Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 55
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا اللّٰهُ : اللہ يٰعِيْسٰٓى : اے عیسیٰ اِنِّىْ : میں مُتَوَفِّيْكَ : قبض کرلوں گا تجھے وَرَافِعُكَ : اور اٹھا لوں گا تجھے اِلَيَّ : اپنی طرف وَمُطَهِّرُكَ : اور پاک کردوں گا تجھے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَجَاعِلُ : اور رکھوں گا الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اتَّبَعُوْكَ : تیری پیروی کی فَوْقَ : اوپر الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْٓا : کفر کیا اِلٰى : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن ثُمَّ : پھر اِلَيَّ : میری طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹ کر آنا ہے فَاَحْكُمُ : پھر میں فیصلہ کروں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان فِيْمَا : جس میں كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے تھے
اس وقت کو یاد کرو جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تمہیں قبض کرلینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اور تجھے پاک کردینے والا ہوں ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی ہے ان کو قیامت تک کے لیے ان لوگوں پر غالب کرنے والا ہوں جنھوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ پھر میری طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ پس میں فیصلہ کروں گا تمہارے درمیان ان چیزوں کے بارے میں، جن میں تم جھگڑتے تھے
اِذْقَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْـکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ج ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَـکُمْ فِیْمَا کُنْـتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ ۔ (اس وقت کو یاد کرو جس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تمہیں قبض کرلینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اور تجھے پاک کردینے والا ہوں ان لوگوں سے جنھوں نے کفر کیا اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی ہے ان کو قیامت تک کے لیے ان لوگوں پر غالب کرنے والا ہوں جنھوں نے تمہارا انکار کیا ہے۔ پھر میری طرف تم سب کو پلٹنا ہے۔ پس میں فیصلہ کروں گا تمہارے درمیان ان چیزوں کے بارے میں، جن میں تم جھگڑتے تھے) (55) سیاقِ کلام کو پیش نظر رکھا جائے تو اس آیت کریمہ کا موضوع دو باتیں محسوس ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ بات کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا رفع الی السماء یعنی دنیا سے آسمانوں کی طرف سفر جس طرح عیسائیوں کے لیے ایک ابتلاء اور گمراہی کا سبب بنا ہے اس کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ اور دوسری یہ بات کہ یہود نے جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے اور صلیب دینے کی کوشش کی اور جس طرح آپ کے خلاف سازشوں کا طوفان اٹھایا اور جس طرح رومیوں کو آپ کے خلاف برانگیختہ کر کے آپ کی موت کا سامان کرنے کی کوشش کی اور ایسی ہی وہ تمام کوششیں اور تدبیریں جن کو قرآن کریم نے ان کا مکر قرار دیا ہے ان کے توڑ کے لیے اللہ نے جو تدبیر فرمائی اور جس نے دشمنوں کی تمام تدابیر کو ناکام کر کے رکھ دیا اس کی تفصیل اس آیت کریمہ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ذہن میں ایک دفعہ پھر چند باتیں مستحضر کرلیجئے کہ یہود کے علماء اور مشائخ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تنقید اور آپ کی اصلاحی کوششوں سے تنگ آ کر عوام و خواص کو آپ کے خلاف برانگیختہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ پر مختلف الزامات لگائے گئے، آپ کو دین موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن قرار دیا گیا، بزرگوں کا گستاخ ٹھہرایا گیا، تورات پر آپ کے ایمان کو مخدوش ثابت کیا گیا اور آپ نے اللہ کی طرف سے جو نہایت حیرت انگیز معجزات دکھائے، انھیں جادو اور شعبدہ بازی ٹھہرایا گیا، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود جب انھوں نے مخلوقِ خدا کے رجوع کو بیش از بیش ہوتے دیکھا اور انھوں نے محسوس کیا کہ آپ جس بستی میں بھی جاتے ہیں وہاں آپ کی دلآویز شخصیت اور حیرت انگیز معجزات کے باعث خلق خدا آپ پر ٹوٹی پڑتی ہے اور آپ کا حلقہ اثر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو انھوں نے اسے توسیعِ دعوت یا آپ کی سچائی کی دلیل قرار دینے کی بجائے رومی حکومت کو آپ سے بدگمان کرنے کا ذریعہ بنایا۔ بدیشی حکومتیں چونکہ ہمیشہ اپنی رعایا کے بارے میں بدگمان رہتی ہیں اس لیے جب انھیں یقین دلایا گیا کہ مسیح نام کا یہ شخص مرجع خلائق بنتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ لوگوں کو یہ خوشخبری سناتا ہے کہ عنقریب خدا کی بادشاہت آنے والی ہے۔ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ شخص درویش ہونے کے باوجود سیاسی عزائم رکھتا ہے اور یہ کسی وقت بھی حکومت کے لیے فتنہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بات کو مزید مؤکد کرنے کے لیے انھوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے رومی حکومت اور اسے خراج دینے کے بارے میں سیاسی سوالات کیے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے کسی نبی کی بھی منزل اس سے مختلف نہیں ہوتی کہ وہ زمین پر اللہ کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کو ماننے والے دوسروں سے خراج لیتے ہیں دیتے ہرگز نہیں۔ لیکن یہ تمام اصولی باتیں ہیں جو کسی بھی نظریے کی بالا دستی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور جب اس نظریے کی دعوت ابھی ابتدائی مراحل میں ہو تو ان سے سیاسی نتائج اخذ کرنا فتنہ پروری کے سوا اور کچھ نہیں۔ لیکن یہود نے ایسی ایک ایک بات سے فائدہ اٹھایا اور رفتہ رفتہ آپ کی ذات والا صفات کو رومی حکومت کے لیے خطرہ بنادیا اور مزید خطرناک اقدام یہ کیا کہ آپ کے حواریوں میں سے یہودا نام کے حواری کو بہلا کر آپ کی گرفتاری کے امکانات بھی پیدا کردیئے۔ اس طرح سے یہود نے سازشوں کا ایسا جال بنا جس سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بچ نکلنے کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ پروردگار نے اس تمام صورت حال کا توڑ کرنے کے لیے جو کچھ کیا اس آیت میں نہایت اختصار کے ساتھ اس کی طرف اشارات فرمائے گئے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اے عیسیٰ ! دشمن تیرے خلاف ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ وہ ہر قیمت پر تیری جان لینا چاہتا ہے، لیکن ہم اپنے بندوں کو دشمن کے لیے ترنوالہ بننے نہیں دیتے۔ ہم تمہیں بشارت دیتے ہیں کہ دشمن تمہاری ذات تک پہنچنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ وہ ہزار کوشش کرے لیکن تمہیں کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ وہ تمہیں قتل کرنا چاہتا ہے یا تمہیں صلیب دینا چاہتا ہے ہم ہرگز اس کا موقع نہیں آنے دیں گے۔ اس سے پہلے کہ ان کے ہاتھ تم تک پہنچیں ہم خود تمہیں اپنی تحویل میں لے لیں گے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ہم تمہاری جان قبض کرلیں گے، لیکن اس بات کو ایک لطیفہ کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دشمن آپ کے درپے ہے اور اس کا مقصد تمام سازشوں اور تمام اتہامات لگانے سے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ آپ کی جان لینا چاہتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ آپ کو قتل کرے یا عدالت کے ذریعے آپ کو صلیب تک پہنچائے، مقصود تو صرف آپ کو ختم کرنا ہے۔ پروردگار اس انجام سے آپ کے بچانے کی خوشخبری سنا رہے ہیں تو کیا یہ واقعی خوشخبری ہے کہ آپ سے کہا جائے کہ ہم دشمن کو تو اس کا موقع نہیں دیں گے کہ وہ تمہاری جان لے سکے، البتہ ہم خود تمہاری روح قبض کرلیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ توفیکا اصل معنی عربی لغت میں اَ لْاَخْذُ بِالتَّمَامِ ہے (یعنی کسی چیز کو پورا پورا لے لینا) اور یا اس کا معنی ہے (T۔ Recall) کسی عہدہ دار کو اس کے منصب سے واپس بلا لینا۔ موت اس کا حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی معنی ہے۔ اولاً تو حقیقی معنی اگر لیا جاسکتا ہو تو مجازی معنی لینے کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ ثانیاً یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرائن جس معنی کو ترجیح دے دیں وہ معنی لینا ضروری ہوجاتا ہے۔ یہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آپ کے بچانے کی خوشخبری سنا رہے ہیں اور آپ کی نصرت و تائید کا وعدہ فرما رہے ہیں اور اس تاریخ کو زندہ فرمانا چاہتے ہیں جسے ہر رسول کے ساتھ دہرایا گیا کہ جب بھی اس رسول کی قوم نے پیغمبر کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے رسول کو ہجرت کا حکم دے کر وہاں سے بخیریت نکلنے کے اسباب پیدا کردیئے اور اس کے بعد قوم پر اللہ کا عذاب آیا۔ اس تاریخی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا غور کیجیے کہ کیا اس لفظ کا یہ معنی لیا جاسکتا ہے کہ ہم یہود کو تو مارنے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن ہم خود تمہیں مار دیں گے۔ اس میں بشارت و نصرت کیا ہوئی ؟ یہ تو بالواسطہ یہود کے ارادوں کو پورا کرنے کی ایک صورت ہوئی کہ وہ آپ کی موت کے خواہش مند ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا کردیا اور مزید ان پر یہ احسان بھی فرمایا کہ وہ تاریخ میں رسوائی اور بدنامی سے بھی بچ گئے۔ ان تمام قرائن کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے سوا کسی اور بات کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ پروردگار عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ فرما رہے ہیں کہ موت تو صرف جان قبض کرنے کا نام ہے، ہم تمہاری پوری شخصیت کو قبض کریں گے یعنی ہم تمہارے جسم اور جان دونوں کو اپنی تحویل میں لے لیں گے اور دونوں کو اپنی تحویل میں لینا یہ زندگی کو محفوظ رکھنے کی ایک صورت ہے کیونکہ موت جب آتی ہے تو جسم و جان میں جدائی پیدا ہوجاتی ہے، لیکن جب تک یہ دونوں یکجا رہتے ہیں اس وقت تک زندگی باقی رہتی ہے۔ یہاں ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ” متوفیک “ سے اگرچہ موت کا شبہ ہوسکتا ہے، لیکن جس طرح یہاں اس لفظ کو لایا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ موت کے معنی میں ہرگز نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے وضاحت کی ہے۔ لیکن اس لفظ کا لانا بےسبب نہیں۔ سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے چونکہ آپ کو خدائی منصب پر فائز کرنے والے تھے اس لیے یہ لفظ لا کر فرمایا کہ جس طرح پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے اور پھر اسے اپنی تحویل میں لینا چاہے وہ جسم و جان کی صورت میں ہو چاہے صرف جان اور روح کی شکل میں، یہ بھی اللہ کی قدرت میں ہے۔ اس لیے تمہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس لفظ سے یہاں موت دینا مراد لیا جائے تو اس کے بعد آنے والا لفظ ” را فعک “ بالکل بےمعنی ہو کے رہ جاتا ہے۔ جس شخص کو بھی موت دی جاتی ہے یقینا اس کی روح اٹھا لی جاتی ہے اور یہ گویا اس کی زندگی اور زندگی کی ہر طرح کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ یہاں آپ کو نصرت و تائید کی خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ ہم تمہیں پورا کا پورا اپنی تحویل میں لے لیں گے اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ ہم تجھے اپنی طرف اٹھا لیں گے یعنی دشمن تمہیں قتل کرنا چاہے گا لیکن ہم تمہیں اس طرح ان کے اندر سے اٹھا لیں گے کہ انھیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ یہاں ایک بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے آخری سفر کے بارے میں جو کچھ یہود اور نصاریٰ نے کہا ہے اس میں قتل اور صلیب دینے کے الفاظ تو ہیں، لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی آپ کی طبعی موت کا کبھی دعویٰ نہیں کیا کیونکہ یہود آپ کو جھوٹا اور کذاب ثابت کر کے یہ دعویٰ کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اس کو صلیب پر قتل کیا اور صلیب کی موت لعنت کی موت ہے۔ وہ کسی شریف آدمی کو نہیں بلکہ کسی لعنتی کو آتی ہے۔ اس طرح سے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں اور جہاں تک طبعی موت کا تعلق ہے، اس سے تو ہر طرح کا آدمی دوچار ہوتا ہے اور نصاریٰ کی سادہ لوحی کا حال یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف یہود کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا بلکہ اسے اپنا ایک اہم عقیدہ بنالیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے جنت میں شجرہ ممنوعہ کا پھل کھا کر ایک گناہ کا ارتکاب کیا، جس کے نتیجے میں ان کی ساری اولاد گنہگار ٹھہری۔ اب نوع انسانی کی بخشش اور گناہ سے معافی کی اس کے سوا اور کوئی صورت ممکن نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اکلوتے فرزند یعنی حضرت عیسیٰ کو دنیا میں ایک لعنتی کی موت دے کر نوع انسانی کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا اور اس کے نتیجے میں انسان گناہوں سے پاک ہوگیا۔ اس عقیدے پر ذرا توجہ دیجیے کہ اس سے زیادہ نامعقولیت کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ گناہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کیا اور گناہ گار پوری نوع انسانی ٹھہری اور پھر سزا کسی انسان کے بیٹے کو نہیں بلکہ اللہ کے بیٹے کو ملی جو معصوم بھی تھا اور خدائی میں شریک بھی اور اس کی سزا انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بن گئی۔ اس بےہودگی کو تو ایک طرف رکھئے، لیکن ان کی سادہ لوحی کو دیکھئے کہ وہ یہود کے اس دعویٰ کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت صلیب پر ہوئی ہے، پھر ان کو دفن کردیا گیا، لیکن دوسرے دن جب ان کی قبر کو ان کے جسم سے خالی دیکھا تو اس کا مطلب یہ سمجھا گیا کہ وہ زندہ ہو کر آسمان پر جا چکے ہیں۔ لیکن قرآن کریم ان تمام باتوں کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہرگز موت نہیں آئی، نہ انھیں کسی نے قتل کیا، نہ صلیب دیا۔ سورة النساء میں واضح طور پر فرمایا گیا : وَمَا قَـتَـلُوْہُ وَمَا صَلَـبُوْہُ وَلٰـکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ (اور نہ انھوں نے اس کو قتل کیا اور نہ اس کو سولی دی بلکہ معاملہ ان کے لیے گھپلاکر دیا گیا) اور آیت کے آخر میں فرمایا : وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ (اور انھوں نے یقینا اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اسے اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے) اس آیت کریمہ میں مُتَوَفِّیْکَ کا لفظ اڑا دیا گیا ہے بلکہ قتل اور سولی کی نفی کے بعد صرف بَلْ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ فرمایا۔ یہ اس بات کا نہایت واضح قرینہ ہے کہ قرآن کریم نے جس چیز کو توفی قرار دیا ہے وہ اپنی طرف اٹھا لینے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس قدر واضح قرینہ کے بعد اس کا کوئی اور ترجمہ کرنا علم اور دیانت کے خلاف ہوگا۔ لیکن قربان جایئے انیسویں صدی کے نبوت کے دعویدار پر انھوں نے ایک ایسا دعویٰ کیا جس کا دعویٰ نہ کبھی یہود نے کیا نہ نصاریٰ نے اور نہ کبھی مسلمانوں نے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو نہ قتل کیا گیا، نہ سولی دی گئی، البتہ وہ طبعی موت کا شکار ہوئے اور مزید لطیفہ کی بات یہ کہ وہ اگرچہ دمشق میں رہتے تھے اور ان کی بعثت بھی اسی علاقہ میں بنی اسرائیل کی طرف تھی وہ انہی کی طرف پیغمبر ہو کر آئے تھے۔ لیکن اس دعویدار کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کشمیر کے شہر سری نگر میں کس طرح پہنچے اور وہاں انھیں کس طرح موت آئی اور ان کے دعویٰ کے مطابق وہیں وہ کسی گلی میں مدفون ہیں۔ یہ سارا ناٹک اس لیے رچایا گیا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ جس مسیح کے آنے کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں ہے وہ حقیقی مسیح نہیں کیونکہ وہ تو فوت ہوچکے بلکہ وہ مثیل مسیح ہیں اور وہ میں ہوں اور میں آچکا ہوں۔ اب مسلمانوں کو میری قیادت تسلیم کر لینی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ میں ذخیرہ حدیث میں سے چند احادیث کا ذکر کروں جن میں قیامت آنے سے پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری کا ذکر ہے اور ان میں کسی مثیل مسیح کا ذکر نہیں بلکہ جابجا عیسیٰ ابن مریم کا ذکر ہے اور ان کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کسی مغل کے گھر میں پیدا نہیں ہوں گے بلکہ وہ آسمان سے اتریں گے اور ان کا مرکز اور مستقر دمشق ہوگا۔ ان کے آنے کے جلد ہی بعد مسلمانوں کا یہود سے معرکہ ہوگا جس میں مسلمانوں کے سردار حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں گے اور یہود کا جرنیل اور سردار دجال اکبر ہوگا۔ پہلے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں بعض لوگوں کا گمان ہے کہ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کا معنی یہ نہیں کہ ( اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا) بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ (اللہ نے اس کے درجات بلند فرمائے) چناچہ قرآن کریم نے متعدد جگہ اس لفظ کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ مثلاً : مِنْہُمْ مَنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجَاتٍ (اور ان میں وہ بھی ہیں جن سے اللہ نے بات کی اور بعض کے مدارج بلند کیے) (553۔ البقرۃ) حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا گیا : وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا (ہم نے اس کو بلند درجے پر فائز کیا) (57۔ مریم) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے درجات کی بلندی کو اس لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بھی ممکن ہے یہی کہا گیا ہو کہ ہم آپ کو وفات دیں گے اور آپ کے درجات بلند کریں گے۔ اس سلسلے میں پہلی گذارش تو یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے وضاحت کرچکے ہیں کہ مُتَوَفِّیْکَ کا معنی (آپ کو وفات دیں گے) سیاق کلام کے بالکل خلاف ہے اور عبارت کا کوئی قرینہ اس پر دلالت نہیں کرتا بلکہ عبارت خود بول رہی ہے کہ یہاں وفات یعنی موت مراد نہیں بلکہ آپ کو اٹھا لینا مراد ہے۔ جس کی وضاحت رافعک کے لفظ نے بھی کردی ہے اور دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ رفع کا معنی ترقی درجات بھی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اِلٰی کا لفظ کبھی نہیں آتا۔ جب رفع کے لفظ کو اِلٰی کے ساتھ لایا جائے گا تو پھر نہ صرف اس کا معنی اپنی طرف اٹھانا ہوتا ہے بلکہ عزت و اکرام کے ساتھ اٹھانا ہوتا ہے اور یہاں یہی معنی مراد ہے۔ سورة نساء کی آیت کریمہ نے جس کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں حتمی طور پر اس معنی اور مفہوم کی توثیق کردی ہے کہ یہود و نصاریٰ آپ کے قتل اور صلیب کے دعویدار ہیں اور قرآن کریم نے یقینی انداز میں ان دونوں باتوں کا انکار کیا اور اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اگر آپ طبعی موت سے دنیا سے اٹھائے گئے ہوتے تو صاف کہہ دیا جاتا کہ وہ لوگ آپ کو قتل کرنے یا سولی دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ اس سے پہلے کہ ان کا ہاتھ آپ کے گلے تک پہنچتا ہم نے خود اس کی جان قبض کرلی۔ لیکن اس کا جواب پھر کوئی نہیں دے سکتا تھا کہ یہود کے پیش نظر نہ قتل کرنا تھا، نہ سولی دینا بلکہ آپ کی زندگی کا خاتمہ تھا اور اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مقصد کو اپنے طور سے پورا کردیا تو یہ تو وہی بات ہوئی جو یہود چاہتے تھے اور اس میں درحقیقت اگر رفع درجات والی کوئی بات ہے تو وہ یہود کے لیے ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے نہیں۔ لیکن ایسی دور از عقل بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو عربی زبان سے نابلد اور قرآن فہمی سے نا آشنا ہو اور یا فسادِ نیت کے باعث وہ قرآن کریم کے مفہوم کو بگاڑنا چاہتا ہو۔ ہر صاحب علم اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ قرآن کریم کی ایک آیت جس طرح دوسری آیت کی تشریح کرتی ہے اسی طرح احادیث اور سنت طیبہ قرآن کریم کے مفہوم و مراد کے تعین کے لیے سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے سلسلے میں نہ صرف یہ کہ احادیث میں قرآن کی تائید موجود ہے بلکہ اس عقیدہ پر کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر اٹھائے گئے اور وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت میں آسمان سے نازل ہو کر یہودیوں پر فتح پائیں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے، امت کا اجماع ہے۔ حافظ ابن حجر نے تلخیص الخبیر صفحہ 339 میں اس اجماع کو نقل کیا ہے۔ علمائے امت نے اس مسئلہ کو مستقل کتابوں میں پوری وضاحت سے لکھا ہے اور منکرین کے جوابات پوری تفصیل سے دیئے ہیں۔ اس سلسلہ میں مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری کی تصنیف ” عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ (علیہ السلام) “ مولانا بدر عالم صاحب کی تصنیف ” حیات مسیح۔ “ نہایت علمی کاوشیں ہیں، علاوہ ازیں عرب و عجم کے اور بھی علماء نے اس موضوع پر بہت موقر کتابیں لکھی ہیں۔ اسی سلسلہ میں مرزائیوں کی پھیلائی ہوئی بعض غلط فہمیوں کے تدارک کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے بھی ” مسئلہ قادیانیت “ کے نام سے ایک نہایت تحقیقی اور موثر مقالہ لکھا تھا جس پر انھیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کی ایک منفرد حیثیت ہے۔ مرزا غلام احمد کی نبوت کی طرف دعوت دینے والوں نے جہاں اور بہت سی علمی خیانتیں کی ہیں وہیں انھوں نے یہ بھی حرکت کی ہے کہ حدیث میں جس مسیح موعود کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے اور پھر قرب قیامت میں واپس آنے اور دجال کے فتنہ کے استیصال کا ذکر ہے وہ عیسیٰ ابن مریم نہیں ہیں ان کا تو انتقال ہوچکا بلکہ اس سے مراد مثیل مسیح یعنی حضرت عیسیٰ کی مانند ایک مسیح ہے، وہ اب آچکا اور اس کا نام فلاں ہے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہم چند مستند روایات نقل کیے دیتے ہیں جس سے آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ کتنی بڑی علمی اور دینی خیانت کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم والذی نفسی بیدہٖ لَیُوْشِکَنَّ ان ینزل فیکم ابن مریم حَکَمًا عَدلًا فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر و یَضَعَ الحربَ و یُفِیضَ المال حتی لا یقبلہٗ احدٌ حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرًا من الدنیا وما فیہا (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم۔ مسلم باب بیان نزول عیسیٰ ۔ ترمذی ابواب الفتن باب فی نزول عیسیٰ ۔ مسند احمد، مرویات ابوہریرۃ) (حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور اتریں گے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر، پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو ہلاک کردیں گے اور جنگ کا خاتمہ کردیں گے (دوسری روایت میں حرب کے بجائے جزیہ کا لفظ ہے یعنی جزیہ ختم کردیں گے اور مال کی وہ کثرت ہوگی کہ اس کا قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا اور (حالت یہ ہوجائے گی کہ) لوگوں کے نزدیک اللہ کے حضور ایک سجدہ کرلینا دنیا ما فیہا سے بہتر ہوگا ) عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم و امامکم منکم (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ۔ مسلم بیان نزول عیسیٰ ، مسند احمد مرویات ابی ہریرۃ ؓ (حضرت ابوہریرۃ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! کیسے ہو گے تم جبکہ تمہارے درمیان ابن مریم اتریں گے اور تمہارا امام اس وقت خود تم میں سے ہوگا ؟ ) عن ابی ہریرۃ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقتل الخنزیر و یمحو الصلیب و تجمع لہ الصلٰوۃ و یعطی المال حتی لا یقبل و یضع الخراج و ینزل الروحاء فیحج منہا اویعتمر او یجمعہما (مسند احمد، بسلسلہ مرویاتِ ابی ہریرہ ؓ کتاب الحج باب جواز التمتع فی الحج والقرآن) (حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ پھر وہ خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو مٹا دیں گے اور ان کے لیے نماز جمع کی جائے گی اور وہ اتنا مال تقسیم کریں گے کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ خراج ساقط کردیں گے اور روحاء کے مقام پر منزل کر کے وہاں سے حج وعمرہ کریں گے یا دونوں کو جمع کریں گے (راوی کو شک ہے) عن ابی ہریرۃ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال لیس بینی و بینہ نبی (یعنی عیسیٰ ) وانہ نازل فاذا رأیتموہ فاعرفوہ رجل مربوع الی الحمرۃ و البیاض بین ممصرتین کان رأسہ یقطر و ان لم یصبہ بلل فیقاتل الناس علی الاسلام فیدق الصلیب و یقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویہلک اللّٰہ فی زمانہ الملل کلہا الا الاسلام ویہلک المسیح الدجال فیمکث فی الارض اربعین سنۃ ثم یتوفی فیصلی علیہ المسلمون (ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال۔ مسند احمد، مرویات ابوہریرۃ ؓ ( ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میرے اور ان (یعنی عیسیٰ ) کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اترنے والے ہیں۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا، وہ ایک میانہ قدآدمی ہیں۔ رنگ مائل سرخی و سپیدی ہے، وہ زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا اب ان سے پانی ٹپکنے والا ہے حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام پر لوگوں سے جنگ کریں گے، صلیب کو پاش پاش کردیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ ختم کردیں گے اور اللہ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو مٹا دے گا اور وہ مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے اور زمین میں وہ چالیس سال ٹھہریں گے پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے) عن النوَّاس بن سمعان (فی قصۃ الدجال) فبینما ھو کذٰلک اذ بعث اللّٰہ المسیح ابن مریم فینزل عندالمنارۃ الیضاء شرقی دمشق بین مہروذتین واضعاً کفیہ علٰی اجنحۃ ملکین اذا طأطأَ راسہ قطروا اذا رافعہ تحدر منہ جمان کاللؤلؤ فلا یحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات ونفسہ ینتہی الٰی حیث ینتہی طرفہ فیطلبہ حتی یدرکہ بباب لُدٍّ فیقتلہ (مسلم، ذکر الدجال، ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال۔ ترمذی، اباب الفتن، باب فی فتنۃ الدجال۔ ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال) (حضرت نواس بن سمعان کلابی (قصہ دجال بیان کرتے ہوئے) روایت کرتے ہیں۔ اس اثناء میں کہ دجال یہ کچھ کر رہا ہوگا، اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو بھیج دے گا اور وہ دمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینار کے پاس زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے، دو فرشتوں کے بازوئوں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔ جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ قطرے ٹپک رہے ہیں اور جب سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے نظر آئیں گے۔ ان کے سانس کی ہوا جس کافر تک پہنچے گی اور وہ ان کی حدّنظر تک جائے گی وہ زندہ نہ بچے گا۔ پھر ابن مریم دجال کا پیچھا کریں گے اور لُدّ کے دروزے پر اسے جاپکڑیں گے اور قتل کردیں گے) عن مجمع بن جاریۃ قال سمت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم یقول یقتل ابن مریم الدجال بباب لُدّ (مسند احمد، ترمذی، ابواب الفتن) (مجمع بن جاریۃ انصاری کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ابن مریم دجال کو لُدّ کے دروازے پر قتل کریں گے) عن عائشۃ ؓ (فی قصۃ الدجال) فینزل عیسیٰ (علیہ السلام) فیقتلہ ثم یمکث عیسیٰ (علیہ السلام) فی الارض اربعین سنۃ اماماً عادلاً و حَکَماً مُقْسِمًا (مسند احمد) (حضرت عائشہ ( رض) (دجال کے قصے میں روایت کرتی ہیں) پھر عیسیٰ (علیہ السلام) اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس سال تک زمین میں ایک امام عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے) عن سُفَینۃ مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم (فی قصۃ الدجال) فینزل عیسیٰ (علیہ السلام) فیقتلہ اللّٰہ تعالیٰ عندعقبۃ افیق (مسند احمد) (رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام سفینہ (دجال کے قصے میں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ دجال کو افیق کی گھاٹی کے قریب ہلاک کر دے گا) غور سے ان احایث کا مطالعہ کیجیے اور پھر فیصلہ فرمایئے کہ یہ اور اسی مضمون کی اور مستند روایات ہیں جن میں کسی مسیح موعود یا مثیل مسیح یا بروز مسیح کا دور دور تک کوئی تصور نہیں پایا جاتا بلکہ ان میں صاف صاف اس مسیح کے آنے کا ذکر ہے جنھیں عیسیٰ ابن مریم کہا جاتا ہے اور جن کا لقب مسیح ہے۔ وہ آپ ﷺ سے دو ہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور وہی دوبارہ قرب قیامت میں تشریف لائیں گے اور انہی کا ان احادیث میں ذکر ہے۔ ان کا نزول جیسا کہ آپ دیکھ چکے دمشق کی جامع مسجد کے ایک منارہ پر ہوگا جس کا نام منارۃ المسیح ہے۔ وہ ایک ایسے دجال اکبر کے استیصال کے لیے تشریف لائیں گے جو اپنی ڈپلومیسی اور جنگی قوت کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نازل فرمائیں گے۔ چناچہ آپ اس وقت کی موجود مسلمان قوت کو ساتھ لے کر اس کے مقابلے کے لیے نکلیں گے، لُدّ پہاڑی کے قریب آپ کا دجال سے آخری معرکہ ہوگا۔ جہاں دجال آپ کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے گا۔ یاد رہے کہ یہ لُدّ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے دارالسلطنت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہودیوں نے وہاں ایک بہت بڑا ہوائی اڈا بنا رکھا ہے۔ ان احادیث کو دیکھنے کے بعد یہ تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ کوئی شخص آج قادیاں میں پیدا ہو کر مثیل مسیح بن کر نبوت کا دعویٰ کرسکتا ہے اور قادیاں کو دمشق کے مشابہ قرار دے کر اپنے آپ کو عیسیٰ ابن مریم کے قائم مقام ثابت کرنے کی حماقت کرسکتا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے یہ کھڑاگ رچایا گیا اور غیر ملکی حکومت کے باعث اسے ترقی ملتی چلی گئی۔ قادیاں کو اس نے اس لیے دمشق کے مشابہ قرار دیا کیونکہ بقول اس کے وہاں یزید الطبع لوگ رہتے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو چونکہ منارۃ المسیح میں اترنا ہے اس لیے اس نے قادیاں میں ایک مینارہ بنوایا جس کا نام مینارۃ المسیح رکھا گیا۔ لوگوں نے جب لُدّ کے بارے میں سوال کیا تو مختلف تأویلوں کے بعد ارشاد فرمایا ” اس سے لدھیانہ مراد ہے اور اس کے دروازے پر دجال کے قتل سے مراد یہ ہے کہ اشرار کی مخالفت کے باوجود وہیں سب سے پہلے مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔ “ اور جب ان سے باربار یہ پوچھا گیا کہ وہ آنے والے مسیح تو نازل ہوں گے، پیدا تو وہ دو ہزار سال پہلے ہوچکے ہیں۔ تو اس کے جواب میں ایک ایسی مضحکہ خیز تأویل اختیار کی گئی جس کا ذکر کرتے ہوئے بھی پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے۔ ارشاد فرمایا : ” اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے) براہین احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا، پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی، پھر مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخربراہینِ احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا “ (کشتیِ نوح، ص : 87، 88، 89) محولہ بالا حوالہ جات کو دیکھتے ہوئے یہ دجل و فریب کی بڑی گھٹیا واردات نظر آتی ہے۔ لیکن آج اگر کوئی شخص مشرق وسطیٰ کے حالات پر نگاہ ڈالے اور نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئیوں کے پس منظر میں انھیں دیکھے تو وہ فوراً یہ محسوس کرے گا کہ اس دجال اکبر کے ظہور کے لیے اسٹیج بالکل تیار ہوچکا ہے جو حضور ﷺ کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا۔ فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بےدخل کیے جا چکے ہیں اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ اس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھنچ کھنچ کر چلے آرہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنادیا ہے۔ یہودی سرمائے کی بےپایاں امداد سے یہودی سائنس دان اور ماہرینِ فنون اس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جا رہے ہیں اور اس کی یہ طاقت گرد و پیش کی مسلمان قوموں کے لیے ایک خطرہ عظیم بن گئی ہے۔ یہودی ریاست کا نقشہ دیکھتے ہوئے اس خطرے کا صحیح احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس نقشے میں مدینہ منورہ تک شامل ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑبونگ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان علاقوں میں قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اس موقع پر وہ دجال اکبر ان کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا جس کے ظہور کی خبر دینے پر ہی نبی کریم ﷺ نے اکتفا نہیں فرمایا بلکہ یہ بھی بتادیا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن سال کے برابر محسوس ہوگا۔ اسی بناء پر آپ فتنہ مسیح دجال سے خود بھی اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔ چناچہ اسی مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اس اصلی مسیح کو نازل فرمائے گا جسے دو ہزار سال پہلے یہودی اپنے تئیں ٹھکانے لگا چکے ہیں۔ زیرِ بحث آیت کریمہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لینے کی وجہ بھی بیان فرمائی گئی ہے۔ جو درحقیقت انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ کوئی بھی رسول جب کسی قوم کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے ہیں تو وہ اس وقت تک اس قوم میں قیام پذیر رہے ہیں جب تک اس قوم سے ایمان لانے کی کچھ بھی توقع باقی رہی ہے اور جب وہ قوم اپنے طور اطوار اور اپنی مخالفت و مزاحمت سے یہ ثابت کردیتی ہے کہ اب اس میں خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی بلکہ وہ اللہ کے رسول کو ختم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا اس قوم سے نکل جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ قوم زندگی کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے۔ یہ ایک ایسا جسد بےروح ہے جسے اب گلنے سڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چناچہ ایسے ہی حالات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس متعفن قوم کے تعفن سے نکالا اور انھیں ایک خاص مقصد کے لیے اپنی کائنات کے کسی ایسے گوشے میں محفوظ رکھا ہے جہاں اس کی مشیت کا تقاضا تھا اور جب اس مقصد کی ادائیگی کا وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیا میں نازل فرما کر اسلام کی سربلندی کے اسباب پیدا فرمائیں گے۔ عیسائیت اور یہودیت پر چونکہ اتمامِ حجت ہوجائے گا اس لیے عیسائی عموماً مسلمان ہوجائیں گے اور یہودیت اپنے انجام کو پہنچے گی۔ یہ وہ سنت ہے جس کو یہاں مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے یاد فرمایا گیا ہے۔ مزید یہ فرمایا کہ جو لوگ حضرت مسیح کے نام لیوا ہوں گے ان کی تبلیغ و دعوت سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا دائرہ ایسا پھیلے گا کہ ان کے نام پر سلطنتیں قائم ہوں گی، لیکن وہ یہود جنھوں نے بظاہر ان کا خاتمہ کردیا تھا وہ سمٹتے چلے جائیں گے لیکن تاریخ میں انھیں عبرت کے طور پر زندہ رکھا جائے گا۔ لیکن یہ بات تقدیرِ الٰہی بن چکی ہے کہ عیسائی بیشک انتساب کی حد تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تعلق رکھیں، یہودیت پر ہمیشہ ان کا غلبہ رہے گا۔ چناچہ دوہزار سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ مسلمانوں کو اللہ نے ہر طرح کا عروج بخشا، یہودی اور عیسائی دونوں قوتیں اسلام کے سامنے سرنگوں ہوگئیں۔ مسلمانوں کے زوال سے عیسائیوں کو پھر اٹھنے کا موقع ملا، لیکن یہودی عیسائیوں کی طرح دوبارہ عزت کبھی نہ حاصل کرسکے۔ آج وہ بظاہر ایک ریاست کے مالک ہیں، لیکن درحقیقت یہ ریاست عیسائی ملکوں کی گماشتہ ہے بلکہ زیادہ صحیح لفظوں میں اسلام دشمن قوتوں کی چھائونی ہے اور وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے یہود سے وہی خدمت لے رہے ہیں جو و ڈیرے ہمیشہ کرائے کے غنڈوں سے لیا کرتے ہیں۔ بعض اہل علم نے مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَسے یہ اعتراض کیا ہے کہ آج کے عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کے حقیقی متبعین کہاں ہیں ؟ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے اور انھوں نے انھیں اللہ کا بیٹا بنادیا ہے۔ انھوں نے ان پر تورات کی شریعت لازم کی تھی انھوں نے اپنے آپ کو شریعت سے آزاد کرلیا ہے۔ سوائے نسبت کے اور کوئی چیز ان میں باقی نہیں۔ لیکن جس سیاق کلام میں بات ہو رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آپ کے ہر طرح کے متبعین ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہم جا بجا اہل کتاب کا اطلاق یہودونصاریٰ پر دیکھتے ہیں حالانکہ ان دونوں قوموں نے اپنی اپنی کتابوں کا جو حشر کیا اور جیسا کچھ ان سے تعلق رکھا وہ سب کو معلوم ہے۔ اس لیے آیت کے آخر میں فرمایا کہ دنیا میں تو ان نام نہاد عیسائیوں کو بھی یہود پر غالب رکھوں گا، لیکن اصل فیصلہ قیامت کے دن ہوگا جب سب کو میری طرف لوٹ کے آنا ہوگا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ پیش نظر آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہودیوں کے مقابلہ میں چار وعدے فرمائے۔ 1 یہود تمہاری جان لینے کی چاہے کتنی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ تمہیں یہودیوں کے ہاتھوں قتل نہیں ہونے دے گا بلکہ تم اپنی طبعی عمر گزار کر وفات پائو گے۔ البتہ تمہاری وفات کا وقت موعود قرب قیامت میں آئے گا۔ جب اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ دجال اکبر کے خاتمے کے لیے دنیا میں امت مسلمہ کی مدد کے لیے بھیجے گا۔ 2 دوسرا وعدہ یہ فرمایا کہ اس وقت تمہیں یہود کے ہاتھوں بچانے کے لیے ہم اپنی طرف اٹھا لیں گے۔ چناچہ یہود کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پورے اعزاز کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور انھیں وہاں ایک وقت موعود تک غیر معمولی زندگی دی گئی جہاں اس کی مشیت کا تقاضا تھا۔ 3 اللہ تعالیٰ نے تیسرا وعدہ یہ فرمایا کہ تمہیں بغیر باپ کے پیدا کیا گیا ہے۔ یہود دشمنی میں اندھے ہو کر مختلف الزامات لگانے کی کوشش کریں گے۔ تمہاری زندگی میں اگر ایسا نہ کرسکے تو بعد میں دل کے پھپھولے پھوڑتے رہیں گے اور جب تک تم دنیا میں رہو گے اس وقت تک غیر معمولی پیدائش کے علاوہ اور قسم قسم کے الزامات لگائیں گے اور اپنی گندی طبیعت اور گندے ماحول کی وجہ سے تمہارا جینامشکل کردیں گے۔ لیکن ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تمہیں لوگوں سے پاک کردیں گے کہ تمہیں آسمانوں پر اٹھا کر ایک خاص قسم کی ہجرت سے نوازیں گے اور اس طرح سے ان کے ماحول سے تمہیں دور لے جائیں گے اور قرآن کریم کے نزول اور نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت سے تمہاری بن باپ پیدائش پر اور تمہاری ذاتی وجاہت اور نجابت پر زور دار دلائل کے ذریعے حجت تمام کردیں گے جس کے بعد تمہارے دشمنوں کو ایسی باتیں کہنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ 4 دنیا سے اٹھا لینے کے باعث تمہیں اگرچہ اپنے تبلیغی مساعی کے نتائج دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے متبعین کو منکرین پر قیامت تک غلبہ عطا فرمائیں گے۔ تمہارے حقیقی متبع مسلمان ہیں اور نام کی حد تک نصاریٰ ہیں۔ ہم دونوں کو یہود پر ہمیشہ غلبہ دیں گے۔ چناچہ یہ چاروں وعدے اللہ نے بلا کم وکاست پورے فرمائے اور آج بھی دنیا اپنی نگاہوں سے ان کا ایفا دیکھ رہی ہے۔
Top