بعض غیر مسلم لوگوں نے دنیا کی ایک ایک چیزی پر بیسیویں تجربات کئے اور ان کی عادات وخصائل اور ان کی عمر ‘ ان کی کام ‘ ان کی صلاحیتوں کا کھوج لگایا اور ان سے طرح طرح کے کام لئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے شیر اور بکری کو اکٹھا بیٹھا کر ایک دوسرے کے ساتھ پیار کرنا سکھا دیا اور سانپ جیسے دشمن کو گلے کا ہار بنا کر چھوڑا لیکن ان کو یہ بات یاد نہ رہی کہ ان سب چیزوں کو انسان کے لئے تسخیر کرنے والی ذات کو بھی وہ پہچانیں اور کبھی ذہن پر وہ یہ بوجھ بھی ڈالیں کہ اس میں ان کا کتنا کمال ہے اور ان کے پیدا کرنے والے کا کتنا ؟ رہی مسلم قوم جس کے لئے یہ قرآن کریم نازل ہوا تھا اس کو صرف مردوں کی بخشش کے لئے رکھ دیا اور سب اس کو پڑھتے ہیں تو محض اس لئے کہ مرنے والوں کو اس کے اجر وثواب سے بخشوا لیں تاکہ کل وہ مریں تو ان کو بھی کوئی بخشوا سکے گویا یہ قرآن کریم زندوں کی اصلاح کے لئے نہیں مردوں کی بخشش کے لئے اتارا گیا ہے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے احسانات الہی کو یاد کرتے ہوئے پہلے احسان کے طور پر ” منطق الطیر “ کا ذکر فرمایا تھا اور دوسرے انعام کے اظہار کے لئے (آیت) ” واوتینا من کل شیئ “۔ ارشاد فرمایا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہرچیز کی فراوانی عطا فرمائی ہے ۔ (کل) کا لفظ بہت سی دوسری جگہوں کی طرح استفراق کے لئے بیان نہیں ہوا بلکہ عموم کے لئے بیان ہوا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں آدمی کے پاس ہر شخص آتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ بہت لوگ اس کے پاس آتے ہیں اور اس طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص ہر بات جانتا ہے اور مراد یہی ہوتی ہے کہ وہ بہت سی معلومات رکھتا ہے اسی طرح یہاں ارشاد فرمایا کہ لوگو ! ہم پر کتنا بڑا اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہم کو بہت کچھ عنایت فرمایا ہے گویا اس طرح آپ کثرت انعامات کا ذکر کر رہے ہیں اور ” علمنا ‘ اوتینا “ کے الفاظ بیان کرے اپنے ساتھ اپنی حکومت کے دوسرے اعوان وانصار کو شامل کر رہے ہیں اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی اور اپنے والدین کو بھی پھر انعامات الہی کا ذکر کرنے کے بعد کس وضاحت سے ارشاد فرما دیا کہ (آیت) ” ان ھذا لھو الفضل المبین “۔ یہ سب کچھ جو ہم کو ملا ہے تو یہ محض اللہ کے فضل سے ملا ہے مطلب یہ ہے کہ ہم اس قابل کہاں تھے ؟ ہم اس کا ذاتی استحقاق تو نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی یہ ہمارے اعمال کا بدلا ہے بلکہ یہ تو محض اللہ کا فضل و کرم ہے اور اس کی عطا کردہ فضیلت ہے کہ اس نے دوسروں کی بہ نسبت ہم کو اس سے نوازا ہے اور دوسروں پر ہم کو اس معاملہ میں برتری عطا فرما دی ہے اور آپ کا یہی بیان وہ بیان ہے جو دوسری جگہ ترقی پانے والی قوموں اور افراد میں نہیں ملتا وہ جو کچھ کرتے ہیں اس میں اپنا ذاتی کمال سمجھتے ہیں اور اسلام کی تعلیم ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر آئے تو ان کو بیان کرتے وقت منعم حقیقی ہی کا نام استعمال کیا جائے جیسا کہ ارشاد فرمایا (آیت) ” واما بنعمۃ ربک فحدث “۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تسخیر ریاح کا مطلب : قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ (آیت) ” ولسلیمن الریح غدوھا شھر ورواحھا شھر “۔ (سبا 34 : 12) ” اور سلیمان کے لئے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ “ اس کی تفسیر میں بہت کچھ بیان کیا گیا جس کو مختصرا اس بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو مسخر فرما دیا تھا وہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے تخت جس پر وہ مع اپنے اہل دربار کے بڑی تعداد میں سوار ہوتے تھے اور پھر اس کے حکم کے تابع تھی جہاں وہ چاہتے لے جاتی تھی پھر اس معجزہ کے ملنے کی ۔۔۔۔۔ بھی مفسرین نے بیان کی ہے اس کا ذکر بعد میں کریں گے بتایا جاتا ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا معمول یہ تھا کہ صبح کو بیت المقدس روانہ ہوتے یعنی آپ کا تخت ہوا اڑا لیتی جس پر ہزاروں درباری بھی ہوتے تو دوپہر کو اصطخر میں جا کر قیام فرماتے اور دوپہر کا کھانا وہاں کھاتے تھے پھر یہاں سے بعد از ظہر واپس چلتے تو کابل میں جا کر رات ہوتی تھی اور بیت المقدس اور اصطخر کے درمیان اتنی مسافت ہے جو تیز سواری پر چلنے والا ایک ماہ میں طے کرسکتا ہے ۔ اس طرح اصطخر سے کابل تک کی مسافت بھی تیز سواری پر چلنے والا ایک ماہ میں طے کرسکتا ہے ۔ (ابن کثیر ‘ معارف القرآن) گویا آپ اسی طرح ہوا سے سیر سپاٹے کا کام لیا کرتے تھے اور بعد میں آنے والے سارے شاہوں کو یہ درس دے گئے کہ عیش و آرام اور سیروسیاحت کے لئے زندہ رہو اور عیش کرو کہ یہی بادشاہی کا ماحصل ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا جو اتنا وسیع تھا کہ آپ سے پہلے اتنا وسیع تجارتی کام کسی کو میسر نہیں آیا اور اس طرح آپ کے دور سلطنت میں جو بحری بیڑے بنائے گئے وہ آپ سے قبل کسی کو میسر نہ تھے ۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحراحمر میں یمن اور دوسرے جنوبی ومشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے اور دوسری بحرروم کی بندر گاہوں سے ان کا بیڑہ جس کو ترسیسی بیڑہ کہا جاتا ہے مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا ، عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیاء اور مشرق وسطی میں ابھی تک نہیں ملی آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقہ عنربہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا اور ہوا کے مسخر کرنے کا یہی مطلب ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کی بحری قوت میں بےمثال ترقی ہوئی ۔ انہوں نے ایسے بادبانی ایجاد کئے جو ہندوستانی اور مغربی الجزائر تک سفر کرتے تھے اور ان کا بحری بیڑا وقت کا سب سے زیادہ طاقتور بیڑا تھا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ بحراحمر میں اس کا مرکز ترسیس تھا جو خلیج عقبہ میں واقعہ تھا ۔ اس زمانے تک سمندری ہواؤں کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ بادبان ہی تھا یہی بادبان جہاز کے لئے انجن کا کام دیتا تھا ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے ایسے بادبان ایجاد کئے جو تندہواؤں میں بھی اپنے لمبے لمبے سفر بےخوف وخطر جاری رکھتے ان کی تیزی کا بیان کرتے ہوئے قرآن کریم نے یہ ارشاد فرمایا کہ ” سلیمان کے لئے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک “ اس تاریخی منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ۔۔۔ (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر ملاحظہ ہو اگلی آیت کے ذیل میں)
Top