Ruh-ul-Quran - Al-Qasas : 12
وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ
وَحَرَّمْنَا : اور ہم نے روک رکھا عَلَيْهِ : اس سے الْمَرَاضِعَ : دودھ پلانیوالی (دوائیاں) مِنْ قَبْلُ : پہلے سے فَقَالَتْ : وہ (موسی کی بہن) بولی هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں بتلاؤں تمہیں عَلٰٓي اَهْلِ بَيْتٍ : ایک گھر والے يَّكْفُلُوْنَهٗ : وہ اس کی پرورش کریں لَكُمْ : تمہارے لیے وَهُمْ : اور وہ لَهٗ : اس کے لیے نٰصِحُوْنَ : خیر خواہ
اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دودھ پلانے والوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں، تو اس لڑکی نے کہا کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ بتائوں جو آپ لوگوں کی خاطر اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیرخواہی کے ساتھ دیکھ بھال کریں
وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ھَلْ اَدُلُّـکُمْ عَلٰٓی اَھْلِ بَیْتٍ یَّـکْـفُلُوْنَـہٗ لَـکُمْ وَھُمْ لَـہٗ نٰصِحُوْنَ ۔ (القصص : 12) (اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دودھ پلانے والوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں، تو اس لڑکی نے کہا کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا پتہ بتائوں جو آپ لوگوں کی خاطر اس کی پرورش کا ذمہ لیں اور خیرخواہی کے ساتھ دیکھ بھال کریں۔ ) اللہ تعالیٰ کی کارسازی بچہ جب شاہی محل میں پہنچ گیا تو محل والوں کو سب سے پہلے اس بات کی فکر ہوئی کہ بچے کو دودھ پلانے کا انتظام کیا جائے اور اس کے لیے کسی دایا یا اَنَّا کو ڈھونڈا جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے بالائی طبقے میں بھی عرب کے بڑے خاندانوں کی طرح یہ رواج تھا کہ بیگمات بچوں کو دودھ پلانے کی بجائے عموماً اَنَّائوں کے دودھ پلانے کے لیے سپرد کرتی تھیں۔ اور یہ دودھ پلانے والیاں عام طور سے شہر کے باہر یا مضافاتی بستیوں میں رہتی تھیں اور وہیں کھلے ماحول میں بچوں کی تربیت کرتی تھیں اور اس خدمت کے لیے دودھ پلانے والیوں کو تلاش نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ وہ اس خدمت کے حصول کے لیے وقتاً فوقتاً بڑے گھرانوں کا چکر لگاتی رہتی تھیں اور جہاں سے انھیں اچھے معاوضے کی امید ہوتی وہاں خود پہنچ جاتیں اور بچوں کو تربیت کے لیے ساتھ لے جاتیں۔ اسی طریقہ سے فرعون کی ملکہ نے ملازموں کو ادھر ادھر بھجوایا کہ کسی اچھی اَنَّا کو تلاش کرکے لایا جائے۔ چناچہ ایک سے زیادہ اَنَّائوں کو لایا گیا لیکن حضرت موسیٰ نے کسی بھی دودھ پلانے والی کی چھاتی کو منہ نہیں لگایا۔ اس سے محل میں عام پریشانی کی فضا پیدا ہوگئی۔ ملکہ چونکہ بچے کی موہنی صورت سے غائت درجہ پیار کرنے لگی تھیں اس لیے وہ اس صورتحال سے سخت آزردہ تھیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن یہ معلوم کرکے کہ میرا ننھا بھائی محل کے اندر پہنچ گیا ہے، واپس اپنے گھر پلٹ نہیں گئیں بلکہ ادھر ادھر حالات کی دریافت کے لیے چکر لگاتی رہیں۔ نوکروں کے ہجوم کے باعث محل کی باتیں عام طور پر چھپی نہیں رہتیں۔ یہ ذہین لڑکی معلوم ہوتا ہے کہ محل کی خادمائوں سے راہ و رسم پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی اور ان سے جب اس بات کی خبر ہوئی کہ بچہ کسی کا دودھ قبول نہیں کررہا تو وہ جرأت سے کام لیتے ہوئے خود ملکہ کے پاس پہنچ گئی اور کہا کہ میں ایک ایسے گھر کو جانتی ہوں جس کی فضا انتہائی صاف ستھری اور جس کے مکین انتہائی خیرخواہ اور محبت کرنے والے ہیں۔ اور اس گھر کی خاتون مجھے امید ہے کہ شوق سے اس خدمت کو قبول کرلے گی۔ اگر آپ چاہیں تو میں اس گھر کا پتہ آپ کو بتاسکتی ہوں۔ چناچہ اس ترکیب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنے گھر اور اپنی والدہ کی آغوش میں جانے کا راستہ کھل گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بلایا گیا۔ انھوں نے جیسے ہی بچے کو اپنی گود میں ڈالا، بچے نے نہایت شوق سے دودھ پینا شروع کردیا۔ ملکہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اور مقصود چونکہ دودھ پلانا نہ تھا بلکہ تربیت کے لیے کسی اچھے گھر کے حوالے کرنا بھی تھا۔ اس طرح یہ بچہ اپنی ماں کی آغوش اور اپنے گھر میں پہنچ گیا۔ بظاہر یہ بات ناقابلِ فہم معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی دودھ پلانے والی کا دودھ قبول کیوں نہیں کیا۔ اگر قرآن کریم نے اس عقدہ کو نہ کھولا ہوتا تو یہ عقدہ لاینحل رہ جاتا۔ چناچہ قرآن کریم نے اس عقدہ کو کھولتے ہوئے فرمایا کہ ” ہم نے موسیٰ پر مراضع کو حرام کردیا تھا۔ “ یہ مرضع کی جمع ہے۔ مصدر میمی میں بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی تھی کہ جہاں سے دودھ پھوٹتا ہے یعنی سینے سے، آپ اپنی ماں کے سوا کسی کے سینے کو منہ نہیں لگائیں گے۔ اور یہی وہ ترکیب تھی جس سے آپ ( علیہ السلام) کو ماں کی آغوش میں پہنچایا گیا۔
Top