Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 18
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ١ؕ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ١ؕ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١٘ وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ
وَقَالَتِ : اور کہا الْيَھُوْدُ : یہود وَالنَّصٰرٰى : اور نصاری نَحْنُ : ہم اَبْنٰٓؤُا : بیٹے اللّٰهِ : اللہ وَاَحِبَّآؤُهٗ : اور اس کے پیارے قُلْ : کہدیجئے فَلِمَ : پھر کیوں يُعَذِّبُكُمْ : تمہیں سزا دیتا ہے بِذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہوں پر بَلْ : بلکہ اَنْتُمْ : تم بَشَرٌ : بشر مِّمَّنْ : ان میں سے خَلَقَ : اس نے پیدا کیا (مخلوق) يَغْفِرُ : وہ بخشدیتا ہے لِمَنْ : جس کو يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَيُعَذِّبُ : اور عذاب دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَ : اور الْاَرْضِ : زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا ہے
اور یہود اور نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ ” ہم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں “۔ ان سے پوچھو کہ پھر وہ تمہیں تمہارے جرائم پر سزا کیوں دیتا ہے ‘ بلکہ (حقیقت تو یہ ہے کہ) تم بھی اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سے بشر ہو وہ جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہی اور اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے
گزشتہ آیات میں قرآن کریم ہمیں اہل کتاب کے بار بار نقض عہد کی داستان سناتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود سے اپنی عبادت اور اطاعت کا عہد لیا تو انھوں نے اسے بار بار توڑا اور اس کی کئی مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح نصاریٰ سے بھی اسی طرح کا عہد لیا گیا تو اس کی ایک مثال گزشتہ آیت میں بیان کی گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ توحید جس پر پورے دین کا مدار ہے انھوں نے اسے ہی بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔ قرآن پاک کا پڑھنے والا یہ پڑھ کر حیران ہوتا ہے کہ یہود و نصاریٰ جیسی امتیں جن میں بار بار اللہ کے نبی اور رسول آئے اور ان میں کتابیں اترتی رہیں ‘ صحیفے نازل ہوتے رہے جس سے بار بار انھیں اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کی یاد دہانی ہوتی رہی ‘ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان پر ثابت قدم نہ رہ سکے اور بار بار انھوں نے اسے توڑ کر اللہ کے عذاب کو دعوت دی۔ چناچہ اب جو آیت آرہی ہے اس میں پروردگار نے ان (یہود و نصاریٰ ) کی اس مشترکہ گمراہی کا ذکر فرمایا ہے جو پوری طرح ان دونوں میں موجود تھی اور اسی گمراہی کے باعث یہ بار بار نقض عہد کا مختلف شکلوں میں ارتکاب کرتے رہے۔ وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤْا اللہِ وَ اَحِبَّآؤْہٗ ط قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ط بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ط یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ ط وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا ز وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ ۔ (المائدہ : 18) (اور یہود اور نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ ” ہم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں “۔ ان سے پوچھو کہ پھر وہ تمہیں تمہارے جرائم پر سزا کیوں دیتا ہے ‘ بلکہ (حقیقت تو یہ ہے کہ) تم بھی اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سے بشر ہو وہ جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہی اور اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے) یہود و نصاری کی تنزلی کا اصل سبب ارشاد فرمایا : وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ط (اور یہود اور نصاری نے دعویٰ کیا کہ ہم خدا کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں) یعنی ان کی اصل بیماری ان کا یہ زعم باطل ہے کہ ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی کے لیے ایمان و عمل کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں اور وہ اپنے بیٹوں اور اپنے چہیتوں سے کوئی باز پرس نہیں کیا کرتا۔ اس زعم باطل نے ان کو ایمان و عمل کی ذمہ داریوں سے یکسر بےنیاز کردیا۔ ظاہر ہے کہ جب ایمان و عمل کا احساس ہی جاتا رہا تو پھر عہد و پیمان کی پابندی کیسے باقی رہتی۔ اس لیے کہ ان سے جو عہد و پیماں لیے جاتے رہے ان میں تو ان دو باتوں پر ہی زور دیا جاتا رہا ‘ ایک ایمان پر اور دوسرا مختلف قسم کے اعمال صالحہ پر۔ لیکن جب ان کے اندر اس بنیادی تصور نے جگہ بنا لی کہ تم سے کوئی باز پرس ہونے والی نہیں ہے بلکہ تمہیں یہاں بھی اپنے چہیتوں کی طرح رکھا جائے گا اور آخرت میں بھی تمہارا استقبال اللہ کے بیٹوں اور اس کے چہیتوں کی طرح ہوگا۔ یہ کہنے کو تو ایک زعم باطل اور محض ایک بیہودہ تصور ہے ‘ لیکن اگر یہ کسی بھی قوم کا عقیدہ بن جائے تو پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت بےعملی سے نہیں روک سکتی حالانکہ دنیا میں ایک معمولی سے معمولی انسان بھی بڑی آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ یہاں آدمی کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس کے اپنے کرتوتوں ہی کا پھل اور اپنی کمائی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ اچھے اعمال کرتا ہے تو اچھے صلے سے نوازا جاتا ہے اور اگر وہ برے اعمال یعنی برائیاں ‘ بداخلاقیاں اور بد اطواریاں اختیار کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسے مختلف مصائب سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ قدرت کا ایک فطری قانون ہے ‘ جس سے کسی کو بھی رستگاری نہیں کیونکہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے بحیثیت قوم ہم تنزلی کا شکار کیوں ؟ لیکن اگر کسی کم عقل آدمی کے دماغ میں یہ تصور سما جائے کہ میں کوئی سا کام کرنے کا بھی پابند نہیں ہوں بلکہ یہاں مجھے ہر چیز بغیر کیے کے ملے گی تو آپ ایسے آدمی سے کسی بھی عمل کی توقع نہیں کرسکتے ‘ وہ شخص دھرتی کا بوجھ بن جائے گا اور اپنے پرائے اسے ایک ناکارہ چیز سمجھ کر اپنے سے دور کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر خدا نہ کرے یہ برائی کسی قوم میں پھیل جائے تو وہ قوم باقی قوموں کے لیے ایک عبرت کا سامان بن جاتی ہے ‘ جب تک باقی رہتی ہے دوسروں کی دست نگر ہو کر جیتی ہے اور بالآخر جب اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہے تو دوسرے ان کی تباہی پر غم کھانے کی بجائے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ” خس کم جہاں پاک “ اور اگر یہ بیماری مذہبی معاملات میں پیدا ہوجائے تو پھر ایسی قوم نماز ‘ روزہ یعنی عبادات سے یکسر لاتعلق ہو کر نہ صرف بےعملی کا شکار ہوجاتی ہے بلکہ برائیوں کے جہنم میں ڈوب جاتی ہے اور انسانی معاملات میں تمام جذباتِ خیر سے تہی دامن ہو کر حقوق و فرائض سے یکسر لاتعلق ہوجاتی ہے۔ یہی حال ان اہل کتاب کا بھی ہوا کہ ان کی مذہبی زندگی بھی تباہ ہوئی اور ان کی تہذیب اور تمدن بھی اس لعنت کے برے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بظاہر تو یہ بات نہایت بےعقلی اور بےسمجھی کی معلوم ہوتی ہے ‘ لیکن ہم جب بھی قوموں کے عروج وزوال کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا کوئی جواب نہیں ملتا کہ قومیں جب بھی تنزلی کا شکار ہوتی ہیں تو ان میں اس برائی کو ہم پوری طرح کارفرما دیکھتے ہیں کہ وہ پھر ایسے ہی سہاروں کے ذریعے سے جیتی ہیں کیونکہ ہر وہ شخص جو آخرت پر یقین رکھتا ہے اسکے اندر یہ کسک کسی نہ کسی حد تک موجود ہوتی ہے کہ یہ دنیا میں تو جیسی گزری سو گزری آخرت سے جب معاملہ پڑے گا تو وہاں کیا ہوگا۔ اس لیے وہ اپنی اس کسک کو بہلانے کے لیے اس طرح کے سہارے اختیار کرتا ہے جیسے ان اہل کتاب نے اختیار کر رکھے تھے کہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں آخرت کی بازپرس سے ہمیں کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایسے ہی سہارے اس امت نے بھی اختیار کرلیے ہیں جسے پوری دنیا کی امامت پر فائز کیا گیا ہے اور قیامت تک جس نے دنیا کو ہدایت دینے کا فرض انجام دینا ہے۔ اس میں وہ بگڑے ہوئے مذہبی لوگ جو علم کے بغیر نجات کے تصورات رکھتے ہیں ‘ ان کا تو خیر ذکر ہی فضول ہے ‘ شکایت تو ان سے ہے جنھیں ہم اپنا دانشور طبقہ کہتے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے لوگ نہایت خوبصورت پیرائے میں اس طرح کی بےسرو پا باتیں کہتے ہوئے نہیں شرماتے۔ اردو زبان کا سب سے بڑا شاعر اسی تصور کی نمائندگی کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ کہاں کا آنا کہاں کا جانا ‘ فریب ہے امتیازِ عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری ‘ کوئی ہمارا وطن نہیں ہے بلکہ مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے ؎ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے جب ایک ایسا شخص جس کے آبائو اجداد عجمی ہیں اور جس کے نسب میں کوئی قابل فخر بات بھی نہیں پائی جاتی ‘ وہ اس طرح کی باتیں کہتا ہے تو پھر بنی اسرائیل کی اس گمراہی کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ وہ تو انبیاء کی اولاد تھے ‘ وہ جب دیکھتے تھے کہ ہمارے آبائو اجداد میں ہزاروں انبیاء کرام آچکے ہیں اور ہمارے گھروں میں کتنی کتابیں اتر چکی ہیں تو وہ اس زعم باطل کو اختیار کرتے ہوئے کس طرح شرما سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں شریعت کی پابندی کا احساس اس وقت تک موجود رہا جب تک وہ اس طرح کے بیہودہ تصورات سے بچے رہے اور انھیں اللہ سے کیے ہوئے عہود اور مواثیق یاد رہے اور بار بار اس کی یاد دہانی ان کو ایمان وعمل پر آمادہ کرتی رہی۔ لیکن یہ تصور جب ان میں کمزور پڑگیا تو پھر نہ صرف یہ لوگ عملی پابندیوں سے بےنیاز ہوئے بلکہ ان کی جسارتیں اس حد تک بڑھ گئیں کہ انھوں نے اللہ کی کتابوں میں تحریف تک کر ڈالی اور احکام خداوندی کو اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا ڈالا اور جب اللہ کی طرف سے آنے والے انبیاء نے انھیں سرزنش کی اور انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی تو ان بدبختوں نے انھیں قتل تک کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ ان کی صدیوں کی تاریخ اللہ کے عظیم بندوں پر ان کے مظالم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ اور یہی حال ہم مسلمانوں کا بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے سامنے بھی جب تک اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور پوری توانائی سے زندہ رہا ‘ ان کے حکمران تخت حکومت پر بیٹھ کر بھی لرزہ براندام رہتے تھے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں ہم بار بار اس کی مثالیں دیکھتے ہیں اور شاید اسی احساس نے آنحضرت ﷺ کو مجبور کیا کہ آپ اس بنیادی کمزوری کی طرف بار بار امت کی توجہ دلائیں۔ چناچہ جب بھی ایسا کوئی موقع آیا تو آپ نے ہمیشہ اس پر توجہ دلائی۔ حدیث میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ اپنے خاندان کے جستہ جستہ لوگوں کو اپنے گھر دعوت پر بلایا تو آپ ﷺ نے ان کے سامنے خطاب کرتے ہوئے بطور خاص یہ بات فرمائی کہ (اے میرے چچا ! اور اے میری پھوپھی صفیہ (r) ! اور اے میری بیٹی فاطمہ (r) ! تم میرے مال میں سے جو چاہو میں تمہیں دینے کو تیارہوں ‘ لیکن اگر تم نے ایمان و عمل کا سرمایہ اپنے یہاں جمع نہیں کیا تو میں کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکوں گا ) آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے امکانی حد تک مشرکین مکہ کے خلاف آپ کی حفاظت کی اور ان کے شر سے آپ ﷺ کو بچانے کے لیے ہر ممکن مدد دی۔ ان کے احسانات کو دیکھتے ہوئے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ شاید یہی احسانات ان کی نجات کے لیے کافی ہیں ‘ لیکن جب ہم حدیث میں یہ واقعہ پڑھتے ہیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اللہ کے یہاں سرخروئی کے لیے بنیادی چیز ایمان و عمل ہی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوطالب کے آخری وقت میں ان کے پاس بیٹھ کر ان کو ایمان کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” چچا آپ میرے کان ہی میں کلمہ پڑھ دیں تاکہ میں اللہ کے سامنے آپ کی سفارش کرسکوں لیکن اگر آپ ایمان نہ لائے تو پھر معاملہ بڑا مشکل ہے “۔ پاس ہی قریش کے سردار بیٹھے تھے وہ فوراً بول پڑے کہ شیخ کیا آپ آخری وقت میں عبدالمطلب کا دین چھوڑ دیں گے۔ ان کے اصرار پر بالآخر ابوطالب یہ کہہ کر دنیا سے رخصت ہوگئے کہ میں عبدالمطلب کے دین پر مرتا ہوں۔ آنحضرت ﷺ کو یہ سن کر بہت رنج ہوا ‘ آپ اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے اور یہ فرما کر رہ گئے کہ ” میں اس وقت تک اپنے چچا کے لیے استغفار کروں گا جب تک پروردگار مجھے اس سے روک نہ دے “۔ ان تمام ترغیبات اور تاکیدات کے باوجود اس امت محمدیہ کے ایک بڑے حصے کو جس چیز نے تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے وہ یہی تصورات ہیں کہ ” ہمارے رسول پاک ﷺ اللہ کے محبوب ہیں ‘ ہم ان کی لاڈلی امت ہیں اور قیامت کے دن وہ ہماری شفاعت فرمائیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری بخشش میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو “۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارے رسول پاک ﷺ حبیب اللہ ہیں اور ہمیں اللہ نے خیر الامم قرار دیا ہے ‘ لیکن اللہ کے یہاں نجات کا دارومدار ‘ خیرالامم ہونے کا امتیاز اور رسول پاک ﷺ کی شفاعت کا استحقاق صرف ایمان اور اعمال صالحہ کی پابندی سے پیدا ہوتا ہے ‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جب کسی فرد یا کسی قوم کو بلند مرتبہ عطا کرتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں بھی دوسروں سے بڑھ کر ہوتی ہیں کیونکہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے اس امت کو صرف ایمان اور عمل صالحہ ہی نہیں بچائیں گے بلکہ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے نفاذ کی عملی کوششیں اللہ کے یہاں سرخروئی کے لیے لازمی شرائط ہیں اور جہاں تک اس امت کے افراد کا تعلق ہے ان میں سب سے بڑی نسبی شرافت ذات رسالت مآب ﷺ سے قرابت کا تعلق ہے ‘ ابھی پیچھے حدیث گزر چکی ہے کہ یہ تعلق بھی ایمان و عمل کے بغیر کام نہیں آئے گا۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ ایمان و عمل کی توفیق بخشے تو یقیناً ایک سید زادہ اپنے درجات میں دوسروں سے آگے بڑھ جائے گا۔ لیکن اگر ایمان و عمل سے بےنیاز رہا تو یہی قرابت داری اللہ کے یہاں زیادہ ناراضگی کا سبب بنے گی کیونکہ پروردگار ان سید زاروں اور اس امت کے بڑے لوگوں کو اسی نسبت سے پکڑے گا اور پوچھے گا کہ تم نہ صرف اپنے پاس اللہ کی کتاب رکھتے تھے بلکہ تمہیں صاحب کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نسبی تعلق بھی حاصل تھا۔ اس لیے جب تمہارے سامنے دین کی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں تو تمہیں غیرت کیوں نہیں آتی تھی ؟ تمہیں تو دوسروں سے بڑھ کر اللہ کے دین کے بارے میں غیرت مند ہونا چاہیے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملک کے مشہور ادیب احمد شاہ بخاری پطرس مرحوم کے جناب سید عطا اللہ شاہ بخاری صاحب مرحوم کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات تھے اور دونوں سید بھی تھے۔ شاہ صاحب ایک دفعہ لاہور میں انہی کے مہمان تھے۔ جب واپس جانے لگے تو نجانے کیا خیال آیا ‘ شاہ صاحب نے پطرس مرحوم سے کہا کہ پطرس یہ قرآن تمہارے گھر میں نازل ہوا اور عجیب بات ہے کہ تم نماز بھی نہیں پڑھتے ‘ تم ہی اگر اس کی لاج نہیں رکھو گے تو اور کون رکھے گا ؟ پطرس کے دل پر ایک چوٹ سی لگی اور شاہ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا کہ شاہ جی آج رک جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد ان کی زندگی میں واضح تبدیلی آگئی۔ حاصل ِکلام یہ کہ قوموں میں مصنوعی سہارے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نہایت ہی مہلک ثابت ہوتے ہیں اور انہی سہاروں نے اہل کتاب کی مذہبی اور ملی زندگی میں نہایت تباہ کن کردار ادا کیا۔ اللہ کی طرف سے یہود و نصاریٰ کے زعم باطل کا جواب قرآن کریم ان کی اس بنیادی کمزوری کا ذکر کرنے کے بعد اس پر تنقید کرتے ہوئے سمجھانے کے انداز میں کہتا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہو تو پھر تمہارے گناہوں پر اللہ تمہیں عذاب کیوں دیتا رہا ہے کیونکہ خدا کے محبوب اور چہیتے ہونے کے سبب سے تو تمہیں خدا کے ہر طرح کے مواخذے اور عذاب سے بری ہونا چاہیے تھا۔ تم دنیا میں جو چاہے سو کرتے لیکن کبھی عذاب کا کوڑا تمہاری پشت پر نہ برستا۔ لیکن یہاں تو تمہاری پوری تاریخ اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ جب بھی تم نے خدا سے سرکشی کی ‘ تو اس نے تمہیں نہایت عبرت انگیز سزائیں دیں۔ ایسی عبرت انگیز سزائیں کہ دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں ایسی سزائوں کی مثال نہیں ملتی۔ کبھی رومیوں اور اہل بابل کے ہاتھوں اور کبھی ایرانیوں کے ہاتھوں ‘ پوری قوم کی غلامی ‘ پوری قوم کی صحرا گردی ‘ پوری قوم کی جلاوطنی اور متعدد بار پوری قوم کا قتل عام اور بیت المقدس کی عبرت انگیز تباہی ‘ یہ سارے واقعات تو وہ ہیں جس پر خوداہل کتاب کا لٹریچر شاہد ہے۔ اس کے بعد کی تاریخ میں بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں اور دنیا کے مختلف ممالک میں ہم یہود کا قتل عام ہوتا دیکھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ایسے ہی اللہ کے چہیتے ہوتے اور انبیاء کی اولادہونے کی وجہ سے انھیں کوئی خاص اعزاز مل چکا ہوتا تو پھر اللہ کی طرف سے ان پر یہ بار بار عذاب کے کوڑے نہ برستے اور وہ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق دنیا میں ذلت اور مسکنت کی تصویر نہ بن جاتے۔ ممکن ہے یہاں کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ آج تو انھیں روئے زمین پر ایک ملک میسر ہے ‘ جس میں ان کی اپنی حکومت ہے اور وہ اتنی طاقت پکڑ چکے ہیں کہ تمام عرب ممالک نہ صرف ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے بلکہ مسلسل ان کے لیے اس کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے ‘ اب تو ذلت اور مسکنت کی تصویر یہود نہیں بلکہ خودعرب بنے ہوئے ہیں اور پورا عالم اسلام تباہ کن صورتحال سے دوچار ہے۔ اس لیے قرآن کریم کا یہ کہنا کہ وہ جہاں بھی ہوں ان پر ذلت اور مسکنت کی پھٹکار مار دی گئی ہے کہاں تک صحیح ہے۔ قرآن کریم نے اس کا جواب دیا ہے : ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (اٰل عمران 3: 112) (ان پر ذلت کی پھٹکار مار دی گئی ہے وہ جہاں بھی ہوں بجز اس کے کہ وہ اللہ کی رسی کو پکڑ لیں یا بندوں کی رسی کو پکڑ لیں) یعنی یہ جو پروردگار نے ان پر ذلت اور مسکنت کی پھٹکار ماری ہے اس سے بچنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی رسی کو پکڑ لیں یعنی اسلام قبول کرلیں پھر ظاہر ہے وہ یہود نہیں ہوں گے ‘ بلکہ مسلمان ہوں گے اور ان کی تاریخ مسلمانوں کی تاریخ ہوگی اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ لوگوں کی رسی پکڑ لیں یعنی کسی بڑے ملک کی پناہ میں آجائیں جو ان کو اپنا آلہ کار بنا لے ‘ ان کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف اپنے عزائم پورے کرتا رہے اور ان کو مسلمانوں سے تحفظ فراہم کرے۔ چناچہ اسرائیل کے نام سے جو عرب کی سرزمین میں ایک ناسور پیدا کیا گیا ہے اس کی حیثیت ایک آزاد ریاست کی نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی گماشتہ ریاست کی ہے۔ یہ انہی کی چھتری کے نیچے پھل پھول رہا ہے۔ آج اگر امریکہ اس کی پشت پناہی چھوڑ دے تو اسرائیل کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوجائے کیونکہ اس کی حیثیت عربوں کے مقابلے میں ایک گٹھلی سے زیادہ نہیں اگر وہ مل کر اس پر تھوکنا شروع کردیں تو وہ اس میں بہہ جائے۔ جنگ رمضان میں سادات نے برملا یہ بات کہی تھی کہ میں اسرائیل سے تو لڑ سکتا ہوں لیکن امریکہ سے نہیں لڑ سکتا یعنی وہ مسلسل اپنے مقبوضہ علاقے اسرائیل سے واگزار کروا رہا تھا کہ امریکہ پوری طاقت سے حرکت میں آیا اور اس نے مصر کے ریڈار تک جام کر ڈالے۔ لیکن اللہ کا وعدہ ایک دائمی وعدہ ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ برطانیہ اپنی طاقت کھوتا جا رہا ہے ‘ امریکہ بھی ہمیشہ نہیں رہے گا جب یہ طاقتیں اپنی حقیقی قوت کھو بیٹھیں گی تو پھر اسرائیل کو اپنے انجام سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اہل کتاب کو ان کی تاریخ کا آئینہ دکھانے کے بعد ایک سامنے کی بات کہی جا رہی ہے کہ تم اس غلط فہمی سے نکلو کہ تم باقی انسانوں سے الگ کوئی مخلوق ہو اور تمہارے لیے ایمان و عمل کی کوئی پابندی نہیں ‘ تمہیں حقیقت پسند ہونا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے : بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ (بلکہ تم بھی اس کی پیدا کی ہوئی مخلوق میں سے بشر ہو) یعنی تم کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہو بلکہ عام انسانوں کی طرح انسان ہو ‘ جس طرح باقی انسانوں سے قیامت کے دن مواخذہ ہوگا ‘ تم سے بھی ہوگا۔ رہی اللہ کے یہاں مغفرت اور بخشش ‘ تو اس کے لیے کسی کی قرابت داری کام نہیں دیتی بلکہ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ ( البقرۃ 2: 284) ( اللہ جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے) اس لیے بخشش اور عذاب کے فیصلے اس کی مشیت کے پابند ہیں ‘ تمہاری نسبتوں کے نہیں اور پھر یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے اپنی مشیت کو بھی اپنے قانون کا پابند کر رکھا ہے اور اس کا قانون یہی ہے کہ وہ بخشش اور عذاب کا فیصلہ افراد اور قوموں کے ایمان و عمل کو دیکھ کر کرتا ہے۔ جس کا ایمان و عمل جس سلوک کا سزاوار ہوگا وہ اسی سے بہرہ ور کیا جائے گا۔ اس قانون مغفرت کی ایک دفعہ یہ ہے کہ ” اللہ مشرک کو کبھی نہیں بخشے گا “ تو اہل کتاب کو تفصیلات میں جائے بغیر اتنی بات تو سمجھ لینی چاہیے کہ انھوں نے جس طرح اللہ کی حاکمیت میں دوسروں کو شریک ٹھہرایا حتیٰ کہ اس کی ذات وصفات میں نجانے کس کس کو شریک کرلیا ہے اور پھر مصنوعی سہارے تجویز کر کے اللہ کے عہد ہی کو توڑ ڈالا اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنے انجام کے بارے میں بڑی آسانی سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات سمجھنا دشوار نہیں ہوسکتا کہ جب اللہ کا شریک کوئی نہیں اور مغفرت و عذاب سراسر اللہ کی مشیت کے تابع ہے اور اس کی مشیت میں شرک کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر شرک کرتے ہوئے یہ سمجھنا کہ دنیا میں ایسے سہارے بھی ہیں جو شرک جیسے جرم کے ارتکاب کے بعد بھی انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کائنات کا اللہ ہی مالک نہیں کوئی اور بھی ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا : لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالاَْرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا ز وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب اللہ ہی کا ہے) یعنی اسی کی ملکیت ہے اور اسی کی حکومت کے ماتحت ہے اور بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس کائنات کے مالک کی موجودگی میں کسی اور کی کیا مجال کہ وہ اس قانون میں دخل دے سکے اور وہ اللہ کو مجبور کرسکے کہ وہ اپنے قانون سے ہٹ کر اس کی مرضی سے ان اہل کتاب کی بخشش کرے اور پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی پناہ لے سکیں چونکہ انھیں بہرحال اللہ ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ‘ اس لیے اس کے مواخذہ سے بچنے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ عقل کی بات یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو کے رہنا ہے تو پھر آج ہی سے اس کی تیاری کیوں نہ کی جائے۔
Top