Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 6
فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَیَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
فَقَدْ كَذَّبُوْا : پس بیشک انہوں نے جھٹلایا فَسَيَاْتِيْهِمْ : تو جلد آئیں گی ان کے پاس اَنْۢبٰٓؤُا : خبریں مَا كَانُوْا : جو وہ تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
بلاشبہ وہ تکذیب کرچکے تو آجائیں گی ان کے پاس اطلاعات اس چیز کی جس کا وہ استہزاء کیا کرتے تھے
فَـقَدْکَذَّبُوْا فَسَیَاْ تِیْھِمْ اَنْـبٰٓـؤُا مَاکَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ (الشعرآء : 6) (بلاشبہ وہ تکذیب کرچکے تو آجائیں گی ان کے پاس اطلاعات اس چیز کی جس کا وہ استہزاء کیا کرتے تھے۔ ) مخالفین کا علاج غلبہ دین جن لوگوں کا مرض یہ صورت اختیار کرجائے کہ وہ ہر نصیحت کا تمسخر اڑائیں اور عذاب کی تنبیہ کو مذاق سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی تبلیغ و دعوت کے مقابلے میں ناشائستہ حرکتیں کریں۔ ان کا علاج یہ نہیں کہ ان پر ایسی نشانیاں اتاری جائیں جسے دیکھ کر وہ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں بلکہ ان کا علاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اور ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔ لیکن یہ اس صورت میں مناسب ہے جب اس قوم کو مٹانے کا فیصلہ ہوچکا ہو بصورت دیگر ان کی سزا کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ جس دین کا مذاق اڑاتے اور غلبہ دین کی خبروں کو پیغمبر کی بڑ سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کو اساطیر الاولین قرار دیتے ہیں اس دین کو غالب کردیا جائے۔ مکہ جو ان کا مرکز اعصاب اور قوت کا سرچشمہ ہے اس سے انھیں محروم کردیا جائے اور جزیرہ عرب کی حد تک چند ہی سالوں میں اللہ تعالیٰ کے دین کا پھریرہ لہرانے لگے۔ تب انھیں یقین آئے گا کہ وہ جو کچھ کہتے رہے سراسر باطل تھا۔ اور اس راہ میں جو کچھ انھوں نے مساعی انجام دیں وہ سب رائیگاں گئیں۔ حقیقت وہی تھی جسے اللہ تعالیٰ کے عظیم رسول پیش کررہے تھے۔ اَنْـبٰٓـؤُاسے مراد یہی انقلابات و تنبیہات ہیں جن سے ان بڑے بڑے سنگدلوں کا علاج ہونے والا تھا۔ چناچہ اسی تنبیہ اور خبر کے مطابق چند ہی سالوں میں مکہ سرنگوں ہوا، عرب کے بیشتر علاقے مفتوح ہوگئے، رفتہ رفتہ جزیرہ عرب اسلام کی آغوش میں آگیا اور کل کے فراعنہ اور نماردہ اسلام لانے پر مجبور ہوگئے یا ملک چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اور یا حق و باطل کی کشمکش میں قتل ہوگئے۔
Top