Ruh-ul-Quran - Al-Muminoon : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
یہاں تک کہ جب آجائے گی ان میں سے کسی کی موت تو وہ کہے گا، اے رب ! مجھے پھر واپس بھیج
حَتّٰیٓ اِذَا جَآئَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ ۔ لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا ط اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَـآئِلُھَا ط وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ۔ (المومنون : 99، 100) (یہاں تک کہ جب آجائے گی ان میں سے کسی کی موت تو وہ کہے گا، اے رب ! مجھے پھر واپس بھیج۔ شاید میں اس دنیا میں اچھے کام کروں جسے میں چھوڑ کر آیا ہوں، ہرگز نہیں یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک پردہ ہے اس دن تک جب وہ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ ) معاندین کے لیے آئینہ آنحضرت ﷺ کو مزید تسلی کے ساتھ ساتھ مخالفین اور معاندین کو آئینہ دکھایا جارہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اب یہ لوگ ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں اور کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کے رسول کی بات سننا بھی انھیں گوارا نہیں۔ ان کی مخالفت اور اذیت رسانی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی دلآویز شخصیت اور آپ ﷺ کی ہمدردی اور خیرخواہی سے بھرپور تبلیغ و دعوت بھی ان پر اثرانداز نہیں ہورہی۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب موت کا ٰعفریت ان پر حملہ آور ہوگا اور جیسے ہی ان کے جسم پر اس کے پنجے گڑیں گے اور نزع کی حالت میں انھیں دوسرا جہان نظرآنے لگے گا، فرشتے خشمگیں نگاہوں سے اس دنیا کی سرحد پر ان کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے تو یہ انھیں دیکھ کر اور عذاب کی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے چیخ اٹھیں گے کہ الٰہی ہم پر رحم فرما اور ہمیں واپس اس دنیا میں بھیج دے جہاں سے ہم آئے ہیں۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار اور مشرکین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل جہنم ہونے تک بلکہ اس کے بعد بھی بار بار یہی درخواستیں کریں گے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں جس واپسی کی درخواست کی گئی ہے یہ اس وقت بھی ہوسکتی ہے جب مرنے والا موت کی سرحد میں داخل ہورہا ہو۔ اور یہ بھی امکان ہے کہ آخرت کے مختلف مراحل میں کسی وقت بھی یہ درخواست کی گئی ہو۔ اس وقت کہنا صرف یہ ہے کہ اس وقت تو یہ لوگ پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے لیکن وہ وقت دور نہیں جب اپنے انجام کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے واپسی کی درخواست کریں گے کیونکہ موت کے پہلے ہی مرحلے میں انھیں اپنے انجام کی خبر ہوجائے گی، لیکن پروردگار کی جانب سے سختی سے انکار کیا جائے گا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ارْجِعُوْنِ کا مفہوم قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ … ارْجِعُوْنِجمع کا صیغہ ہے، اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ مرنے والا ہر کافر بڑے احترام اور آداب کے ساتھ پروردگار سے عرض کرے گا کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ میں اپنے گناہوں کی تلافی کرسکوں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے، جیسا کہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ وہ نہایت لجاجت کے ساتھ بار بار پروردگار سے درخواست کرے گا کہ مجھے دوبارہ دنیا میں جانے کی اجازت دی جائے۔ جمع کا صیغہ بار بار کی اجازت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لایا گیا، لیکن ان کا بار بار کا اصرار اور ہر طرح کی لجاجت اور گریہ زاری اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو بدل نہیں سکے گی۔ اللہ تعالیٰ صاف انکار فرما دیں گے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، تمہارے اصرار اور لجاجت کی حیثیت ایک کلمہ ناروا کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کل تمہارے منہ سے نکلنے والے کلمات، کفر اور شرک کی نمائندگی کرتے تھے، اور آج تمہارے منہ سے نکلنے والا کلمہ تمہاری ندامت اور شرمندگی کا اظہار ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واپسی سے انکار کا سبب کفار کی واپسی سے انکار اس وجہ سے ہوگا کہ دنیا دارالامتحان ہے۔ انسان کو دنیا میں عقل اور شعور دے کر امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر حق کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ اس پر دلالت کرنے والے بیشمار دلائلِ انفس اور دلائلِ آفاق کو ذریعہ بنایا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں تاکہ انھیں حقیقت کی شناخت میں دشواری پیش نہ آئے اور مزید یہ کہ انھیں اطاعت اور معصیت دونوں کی آزادی دی گئی کہ تم چاہو تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اور چاہو تو نافرمانی کرو۔ لیکن دونوں راہوں کو اس طرح واضح کردیا گیا کہ انسان اگر عقل سے کام لے تو اس کے لیے اطاعت کا راستہ اختیار کرنا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن موت کی سرحد سے گزر کر جب ایک شخص عالم غیب میں حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے اور ہر چیز جس پر ایمان لانا ضروری تھا وہ اس کے لیے مشاہدہ بن جاتی ہے تو اب اگر اسی صورت میں اسے واپس لایا جائے تو اس صورت میں یہ دنیا دارالامتحان نہیں رہے گی کیونکہ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے کسی کے سامنے امتحان کا پر چہ ہر سوال کے جواب کے ساتھ رکھ دیا جائے اور پھر یہ کہا جائے کہ تم ان سوالوں کا جواب لکھو۔ ظاہر ہے یہ امتحان کے نام پر ایک مذاق تو ہوسکتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کے مرحلے سے گزرتے ہی عالم غیب کی ہر حقیقت مرنے والے پر واشگاف ہوجاتی ہے۔ مومن ایمان کے مقامات کو دیکھتا ہے اور کافر اپنے بدترین انجام کو۔ ان دونوں حوالوں سے ان پر نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ عبادہ ابن الصامت سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مَنْ اَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ اَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَائَ اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَائَ ہٗ (یعنی جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کرنے کو پسند فرماتے ہیں، اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں) ۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کی یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا معنی تو موت کو قبول کرنا ہے اور ہم تو موت کو پسند نہیں کرتے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، یہ مطلب نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب مومن کو موت آتی ہے تو اسے بشارت دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر راضی ہے اور تیری عزت افزائی ہونے والی ہے۔ وہ یہ نوید جانفزا سن کر آگے جانے کی آرزو کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی آرزو کو قبول فرماتے ہیں۔ اور کافر کو اس وقت عذاب کی خبر دی جاتی ہے، وہ عذاب کا سن کر آگے جانے سے سو دفعہ پناہ مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ملاقات کو پسند نہیں فرماتا۔ حاصل یہ ہے کہ موت کا ایک جھونکا ہر کافر کا کس بل نکال دیتا ہے تو وہ فرشتوں کو دیکھتے ہی چلانے لگتا ہے کہ خدا کے لیے مجھے واپس جانے کی اجازت دی جائے، میں یقین دلاتا ہوں کہ جو کچھ میں اس سے پہلے کو تاہیاں کرچکا ہوں، وہ اب نہیں کروں گا۔ کفار کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے مختلف مقامات پر کفار کو آئینہ دکھاتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔ لیکن بعض جگہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کے عذاب کو دیکھ کر صرف کافر ہی دنیا میں واپسی کی درخواست نہیں کریں گے بلکہ وہ نام نہاد مسلمان بھی کریں گے جنھوں نے زندگی بھر اسلامی احکام کی کبھی پرواہ نہ کی۔ نام کے مسلمان بنے رہے لیکن فسق و فجور ان کی زندگیوں میں غالب رہا۔ انھیں بھول کر بھی کبھی آخرت کا خیال نہ آیا۔ وہ بھی نزع کی حالت میں مبادیِ عذاب کو دیکھ کر گزشتہ زندگی پر پچھتانا شروع کردیں گے اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ انھیں زندگی کی مزید مہلت دی جائے تاکہ وہ اپنی گزشتہ زندگی کی تلافی کرسکیں۔ سورة منافقون میں ارشاد ہے وَاَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتِ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلاَ اَخَّرْتَنِیْ اِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّّّدَّقَ وَاَکُنْ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ (اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہے کہ کیوں نہ میری موت کو مؤخر کیا قریبی مدت تک تاکہ میں صدقہ کرتا اور نیکوکاروں میں سے ہوجاتا) ۔ وَمِنْ وَّرَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ …کفار سے کہا جارہا ہے کہ تم موت کے ایک حملے سے پریشان ہو کر دنیا کی طرف واپسی کی درخواستیں کررہے ہو شاید تمہیں معلوم نہیں کہ اب تمہارے سامنے ایک برزخ ہے۔ یہ اس وقت تک حائل رہے گا جب تک قیامت کا صور نہیں پھونکا جاتا اور انسانوں کو زندہ کرکے اٹھایا نہیں جاتا۔ برزخ، اوٹ، رکاوٹ یا پردے پر بولا جاتا ہے۔ اس سے مراد موت سے لے کر وقوع آخرت تک کا وقفہ ہے۔ مرنے والے کافر تمنا کرتے ہیں کہ انھیں دوبارہ دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں بتایا جارہا ہے کہ اب دنیا میں جانے کا تو کوئی موقع نہیں، اب تو انھیں آخرت کے قائم ہونے تک انتظار کرنا ہے اور انتظار کا وہ وقفہ جو حائل ہے دنیا کے سفر سے آخرت کی منزل تک، اسے برزخ کہا گیا ہے۔ اس میں کافروں کو آخرت کا عذاب تو نہیں ہوگا، البتہ وہ آخرت کے کچھ شواہد سے ضرور گزارے جائیں گے اور ایک مختصر عذاب برزخ میں بھی انھیں دیا جائے گا جس میں آخرت کے عذاب کی شدت تو نہیں ہوگی لیکن اس سے یہ ضرور اندازہ ہوگا کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
Top