Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 88
یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَۙ
يَسْتَعْجِلُوْنَكَ : وہ آپ سے جلدی کرتے ہیں بِالْعَذَابِ ۭ : عذاب کی وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌۢ : البتہ گھیر ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
یہ آپ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ جہنم ان کافروں کو گھیرے میں لے چکی ہے
یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ ط وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ م بِالْـکٰفِرِیْنَ ۔ یَوْمَ یَغْشٰھُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِھِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ وَیَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ (العنکبوت : 54، 55) (یہ آپ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ جہنم ان کافروں کو گھیرے میں لے چکی ہے۔ جس دن عذاب ان کے اوپر سے اور ان کے پائوں کے نیچے سے ان کو ڈھانپ لے گا اور ارشاد ہوگا کہ اب چکھو، سزا ان کرتوتوں کی جو تم کرتے تھے۔ ) قریش کی بےبصیرتی پر تعجب کا اظہار یہاں قریش کے مطالبہ عذاب کا ذکر دوبارہ کیا گیا ہے، بظاہر یہ تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ اعادہ اظہارِتعجب کے لیے ہے۔ تعجب اس بات پر کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ نہایت جسارت کے ساتھ بار بار عذاب کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ عذاب ان سے بہت دور ہے۔ حالانکہ جہنم کا عذاب جو ان کے کرتوتوں کے باعث مقدر ہوچکا ہے وہ ان سے دور نہیں بلکہ انھیں گھیرے ہوئے ہے۔ یہ اوپر اور نیچے سے جہنم کے حصار میں ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ جہنم تو عالم آخرت کا معاملہ ہے، دنیا سے اس کا کیا تعلق ؟۔ لیکن کاش انھیں معلوم ہوتا کہ جن اعمال سے ان کی شخصیت کا تاروپود بن رہا ہے وہی اعمال جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ اگر عمل کرنے والا ہر وقت اعمال کے نرغے میں ہے اور وہی اعمال جہنم کی آگ کو دھکانے والے ہیں تو پھر جہنم ان سے دور ہوا یا قریب ہوا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ جو عذاب ان کے اس قدر قریب ہے یہ اسے دور سمجھ کر بار بار مطالبہ کررہے ہیں۔ دنیا کی صف لپٹنے کی دیر ہے جہنم کا عذاب ان کو اوپر نیچے سے ڈھانک لے گا۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا، لو ! اب اس عذاب کا مزہ چکھو۔ تب انھیں اندازہ ہوگا کہ ہم جس عذاب کا مطالبہ کرتے تھے اسے تو ہم نے اپنے لیے اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ اور یہ کیسا فریبِ نظر تھا جس میں ہم مبتلا تھے۔
Top