Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 61
تَبٰرَكَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا ہے الَّذِيْ جَعَلَ : وہ جس نے بنائے فِي السَّمَآءِ : آسمانوں میں بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّجَعَلَ : اور بنایا فِيْهَا : اس میں سِرٰجًا : چراغ (سورج) وَّقَمَرًا : اور چاند مُّنِيْرًا : روشن
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک منور چاند بنایا
تَبٰـرَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَـآئِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْھَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا۔ وَھَوَالَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَاَنْ یَّذَّکَّرَاَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا۔ (الفرقان : 61، 62) (بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک منور چاند بنایا۔ اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے یا شکرگزار بننا چاہے۔ ) تَبَارَکَ کا مفہوم اور سورة کی پہلی آیت سے ربط عجیب بات یہ ہے کہ اس سورة کا آغاز بھی تَبَارَکَ سے ہوا تھا اور اس کے آخری رکوع کا آغاز بھی اسی لفظ سے ہورہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ و معانی میں کس قدر ہم آہنگی اور ربط پایا جاتا ہے۔ وہاں ہم نے تَبَارَکَکی تشریح کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ یہ لفظ ایسا وسیع المعنی ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو درکنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے۔ اس کا مادہ ب، ر، ک ہے۔ اس سے دو مصدر مستعمل ہیں۔ 1 بَرَکَۃ 2 بُرُوْک، برکت کے مفہوم میں رفعت و عظمت اور افزائش و فراوانی کے تصورات شامل ہیں۔ اور بروک میں ثبات، بقاء اور لزوم کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو رفیع و عظیم ہے۔ وہ عظمتوں کا سرچشمہ ہے اور رفعتیں اس کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ خیرات و حسنات اسی کے فیض سے وجود میں آتی ہیں۔ ہر چیز میں اضافہ اور کثرت اسی کی عنات کا ثمر ہے۔ وہ ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ اپنی بزرگی اور عظمت میں سب پر فائز ہے اور اپنی ذات وصفات اور افعال میں ہر ایک سے بالاتر ہے۔ اس کی ربوبیت اور فیضان بےمثال اور بینظیر ہے۔ اس کے کمالات کو کبھی زوال نہیں۔ اس کے بےمثال فیضان اور بےانتہا لطف و کرم کے طور پر سورة کے آغاز میں قرآن کریم کے نزول کو فرقان کے نام سے ذکر فرمایا گیا۔ اور اب پیش نظر آیت کریمہ میں اسی فیضان کو بروج اور سراج اور منور چاند سے تعبیر کیا۔ جس میں شاید یہ کہنا مقصود ہے کہ جب ہم نے قرآن کریم کی صورت میں آفتابِ ہدایت کو نازل فرمانے کا ارادہ کیا تو اس سے پہلے آسمان پر برج بنائے۔ برج سے مراد وہ قلعے اور دیدبان ہیں جو اس نظام کائنات میں اللہ تعالیٰ نے اس لیے بنائے ہیں کہ جن و انس ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ اور قرآن کریم کے نزول سے پہلے وہ جس طرح استراقِ سمع کا ارتکاب کرتے تھے اور پھر اپنی طرف سے اس میں جھوٹ سچ ملا کر کاہنوں کے کاروبار کو تقویت پہنچاتے تھے اور عالم الغیب ہونے کا بھرم رچا کر لوگوں کے عقائد کو بگاڑتے تھے۔ جب آخری آفتابِ ہدایت کے نزول کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے بروج میں پہرے بٹھا کر ملائے اعلیٰ کی حدود کو اس طرح کی دسترس سے بالکل محفوظ کردیا تاکہ اللہ تعالیٰ کی وحی اور اس کی القاء کی ہوئی غیب کی خبریں محفوظ حالت میں اللہ تعالیٰ کے آخری رسول تک پہنچیں اور کسی اور کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع نہ ملے کہ وہ غیب دانی پر دسترس رکھتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فیضان کے حوالے سے سراج یعنی سورج اور روشن چاند کا ذکر فرمایا۔ یعنی جس طرح انسان کی معنوی اور روحانی زندگی کے لیے قرآن کے آفتاب کا مطلع نبوت پر طلوع ہونا ضروری تھا، اسی طرح انسان اور دیگر مخلوقات کی ظاہری اور جسمانی زندگی کے لیے سورج اور چاند کا بنایا جانا بھی ضروری تھا۔ نہ اس کے بغیر انسانی زندگی ممکن تھی اور نہ نبوت اور قرآن کے بغیر انسان کی فلاح ممکن تھی۔ نشانیوں کی کمی نہیں اصل ضرورت تذکر اور شکرگزاری کی ہے جس طرح انسانی زندگی کے لیے سورج اور چاند کا وجود ضروری ہے اسی طرح انسانی زندگی اور انسانی مشاغل کے لیے رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا بھی ضروری ہے۔ اس سے پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ اگر پروردگار رات کے سائے کو مستقل کردیتا اور دن کبھی طلوع نہ ہوتا تو ہر طرح کی حیوانی اور انسانی زندگی تباہ ہوجاتی۔ اور اسی طرح اگر دن کی روشنی اور سورج کی تبش کو مستقل یا دراز کردیا جاتا تو سمندروں کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا اور ہر چیز بھسم ہو کے رہ جاتی۔ اور پھر رات اور دن جس طرح ایک لگے بندھے طریقے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار بن کر ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں اور اس میں جو جو حکمتیں مضمر ہیں ہم سورة فاتحہ میں اس پر بحث کرچکے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک بات اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے۔ ہر دیدہ بینا اس سے متاثر ہوتی اور ہر قلب بیدار اس سے ہدایت پاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں سے نصیحت حاصل کرنے اور شکرگزاری کا جذبہ پانے کا ارادہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہمارے گردوپیش میں پھیلی ہوئی ہیں۔ خود انسان کا جسم، اس کی جان، اس کے احساسات اور اس کی صلاحیتیں ایک سے ایک بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، لیکن کافر ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا۔ کیونکہ فائدہ اٹھانے کے لیے نیت اور ارادہ شرط ہے۔ جو آدمی پھول کی پنکھڑی کو دیکھتا ہے اگر اس کے اندر تذکر اور شکرگزاری کا جذبہ نہیں تو وہ صرف اسے خوشبو کا ذریعہ، ملائمت کا نمونہ اور یا بدرجہ آخر گل قند کا سامان سمجھتا ہے۔ لیکن جس شخص میں تذکر کا مادہ پایا جاتا ہے وہ پھول کی ہر پنکھڑی کو معرفتِ کردگار کا ورق گردانتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ تذکر، عقل کا فعل ہے اور شکر، دل کا۔ یہی دونوں حقیقتیں انسانی شرف کی ضامن اور علامت ہیں۔ لیکن ان دونوں کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آدمی ان کے حصول کے لیے اپنے اندر جذبہ بیدار اور ارادہ بےپناہ رکھتا ہو۔
Top