Ruh-ul-Quran - At-Tur : 42
اَمْ یُرِیْدُوْنَ كَیْدًا١ؕ فَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا هُمُ الْمَكِیْدُوْنَؕ
اَمْ يُرِيْدُوْنَ : یا وہ چاہتے ہیں كَيْدًا ۭ : ایک چال فَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : تو وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا هُمُ الْمَكِيْدُوْنَ : وہ مکر کیے گئے ہیں
کیا وہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں، تو جن لوگوں نے کفر کیا وہی اس چال میں گرفتار ہوں گے
اَمْ یُرِیْدُوْنَ کَیْدًا فَالَّذِیْنَ کََفَرُوْا ھُمُ الْمَکِیْدُوْنَ ۔ (الطور : 42) (کیا وہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں، تو جن لوگوں نے کفر کیا وہی اس چال میں گرفتار ہوں گے۔ ) مخالفین کی مخالفت کی حقیقت سوال کے انداز میں اصل حقیقت کا انکشاف فرمایا گیا ہے کہ مخالفین کی یہ ساری دلیل بازیاں اور سخن سازیاں تو محض ظاہر کا پردہ ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کے فروغ میں انھیں اپنی سیادت کا خاتمہ نظر آتا ہے۔ اور وہ محسوس کررہے ہیں کہ جیسے جیسے یہ دعوت پھیلتی جارہی ہے ہماری جہالت اور عصبیت سمٹتی جارہی ہے۔ ہمیں اپنی جس طاقت اور افرادی قوت پر ناز رہا ہے ہر گھر میں اس دعوت کا اثر پہنچنے کی وجہ سے اس کی دیواروں میں دراڑیں پڑتی جارہی ہیں۔ تو اب ان کا خیال یہ ہے کہ ہمیں کوئی ایسی تدبیریں کرنی چاہئیں جس سے اس دعوت کا فروغ رک جائے بلکہ دعوت دینے والی زبان گنگ ہو کر رہ جائے۔ اور لوگوں کو مختلف طریقوں سے اس دین کی دعوت اور اس کے پیش کرنے والے سے اس حد تک بدگمان کردیا جائے کہ لوگ اس دعوت اور اس کے داعی کے قریب نہ جائیں۔ چناچہ انھیں وارننگ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر یہ مخالفین ایسی کسی تدبیر کی فکر میں ہیں جس سے دعوت اور داعی کو نقصان پہنچے بلکہ یہ دعوت ختم ہو کر رہ جائے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی ہر تدبیر ان پر الٹ دی جائے گی اور وہ بری طرح نہ صرف اس میں ناکام ہوں گے بلکہ ان کی اپنی بقاء خطرے میں پڑجائے گی۔ چناچہ جب یہ تنبیہ کی گئی تو حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس کوئی طاقت نہ تھی۔ بےسروسامان لوگوں کا ایک گروہ تھا جو تنہا لادینی قوتوں سے برسرپیکار تھا۔ جس شخص نے بھی اس تنبیہ کو سنا اس نے اسے بےوقت کی راگنی سمجھا اور بےلگام عقیدت کا اظہار جانا۔ لیکن چند ہی سال بعد کفر کی بساط الٹ گئی اور قریش اپنے کروفر کے باوجود ناکام و نامراد ہو کر آنحضرت ﷺ سے عفو و درگزر کے طالب ہوئے۔ اور صرف 23 سال کے عرصے میں پورے جزیرہ عرب پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔
Top