Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 56
فَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَاُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١٘ وَ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ : جن لوگوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَاُعَذِّبُھُمْ : سوا نہیں عذاب دوں گا عَذَابًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کا مِّنْ : سے نّٰصِرِيْنَ : مددگار
تو جن لوگوں نے کفر کیا میں انھیں سخت عذاب دوں گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا
فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَاُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ز وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ۔ وَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ ط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (تو جن لوگوں نے کفر کیا میں انھیں سخت عذاب دوں گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ اور رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے تو اللہ ان کو ان کا پورا اجر دے گا اور اللہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا) (56 تا 57) ہم مختلف مواقع پر یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ دنیا میں اللہ کے رسول کی آمد ایک حجت عادلہ ہوتی ہے۔ جزا و سزا عدل کا لازمی تقاضا ہے۔ اس لیے کسی بھی رسول کی تشریف آوری پر اس کا انطباق اور نفاذ لازمی ہوجاتا ہے۔ ایمان لانے والے سرافراز ہوتے ہیں اور کفر کرنے والے بالآخر عذاب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہی نہیں بلکہ اپنے غیر معمولی کمالات کے باعث جلیل القدر رسول ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ آخری رسول کی آمد کے مبشر بن کر آئے۔ جس کے آجانے سے جزا و سزا کے تقاضے مکمل ہوجائیں گے۔ چناچہ اسی عدالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہود بظاہر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے جان چھڑا چکے ہیں لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ مستقبل میں انھیں کیسے کیسے حادثات سے واسطہ پڑنے والا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے مٹھی بھر حواری ایک بڑی قوم اور ایک بڑی ملت کے مؤسس ثابت ہوں گے اور یہود تاریخ کے مختلف ادوار میں قتل عام سے دوچار کیے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی صفت عدل کا ظہور جو اللہ کے رسول کی صورت میں ہوتا ہے اس کا نشانہ صرف یہود ہی نہیں ہوں گے بلکہ عیسائی جب کما حقہ اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کریں گے تو سزا سے وہ بھی نہیں بچ سکیں گے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی یہ بنیادی اللہ کی سنت ذہنوں سے محو نہیں کرنی چاہیے کہ ایمان و عمل اگر جزا کا باعث بنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس پر انعامات کی بارش فرماتے ہیں تو اسی طرح اس کے دین سے انحراف اس کے احکام کی معصیت خواہشات کا اتباع اور دینی زندگی کے تقاضوں سے لاپرواہی یہ ایک ایسا ظلم ہے جس کا ارتکاب کرنے والوں کو اللہ کبھی پسند نہیں کرتا یعنی انھیں اس کی سزا ضرور دیتا ہے۔ کبھی تو اس سزا کا ظہور تنبیہ اور وارننگ کے لیے دنیا ہی میں ہوجاتا ہے ورنہ آخرت میں تو اس قانون کی گرفت سے کوئی بھی باہر نہیں ہوگا۔
Top