Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 4
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ اٰیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِیْنَ
اِنْ نَّشَاْ : اگر ہم چاہیں نُنَزِّلْ : ہم اتار دیں عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنَ السَّمَآءِ : آسمان سے اٰيَةً : کوئی نشانی فَظَلَّتْ : تو ہوجائیں اَعْنَاقُهُمْ : ان کی گردنیں لَهَا : اس کے آگے خٰضِعِيْنَ : پست
اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی ہی رہ جائیں
اِنْ نَّشَانُنَزِّلْ عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ اٰ یَـۃً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُھُمْ لَھَا خٰضِعِیْنَ ۔ (الشعرآء : 4) (اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی ہی رہ جائیں۔ ) اس آیت میں اَعْنَاقُھُمْ ، ظَلَّتْ کا اسم ہے۔ خَاضِعِیْنَ خبر ہے۔ نحوی قاعدے کے مطابقخَاضِعَۃ ہونا چاہیے تھا، لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسم اگر مرکب اضافی ہو تو اس کی خبر میں مضاف کی بجائے مضاف الیہ کی مطابقت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ عربی زبان کا ایک معروف اسلوب ہے۔ بعض اہل لغت کے نزدیک اعناق رئوساء کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس صورت میں اس تأویل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی اور مخالفین کے لیے تہدید آیت کے اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار مکہ نے ایسی نشانی دکھانے کا مطالبہ کیا ہوگا جو اس قدر غیرمعمولی اور حیرت انگیز ہو کہ اسے دیکھ لینے کے بعد کوئی شخص بھی آنحضرت ﷺ کی نبوت سے انکار نہ کرسکے۔ چناچہ اس کا جواب دیتے ہوئے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ ہم اگر چاہیں تو ایسی کسی نشانی کا اتار دینا ہماری قدرت سے کچھ بعید نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اولاً تو امتوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ان کے منہ مانگے معجزات بھی بعض دفعہ انھیں دکھا دیئے گئے لیکن وہ پھر بھی ایمان نہ لائے۔ قوم صالح نے پہاڑ سے نکلتی ہوئی اونٹنی دیکھی جو ان کے مطالبے پر دکھائی گئی تھی لیکن انھوں نے اسے جادو قرار دے کر رد کردیا۔ اور ثانیاً یہ بات بھی ہے کہ اگر ایسی کوئی نشانی دکھا کر بالجبر کسی قوم کو مسلمان بھی بنادیا جائے تو اس کا فائدہ کیا ہوگا۔ کیونکہ جبری ایمان تو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ سوچ سمجھ کر اپنے اختیار اور ارادہ سے ایمان لائیں۔ اسی صورت میں جزاء اور سزا کی معقولیت سمجھ میں آتی ہے۔ اگر زبردستی کسی کو مومن بنادیا جائے تو ایمان پر جزاء کیسی۔ اسی طرح اگر کسی کو جبراً کافر بنادیا جائے تو کفر پر سزا کیسی۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر بالجبر لوگوں کو مومن بنانا ہوتا تو ہر انسان کو اسی فطرت اور ساخت پر پیدا کیا جاتا جس میں کفر نافرمانی اور بدی کا کوئی امکان ہی نہ ہوتا بلکہ ہر انسان پیدائشی طور پر فرشتوں کی طرح فرمانبردار ہوتا۔ لیکن اس سے انسانوں کی وہ آزمائش جو انھیں عقل و شعور دے کر اور پیغمبروں کی بعثت اور کتابوں کے نزول سے کی گئی ہے وہ سب ختم ہو کے رہ جاتی۔ اس لیے قرآن کریم میں سورة یونس آیت 99 میں ارشاد فرمایا گیا ہے (اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین کے رہنے والی سب کے سب لوگ ایمان لے آتے، اب کیا تم لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرو گے) ۔ سورة ہود آیت 119 میں فرمایا (اگر تیرا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنا سکتا تھا، وہ تو مختلف راہوں پر ہی چلتے رہیں گے اور بےراہ رویوں سے صرف وہی بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے، اسی لیے تو اس نے ان کو پیدا کیا تھا) ۔ البتہ منہ مانگے معجزات دیکھنے اور ایمان نہ لانے کا نتیجہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ اس قوم کے لیے مہلت کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ ایمان لائیں تو بچ جائیں، ورنہ عذاب کا شکار ہوجائیں۔ قریش کو وارننگ دیتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اگر ہم تمہارے مطالبے کے مطابق ایسی کوئی نشانی نازل کردیں تو پھر تم پر عذاب کا ایسا کوڑا برسے گا جس کے بعد تم کبھی گردنیں اٹھا نہ سکو گے۔
Top