Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 38
فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍۙ
فَجُمِعَ : پس جمع کیے گئے السَّحَرَةُ : جادوگر لِمِيْقَاتِ : مقررہ وقت پر يَوْمٍ : ایک دن مَّعْلُوْمٍ : جانے پہچانے (معین)
چناچہ ایک روز مقررہ وقت پر جادوگر اکٹھے کرلیے گئے
فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ وَّقِیْلَ لِلنَّاسِ ھَلْ اَنْـتُمْ مُّجْتَمِعُوْنَ ۔ لَعَلَّـنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنْ کَانُوْا ھُمُ الْغٰلِبِیْنَ ۔ (الشعرآء : 38، 39، 40 ) (چنانچہ ایک روز مقررہ وقت پر جادوگر اکٹھے کرلیے گئے۔ اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم (مقابلہ دیکھنے کے لیے) جمع ہو گے۔ تاکہ ہم جادوگروں کا ساتھ دیں، اگر وہ غالب رہنے والے ثابت ہوں۔ ) مقابلے کی تیاری درباریوں کے مشورے پر پورے ملک میں جادوگروں کو جمع کرنے کے لیے لوگ پھیلا دیئے گئے اور وہ پورے ملک سے جادوگروں کو ایک معین دن اور معین وقت پر جمع کرکے لے آئے۔ وہ معین دن سورة طٰہٰ کی صراحت کے مطابق قبطیوں کی عید کا دن تھا جسے قرآن کریم نے یوم الزینۃ کے نام سے یاد کیا ہے اور معین وقت چاشت کا وقت تھا۔ عید کے دن ویسے ہی لوگ فارغ اور میلوں ٹھیلوں میں جانے کے لیے بیتاب ہوتے ہیں، اس لیے وہ دن مقرر کیا گیا۔ اور چاشت کا وقت اس لیے رکھا گیا تاکہ لوگ اس وقت تک آسانی سے پہنچ سکیں اور دور بیٹھنے والوں کو تیز روشنی کے باعث جادوگروں کے کرتب اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کمالات کو دیکھنے کا موقع ملے۔ اور مقابلے کا جو بھی نتیجہ نکلے اس میں کسی کو اشتباہ پیدا کرنے کا بہانہ ہاتھ نہ آئے۔ علاوہ ازیں لوگوں میں دلچسپی بلکہ شوق پیدا کرنے کے لیے اس تأثر کو پھیلانے کا اہتمام کیا گیا کہ یہ مقابلہ محض مقابلہ نہیں بلکہ اہل مصر کے آبائی دین اور فرعون کی ربوبیت اور اس کی عظمت کی عزت کا سوال ہے جسے دو آدمیوں نے چیلنج کیا ہے۔ اور ہمارے ملک بھر کے جادوگر اس عظیم خطرے کو روکنے اور اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے جمع ہورہے ہیں۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی اور ان کا ساتھ دینے کے لیے اس موقع پر ضرور پہنچے۔ ہمارے جادوگروں کی کامیابی درحقیقت ہمارے دین کی بقاء اور فرعون کی عظمت و جلال کی سربلندی ہے۔ ایسے نازک موقع پر شریک ہو کر اپنے جذبات سے جادوگروں کو طاقت فراہم کرنا درحقیقت اپنا فرض انجام دینا ہے۔
Top