Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 12
وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ
وَحَرَّمْنَا : اور ہم نے روک رکھا عَلَيْهِ : اس سے الْمَرَاضِعَ : دودھ پلانیوالی (دوائیاں) مِنْ قَبْلُ : پہلے سے فَقَالَتْ : وہ (موسی کی بہن) بولی هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں بتلاؤں تمہیں عَلٰٓي اَهْلِ بَيْتٍ : ایک گھر والے يَّكْفُلُوْنَهٗ : وہ اس کی پرورش کریں لَكُمْ : تمہارے لیے وَهُمْ : اور وہ لَهٗ : اس کے لیے نٰصِحُوْنَ : خیر خواہ
اور ہم نے بچے پر پہلے ہی دُودھ پِلانے والیوں کی چھاتیاں حرام کر رکھی تھیں۔14 (یہ حالت دیکھ کر)اُس لڑکی نے اُن سے کہا”میں تمہیں ایسے گھر کا پتہ بتاوٴں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمّہ لیں اور خیر خواہی کے ساتھ اسے رکھیں؟15
سورة القصص 14 یعنی فرعون کی بیوی جس انا کو بھی دودھ پلانے کے لیے بلاتی تھی بچہ اس کی چھاتی کو منہ نہ لگاتا تھا۔ سورة القصص 15 اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کے محل میں بھائی کے پہنچ جانے کے بعد بہن گھر نہیں بیٹھ گئی، بلکہ وہ اپنی اسی ہوشیاری کے ساتھ محل کے آس پاس چکر لگاتی رہی، پھر جب اسے پتہ چلا کہ بچہ کسی کا دودھ نہیں پی رہا ہے اور ملکہ عالیہ پریشان ہیں کہ کوئی ایسی انا ملے جو بچے کو پسند آئے تو وہ ذہین لڑکی سیدھی محل میں پہنچ گئی اور جاکر کہا کہ میں ایک اچھی انا کا پتہ بتاتی ہوں جو اس بچے کو بڑی شفقت کے ساتھ پالے گی۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے عموما اناؤں کے سپرد کردیتے تھے اور وہ اپنے ہاں ان کی پرورش کرتی تھیں، نبی ﷺ کی سیرت میں بھی یہ ذکر آتا ہے کہ مکہ میں وقتا فوقتا اطراف و نواح کی عورتیں انا گیری کی خدمت کے لیے آتی تھیں اور سرداروں کے بچے دودھ پلانے کے لیے اچھے اچھے معاوضوں پر حاصل کر کے ساتھ لے جاتی تھیں۔ حضور ﷺ نے خود بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی ہے۔ یہی طریقہ مصر میں بھی تھا، اسی بنا پر حضرت موسیٰ کی بہن نے یہ نہیں کہا کہ میں ایک اچھی انا لا کردیتی ہوں، بلکہ یہ کہا کہ میں ایسے گھر کا پتہ بتاتی ہوں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں گے اور اسے خیر خواہی کے ساتھ پالیں گے۔
Top