Ruh-ul-Quran - Ibrahim : 16
وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ١٘ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ
وَقَالَتْ : اور اس نے (موسی کی والدہ نے) کہا لِاُخْتِهٖ : اس کی بہن کو قُصِّيْهِ : اس کے پیچھے جا فَبَصُرَتْ : پھر دیکھتی رہ بِهٖ : اس کو عَنْ جُنُبٍ : دور سے وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : (حقیقت حال) نہ جانتے تھے
اور اس نے اس کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جا، چناچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ لوگوں کو اس کی خبر نہ ہونے پائی
وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہِ ز فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ ۔ (القصص : 11) (اور اس نے اس کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جا، چناچہ وہ الگ سے اس کو اس طرح دیکھتی رہی کہ لوگوں کو اس کی خبر نہ ہونے پائی۔ ) تسلی کی ایک تدبیر ایک خطرناک اقدام کے نتائج سے بچنے کے لیے ہر انسان آخر حد تک تدبیر کرتا ہے اور بعض دفعہ وہ خود بھی جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ میرے بس میں نہیں۔ اور جو کچھ ہونے والا ہے میں اس پر بھی اختیار نہیں رکھتا۔ لیکن یہ وقتی دلا سے انسان کی فطرت ہیں جس سے وہ رک نہیں سکتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے آپ ( علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دیا۔ آپ جانتی ہیں کہ دریا کا پانی جہاں چاہے گا لے جائے گا، میں اسے روکنے سے عاجز ہوں۔ اس کے باوجود محض دل کو تسلی دینے کے لیے بیٹی سے کہا کہ تم اپنے بھائی کے صندوق کے پیچھے پیچھے کنارے کنارے چلو۔ حالانکہ جانتی تھیں کہ صندوق بالآخر نظروں سے اوجھل ہوجائے گا، لیکن اس کے سوا چارہ کار بھی کیا تھا۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کی عمر دس بارہ سال سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن وہ اس قدر ذہین لڑکی تھی کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تابوت کو اس طرح کنارے کنارے دیکھتی چلی گئی کہ صندوق اس کی نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہوا اور کسی کو اس واقعہ کی طرف توجہ بھی نہ ہوسکی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی بستیوں سے فرعون کا محل زیادہ دور نہ تھا۔ چناچہ بہن یہ اندازہ کرنے میں کامیاب رہی کہ چھوٹے بھائی کا تابوت محل کے کنارے پانی سے نکال لیا گیا ہے اور نہایت احتیاط سے اسے محل کے اندر لے جایا گیا ہے اور پھر ادھر ادھر گھومتے ہوئے نہ جانے کس طرح اس نے یہ راز معلوم کرلیا کہ ملکہ صاحبہ کو دودھ پلانے کے لیے کسی ایسی اَنَّا کی تلاش ہے جس کے دودھ کو بچہ قبول کرلے، کیونکہ اسے معلوم ہوگیا تھا کہ بچہ کسی کا دودھ قبول نہیں کررہا اور ملکہ اس کی وجہ سے پریشان ہے۔
Top