Ruh-ul-Quran - At-Tur : 26
قَالُوْۤا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِیْۤ اَهْلِنَا مُشْفِقِیْنَ
قَالُوْٓا اِنَّا : کہیں گے بیشک ہم كُنَّا : تھے ہم قَبْلُ : اس سے پہلے فِيْٓ اَهْلِنَا : اپنے گھر والوں میں مُشْفِقِيْنَ : ڈرنے والے
یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے
قَالُوْٓا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَھْلِنَا مُشْفِقِیْنَ ۔ (الطور : 26) (یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے۔ ) اہلِ جنت کے احساس کی سلامتی اہلِ جنت ایک دوسرے کو بتائیں گے کہ ہمیں زندگی میں جس طرح اپنی فکر رہی کہ کوئی کام ایسا ہم سے سرزد نہ ہونے پائے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہو۔ اور اپنی ہمت کے مطابق ہم نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت کی کوشش کی۔ اسی طرح ہم اپنے بچوں کی تربیت میں بھی اسی تصور سے گراں بار رہے کہ اللہ تعالیٰ نے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے اور قیامت کے دن اس حوالے سے بازپرس ہونے والی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کا شکار ہوں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی پریشان رکھتی تھی کہ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں اس میں ہر شخص دنیا طلبی کا شکار ہے۔ دولت کی ہوس ایک ضرورت بن کر رہ گئی ہے۔ ہر شخص اپنی اولاد کی دنیا بنانے کی فکر میں ہے اور اسی حوالے سے ان کے مستقبل کی فکر رکھتا ہے۔ اگر ہم نے بھی ایسا ہی کیا تو ہمارے بچے دنیا کو اہمیت دیں گے اور دین ان کی نگاہوں میں قدروقیمت کھو دے گا۔ اس لیے ہم نے جہاں بچوں کی دنیا بنانے کی کوشش کی وہیں ان کے دین کے لیے زیادہ فکرمندی اور دلسوزی کے ساتھ سرگرمِ عمل رہے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ آج ہمارے ساتھ جنت میں ہماری اولاد بھی موجود ہے۔ اگر ہم نے ان کی تربیت اس احساس کے ساتھ نہ کی ہوتی تو آج ہمیں شدید پریشانی کا سامنا ہوتا۔
Top