Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 48
وَ بَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
وَبَدَا لَهُمْ : اور ظاہر ہوجائیں ان پر سَيِّاٰتُ : برے کام مَا كَسَبُوْا : جو وہ کرتے تھے وَحَاقَ : اور گھیر لے گا بِهِمْ : ان کو مَّا : جو كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس کا يَسْتَهْزِءُوْنَ : مذاق اڑاتے
اور سامنے آجائیں گے ان کے اعمال کے برے نتائج، اور گھیر لے گی ان کو وہ چیز جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے
وَبَدَا لَھُمْ سَیِّاٰتُ مَاکَسَبُوْا وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ (الزمر : 48) (اور سامنے آجائیں گے ان کے اعمال کے برے نتائج، اور گھیر لے گی ان کو وہ چیز جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے۔ ) ایک اور تنبیہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ ہزار بگاڑ میں مبتلا ہو کر بھی ہمیشہ اپنے اعمال کی وکالت کرتا ہے۔ اور اگر کبھی کسی غلطی کو محسوس بھی کرے تو ہمیشہ اپنے آپ کو الائونس دینے کی کوشش کرتا ہے۔ فکر وعمل کی گمراہیاں اور اس کے نتائج کبھی اس کے سامنے کھلنے میں نہیں آتے۔ اور اللہ تعالیٰ کے رسول ایسے لوگوں کو اگر سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ کبھی انھیں خاطر میں نہیں لاتے۔ چناچہ ان ہی گمراہیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ان کی بداعمالیاں اور اس کے نتائج کھل کر ان کے سامنے آجائیں گے۔ ان کی بداعمالیوں اور فکری کوتاہیوں نے کیسے کیسے برے نتائج پیدا کیے اور کیسے زہریلے برگ و بار نکالے، ایک ایک چیز کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ تب انھیں اندازہ ہوگا کہ ہم جن اعمال کو اچھا سمجھتے تھے ان کی حقیقت کیا تھی۔ اور جنھیں معمولی سمجھتے تھے وہ نتائج کے اعتبار سے کتنے بڑے تھے۔ اور مزید یہ بات بھی کہ برائیوں کی سزا جو ان کے یہاں واہمہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی اور اللہ تعالیٰ کا عذاب جس کا یہ ہمیشہ تمسخر اڑاتے تھے آج یہ سب کچھ ان کو اپنے گھیرے میں لے لے گا۔ لیکن اب پچھتاوے کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔
Top