Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 18
اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَةِ وَ هُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ
اَوَمَنْ : کیا بھلا جو يُّنَشَّؤُا : پالا جاتا ہے فِي : میں الْحِلْيَةِ : زیورات (میں) وَهُوَ فِي الْخِصَامِ : اور وہ جھگڑے میں غَيْرُ مُبِيْنٍ : غیر واضح ہو
اور کیا (وہ پیدا ہوئی ہے) جو زیوروں میں پالی جاتی ہے، اور بحث و حجت میں بات واضح نہیں کہہ سکتی
اَوَمَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ وَھُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُمُبِیْنٍ ۔ (الزخرف : 18) (اور کیا (وہ پیدا ہوئی ہے) جو زیوروں میں پالی جاتی ہے، اور بحث و حجت میں بات واضح نہیں کہہ سکتی۔ ) لڑکیوں سے متعلق اہل عرب کا تصور جب کسی عربی کو گھر میں بیٹی ہونے کی اطلاع ملتی تو وہ انتہائی صدمے کی حالت میں ڈوب جاتا ہے، چہرے پر سیاہی چھا جاتی اور دل میں مختلف خیالات کی وجہ سے گھٹا گھٹا سا رہنے لگتا وہ سوچتا کہ میرے گھر میں ایک ایسے وجود نے جنم لیا ہے جس کا تعلق صنف نازک سے ہے، وہ جیسے جیسے پروان چڑھے گا اس کے اندر آرائش و زیبائش کا جذبہ بھی روزبروز پروان چڑھتا جائے گا، جبکہ میں ایک ایسے ملک کا رہنے والا ہوں جس میں سخت مشقت کے بعد نان شبینہ ہاتھ آتی ہے۔ اور قبیلوں کے قبیلوں پر حملے اور بداخلاقی اور بےحیائی کے محرکات اس آرائش و زیبائش کے جذبے کو فتنہ بنا دینے میں تاخیر نہیں کرتے۔ میرے گھر میں پلنے والا وجود میری مشکلات میں کام آنے کی بجائے گھر میں میرے پائوں کی زنجیر بن کے رہ جائے گا۔ اسے خواہش ہوگی کہ مجھے آرائش و زیبائش کے لیے زیورات ملیں اور میں بن سنور کر اپنی انفرادیت کا اظہار کرسکوں ایسا وجود یقیناکسی کی آغوش تو گرم کرسکتا ہے لیکن نازک بپھرے ہوئے حالات میں میرا دست وبازو نہیں بن سکتا۔ کیونکہ : وہ ہاتھ جن میں نزاکت ہے تانے بانے کی اٹھا سکیں گے کب سختیاں زمانے کی اور اگر کبھی معاملہ مخاصمت سے آگے بڑھ کر مبارزت تک پہنچ جائے اور میں کہولت کی عمر کو پہنچ جاؤں تو بجائے اس کے کہ وہ میری فکر کرے، مجھے اس کی فکر میں اپنا بڑھاپا بھی قربان کرنا پڑے گا تو ایسا وجود جو بیٹی کے نام سے میری کمزوری یا میری ذلت کا سبب بننے والا ہے آج جب میں اسے قبول کرتا ہوں تو مجھے دور دور تک تاریکیوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ گھر میں چولہا تو جھونک سکتی ہے لیکن میرا دست وبازو بن کر زندگی کی دوڑ میں میرا ساتھ نہیں دے سکتی۔
Top