Ruh-ul-Quran - Az-Zukhruf : 20
وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ١ؕ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ١ۗ اِنْ هُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَؕ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ : اگر چاہتا رحمن مَا عَبَدْنٰهُمْ : نہ ہم عبادت کرتے ان کی مَا لَهُمْ : نہیں ان کے لیے بِذٰلِكَ : ساتھ اس کے مِنْ عِلْمٍ : کوئی علم اِنْ هُمْ : نہیں وہ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ : مگر اندازے لگا رہے ہیں
اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کو کبھی نہ پوجتے، ان کو اس بارے میں کوئی علم نہیں، یہ محض اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں
وَقَالُوْا لَوْشَآئَ الرَّحْمٰنُ مَاعَبَدْنٰـہُمْ ط مَالَھُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ ق اِنْ ھُمْ اِلاَّ یَخْرُصُوْنَ ۔ اَمْ اٰ تَیْنٰـہُمْ کِتٰـبًا مِّنْ قَبْلِہٖ فَھُمْ بِہٖ مُسْتَمْسِکُوْنَ ۔ بَلْ قَالُوْٓا اِنَّا وَجَدْنَـآ اٰبَـآئَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِھِمْ مُّھْتَدُوْنَ ۔ (الزخرف : 20 تا 22) (اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کو کبھی نہ پوجتے، ان کو اس بارے میں کوئی علم نہیں، یہ محض اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں۔ کیا ہم نے اس سے پہلے کوئی کتاب ان کو دی تھی، سو انھوں نے اس کو مضبوط پکڑ رکھا ہے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ) مشرکین کی اپنے شرک پر دلیل مشرکینِ عرب نے اپنے لیے پوجا پاٹ کا جو نظام بنا رکھا ہے اس کے صحیح ہونے کی ان کے پاس ایک ہی دلیل تھی اور اسے وہ بڑی مضبوط دلیل سمجھتے ہیں۔ وہ دلیل یہ تھی کہ اگر ہمارا یہ طریق عبادت غلط ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مشیت سے اس سے روک دیتا۔ کیونکہ اس کی مرضی کے بغیر تو دنیا کا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اور جب اس نے صدیاں گزرنے کے باوجود اس طریقے سے ہمیں نہیں روکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہے۔ اس کے جواب میں اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ کسی کام کے لیے مہلت کا مل جانا یہ اس کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کام سے راضی ہے۔ اس کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا بالکل دوسری چیز۔ دنیا میں ہر جائز اور ناجائز، غلط اور صحیح کام اس کی مشیت سے ہوتے ہیں، اور اگر وہ کسی کام کو نہ چاہے تو وہ کام کبھی وجود میں نہیں آسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر راضی بھی ہے۔ دنیا میں چوریاں ہورہی ہیں، ڈاکے پڑ رہے ہیں، بےحیائی کے کام ہورہے ہیں، رشوتیں لی جارہی ہیں، مظالم توڑے جارہے ہیں، قتل و خونریزی کا بازار گرم ہے، لیکن کیا یہ کہا جائے گا کہ چونکہ ان کاموں سے اللہ تعالیٰ منع نہیں فرماتے، اس لیے سارے کام جائز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے انسان کے امتحان کے لیے ہر جائز اور ناجائز کام کی فی الجملہ ایک آزادی دے رکھی ہے اور یہ اس کی مشیت کا ثمرہ ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کام جائز بھی ہیں۔ جائز اور ناجائز کام اللہ تعالیٰ کی مشیت سے معلوم نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے معلوم ہوتے ہیں۔ اس نے انسان کو ہر طرح کے کاموں کی مہلت دے رکھی ہے لیکن ساتھ ہی اپنے رسول بھیج کر، اور کتابیں نازل فرما کر یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ اس میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ کیا ہم نے کبھی ان مشرکین پر کوئی کتاب نازل کی ہے جس میں ان کے پوجا پاٹ کے نظام کی تصویب کی گئی ہو، یا تحلیل و تحریم کا کوئی ایسا ضابطہ دیا گیا ہے جس سے ان کی خودساختہ شریعت کی تائید ہوتی ہو۔ اور یہ اس کو بڑی مضبوطی سے پکڑ کے بیٹھے ہیں اور اس کو سب سے بڑی دلیل سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ایسی کوئی کتاب ان پر نازل نہیں کی۔ ان کے پاس صرف ایک ہی دلیل ہے کہ ہم نے اپنے آبائواجداد کو جس طریقے پر پایا ہے ہم اسی طریقے پر نہایت اعتماد اور اطمینان سے چل رہے ہیں۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی خرابی یا غلطی ہوتی تو پروردگار کبھی نہ کبھی انھیں اس بات سے روک دیتے۔ اس لیے ہماری عافیت اسی میں ہے کہ ہم اپنے آبائواجداد کے طریقے کو لازم پکڑیں اور انھیں کے نقوش قدم کو اپنے لیے رہنما بنائیں۔
Top